سابق نوکرشاہوں نے غازی آباد دھرم سنسد کے انعقاد کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی

اس سے قبل شمالی ہندوستان میں مختلف مقامات پر ہوئی 'دھرم سنسد' فرقہ وارانہ بیان بازی کی وجہ سے سرخیوں میں رہی ہے۔ 2021 میں ہری دوار میں ہوئے ایسے ہی ایک پروگرام میں مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کی گئی تھی۔ اسی کے باعث یتی نرسنہانند کی صدارت میں 17 سے 21 دسمبر تک ہونے والی 'وشو دھرم سنسد' کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

اس سے قبل شمالی ہندوستان میں مختلف مقامات پر ہوئی ‘دھرم سنسد’ فرقہ وارانہ بیان بازی کی وجہ سے سرخیوں میں رہی ہے۔ 2021 میں ہری دوار میں ہوئے ایسے ہی ایک پروگرام میں مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کی گئی تھی۔ اسی کے باعث یتی نرسنہانند کی صدارت میں 17 سے 21 دسمبر تک ہونے والی ‘وشو دھرم سنسد’ کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

یتی نرسنہانند۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

یتی نرسنہانند۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: غازی آباد میں کٹر ہندوتوالیڈریتی نرسنہانند کی قیادت میں 17 دسمبر سے ہونے والی دھرم سنسد کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے، جس میں سابق نوکرشاہ بھی عرضی گزار ہیں۔ ان سابق نوکرشاہوں کا کہنا ہے کہ یتی نرسنہانند نے پہلے بھی کئی بار مسلمانوں کے خلاف تشدد کی اپیل کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، غازی آباد دھرم سنسد 17 دسمبر سے شروع ہوگی اور 21 دسمبر تک جاری رہے گی۔ سوموار (16 دسمبر) کو وکیل پرشانت بھوشن نے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کے سامنے اس معاملے کو فوری طور پر لسٹ کرنے کے لیے زبانی درخواست کی تھی۔ سی جے آئی نے بھوشن کو فوری طور پر درخواست داخل کرنے کو کہا، جس کے بعد بھوشن نے درخواست دائر کی۔

سینئرنوکر شاہ  اور کارکن جنہوں نے عدالت کا رخ کیا ہے ان میں ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ارونا رائے، ریٹائرڈ آئی ایف ایس افسر اشوک کمار شرما، دیب مکھرجی اور نوریکھ شرما، پلاننگ کمیشن کی سابق رکن سیدہ حمید اور سماجی محقق وجین ایم جے شامل ہیں۔

عرضی گزاروں نے کہا ہے کہ غازی آباد ضلع انتظامیہ اور اترپردیش پولیس جان بوجھ کر سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہی ہے، جس نے تمام مجاز حکام کو فرقہ وارانہ سرگرمیوں اور نفرت انگیز تقاریر میں ملوث افراد یا گروہوں کے خلاف از خود کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے۔

درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ اس دھرم سنسد کی ویب سائٹ اور اشتہارات میں اسلام کے پیروکاروں کے خلاف بہت سے فرقہ وارانہ بیانات ہیں جو مسلمانوں کے خلاف تشدد کو ہوا دیتے ہیں۔

واضح ہوکہ کئی مذہبی شخصیات نے بھی ہیٹ اسپیچ کا حوالہ دیتے ہوئے ‘دھرم سنسد’ کی مخالفت  کی ہے ۔ ستیہ دھرم سنواد نے  نفرت انگیز تقاریر کے خلاف ایک بیان جاری کیا ہے، جسے  یہاں پڑھا جا سکتا ہے  ۔

قابل ذکر ہے کہ  اس سے قبل شمالی ہندوستان کے مختلف مقامات پر منعقد ہونے والا ‘دھرم سنسد’ پروگرام اپنے فرقہ وارانہ موضوعات کو لے کر خبروں میں رہا ہے۔ 2021 میں ہری دوار میں ایک دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کی کال دی گئی تھی۔

اس سے قبل 22 ریاستوں کی 65 سے زیادہ تنظیموں اور 190 سول سوسائٹی کے کارکنوں نے صدر جمہوریہ ہند کو ایک کھلا خط لکھ کر اس دھرم سنسد کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

سال 2022 میں نرسنہانند، جو غازی آباد کے ڈاسنہ دیوی مندر کے پجاری بھی ہیں، نے اتر پردیش پولیس کی جانب ‘دھرم سنسد’ کا انعقاد نہ کرنے کی ہدایت والی نوٹس جاری ہونے کے بعد کہا تھا کہ وہ ‘کسی بھی قیمت پر’ دھرم سنسد’ کریں گے۔

نرسنہانند اپنے انتہائی فرقہ وارانہ، خاتون مخالف اور پرتشدد بیانات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن پھر ضمانت بھی دے دی  گئی ہے۔