اسرائیل کا وجود ہی خدا کے خلاف بغاوت کا تسلسل ہے: یہودی عالم ربی ڈیوڈ فیلڈمین

انٹرویو: یہودی عالم ربی ڈیوڈ فیلڈمین کے مطابق، فلسطینیوں کی تکلیف دو برس کی نہیں بلکہ 70 برس پر محیط ہے۔ اسرائیل کا وجود ہی خدا کے خلاف بغاوت کا تسلسل ہے، اور جب تک یہ بغاوت ختم نہیں ہوتی، نہ فلسطین کو سکون ملے گا اور نہ یہودیوں کو۔

انٹرویو: یہودی عالم ربی ڈیوڈ فیلڈمین کے مطابق، فلسطینیوں کی تکلیف دو برس کی نہیں بلکہ 70 برس پر محیط ہے۔ اسرائیل کا وجود ہی خدا کے خلاف بغاوت کا تسلسل ہے، اور جب تک یہ بغاوت ختم نہیں ہوتی، نہ فلسطین کو سکون ملے گا اور نہ یہودیوں کو۔

یہودی عالم ربی ڈیوڈ فیلڈمین، فوٹو: افتخار گیلانی

ترکیہ کے عروس البلاد استنبول میں دسمبر کی سردی غیر معمولی تھی۔ آبنائے باسفورس کی طرف سے چلتی تیز ہوا  کانفرنس ہال کے باہر کھڑے لوگوں کو اپنے کوٹ کے بٹن مضبوطی سے بند کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔

ہلکی بارش، سرمئی آسمان اور یخ بستہ موسم کے باوجود فلسطین پر منعقد ہونے والی دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں خاصی گہماگہمی تھی۔

اس کانفرنس کا اہتمام القدس انٹرنیشنل انسٹی ٹیوشن نے کیا تھا، اور اسی مقصد کے لیے نیویارک سے ایک آرتھوڈوکس یہودی ربی ڈیوڈ فیلڈمین استنبول آئے تھے۔

ہال کے اندر کا منظر سرد موسم کے برعکس تھا۔ اسٹیج کے عقب میں القدس اور مسجد اقصیٰ کے عکس، فلسطین سے یکجہتی کے پیغامات، اور سامنے قطار در قطار کرسیوں پر دنیا بھر سے مندوبین براجمان تھے۔

انہی میں ایک کرسی پر یہودی مذہبی لباس سیاہ لمبا کوٹ، چوڑی سیاہ ٹوپی زیب تن کیے، گھنی داڑھی والے ربی ڈیوڈ فیلڈمین خاموشی سے بیٹھے تھے۔ ان کے انداز میں نہ کسی سیاسی رہنما جیسی خودنمائی تھی اور نہ خطیبانہ جوش تھا۔

نیویارک، امریکہ سے تعلق رکھنے والے یہودی عالم آرتھوڈوکس یہودی فرقہ نیتوری کارتا کے ترجمان  ہیں۔ نیتوری کارتا ایک بین الاقوامی یہودی تنظیم ہے جو صیہونیت کی مخالفت کرتی ہے۔

اس فرقہ کے مطابق یہودیت ایک مذہب ہے جس کو قومیت کے دائرہ میں بند نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مذہبی عقیدے کے مطابق مسیح کی آمد سے قبل کسی یہودی ریاست کا قیام یہودی شریعت کے خلاف ہے۔ نیتوری کارتا صیہونیت کو ایک سیاسی تحریک سمجھتی ہے جس نے مذہب کو قوم پرستی میں ڈھال  دیا ہے، اور اسی بنیاد پر یہ تنظیم اسرائیلی ریاست کے وجود اور اس کی پالیسیوں کو مسترد کرتی ہے۔

میں جب ربی فیلڈمین کے سامنے بیٹھا تو میرے ذہن میں وہ تمام تصورات موجود تھے جو برسوں سے یہودیت کے بارے میں  میرے اندر بٹھا دیے  گئے تھے۔ میں بھی یہی سمجھتا رہا تھا کہ یہودی اور صیہونی ہونا ایک ہی بات ہے، کہ شاید تمام یہودی فلسطینیوں کے مخالف اور مسلمانوں سے نفرت کرتے  ہیں۔

اسی ذہنی پس منظر کے ساتھ میں نے ان سے گفتگو شروع کی۔میں نے پہلا سوال داغا کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہودیت اور صیہونیت ایک ہی چیز ہیں۔ میں خود بھی اسی کنفیوژن کا شکار رہا ہوں۔ آپ اس فرق کو کیسے واضح کریں گے؟

ربی فیلڈمین نے سر ہلایا، جیسے وہ اس سوال کے عادی ہوں۔ آہستہ مگر پُراعتماد لہجے میں انہوں نے کہا کہ یہی سب سے بڑی اور سب سے خطرناک غلط فہمی ہے؛


‘یہودیت خالصتاً ایک مذہب ہے۔ خدا پر ایمان، اس کے احکامات کی پیروی، اخلاقیات اور روحانیت اس کے جز ہیں۔ اس میں سیاست یا قوم پرستی کی کوئی جگہ نہیں، کیونکہ یہ ایک مذہب ہے، جو عالم گیر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس صیہونیت ایک خالص سیاسی اور قومی تحریک ہے، جس نے مذہب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔’


انہوں نے کہا کہ صیہونیت نے یہودی ہونے کی تعریف ہی بدل دی ہے، یہاں تک کہ اب خدا پر ایمان رکھے بغیر بھی خود کو یہودی کہا جا سکتا ہے، بس صرف اسرائیل پر ایمان ہونا چاہیے، جو یہودیت کی بنیادوں کو ہلا دینے کے مترادف ہے۔

یہ وہ نکتہ تھا جہاں مجھے پہلی بار شدت سے احساس ہوا کہ شاید میں برسوں سے ایک مذہب اور ایک سیاسی نظریے کو ایک ہی خانے میں رکھتا آیا تھا، اور اسی غلطی نے میری سوچ کو محدود کر دیا تھا۔

گفتگو آگے بڑھی تو میں نے ایک اور سوال کیا جو حالیہ برسوں میں بار بار سننے کو ملتا ہے۔میں نے پوچھا کہ آپ مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں۔ میں نے کہیں سنا ہے کہ موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو خود کو مسیحا کہتے  ہیں۔

ان کے دفتر کی دیوار پر ایک فریم میں ایک سکہ رکھا ہوا ہے، جو مسجد اقصیٰ کے قریب کھدائی کے دوران ملا ہے اور اس پر نیتن یاہو کندہ ہے۔ اس کو لےکر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جس مسیحا کا ذکر مذہبی کتابوں میں ہے، وہ خود  ہیں۔ اس دعویٰ کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

یہ سوال سنتے ہی ربی فیلڈمین کے چہرے پر سنجیدگی مزید گہری ہو گئی۔

انہوں نے کہا کہ شریعتِ یہود کے ہر قانون کی خلاف ورزی کرنے والا شخص اگر مسیحا ہونے کا دعویٰ کرے تو یہ ایک افسوسناک مذاق ہے۔ انہوں نے نیتن یاہو کا نام لے کر کہا کہ وہ نہ سبت کی پابندی کرتا ہے، نہ کوشر (حلال ذبیحہ) کھانے کا خیال رکھتا ہے، اور نہ ہی مذہبی احکامات پر عمل کرتا ہے۔ ایسے شخص کا یہودیت کی نمائندگی کرنا تو دور کی بات، مسیحا ہونا  ناممکن ہے۔

ان کے الفاظ میں پہلی بار سختی آئی جب انہوں نے کہا کہ جو کچھ نیتن یاہو یا اسرائیل کررہا ہے، یہ سب خدا کے خلاف کھلی بغاوت ہے، وہ ان کو اس کی سزا ضرور دےگا۔

یہاں یہ بات بھی نمایاں تھی کہ ربی فیلڈمین کی مخالفت کسی خاص سیاسی جماعت یا حکومت تک محدود نہیں تھی، بلکہ وہ ایک مذہبی انسان کی حیثیت سے اس پورے تصور کو چیلنج کر رہے تھے جس میں مذہب کو ریاستی تشدد کے جواز کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

میں نے پھر وہ سوال اٹھایا جو اکثر فلسطین کے حامیوں یا اسرائیل کے ناقدین سے مغربی دنیا میں کیا جاتا ہے۔اکثر کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کی مخالفت یہودی شناخت سے انکار ہے، اور ایسے لوگوں کو غدار اور اینٹی سیمیٹک کہا جاتا  ہے۔ آپ اس الزام کو کیسے دیکھتے ہیں اور کیا آپ کو ایسے الزامات سے واسط پڑتا ہے؛


ربی فیلڈمین نے نہایت سکون سے جواب دیا کہ اصل مسئلہ تعریف کا ہے۔ ان کےمطابق یہودی شناخت مذہب سے جڑی ہے، قومیت سے نہیں۔

وہ خود یہودی اس لیے ہیں کہ وہ یہودیت پر عمل کرتے ہیں، اور امریکی اس لیے کہ وہ امریکہ کے شہری ہیں۔ اسرائیل پر ایمان رکھنا یا نہ رکھنا کسی کے یہودی ہونے کا پیمانہ نہیں ہے۔

ان کے بقول صیہونیت نے مذہب کی جگہ قوم پرستی کو لا کر یہودیت کو مسخ کر دیا ہے، اور یہی مسخ شدہ تصور دنیا بھر میں نفرت اور تصادم کو جنم دے رہا ہے۔


جنگ عظیم دوم کے ددران جرمن آمر ہٹلر کی طرف سے برپا کیے گئے یہودیوں کے قتل عام یعنی ہولوکاسٹ کا ذکر آیا تو گفتگو مزید بوجھل ہو گئی۔ میں نے پوچھا،بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہولوکاسٹ کے بعد اسرائیل یہودیوں کو ایک ’تحفے‘ کے طور پر دیا گیا۔ آپ کا خاندان اور برادری بھی اس المیے سے گزری ہے۔ آپ اس دلیل کو کیسے دیکھتے ہیں؟

ربی فیلڈمین نے کہا کہ یہودیوں نے ہولوکاسٹ میں ناقابلِ بیان مظالم سہے، مگر یہ دکھ کسی اور قوم پر ظلم ڈھانے کا جواز نہیں بن سکتا۔

ان کے مطابق، ہولوکاسٹ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ظلم کیا ہوتا ہے، نہ کہ یہ کہ ہم خود ظالم بن جائیں۔ جب فلسطینیوں پر مظالم یہودیت کے نام پر کیے جاتے ہیں تو یہ خدا کے نام کی توہین ہے، اور ایک مذہبی یہودی کے لیے اس سے بڑی شرمندگی کوئی نہیں۔میرا اپنا خاندان ہولوکاسٹ کا شکار ہو گیاہے، اس لیے مجھے ظلم کی تعریف معلوم ہے اور میں نہیں چاہوں گا کہ اس کرہ ارض پر کسی اور پر ایسی افتاد آن پڑے۔

گفتگو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اسی مذہبی احساس اور ضمیر کی آواز نے نیتوری کارتا جیسے گروہوں کو جنم دیا، جو برسوں سے بین المذاہب مکالمے، عالمی فورمز اور عوامی مباحث میں صیہونیت کے مذہبی بیانیے کو چیلنج کرتے آ رہے ہیں۔

ربی فیلڈمین خود بھی طویل عرصے سے ان فورمز پر سرگرم ہیں، جہاں وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی پالیسیوں کی مخالفت اور یہودیت کے اصل مذہبی تصور کو واضح کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ آرتھوڈوکس یہودی فکر کے ان قابل ذکر نمائندوں میں شمار ہوتے ہیں جو سیاسی صیہونیت کو مسترد کرتے ہیں۔

میں نے اب گفتگو کا رخ فلسطین کی طرف موڑا۔ میں نے پوچھا کہ ایک یہودی کی حیثیت سے آپ  1967 کے بعد کی سرحدوں یا دو ریاستی حل کو بھی مسترد کرتے ہیں، جبکہ کئی عرب ممالک اسے تسلیم کر چکے ہیں۔ آپ اسرائیل کے خاتمہ اور مکمل فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس پر تو بیشتر فلسطینی بھی اب زور نہیں دیتے ہیں۔ کیا یہ مدعی سست گواہ چست والا معاملہ تو نہیں ہے؟

ربی فیلڈمین نے کہا کہ مسئلہ 1967 سے شروع نہیں ہوا بلکہ 1948 میں ہی ایک بنیادی اخلاقی اور مذہبی جرم سرزد ہوا۔ ان کے مطابق صیہونیت اور فلسطین پر قبضہ ہی اس مسلسل خونریزی کی جڑ ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ صدیوں تک مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ امن سے رہے، اور مذہب کبھی فساد کی وجہ نہیں بنا۔ فساد اس وقت شروع ہوا جب قوم پرستی کو مذہب کے لبادے میں پیش کیا گیا۔

غزہ کا ذکر آیا تو ان کا لہجہ مزید بھاری ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ جسے دنیا جنگ بندی کہہ رہی ہے، وہ حقیقت میں اختتام نہیں؛

فلسطینیوں کی تکلیف دو برس کی نہیں بلکہ 70 برس پر محیط ہے۔ اسرائیل کا وجود ہی خدا کے خلاف بغاوت کا تسلسل ہے، اور جب تک یہ بغاوت ختم نہیں ہوتی، نہ فلسطین کو سکون ملے گا اور نہ یہودیوں کو۔

چونکہ ربی کا تعلق نیویارک سے ہے، اس لیے میں نے پوچھا کہ آپ کے شہر نے حال ہی میں ایک مسلمان ظہران ممدانی کو میئر منتخب کیا، یہ کیسے ممکن ہو پایا؟

انہوں نے کہا کہ ممدانی کو سماج کے ہر طبقہ نے ووٹ دیا، جس میں یہودیوں کی بھی ایک اچھی تعداد شامل تھی۔ اکثر یہودی اب جاگ رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہو رہا ہے کہ ان کے نا م پر کیا کیا جا رہا ہے۔

ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ کسی وقت ان کو ہی اسرائیل کی حرکتوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ وہ اب آنکھیں بند کرکے اسرائیل کی حمایت کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ دنیا اب جاگ رہی ہے، یہودی بھی جاگ رہے ہیں۔ ہم عنقریب ایک بڑی تبدیلی دیکھیں گے۔

استنبول کی سرد فضا میں یہ گفتگو میرے لیے محض ایک انٹرویو نہیں تھی۔ یہ میرے اپنے ذہن میں موجود کئی تصورات کی شکست تھی۔

سیاہ لباس، سفید داڑھی اور فلسطینی رومال میں ملبوس ربی ڈیوڈ فیلڈمین کسی سیاسی جماعت کے نمائندہ نہیں تھے۔ وہ ایک مذہبی انسان کی حیثیت سے اپنے ضمیر کی گواہی دے رہے تھے، اور میری ایک ایک غلط فہمی کو ٹھہرے ہوئے لہجے، مذہبی دلائل اور ذاتی یقین کے ساتھ کھولتے جا رہے تھے۔

ان کی یہ  پیشن گوئی کہ عنقریب دنیا ایک بڑی تبدیلی دیکھے گے، شاید یہی اس ملاقات کی اصل معنویت تھی۔