منموہن سنگھ: ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

کم لوگوں کو علم ہے کہ منموہن سنگھ نے بڑی سریلی آواز پائی تھی، وہ 'لگتا نہیں ہے جی میرا’ اور امریتا پریتم کی نظم ‘آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول' بڑی پرسوز آواز میں گاتے تھے۔ اردو زبان پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ اردو ادب اور شاعری کا بھی ستھرا ذوق رکھتے تھے۔

کم لوگوں کو علم ہے کہ منموہن سنگھ نے بڑی سریلی آواز پائی تھی، وہ ‘لگتا نہیں ہے جی میرا’ اور امریتا پریتم کی نظم ‘آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول’ بڑی پرسوز آواز میں گاتے تھے۔ اردو زبان پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ اردو ادب اور شاعری کا بھی ستھرا ذوق رکھتے تھے۔

منموہن سنگھ، فوٹو بہ شکریہ: سوشل میڈیا

منموہن سنگھ، فوٹو بہ شکریہ: سوشل میڈیا

یہ شاید 1998-99 کا سال رہا ہوگا۔ نئی دہلی کے 24، اکبر روڈ پر واقع کانگریس ہیڈ کوارٹر میں دیر رات گئے کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ایک میٹنگ کور کرنے کے بعد میں بس اسٹاپ کی طرف رواں تھا۔ جن رپورٹروں نے کانگریس بیٹ اس دور میں کور کی ہے، وہ جانتے ہیں کہ کانگریس کی اکثر میٹنگیں رات کو 8 بجے کے بعد ہی شروع ہوجاتی تھیں اورعام حالات میں ان کی بریفنگ آدھی رات کے بعد ہوتی تھیں۔

نہ جانے اس پارٹی کو صحافیوں سے کون سے جنم کا بدلہ لینا ہوتا تھا کہ حساس مواقع پر میٹنگ کی روداد معلوم کرنے کے لیے لیڈروں کے گھروں کے چکر لگاتے ہوئے کئی بار پوری رات گزر جاتی تھی۔

 اس علاقہ میں بس یا آٹو ملنا محال ہوتا ہے، اس لیے کندھے پر اپنا بیگ لٹکائے میں پہلی کراسنگ کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ایک ماروتی سوزکی 800 میرے پاس آکر رکی۔

پہلے تو میں سمجھا کہ بھٹکا ہوا کوئی ڈرائیور راستہ معلوم کرنا چاہتا ہے۔ مگر ڈرائیور نے شیشہ نیچے کرتے ہوئے کہا؛

نوجوان، کیا میں تمہیں کہیں ڈراپ کر سکتا ہوں؟

میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ کوئی اور نہیں بلکہ سابق وزیر خزانہ اور کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن منموہن سنگھ تھے، جو بعد میں دس سال تک ہندوستان کے وزیر اعظم رہے۔

ابھی 25 دسمبر کی رات 92 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ بھی اس میٹنگ کے بعد اپنے گھر جا رہے تھے۔ دروازہ کھول کر میں نے ان کو بتایا کہ میں جنوبی دہلی میں رہتا ہوں اور صفدر جنگ مقبرہ کے مقابل اربندو مارگ اسٹاپ پر اس وقت بس مل سکتی ہے۔ انہوں نے تغلق روڑ پولیس اسٹیشن سے ٹرن لےکر مجھے صفدر جنگ چوراہے پر چھوڑ دیا۔

اسی طرح 2004 کے عام انتخابات کے وقت کانگریس پارٹی کے مینی فیسٹو کے اجراء کے بعد مجھے ڈوئچے ویلے یعنی جرمن ریڈیو کی اردو سروس کے لیے اردو میں ساؤنڈ بائٹ چاہیے تھے۔

ڈوئچے ویلے نے ہمیں منی ڈسک ریکارڈر دیے ہوئے تھے۔ میں صفدر جنگ روڑ پر واقع ان کی سرکاری رہائش گاہ پہنچا۔ وہ اس وقت راجیہ سبھا میں لیڈر آف اپوزیشن تھے۔ رہائش گاہ کے لان میں کئی اور چینل کے کیمرہ وغیرہ موجود تھے۔ ان سے فراغت کے بعد انہوں نے مجھے وقت دیا۔

مگر یہ کیا، ڈسک ریکارڈر میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی تھی، وہ ٹریک کو سیو ہی نہیں کررہا تھا۔ یہ گیڈجٹس کسی وقت بچوں کی طرح اچانک غیر متوقع طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

میں نے ان سے گزارش کی کہ ان کا انٹرویو سیو نہیں ہوا۔ دوبارہ کرسی پر بیٹھ کر انہوں نے انٹرویو دے دیا۔ مگر معلوم ہوا کہ یہ ٹریک بھی سیو نہیں ہوا ہے۔ میں کبھی بیٹری تو کبھی ڈسک چیک کر رہا تھا۔

میرے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ مجھے پریشان دیکھ کر انہوں نے تسلی دے کر کسی کو چائے لانے کے لیے کہا۔”ریلیکس، میں ابھی میٹنگ کے لیے جا رہا ہوں، شام کو دوسرا ریکارڈر لے کر آجانا،“ انہوں نے کہا۔

 مگر میری تو ایک گھنٹہ کے بعد ہی اسٹوری کی ڈیڈ لائن تھی۔ میں نے بون میں ڈوئچے ویلے کے دفتر میں فون کرکے اردو سیکشن کے ہیڈ مرحوم سید اعجاز حسین شاہ صاحب سے درخواست کی کہ وہ وہیں اسٹوڈیو سے منموہن سنگھ کے لینڈ لائن نمبر پر کال کرکے ان کا انٹرویو ریکارڈ کرکے پھر میری اسٹوری میں ضم کریں۔

دس منٹ کے بعد جب وہ کال کرکے منموہن سنگھ کا انٹرویو ریکارڈ کر رہے تھے، تو میں پاس میں چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔ اس واقعہ کے ایک ماہ سے کچھ کم عرصہ کے بعد ہی وہ ہندوستان کے وزیر اعظم کی کرسی پر فائز ہوگئے۔ یہ کسی شخص کی عاجزی اور مہربانی کی ایک انتہا تھی۔

ان کی بیٹی دمن سنگھ کے مطابق پاکستانی پنجاب کے چکوال ضلع کے ایک گاؤں گاہ میں وہ 1932 کے موسم خزاں میں پیدا ہوئے تھے۔ کب، وہ کوئی نہیں جانتا ہے، کیونکہ ان کے والد گرومکھ سنگھ اس وقت پشاور میں کمیشن ایجنٹوں کی ایک فرم میں بطور کلرک کام کرتے تھے۔ لہذا کسی نے دن اور ماہ کا ریکارڈ ہی نہیں رکھا۔

یہ فرم افغانستان سے خشک میوہ جات درآمدکرکے متحدہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں سپلائی کرتی تھی۔ نومولود بچے کو راولپنڈی سے تقریباً پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر حسن ابدال نامی قصبے میں واقع پنجہ صاحب لے جایا گیا۔ جہاں گرنتھی نے مقدس گرنتھ صاحب کا صفحہ کھول کر ان کا نام منموہن رکھ دیا۔

وہ اپنے دادا سنت سنگھ اور دادی جمنا دیوی کی گود میں پلے بڑھے۔ اسکول میں استاد دولت رام نے اپنے رجسٹر میں ان کی تاریخ پیدائش 17 اپریل درج کی۔

منموہن سنگھ کے اس دور کے اسکول کے ساتھی گاہ کے راجہ محمد علی، جو 2008 میں دہلی آئے تھے سے میری ملاقات گولف لنکس میں واقع نیشنل ہائیڈرو الکٹرک پاور کارپوریشن یعنی این ایچ پی سی کے گیسٹ ہاوس میں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ؛

موہنا نہایت ہی قابل مگر شرمیلا بچہ تھا۔ اس کی جیبیں خشک میوں سے بھری ہوئی ہوتی تھیں۔ یہ دیگر بچوں کے لیے اس سے دوستی کرنے کی خاص وجہ ہوتی تھی۔ موہنا واحد بچہ تھا، جو استاد منشی عبدالکریم کی چھڑی اور ان کے غیض و غضب سے بچتا تھا۔ کیونکہ اس کا کلاس ورک مکمل ہوتا تھا اور اردو اور ریاضی میں پورے اسکول میں طاق تھا۔

محمد علی بتاتے تھے کہ دیگر بچوں کی طرح وہ شور شرابہ اور کھیلوں سے دور بھاگتا تھا۔ جب وہ کھیل میں شامل ہونے سے ہچکچاتا تھا،ہم اسے گاؤں کے تالاب میں پھینک دیتے تھے۔

چوتھی جماعت کے بعد اس بچے کو پشاور کے خالصہ ہائی اسکول فار بوائز بھیجا گیا۔ جہاں اس نے فارسی، انگریزی، تاریخ، جغرافیہ کا مطالعہ کیا۔ مگر تقسیم کے بعد خاندان ہوشیارپور منتقل ہوگیا، جہاں انہوں نے عسرت کے د ن گزارے۔

مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں کسی پارٹی کے دوران ایک بار ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر ونود شرما نے ان کو بتایا کہ وہ ہوشیار پور گئے تھے اور انہوں نے وہ اسٹریٹ لیمپ پوسٹ دیکھا، جہاں منموہن سنگھ پڑھائی کرتے تھے، کیونکہ ان کے گھر والے بجلی کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے تھے۔

غربت اور افلاس کے اس پس منظر کو انہوں نے کبھی بھی اپنی کمزوری یا اس کو سیاسی فائدہ اٹھانے کی غرض سے استعمال نہیں کیا۔

پنجاب یونیورسٹی میں معاشیات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد منموہن سنگھ نے کیمبرج یونیورسٹی سے معاشیات میں آنرز کی ڈگری اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں ہی معاشیات پڑھائی۔ 1960 کی دہائی کے اوائل میں، امرتسر میں ان کے پڑوسی، مصنف ملک راج آنند دہلی لے گئے اور وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے ملوایا، جنہوں نے باصلاحیت نوجوان ماہر اقتصادیات کو اکانامک سروس کی بیوروکریسی میں شامل ہونے کی دعوت دی۔

مگر کالج نے بیرون ملک تعلیم کے لیے ان کو فنڈ فراہم کیا تھا، اس لیے وہ وہاں ایک خاص مدت تک نوکری کرنے کے پابند تھے۔ 1966 میں وہ، جنیوا میں تجارت اور ترقی پر اقوام متحدہ کی کانفرنس (یواین سی ٹی آے ڈی) میں شامل ہوئے۔ تاہم، تین سال بعد دہلی اسکول آف اکنامکس کی فیکلٹی میں شامل ہونے کے لیے واپس آئے۔ ان دنوں اس ادارہ کے اساتذہ میں نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین، جگدیش بھگوتی اور سکھامائے چکرورتی جیسے بین الاقوامی شہرت کے ماہر اقتصادیات شامل تھے۔

وقت کے وہ اتنے پابند تھے کہ ان کے معمولات کو دیکھ کر گھڑی ملائی جاسکتی تھی۔ ایک بار پارلیامنٹ ہاؤس کی لائبریری بلڈنگ میں معروف دانشور اے جی نورانی کی ایک کتاب کا اجراء اسپیکر سومناتھ چٹرجی کر نے والے تھے۔ کارڈ پر چھ بجے کا وقت درج تھا، مگر تقریب ساڑھے چھ بجے شروع ہونے والی تھی۔ ناشروں نے کارڈ شاید وزیر اعظم ہاؤس بھی بھیجا تھا، مگر ان کو توقع نہیں تھی کہ منموہن سنگھ بھی اس میں شرکت  کے لیے وارد ہوں گے۔

پارلیامنٹ ان دنوں سیشن میں تھی۔ میں مین بلڈنگ سے لائبریری بلڈنگ کی طرف جب روانہ ہوا، تو دیکھا کہ وزیر اعظم کی سیکورٹی پر مامور ایس پی جی کا دستہ کوریڈور اور بلڈ نگ کے باہر تعینات تھا۔

پہلے سمجھا کہ شاید اس بلڈنگ میں کوئی اور میٹنگ بھی ہو رہی ہوگی، جس میں وزیر اعظم کو شرکت کرنی ہوگی۔ مگر لائبریری بلڈنگ کے جس ہال میں کتاب کی رونمائی ہونے والی تھی، اس میں پورے چھ بجے منموہن سنگھ داخل ہوئے اور پچھلی نشست پر براجمان ہوگئے۔

نورانی صاحب اور اسپیکر کو اطلاع دی گئی اور وہ تقریباً دوڑتے ہوئے پہنچ گئے۔ تقریب وقت سے پہلے ہی شروع کرنی پڑی۔ وزیر اعظم کو اسٹیج پر یا پہلی صف میں بار بار آنے کی دعوت دی گئی، مگر انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ وہ صرف نورانی صاحب کو سننے کے لیے وارد ہو گئے ہیں اور یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان تک دعوت نامہ پہنچ گیا تھا۔

وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھالنے سے قبل وہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے چیئر مین تھے۔ وہاں ملازم میرے ایک رفیق کا کہنا ہے کہ ان دنوں چیئرمین کا کمرہ پانچویں فلور پر ہوتا تھا۔ وہ صبح نو بجے آفس پہنچ کر لفٹ کا استعمال کیے بغیر سیڑھیوں سے اوپر جاتے تھے اور کسی بھی فلور کے کسی بھی کمرے میں داخل ہوکر اچانک حاضری کا معائنہ کرتے تھے۔ ان کے دور میں کسی کی ہمت نہیں تھی کہ نو بجے کے بعد دفتر آئے اور ان کے لفٹ کے استعمال نہ کرنے کی وجہ سے سبھی فلورز اور سیڑھیوں کی پابندی سے صفائی ستھرائی بھی ہونے لگی۔

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/منموہن سنگھ)

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/منموہن سنگھ)

ان کا وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کا قصہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ پہلے پانچ سالہ دور حکومت میں ان کے میڈیا ایڈوائز سنجے بارو نے اپنی کتاب ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر: دی میکنگ اینڈ ان میکنگ آف منموہن سنگھ میں لکھا ہے کہ؛

مئی 1991 میں راجیو گاندھی کے قتل کے بعد جب کانگریس پارٹی کی صدارت اور بعد میں وزارت اعظمیٰ نرسمہا راؤ کے سپرد کی گئی، تو ان کو ایسے وزیر خزانہ کی تلاش تھی، جس کی بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں کچھ ساکھ ہو اور آئی ایم ایف سے قرض کے لیے بات چیت کر سکے۔ راؤ کی پہلی پسند آئی جی پٹیل تھے، جو وزارت خزانہ کے سابق سکریٹری تھے اور لندن اسکول آف اکنامکس کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے کے بعد ہندوستان لوٹ آئے تھے۔ تاہم، پٹیل نے معذوری ظاہر کی اور وہ اپنے آبائی شہر بڑودہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے چلے گئے۔

بتایا جاتا ہے آنجہانی راجیو گاندھی کے پرنسپل سکریٹری پی سی الیگزینڈر نے راؤ کو منموہن سنگھ کا نام دیا تھا۔ جب الیگزینڈر نے ان کو رات گئے فون کیا، تو وہ ہالینڈ کے سفر سے لوٹ کر سو گئے تھے۔

ان کے داماد وجے تنخواہ نے فون اٹھایا۔ الیگزینڈر نے تعارف کرنے کے بعد منموہن سنگھ کو جگانے کے لیے کہا۔ جب ان کو بتایا گیا کہ اگلے دن ان کو راشٹرپتی بھون یا صدارتی محل میں آکر حلف لینا ہے، تو شاید نیند کے خمار یا تھکاوٹ سے چور سنگھ نے اس کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا۔

وہ اگلی صبح معمول کے مطابق یو جی سی کے دفتر گئے۔ اس بار نرسمہا راؤ نے خود فون کرکے ان کو گھر جاکر بند گلا کوٹ پہن کر راشٹرپتی بھون پہنچنے کی تاکید کی۔

سنگھ کا کہنا تھا کہ حلف لینے والے وزیروں کی قطار میں بیٹھ کر وہ خود بھی اسی قدر حیران و پریشان تھے، جتنے دیگر لوگ تھے۔

ہندوستان کی پر اعتماد جمہوریت اور سیاسی استحکام کی داغ بیل اگر پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے  ڈالی،تو اس کی معیشت کو مستحکم اور عالمی سطح پر لانے کا پورا کریڈیٹ منموہن سنگھ کو جاتا ہے۔

جب انہوں نے وزارت خزانہ کا چارج سنبھالا، تو زر مبادلہ کے ذخائر بس دو ہفتوں کے درآمدات کے لیے بمشکل کافی تھے۔ ملک کے سونے کے ذخائر بینک آف انگلینڈ میں گروی رکھے جا چکے تھے۔ بین الاقوامی کمرشل بینک ہندوستان کو نئے قرضے دینے سے انکار کر رہے تھے۔ یہ لگ رہا تھا کہ ہندوستان ڈیفالٹ کرے گا۔ اس کا دوست سویت یونین ٹوٹ چکا تھا۔ روس خود مغربی ممالک کی طرف آس لگائے بیٹھا تھا۔

صورتحال کم وبیش ایسی ہی ہے، جیسی اس وقت پاکستان کو درپیش ہے۔ اپنی پہلی بجٹ تقریر میں انہوں نے بتایا کہ ہندوستان کو مدد دینے والے تنگ آچکے ہیں۔ اس لیے کشکول کو توڑ کربرآمدات میں زبردست اضافہ کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد بڑے پالیسی اعلانات ہوئے۔

بدنام زمانہ لائسنس پرمٹ راج کا خاتمہ،درآمدی محصولات میں کمی، ان گنت ایسے اقدامات اٹھائے گئے۔ آزاد معیشت کے دروازے کھولے گئے۔ 24 جولائی 1991 کو ڈاکٹر سنگھ کی پہلی بجٹ تقریر وکٹر ہیوگو کے مشہور اقتباس کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی: ”زمین کی کوئی طاقت اس خیال کو نہیں روک سکتی جس کا وقت آ گیا ہو۔“ان تمام سالوں میں منصوبہ بند ترقی کے نام پرحکومتیں صنعتوں کو بلا امتیاز تحفظ فراہم کر رہی تھی، جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی مسابقت کے قابل ہی نہیں رہ گئی تھیں۔

ان پے در پے اقتصادی اصلاحات کی وجہ سے کانگریس پارٹی مقبولیت کھو رہی تھی۔ نہ صرف اپوزیشن بلکہ کانگریس کے اندر سے ان کے خلاف آوازیں اٹھ رہی تھیں۔پارٹی اقتصادی لبرلائزیشن کو نہرو کے نظریہ کی نفی سمجھتی تھی۔ معاشی  اصلاحات جادو کی چھڑی نہیں ہوتے ہیں۔ یہ کئی برسوں کے بعد گراؤنڈ پر اپنا اثر دکھاتے ہیں۔

منموہن سنگھ نے خود ایک بار یہ واقعہ سنایا کہ انہوں نے استعفیٰ لیٹر ٹائپ کرکے اپنی جیب میں رکھا ہوا تھا، اور کئی دفعہ وزیر اعظم کو پیش کیا۔ایک دفعہ تو انہوں نے وزیر اعظم کو استعفیٰ پیش کر کے دفتر جانا ہی بند کردیا۔ کھاد پر سبسڈی کم کرنے کی وجہ سے اپوزیشن نے پارلیامنٹ کو جام کر دیا تھا۔

راؤکو کسی نے کہا کہ پارٹی کے کسی سینئر لیڈر کو بھیج کر منموہن سنگھ کو استعفیٰ واپس لینے کے لیے کہیں۔ مگر انہوں نے کہا کہ پارٹی ہی ان کی مخالف ہے اور وہ پارٹی کے کسی سیاستدان کی نہیں سنیں گے۔

 نرسمہا راؤ نے قائد اپوزیشن اٹل بہاری واجپائی سے درخواست کی کہ وہ سنگھ کو منائیں اور ان کو سیاست کا پاٹھ بھی پڑھائیں۔

دوسری طرف راؤ نے منموہن سنگھ کو واجپائی سے ملنے کی صلاح دی۔ بقول سنگھ جب وہ پارلیامنٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کے چیمبر میں داخل ہوئے، تو واجپائی نے چھوٹتے ہی کہا؛

اب تم ایک ٹیکنوکریٹ نہیں، بلکہ سیاستدان ہو، اس لیے کھال موٹی رکھو۔ مخالفت برداشت کرنے کی عادت ڈال لو۔ بار بار وزیر اعظم کو استعفیٰ پیش کر کے ان کی مشکلات اور نہ بڑھاؤ۔ ہمیں معلوم ہے کہ جو کچھ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں وہ ملک کی اس وقت ضرورت ہیں۔ مگر ہم اپوزیشن ہیں اور ہم کو تنقید تو کرنی ہی ہے۔

کھاد کی سبسڈی پر شاید دو روپے بڑھائے گئے تھے، تو واجپائی نے پوچھا کہ کس قدر گنجائش ہے۔ منموہن سنگھ نے کہا کہ ایک روپے کا بوجھ اٹھایا جاسکتا ہے۔ واجپائی نے صلاح دی کہ ایک روپے کم کرنے کا اعلان کرو، ایک روپے خزانہ کو مل ہی رہا ہے۔ اس کے اگلے روز پارلیامنٹ کا جام ختم ہوگیا۔

واجپائی نے بھی ایک بار اتفاق کیا کہ نرسمہا راؤ کے دور کی اقتصادی اصلاحات نے کانگریس پارٹی کی لٹیا ڈبودی اور اس کے بعد وہ کبھی بھی اپنے بل بوتے پر بر سر اقتدار نہیں آئی، مگر اس نے آنے والی حکومتوں کے لیے تعمیر اور ترقی کے دروازے کھول دیے۔

خود واجپائی حکومت کے دور میں پھر منموہن سنگھ کی وزارت اعظمیٰ کے پہلے پانچ سال ہندوستان میں جو ریکارڈ گروتھ درج ہوئی، اس کی جڑیں نوے کی دہائی کے معاشی اقدامات تھے، جو دس سال بعد اپنی افادیت دکھا رہے تھے۔

ہندوستان میں ایک طاقتور مڈل کلاس ابھر رہا تھا۔ نوے کی دہائی میں جب بطور رپورٹر ہم انتخابات یا کسی اور واقعہ کی کوریج کے لیے دہلی سے باہر جاتے تھے، تو بس یا ٹرین کا سفر کرتے تھے۔ مگر 2000 کی دہائی آتے آتے شاید ہی کسی رپورٹر نے کبھی بس یا ٹرین کا سفر کیا ہو۔ وہ اب جہاز یا ٹیکسی کے بغیر سفر کرتے ہی نہیں ہیں۔

ان اقتصادی اصلاحات کی وجہ سے میڈیا کے علاوہ دیگر صنعتوں میں بھی بے شمار پیسہ آگیا۔

جب 2004میں غیرمتوقع طور پر اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی بی جے پی حکومت شکست سے دوچار ہوئی، تو طے تھا کہ کانگریس کی صدر اوریونائیٹد پروگرسیو الائنس یعنی یو پی آئی کی قیادت کر رہی سونیا گاندھی وزیر اعظم بن جائیں گی۔

طریقہ کار کے مطابق انہوں نے صدر اے پی جے کلام سے ملاقات کر کے حکومت سازی کا دعویٰ بھی کیا۔ مگر جب کانگریس پارٹی کی پارلیامانی پارٹی کا اجلاس پارلیامنٹ کے سینٹرل ہال میں منعقد ہوا، تاکہ ان کو باضابطہ لیڈر منتخب کیا جائے، تو انہوں نے اس عہدے کے لیےمنموہن سنگھ کا نام تجویز کرکے سب کو چونکا دیا۔

منموہن سنگھ کے اقتدار کا پہلا پانچ سال یقیناً موجودہ ہندوستان کا سنہری دور تھا۔ تاریخی لینڈ مارک سماجی قوانین حق اطلاعات قانون، نیشنل دیہی صحت مشن اور دیہی روزگار گارنٹی قانون اس دور میں پاس ہوئے۔ مسلمانوں کے حوالے سے جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کا قیام عمل میں آیا، جس نے پہلی بار مسلمانوں کی معاشی اور سماجی صورتحا ل کا جائزہ لےکر ان گنت سفارشات پیش کیں۔

مگر ان کے دورہ اقتدار کے دوسرے پانچ سال مایوس کن تھے۔

کہتے ہیں کہ شکست کے بعد سبکدوش وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے نئی حکومت سے درخواست کی تھی کہ ان کے چارمنصوبوں جن میں امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ، پاکستان کے ساتھ امن مساعی، ملک میں دریاؤں کو آپس میں جوڑنا اور شمال جنوب، مشرق سے مغرب تک ہائی وے کی تعمیر کے پروجیکٹس کو جاری رکھا جائے۔

بس دریاؤں کے منصوبے کو چھوڑ کر بقیہ سبھی ایشوز پر منموہن سنگھ نے کام جاری رکھ کے خاصی پیش رفت حاصل کی۔ پاکستان کے ساتھ امن مساعی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ لگتا تھا کہ بس ان دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تنازعہ کشمیر بس اب حل ہونے کو ہے۔

19 مئی 2004 کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے منتخب ہونے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اس عہدے کی ذمہ داری سونپتے ہوئے اس وقت کے صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام۔ ساتھ میں کانگریس پارلیامانی پارٹی کی صدر سونیا گاندھی۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: حکومت ہند)

19 مئی 2004 کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے منتخب ہونے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اس عہدے کی ذمہ داری سونپتے ہوئے اس وقت کے صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام۔ ساتھ میں کانگریس پارلیامانی پارٹی کی صدر سونیا گاندھی۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: حکومت ہند)

بطور وزیر اعظم وہ بیرون یا اندرن ملک دورہ کے دوران پریس کانفرنس منعقد کرکے میڈیا کے روبرو ہوجاتے تھے۔

سابق وزیر اطلاعات مینش تیواری کے مطابق دس سال کے عرصہ میں انہوں نے 117 پریس کانفرنسوں سے خطاب کرکے تیکھے سوالات کے جوابات دیے۔ یہ اس لیے اہم ہے کہ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دس سالہ اقتدار میں کبھی کسی پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کیا ہے۔

اسی طرح وہ ناشتہ پر متواتر ایڈیٹرز، پبلشرز اور ٹی وی اینکرز کے ساتھ آف ریکارڈ ملاقات کرتے تھے۔ کئی ایسی ملاقاتوں میں مجھے بھی حصہ لینے کا موقع ملا ہے۔ ساڑھے آٹھ بجے وزیر اعظم کے گھر پہنچنے کا مطلب ہوتا تھا کہ سات بجے سے قبل ہی گیٹ پر رپورٹ کرنا۔

سنجے بارو کے مطابق جب ایک بار انہوں نے پبلشرز کے گروپ کو مدعو کیا تو ہندوستان ٹائمز کی شوبھنا بھارتیہ ٹائمز آف انڈیا کی چیئرپرسن اندو جین دیر سے پہنچیں۔ بھارتیہ کو اپنے بال خشک کرنے میں کافی وقت لگا، اور جین کو صبح کی پوجا کرنی تھی۔ اس کے بغیر وہ گھر سے باہر قدم نہیں رکھتی ہے۔

پہلے پانچ سالہ دور میں سونیا گاندھی نے ان کی عزت نفس کا خیال رکھ کر حکومت کے کام کاج میں دخل اندازی سے پرہیز کیا۔ وہ کسی بھی وزیر کو وقت نہیں دیتی تھی، بلکہ ان کو وزیر اعظم سے مشورہ کرنے کی ہدایت دیتی تھیں۔ خود بھی وزیر اعظم کے گھر پہنچ کر ہی ان سے صلاح و مشورہ کرتی تھیں۔

ان کے اس طرز عمل نے وزیروں اور پارٹی کارکنان تک پیغام پہنچا دیا تھا کہ حکومت کے باس کلی طور پر سنگھ ہیں۔

مگر کانگریس پارٹی کے دیگر لیڈران ان سے ہمیشہ ہی خائف رہے۔ بطور قومی سلامتی مشیر انہوں نے جے این دکشٹ کو منتخب کیا تھا۔ مگر کانگریس پارٹی کا اصرار تھا کہ انٹلی جنس بیورو کے سابق سربراہ  ایم کے نارائنن کو یہ عہدہ دیا جائے۔ اب سمجھوتہ اس پر ہوگیا کہ دکشت کو بیرون سلامتی کا اور نارائنن کو اندرون سلامتی کا مشیر بنایا جائے۔ مگر دونوں وزیر اعظم کی موجودگی میں آپس میں لڑ پڑتے تھے۔

ایک موقع پر ایک حساس موضوع پر میٹنگ کے دوران  نارائنن نے دکشت کو کہا کہ ”آپ ایک سفارت کار ہیں جو دنیا کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں لیکن ہندوستان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔“ دکشت نے جواب دیا کہ ”انہوں نے (نارائنن) نے تو کبھی پولیس افسر کی بھی نوکری نہیں کی، بلکہ لوگوں کو فائلیں بناکر ڈرایا دھمکایا ہے۔“

نارائنن نے اپنے کیریئر کا بیشتر حصہ آئی بی میں گزارا تھا اور فیلڈ میں نہیں رہے تھے۔ جنوری 2005 میں دکشت کا انتقال ہوگیا اور اس کے بعد یہ پوسٹ پوری طرح نارائنن کے پاس آگئی، جس نے 2009 تک منموہن سنگھ کی پاکستان کے ساتھ امن مساعی میں ہرممکن روڑے اٹکائے۔

روس کے شہر قطرینہ برگ میں 2009 میں برکس کے پہلے سربراہی اجلاس اور شنگھائی کوآپریشن یعنی ایس سی او کی میٹنگ میں شرکت کر نے کے لیےمنموہن سنگھ کے ساتھ میڈیا وفد میں، میں بھی شامل تھا۔ واپسی پر جہاز میں ان کی پریس کانفرنس طے تھی۔ کشمیر ان دنوں شوپیاں قصبہ کی دو خواتین آسیہ اور نیلوفر کے مبینہ قتل اور آبروریزی کے واقعہ سے مشتعل تھا۔

عمر عبداللہ جو حال ہی میں کانگریس کی مدد سے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر فائز ہو ئے تھے، نے اپنی ناتجربہ کاری کے باعث آگ میں کچھ زیادہ ہی گھی ڈالنے کا کام کیا تھا۔ میں نے اسی واقعہ کے حوالے سے ان سے استفسار کیا۔ اس کا انہوں نے جواب تو دیا، مگر سبھی کو لگا کہ جواب تسلی بخش نہیں تھا۔ پریس کانفرنس کے ختم ہوتے ہی میں نے ٹیپ ریکارڈراور نوٹ بک بیگ میں رکھ کر اس کو اپنی سیٹ کے اوپر کے کیبن میں رکھ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

مڑ کر دیکھا تو وزیر اعظم منموہن سنگھ تھے۔ انہوں نے مجھے بیٹھنے کے لیے کہا اور خود بھی میرے ساتھ ہی بیٹھ گئے اور کہا کہ”ہم نے کشمیر کے سلسلے میں امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔“ اس دورے کے دوران انہوں نے میڈیا کی موجودگی میں پاکستانی صدر آصف زرداری کو خوب کھری کھوٹی سنائی تھی۔

سبھی افسران اور میڈیا کے افراد ہمارے سیٹ کے اردگرد جمع ہوگئے۔کچھ منٹ بیٹھ کر وہ پھر اپنے کیبن کی طرف روانہ ہوگئے۔ اگلے روز دی ہندو اور دیگر اخبارات میں یہ صفحہ اول کی خبر تھی۔

 نومبر 2004 میں ڈاکٹر سنگھ نے جموں و کشمیر کا اپنا پہلا سرکاری دورہ کرنا تھا۔ وہ ستمبر 2004 میں صدر مشرف کے ساتھ ایک مفید ملاقات کے بعد نیویارک سے واپس آئے تھے اور انہیں لگا تھا کہ کشمیر پر ایک نئی پہل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ شیرکشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے طلباء اور فیکلٹی سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے ایک نئے کشمیر (نیا کشمیر) کے اپنے وژن کی بات کی اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ کشمیر اور کشمیری عوام کے لیے ایک نیا بلیو پرنٹ، ایک نیا وژن پیش کیا جائے، جو جنگ کے خوف اور استحصال سے پاک ہو۔

اس تقریر کا مسودہ  جے این دکشٹ اور جموں یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر امیتابھ مٹو نے تیار کیا تھا۔ سری نگر مظفرآباد بس سروس کا آغاز اعتماد سازی کی ایک بڑی مشق تھی۔

ستمبر 2005 میں مشرف سے اپنی تیسری ملاقات سے پہلے، وہ کشمیر کے لیڈروں اور سماجی کارکنان سے بات چیت کرنا چاہتے تھے۔ اپنی پہلی میٹنگ میں انہوں نے سابق ہوم سکریٹری  کے سبرامنیم، جموں و کشمیر کے بارے میں حکومت کے خصوصی نمائندے این این ووہرا، صحافیوں بی جی ورگیز، منوج جوشی، بھارت بھوشن، کشمیری ماہر اقتصادیات حسیب درابو  اور امیتابھ مٹو کو بلایا۔ نارائنن اس میٹنگ سے ناخوش تھے۔

 ڈاکٹر سنگھ نے سبرامنیم کی تجویز کو پسند کیا کہ وزیر اعظم کو جموں و کشمیر کے مستقبل پر ایک گول میزکانفرنس بلانی چاہیے۔ 25 فروری 2006 کو، بجٹ سیشن سے قبل پہلی گول میز کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس میں نوے کے قریب افراد نے شرکت کی۔

پورے نو گھنٹے تک چلنے والی اس کانفرنس میں منموہن سنگھ پورے وقت موجود رہے اور نوٹس بھی لیتے رہے۔ ستمبر 2004 میں، ڈاکٹر سنگھ نے صدر پرویز مشرف کے ساتھ اپنی ملاقات سے قبل سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے پاکستانی ماہرین تعلیم، تاجروں اور بزرگ شہریوں کے لیے ویزا نظام کو یکطرفہ طور پر سہل کرنے کا اعلان کیا۔

اپنے وزیر اعظم بننے کے موقع پر، مئی 2004 میں، ڈاکٹر سنگھ نے صحافی جوناتھن پاور (اسٹیٹس مین، 20 مئی 2004) کو ایک آف دی ریکارڈ گفتگو میں بتایا تھا کہ علیحدگی پسندی کو چھوڑ کر ہندوستانی  اسٹیبلشمنٹ کے لیے کوئی بھی صورتحال قابل قبول ہوسکتا ہے۔

انہوں نے سرحدوں کو اس حد تک نرم کرنے پر زور دیا تاکہ ان کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ 2005 کے اوئل میں  مشرف نے دہلی میں ہونے والے ہندوستان پاکستان کرکٹ میچ کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ گو کہ خارجہ سکریٹری شیام سرن خارجہ پالیسی کے حوالے سے ڈاکٹر سنگھ کے نقطہ نظر سے متفق تھے، مگر پاکستان کے حوالے سے نارائنن کی طرح سخت گیر تھے۔

وزیر اعظم نے ان کو مشرف کو دعوت نامے کا مسودہ تیار کرنے کو کہا۔مگر نارائنن کے کہنے پر وہ آنا کانی کررہے تھے، جس کا سنگھ کو جلد ہی ادراک ہوگیا۔

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ(فوٹو : وکی میڈیا کامنس)

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ(فوٹو : وکی میڈیا کامنس)

اگلی صبح لوک سبھا میں ڈاکٹر سنگھ کو پارلیامانی بحث کا جواب دینا تھا۔ بحث کے دوران متعدد اراکین کی طرف سے کیے گئے نکات کا جواب دینے کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ صدر مشرف کو دونوں ٹیموں کے درمیان کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے ہندوستان آنے کی دعوت دی جائے۔

میری دلی خواہش ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک کے لوگ اور ان کے لیڈر جب چاہیں بلا جھجک ہم سے ملیں۔ کرکٹ میچ دیکھنا ہو؛ کچھ شاپنگ کرنا ہو یا دوستوں اور خاندان سے ملنا ہو ہندوستان کو ایک کھلا معاشرہ اور کھلی معیشت ہونے پر فخر ہے۔ مجھے امید ہے کہ صدر مشرف اور ان کا خاندان ہمارے ملک کے دورے سے لطف اندوز ہوں گے۔

آفیشلز گیلری میں، نارائنن اور سرن سمیت سبھی دنگ تھے۔ دفتر پہنچ کر ان کو دعوت نامہ کا مسودہ بنانا پڑا۔

اسی طرح سری نگر مظفر آباد  بس سروس کے آغاز سے قبل نارائنن نے دوبارہ اس میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی۔  7 اپریل 2005 کواس کے آغاز سے ایک روز قبل عسکریت پسندوں نے سری نگر میں ریاستی سیاحت کے دفتر پر حملہ کیا، جہاں سے یہ بس سروس شروع کی جانی تھی۔

دن کے اختتام تک، قومی سلامتی اور انٹلی جنس ایجنسیاں وزیر اعظم کو اگلی صبح سری نگر کا دورہ منسوخ کرنے کا مشورہ دے رہی تھیں۔ حتمی جائزہ اجلاس رات 9 بجے ختم ہوا، جس میں وزیر اعظم کو اپنا دورہ منسوخ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ تقریباً سب ہی کمرے سے نکل چکے تھے۔ ڈاکٹر سنگھ سوچ میں بیٹھ گئے، ان کے چہرے پر غصہ اور تشویش نمایاں تھی۔

اچانک وہ کھڑے ہوگئے اور کہا کہ ”میں جاؤں گا!“ باہر جاتے ہوئے افسران کو واپس بلایا گیا۔ وزیر اعظم نے سونیا گاندھی کو فون کرکے بتایا کہ انہوں نے سری نگر کا سفر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نے ان کے فیصلے کی تائید کی اور کہا کہ وہ بھی ان کے ساتھ سفر کریں گی۔

اگلی صبح دونوں سخت سیکورٹی کے درمیان سری نگر کے لیے روانہ ہوئے اور پہلی بس کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا۔ اکتوبر 2005 کو دہلی بم حملوں کی ایک سیریز سے لرز اٹھا۔ سروجنی نگر اور پہاڑ گنج میں بھیڑ بھاڑ والے بازاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ہر بار جب عمل میں خلل پڑتا تھا، ڈاکٹر سنگھ کوشش کرتے اور دھاگا اٹھاتے اور ایک معقول وقفہ کے بعد آگے بڑھتے رہے۔ شاید ان کو ان ہاتھوں کے بارے میں علم تھا جو رخنہ ڈالنے پر بضد تھے۔

 اپریل 2005 کو مشرف نے دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں کرکٹ میچ دیکھنے کے بعد ڈاکٹر سنگھ سے باضابطہ بات چیت کے لیے حیدرآباد ہاؤس آگئے۔ ”ڈاکٹر صاحب، اگر آپ اور میں فیصلہ کریں تو ہم لنچ سے پہلے اپنے تمام تنازعات حل کر سکتے ہیں اور پھر میچ دیکھنے واپس جا سکتے ہیں،“ مشرف نے کہا۔ سنگھ نے جواب دیا: ”جنرل صاحب، آپ ایک فوجی ہیں اورمجھ سے عمر میں جوان ہیں لیکن میری عمراس کی اجازت نہیں دیتی ہے۔“اگلے دو سالوں میں، مشرف نے ڈاکٹر سنگھ کے فارمولے پر مبنی کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے ایک روڈ میپ کا خاکہ پیش کیا،  جس کا بنیادی مرکز تھا کہ سرحدوں کو تبدیل کیے بغیر غیر متعلقہ بنایا جا ئے۔انہوں نے سابق سفارت کار  ستیندر لامبا  کو بیک چینل کے لیےمنتخب کیا۔ سنگھ کے ساتھ ان کی ملاقاتیں درج نہیں ہوتی تھیں۔

 ان کی مدد وزیر اعظم کے دوسرے پرسنل سکریٹری، جیدیپ سرکار کرتے تھے، جو میٹنگ کے دوران نوٹس لیتے تھے۔ جب بھی جے دیپ بیمار ہونے کی اطلاع دیتا یا یہ کہتا کہ وہ اپنے بیٹے کو امتحانات کی تیاری میں مدد کر رہا ہے، تو وزارت اعظمیٰ کے دفتر میں لوگ جانتے تھے کہ وہ لامبا کے ساتھ دورہ پر ہیں۔لامبا کی مشرف کے مقرر کردہ افسر طارق عزیز کے ساتھ میٹنگ میں طے پایا گیا کہ پہلے قدم کے طور پر لائن آف کنٹرول کو نقشے پر صرف ایک لائن بنانا ہے۔

اس کے لیے آزادانہ سفر اور تجارت ہو اور کشمیری عوام کے لیے تقسیم سے پہلے کا دور لوٹ آئے جب وہ ایک دوسرے علاقہ میں آسانی کے ساتھ سفر کر تے تھے۔دوسرا قدم یہ ہوگا کہ کنٹرول لائن کے دونوں جانب مقامی خود اختیاری کو مضبوط کیا جائے، تاکہ بین الاقوامی نگرانی میں ضرورت پڑنے پر دونوں اطراف کے کشمیر کے عوام اپنی حکومت خود منتخب کریں۔ تیسرا مرحلہ سب سے مشکل ہوگا۔

اس میں مشترکہ مفادات کے معاملات پر پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے کے لیے کشمیری رہنماؤں کی ذمہ داری میں مشترکہ یا کوآپریٹو اداروں کی تشکیل کی ضرورت ہوگی۔ خارجہ پالیسی اور دفاع کے علاوہ ہر چیز مقامی اور مشترکہ طور پر چلائی جائے گی۔ امن فارمولے کا چوتھا اور آخری عنصر دونوں طرف سے فوجیوں کی متفقہ واپسی ہو گی۔

ڈاکٹر سنگھ نے جون 2005 میں سیاچن گلیشیئر کے دورے کے ساتھ اعلان کیا کہ سیاچن تنازعات کے بجائے امن کی علامت ہوگا اور اس سے اعتماد سازی کا آغاز ہوگا۔ان کا خیال تھا کہ ہندوستان میں وہ اس حل کے سلسلے میں رائے عامہ کو ہموار کر پائیں گے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپوزیشن صرف بی جے پی کی طرف سے آئے گی۔ مگر بقول سنجے بارو کے ڈاکٹر سنگھ نے اپنی پارٹی کانگریس کی طرف سے مزاحمت کی توقع نہیں کی تھی۔ نارائنن کے علاوہ پرنب مکھرجی، وزیر دفاع اے کے انٹونی، سیاچن پر معاہدے پر ناخوش تھے۔

 ستمبر 2006 میں ہوانا میں، ناوابستہ تحریک کے سربراہی اجلاس سے ایک ماہ قبل جولائی 2006 میں ممبئی میں بم دھماکے ہوئے۔ پاکستان کے تئیں ڈاکٹر سنگھ کی پالیسی پر کانگریس کے برہم لیڈروں کو اب سونیا گاندھی کی حمایت حاصل ہو گئی تھی۔ مگر سنگھ ابھی بھی پر امید تھے۔ ہوانا میں مشرف کے ساتھ ان کی ملاقات ایک ولا میں طے تھی، جو کیوبا کی جانب سے دستیاب کرایا گیا تھا۔

جب سنگھ مشرف کو ریسیو کرکے اندر لے گئے، تو دروازہ آناً فاناً بند کر دیا گیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید قصوری اور نارائنن کو دروازہ کے باہر رکھا گیا۔ بقول بارو، قصوری تھوڑی دیر کے بعد نارمل ہوکر پاس کے کمرے میں بیٹھ گئے، مگر نارائنن چہل قدمی کرتے ہوئے بڑبڑا رہے تھے۔ ان کی بے چینی واضح تھی کہ ان کو ایک پلان کے تحت میٹنگ سے باہر رکھا گیا تھا۔

اس ایک گھنٹہ کی میٹنگ میں طے پایا گیا کہ سیاچن کے مسئلے کے جلد حل اور سر کریک اور اس سے ملحقہ علاقے کے مشترکہ سروے کے لیے ماہرین کی خدمات لی جائیں۔ اس میں کہا گیا، سروے نومبر 2006 میں شروع ہونا چاہیے اور سال کے اندر ان ددنوں تنازعات سے جان چھڑانی ہے۔

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

فروری 2007کو پاکستان کے سکریٹری دفاع طارق وسیم غازی جب معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے دہلی وارد ہوئے اس سے چند روز قبل الیکشن کمیشن نے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی صوبائی اسمبلی کے انتخابا ت کا اعلان کردیا تھا۔ مذاکرات سے ایک روز قبل سونیا گاندھی کی رہائش گاہ پر کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس اتر پردیش میں امیدوار طے کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔

مگر اس میں سونیا گاندھی کی موجودگی میں احمد پٹیل نے منموہن سنگھ کو سیاچن پر مذاکرات اور وہاں سے فوجوں کے انخلا کے سوال پر خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ میٹنگ میں موجود افراد کا کہنا ہے کہ اس طرح کی صورتحال میں سونیا گاندھی اکثر منموہن سنگھ کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی تھیں، مگر اس وقت و ہ خاموش رہیں۔

احمد بھائی نے منموہن سنگھ کو بتایا کہ پاکستان کے ساتھ کسی ایگرمینٹ کرنے سے اتر پردیش میں پارٹی کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ اجلاس جاری تھا کہ معلوم ہوا کہ شمال مشرقی ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے فوج کے سربراہ جنرل جے جے سنگھ نے سیاچن سے فوجوں کے انخلا کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ چند روز قبل کابینہ کی سلامتی سے امور کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے اس معاہدے کو منظوری دی تھی۔

احمد پٹیل کی یہ مخالفت پاکستان کے ساتھ امن مساعی کے تابوت میں ایک کیل ثابت ہوئی۔ اس کے فوراً بعد پاکستان میں وکلا ء کی ایجی ٹیشن نے مشرف کو داخلی طور پر الجھائے رکھا۔

کانگریس کے اندرون ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی نے منموہن سنگھ کو چوائس دی تھی کہ پاکستان کے ساتھ امن مساعی یا امریکی کے ساتھ نیوکلیر ڈیل میں کسی ایک ایشو پر ہی وہ عوامی سطح پر رائے عامہ بنائے گی۔ اور وزیر اعظم نے نیوکلیر ڈیل کو ہی ترجیح دی۔

بازی اب پلٹ چکی تھی۔ سونیا گاندھی جو 2004 سے مسلسل ڈاکٹر سنگھ کی عزت نفس کا خیال رکھ کر ان کو حوصلہ افزائی کرکے حکومتی معاملات میں مداخلت سے گریز کر تی تھیں، اب اپنے صاحبزادے راہل گاندھی کے لیے فضا سازگار کرنے پر تلی تھیں۔

وہ کسی ایسے قدم کی حمایت سے گریزاں تھیں، جس سے راہل کے وزیر اعظم بننے میں رکاوٹ ہو۔ 2009 کے انتخابات میں منموہن سنگھ امرتسر سے بطور امیدوار قسمت آزمائی کرنے کی سعی کر رہے تھے۔

اکالی دل سمیت پنجاب کی سبھی پارٹیاں ان کی حمایت میں ڈٹ گئی تھیں۔ مگر ان کو براہ راست انتخاب لڑنے سے منع کر دیا گیا، تاآنکہ وہ سیاسی قوت حاصل کرکے راہل گاندھی کے لیے کوئی چیلنج پیدا نہ کرسکیں۔ 2009کے انتخابات میں جب کانگریس کو واضح برتری حاصل ہوئی، تو یہ صرف منموہن سنگھ کی دین تھی۔

ہندوستان کے مڈل کلاس اور دیہی روزگار قانون سے فائدہ اٹھانے والوں نے ان کو کھل کر ووٹ دیے تھے۔ بجائے ستائش کے کانگریس نے اس کو راہل گاندھی کے لیے خطرہ کی گھنٹی قرار دیا۔ خوشامدی ٹولہ اس جیت کو راہل گاندھی کے سر باندھنا چاہتا تھا۔ مگر دستار کے نیچے کا سر کافی چھوٹا تھا۔اس لیے یہ بیل منڈھے چڑھ نہ سکی۔

ڈاکٹر سنگھ نے اپنی آخری پریس کانفرنس میں شکوہ کیا تھا کہ پاکستان نہ جانے کا ان کو افسوس ہے۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ وہاں صرف اپنے آبائی گاؤں کو دیکھنے کے لیے نہیں، بلکہ امن مساعی کے لیے کسی ٹھوس قدم پر مہر ثبت کرنے کے لیے جانا چاہتے تھے۔

شاید کم افراد کو معلوم ہے کہ وہ دوبار وہاں گئے ہیں۔ ان کی صاحبزادی دمن سنگھ کے مطابق انہوں نے 1984 میں پاکستان میں منعقد ایشیائی مرکزی بینکوں کے گورنروں کی میٹنگ میں شرکت کی۔

اس سے قبل بھی وہ 1968 میں محبوب الحق سے ملنے گئے تھے۔اس دورہ کے دوران وہ پنجہ صاحب گردوارے گئے، جہاں ان کا نام کرن ہوا تھا۔

اس کے علاوہ راولپنڈی میں وہ اردو کی کچھ کتابیں خریدنے گئے۔ ان کی پگڑی دیکھ کر اور یہ معلوم کر کے کہ وہ ہندوستان سے آئے ہیں، کتاب والوں نے پیسہ لینے سے منع کردیا تھا۔ اس کا وہ ہمیشہ تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ لندن میں اپنے ہم جماعت یاسمین اور سہیل لہڑی نے ان کو کراچی آنے کی دعوت دے دی تھی اور ان کو شہر گھمایا۔

یہ بھی بہت کم افراد کے علم میں ہے کہ 1984 میں ریزرو بینک کے گورنر ہونے کے باوجود منموہن سنگھ کو سکھ ہونے کے باعث کرب سے گزرنا پڑا۔ ان کی اہلیہ کی چچا زاد بہن بھی ان افراد میں تھی، جن کو آپریشن بلیو اسٹار کے دوران دربار صاحب سے حراست میں لیا گیا تھا۔

ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے فوج پر فائرنگ کی۔ وہ چار پانچ سال جودھ پور جیل میں رہیں۔ ان کی اہلیہ نے کئی بار وزیر داخلہ بوٹا سنگھ سے مداخلت کی اپیل کی۔ ان کی اس بہن کا ایک سال کا بچہ گھر پر ماں کے لیے تڑپتا تھا۔

وہ جب رہا ہوئیں تو ایک آنکھ سے محروم ہو گئی تھیں۔ اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد جو طوفان بدتمیزی اٹھا، ان کے ایک قریبی رشتہ دار گوپال سنگھ کا دہرا دون میں پٹرول پمپ جلادیا گیا۔ کانپور میں رہنے والے ایک اور رشتہ دار کا گھر اور دکان جلائے گئے۔

 خود منموہن سنگھ ریزرو بنک آف انڈیا کے گورنر کے ناطے اندرا گاندھی کو آخری خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بمبئی سے دہلی روانہ ہوئے۔نہرو کے وقت وزیر اعظم کی رہائش گاہ تین مورتی ہاؤس میں اندرا گاندھی کی باقیات پر پھول رکھ کر وہ اشوک وہار اپنے فلیٹ پر پہنچے اور اپنی بڑی بیٹی دہلی یونیورسٹی میں استاد اوپیندر سنگھ اور ان کے شوہر وجے تنخواہ کو بھی گھر پر بلایا۔

رات کو ایک ہجوم گھر کو جلانے کے لیے آگیا۔ مگر وجے نے ان کو قائل کیا کہ یہ گھر ایک سکھ کا تھا، مگر انہوں نے اس کو اب خریدا ہے اور وہ ایک ہندو ہیں۔ حیرت کی بات تھی کہ گھر کے سامنے رہائشی ایک پنڈت جی بھی اس ہجوم کے ساتھ تھے، اور ان کو بتا رہے تھے کہ یہ گھر ایک سکھ کا ہے۔

اس واقعہ کے بعد ان کو تاریکی میں نکال کر ایرپورٹ پہنچادیا گیا، جہاں سے وہ اگلی صبح واپس بمبئی پہنچ گئے۔ریزرو بینک کا صدر دفتر بمبئی میں ہے۔

دمن کے مطابق انتہائی سنجیدہ ہونے کے باوجود منموہن سنگھ میں حس مزاح بھی موجود تھی، جس کا مظاہرہ وہ بسا اوقات پارلیامنٹ میں مخالفیں پر چوٹ کرتے وقت کرتے تھے۔

بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ آواز بھی بڑی سریلی تھی، اور وہ ”لگتا نہیں ہے جی میرا’ اور امریتا پریتم کی نظم ‘آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول“ بڑی ہی پرسوز آواز میں گاتے تھے۔

اردو زبان پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ اردو ادب اور شاعری کا بھی ستھرا ذوق رکھتے تھے۔ ان کے پاس اقبال، غالب، فیض اور فراق جیسے شاعروں ادبی کا ذخیرہ موجود تھا۔

منموہن سنگھ کی خاموشی، کسر نفسی اور شرافت کو ان کی کمزوری سمجھ کر ان پر خوب وار کیے گئے۔ ان پر کورپشن کے بھی داغ لگائے گئے۔کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل (جن کو بعد میں بی جے پی نے کئی عہدوں سے نوازا)  نے ان کو خزانہ عامرہ کو ہوئے تصوراتی نقصانات پر کٹہرے میں لاکر کھڑا کردیا تھا، جن کو برسوں بعد عدالت نے دور پھینک دیا۔

 جب ان کے بچپن کے کلاس فیلو راجہ محمد علی دہلی آکر این ایچ پی سی کے گیسٹ ہاوس میں ٹھہرے تھے، تو رگ صحافت پھڑکنے کی وجہ سے میں ایک بار پھر وہاں گیا، تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ ان کے ٹھہرنے وغیرہ کا خرچہ کس نے ادا کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہدایت تھی کہ بل پرائم منسٹر ہاوس یا دفتر بھیجنے کے بجائے براہ راست منموہن سنگھ کو بھیجی جائیں۔ انہوں نے اس کی خود پے منٹ کی تھی۔ سفر کے ٹکٹ کا خرچہ ان کی بڑی صاحبزادی نے اٹھایا تھا۔

منموہن سنگھ ہندوستان کے ایسے سیاست دانوں کی آخری لائن میں تھے، جو پاکستان میں پیدا ہو ئے تھے۔اب ان میں بس لال کرشن اڈوانی بچے ہیں۔

 ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے، اس پر شاد عظیم آباد کے یہ شعر یاد آتے ہیں؛

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک

اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم

مرغان قفس کو پھولوں نے اے شادؔ یہ کہلا بھیجا ہے

آ جاؤ جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم

Next Article

بہار: سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو آدھار، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ قبول کرنے کا مشورہ دیا

سپریم کورٹ نے بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل ووٹر لسٹ رویژن کے عمل کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ جیسے دستاویزوں کو قبول کرنے پر غور کرنے کو کہا ہے۔

سپریم کورٹ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات (10 جولائی) کو الیکشن کمیشن کو بہار میں ووٹر لسٹ رویژن (ایس آئی آر)کے دوران آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ جیسے دستاویزوں کو قبول کرنے پر غور کرنے کوکہا ہے ۔

سپریم کورٹ نے بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل جاری ایس آئی آر کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کے دوران یہ بات کہی۔ سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ آدھار کارڈ شہریت کا ثبوت نہیں ہے۔

لائیو لا کے مطابق ، عدالت نے کہا، ‘ہماری پہلی رائے یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو آدھار کارڈ، الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ووٹر آئی ڈی (جس میں فوٹو ہو) اور راشن کارڈ پر بھی غور کرنا چاہیے، کیونکہ دستاویزوں کی فہرست حتمی نہیں ہے۔’

تاہم، عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ان دستاویزوں کے باوجود کسی  نام کو شامل یا مسترد کرنے کا حتمی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس  ہی رہے گا۔

اس معاملے میں اب تک 10 سے زیادہ عرضیاں دائر کی گئی ہیں۔ ان میں، ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کلیدی درخواست گزار ہے۔

بقیہ درخواستیں اپوزیشن لیڈروں نے دائر کی ہیں، جن میں آر جے ڈی ایم پی منوج جھا، ترنمول ایم پی مہوا موئترا، کانگریس لیڈر کے سی وینوگوپال، این سی پی (شرد پوار دھڑے) کی سپریا سُلے، سی پی آئی لیڈر ڈی راجہ، ایس پی لیڈر ہریندر سنگھ ملک، شیو سینا (ادھو ٹھاکرے دھڑے) کے اروند ڈی ساونت ، جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے سرفراز احمد، سی پی آئی (ایم ایل) رہنما بھٹاچاریہ شامل ہیں۔

عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ درخواست گزاروں کی طرف سے اٹھائے گئے سوال کا تعلق ‘ہندوستانی جمہوریت کی بنیادی روح، یعنی ووٹ کے حق سے ہے۔’

عدالت نے تین اہم نکات بیان کیے؛

کیا الیکشن کمیشن کے پاس اس عمل (ایس آئی آر)کو شروع کرنے کا اختیار ہے؟

اس اختیارکا استعمال کیسے اور کس عمل کے ذریعے کیا جا رہا ہے؟

یہ عمل ایسے وقت میں کیوں شروع کیا گیا جب چند ماہ (نومبر) میں بہار کے انتخابات ہونے والے ہیں؟

جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس جوائےمالیہ باگچی کی بنچ نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ وہ 21 جولائی تک اپنا جواب داخل کرے۔ کیس کی اگلی سماعت 28 جولائی کو ہوگی۔

Next Article

غیر مراعات یافتہ طبقے کے تقریباً 60 فیصد طلبا کی نیشنل اوورسیز اسکالرشپ روکی گئی، حکومت نے کہا – فنڈ نہیں

سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کی وزارت نے تعلیمی سال 2025-26 کے لیے نیشنل اوورسیز اسکالرشپ کے لیےمنتخب 106 امیدواروں میں سے صرف 40 طلبہ کو پروویزنل اسکالرشپ لیٹر دیے ہیں۔ وزارت کا کہنا ہے کہ باقی امیدواروں کے لیے ‘فنڈز کی دستیابی کے مطابق ‘سرٹیفکیٹ جاری کیے جائیں گے۔

علامتی تصویر: یونیورسٹی لائبریری میں طلبہ۔تصویر بہ شکریہ فلکر

نئی دہلی: سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کی مرکزی وزارت نے آئندہ تعلیمی سال 2025-26 کے لیے نیشنل اوورسیز اسکالرشپ (این او ایس) کے لیے منتخب کیے گئے 106 امیدواروں میں سے نصف سے کم یا صرف 40 طلبہ کو پروویزنل اسکالرشپ لیٹر فراہم کیے ہیں ۔

ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، وزارت نے کہا ہے کہ باقی 66 امیدواروں کو ‘فنڈکی دستیابی کے مطابق’ اسکالرشپ سرٹیفکیٹ جاری کیے جا سکتے ہیں۔

اس حوالے سے وزارت کا کہنا ہے کہ اسے کابینہ کمیٹی برائے اقتصادی امور سے منظوری نہیں ملی۔ اس کابینہ کمیٹی کی صدارت وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس ہے۔

مودی حکومت کی طرف سے یکم جولائی کو کیے گئے اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نے کہا کہ’ منتخب فہرست میں باقی امیدواروں (سیریل نمبر 41 سے 106) کو پروویزنل اسکالرشپ لیٹر  ‘فنڈز کی دستیابی سے مشروط وقت پر جاری کیے جا سکتے ہیں۔’

معلوم ہو کہ این او ایس پروگرام 1954-55 میں شروع کیا گیا تھا۔ یہ درج فہرست ذات (ایس سی)، ڈینوٹیفائیڈ خانہ بدوش قبیلہ(ڈی این ٹی)، نیم خانہ بدوش قبیلہ، بے زمین زرعی مزدور یا روایتی کاریگر زمروں کے طلبہ کو مالی امداد فراہم کرتا ہے، جن کی خاندانی آمدنی 8 لاکھ روپے سالانہ سے کم ہے۔

عام طور پر، اس اسکیم کے تحت، تمام منتخب طلبہ کو پروویزنل اسکالرشپ کے لیٹرملتے ہیں، لیکن اس سال وزارت نے فنڈز کی دستیابی کے لحاظ سے مرحلہ وار خطوط بھیجنے کی تجویز دی ہے۔

اخبارکی رپورٹ کے مطابق، وزارت کے اس اقدام نے ‘طلبہ کو الجھن میں ڈال دیا ہے۔’ تاہم، وزارت نے فنڈز کی کمی کے معاملے کو کابینہ کمیٹی کو بھیج دیا ہے۔

اس معاملے کو لے کر وزارت کے ایک اہلکار نے اخبار کو بتایا، ‘کابینہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کی طرف سے ان اسکالرشپ اسکیموں کے لیے مختص فنڈز کی عدم منظوری ایک مسئلہ ہے۔ ہمارے پاس پیسہ ہے، لیکن ہمیں اسے دینے کے لیے اوپر سے گرین سگنل کی بھی ضرورت ہے۔’

اسکالرشپ کا بحران پہلی بار نہیں

قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ (ایم این ایف) میں بھی اسی طرح کی بے قاعدگیوں کی اطلاع ملی تھی۔ جنوری 2025 سے 1400 سے زیادہ پی ایچ ڈی سکالرز کو اسکالرشپ کی ادائیگی میں رکاوٹ کا سامنا  کرنا پڑ رہاہے۔

دی وائر نے جون میں بتایا تھا کہ ان میں سے زیادہ تر اسکالروں کو دسمبر 2024 سے کم از کم مئی 2025 تک وظیفہ نہیں ملا ہے۔ کچھ اسکالروں کو اس مدت سے پہلے بھی وظیفہ نہیں ملا تھا۔

وزارت اقلیتی امور کے زیر انتظام مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ ہندوستان میں چھ نوٹیفائیڈ اقلیتی برادریوں – مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، بدھ متوں، جینوں اور پارسیوں سے تعلق رکھنے والے اسکالروں کو مالی مدد فراہم کرتی ہے۔

واضح ہو کہ جون 2024 کے لیے شیڈول کاسٹ کے لیے نیشنل فیلو شپ کے حوالے سے بھی افراتفری پھیلی ہوئی تھی، جس کے لیے فہرست اس سال اپریل میں ہی شائع ہوئی تھی۔

اس سلسلے میں نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی نے ابتدائی طور پر مارچ 2025 میں 865 اسکالروں کی سلیکشن لسٹ جاری کی تھی، لیکن اپریل میں ایک ‘ترمیم شدہ فہرست’ نے اس سلیکشن کو کم کر کے 805 کر دیا اور پہلے منتخب کیے گئے 487 امیدواروں کو ہٹا دیا۔

وزیراعظم کو اپوزیشن کا خط

غورطلب ہے کہ اس معاملے پر لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے 10 جون کو وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا تھا اور محروم طبقات کے طلباء کے لیے رہائش اور اسکالرشپ پر تشویش ظاہر کی تھی۔

اپنے خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ  دلت، شیڈول ٹرائب (ایس ٹی)، انتہائی پسماندہ طبقہ (ای بی سی)، دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) اور اقلیتی طلبہ کے ہاسٹلوں کی حالت ‘قابل رحم’ ہے۔ اس کے علاوہ ان طلبہ  کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ  کی فراہمی میں تاخیر ہو رہی ہے،جس کی وجہ سے ان طبقات  کے 90 فیصد طلبہ کے تعلیمی مواقع متاثر ہو رہے ہیں۔

بہار کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا تھا کہ اسکالرشپ پورٹل مبینہ طور پر تین سال سے کام نہیں کر رہا ۔ اس لیے 2021-22 تعلیمی سال کے لیے کوئی اسکالرشپ نہیں دی گئی۔

اسکالرشپ سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں تیزی سے کمی کے بارے میں لکھتے ہوئے انہوں نے کہا تھا،’اسکالرشپ حاصل کرنے والے دلت طلبہ کی تعداد تقریباً آدھی رہ گئی ہے،جو  مالی سال 23 میں 1.36 لاکھ سے کم ہو کر مالی سال 24 میں 0.69 لاکھ رہ گئی ۔ طلبہ کی شکایت ہے کہ اسکالرشپ کی رقم ذلت آمیز حد تک کم ہے۔’

Next Article

’ضمانت قانون، جیل استثنیٰ‘ کے اصول کو حال کے دنوں میں فراموش کر دیا گیا ہے: سی جے آئی

چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ حال  کےدنوں میں ‘ضمانت قانون ہے اور جیل استثنیٰ’  کے اصول کو فراموش کر  دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) بی آر گوئی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پرافسوس کا اظہار کیا کہ ‘ضمانت قانون ہے اور جیل استثنیٰ’ کے اصول کو حال کے دنوں میں فراموش کردیا گیا ہے۔

حال ہی میں آئی  خبر کے مطابق ، سی جے آئی گوئی نے مانا کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران عدالتی فیصلوں میں اس معیار کو شامل کیا گیا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس کونیک نیتی سے لاگو نہیں کیا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ چیف جسٹس نے یہ باتیں اتوار (6 جولائی) کو کوچی میں جسٹس وی آر کرشن ائیر میموریل لا لیکچر دیتے ہوئے کہیں۔

اس دوران انہوں نے کہا کہ مختلف مقدمات میں ضمانت دیتے ہوئے انہوں نے خود اس اصول کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے، جس نے ہائی کورٹس اور نچلی عدالتوں کے لیے اسی اصول پر عمل کرنے کی راہ ہموار کی۔

جسٹس گوئی نے کہا، ‘مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ گزشتہ سال، 2024 میں، مجھے پربیر پرکایستھ، منیش سسودیا اور کویتا بنام ای ڈی کے معاملات میں اس قانونی اصول کو دہرانے کا موقع ملا۔’

انہوں نے کہا کہ پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ میں جسٹس ائیر کی خدمات بہت عظیم ہیں۔

واضح ہو کہ حالیہ برسوں میں سپریم کورٹ نے زیر سماعت قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی احکامات پاس کیے ہیں اور کہا ہے کہ مقدمے کی سماعت میں تاخیر اور طویل قید پی ایم ایل اے اور یو اے پی اےکے تحت سنگین جرائم میں بھی ضمانت دینے کی بنیاد ہے، جبکہ خصوصی قوانین کے تحت ضمانت کی شرائط سخت ہیں۔

عدالت نے منی لانڈرنگ اور غیر قانونی سرگرمیوں کے مقدمات میں ملزمان کی ضمانت کا راستہ بھی کھولا ہے۔

سی جے آئی گوئی نے انڈر ٹرائل قیدیوں کو طویل مدت تک بغیر مقدمہ چلائے جیل میں رکھنے کی جسٹس ائیر کی سخت مخالفت کو بھی یاد کیا۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال اگست میں ایک اہم فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ‘ضمانت اصول ہے، جیل استثنیٰ ہے’ کا روایتی خیال نہ صرف آئی پی سی کے جرائم پر لاگو ہونا چاہیے بلکہ ان دیگر جرائم پر بھی لاگو ہونا چاہیے جن کے لیے خصوصی قوانین بنائے گئے ہیں، جیسے کہ یو اے پی اے، اگر اس قانون کے تحت مقرر کردہ شرائط پوری ہوتی ہیں۔

غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے مختلف فیصلوں میں ہائی کورٹس اور نچلی عدالتوں سے ضمانت دینے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ اگر ضمانت کا معاملہ بنتا ہے تو سنگین جرائم میں بھی راحت دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔

Next Article

کیا بہار میں ووٹر لسٹ رویژن کو لے کر بی جے پی بیک فٹ پر آ گئی ہے؟

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق، ووٹر لسٹ میں ترمیم کو لے کر بہار میں بی جے پی بیک فٹ پر آ گئی ہے۔ بی جے پی کے لیے سروے کرنے والی ٹیم کے ایک ممبرنے دی نیو انڈین ایکسپریس کو بتایا، ‘جب ہم لوگوں کو کال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ وہ بی جے پی سے کیا امید رکھتے ہیں، تو زیادہ تر لوگ ووٹر لسٹ میں ترمیم کو لے کر بی جے پی کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے اپلوڈ کی گئی ایک تصویر

نئی دہلی: اب تک کی میڈیا میں آ رہی خبریں  اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ بہار اسمبلی انتخابات سے عین قبل ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ، جو غریبوں اور پسماندہ طبقات کو حق رائے دہی سے محروم کر سکتا ہے اور ان کو ‘غیر ملکی‘ قرار دیا جا سکتا ہے، حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو انتخابی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

تاہم، اب ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی خود اس معاملے پر بیک فٹ پر آ گئی ہے ۔

دی نیو انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ، بی جے پی کی اندرونی پری پول سروے ٹیموں کو عوام کے غصے کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ لوگ ووٹر لسٹ سے اپنےنام نکالے جانے کے خدشات کا اظہار کر تے ہوئے  بی جے پی سے ناراض ہیں۔

رپورٹ میں بی جے پی کے لیے سروے کرنے والی ٹیم کے ایک ممبر کے حوالے سے کہا گیا ہے، ‘جب ہم لوگوں کو کال کرتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ بی جے پی سے کیا امید رکھتے ہیں اور وہ لوگوں کے خوابوں کو پورا کرنے میں بی جے پی کی کس طرح مدد کریں گے، تو زیادہ تر لوگ ووٹر لسٹ میں ترمیم کو لے کر بی جے پی کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔

ٹیم کے ایک اور ممبر نے اخبار کو بتایا، ‘ہم 10 سے جن 6-7لوگوں سے بات کرتے ہیں، وہ کھل کر بی جے پی کے تئیں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔’

بتادیں کہ بہار میں بی جے پی اور جے ڈی یو کچھ دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر نتیش کمار کی قیادت میں حکومت چلا رہی ہے۔

رپورٹ میں حاجی پور کے ایک ووٹر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کے خاندان کے نام ووٹر لسٹ میں کئی دہائیوں سے درج ہیں لیکن اب ‘بی جے پی کے کہنے پر الیکشن کمیشن جو ووٹر لسٹ میں  ترمیم کروا رہا ہے، اس  میں ہم سے شہریت کا ثبوت مانگا جا رہا ہے۔’

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نئے قدم کے بعد بی جے پی کے پرانے حامیوں کو بھی پارٹی کے تئیں اپنی وفاداری کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبورہونا پڑ رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس عمل کی وجہ سے خود بی جے پی کے بہت سے ووٹر پولنگ بوتھ سے باہر ہو سکتے ہیں۔

بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ‘یقین کریں یا نہ کریں، لیکن تقریباً 15-20 فیصد بی جے پی اور 10-15 فیصد جے ڈی یو ووٹر اس بار ووٹ نہیں ڈال سکیں گے کیونکہ ان کے پاس ضروری دستاویز نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کے پاس آدھار اور ووٹر آئی ڈی ہے، لیکن اس نئی ترمیم میں انہیں قبول نہیں کیا جا رہا ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ بدھ (9 جولائی) کو بائیں بازو کی جماعتوں، کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد نے اس ترمیمی عمل کے خلاف بہار بند کی کال دی تھی۔

Next Article

ترکیہ میں پندرہ جولائی کی اہمیت

پندرہ جولائی 2016 کو ترک فوج کے ایک گروہ نے سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک منظم مگر ناکام کوشش کی تھی۔یوں اس بغاوت کی ناکامی کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں، جن میں کم از کم 40,000 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ان میں 10,000 سے زائد فوجی اور 2,745 جج شامل تھے۔

تمام تصویریں، بہ شکریہ: ترک کمیونیکیشن ڈائریکٹوریٹ

ترکیہ کے شہروں خاص طور پر دارالحکومت انقرہ اور عروس البلاد استنبول کی کئی اہم جگہوں پر آ پ کو شیشے کے کیسز میں جلی ہوئی کاریں اور سڑکوں پر گہرے گڑھے نظر آئیں گے۔ یہ 15 جولائی 2016 کی وہ محفوظ نشانیاں ہیں، جب ترک فوج کے ایک گروہ نے سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک منظم مگر ناکام کوشش کی۔

ترکیہ کی جدید تاریخ میں اس دن کو خاصی اہمیت حاصل ہے اور اس کو جمہوریت اور قومی اتحاد کے دن کے طور پر تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

 ترکیہ کے جمہوری دور کی تاریخ میں چار بار فوج نے مداخلت کرکے سویلین حکومتوں کو برخاست کیا ہے۔ مگر یہ شاید پہلی بار تھا جب رجب طیب ایردوان کی حکومت نے مداخلت کو ناکام بناکر فوج کو ایک سویلین انتظامیہ کے تابع بناکر ہی دم لیا۔

ترک آئین میں فوج کے کردار کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانے کی ذمہ دار ہے۔فوج نے پہلی مرتبہ 1960 میں اپنے اس اختیار کا استعمال کرکے ایک منتخب وزیر اعظم عدنان مندرس کو بے دخل کرکے ان پر مقدمہ چلا کر ایک سال بعد موت کی سزا دے دی۔دیگر ایسی فوجی مداخلتیں 1971، 1980 اور 1997 میں ہوئیں۔

 سخت گیر کمالسٹ ہونے کی وجہ سے فوج ایک فرض یہ سمجھتی تھی کہ وہ اتاترک کی اصلاحات، خاص طور پر سیکولرازم، اور مغرب کے ساتھ تعاون کی محافظ ہے۔

مگر ترک تجزیہ کاروں کے مطابق کمالسٹ یا سخت گیر فرانسیسی طرز کے سیکولرازم کے نفاذ کاسہرا دراصل اتا ترک کے بجائے عصمت انونو  کے سر جاتا ہے، جوملک کے پہلے وزیر اعظم رہے اور پھر بطور صدر1938 سے 1950 تک برسر اقتدار رہے۔ انہوں نے اپنے نظریہ کو تھوپنے کے لیے مصطفیٰ کمال اتاترک کے نام کا خوب استعمال کیا۔جاتے جاتے مگر ان کا احسان یہ رہا کہ انہوں نے ملک میں کثیر جماعتی انتخابات کو منظوری دے دی۔

معروف سرکردہ ترک صحافی مہمت اوز ترک 15 جولائی  2016کو  دن بھر کا کام کرنے کے بعد انقرہ کے نواح میں اپنے گھر لوٹے تھے۔ وہ ان دنوں ترکیہ کی نیم سرکاری اور سب سے بڑی نیوز ایجنسی انادولوکے غیر ملکی زبانوں کی سروس کے چیف ایڈیٹر تھے۔

ڈنر کے بعد جب انہوں نے ٹی وی آن کیا، تو دیکھا کہ استنبول میں بحیرہ اسود اور بحیرہ روم کو ملانے والی آبنائے باسفورس کے ایک پل پر سے فوجی ٹینک گزر رہے ہیں۔ ان کی چھٹی حس نے ان کو خبردار کیا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔

انہوں نے فون کرکے گاڑی منگوائی اور دوبارہ دفتر کی طرف روانہ ہوگئے۔ انقرہ ابھی تک پرسکون تھا۔ویسے بھی استنبول کے برعکس یہ شہر جلدی سو جاتا ہے۔ فوجی بغاوت کی خبر ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ دفتر پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ ایجنسی کے دیگر ذمہ داران بھی کوریڈور میں موجود تھے، تو معلوم ہوا کہ فوجی بغاوت شروع ہو چکی ہے۔

وہ یاد کر رہے تھے 36 برس قبل زمانہ طالبعلمی میں اسی طرح کی ایک فوجی بغاوت کے بعد ان کو انڈر گراونڈ اور پھر ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ترک یونیورسٹیوں میں بائیں بازو، سخت گیر سیکولر نظام یعنی کمال ازم کے حامیوں اور اسلام پسند اور لبرل جمہوریت کے خواہاں گروپوں میں سخت رسہ کشی ہوتی تھی۔

اوز ترک ان دنوں انقرہ یونیورسٹی کے ایک طالبعلم تھے۔ 1980کی اس فوجی مداخلت کے بعد ان کی زندگی اجیرن بنائی گئی اور ان کو ملک چھوڑ کر تقریباً دس سال تک اپنے احباب و اقارب سے دور کئی ملکوں میں پناہ کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔ ان کا اضطراب واجب تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ چند لمحوں کے بعد جیٹ جہازوں کی پرشور اور دھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ معلوم ہوا کہ انٹلی ایجنسی کے صدر دفتر، صدارتی محل، پارلیامنٹ ہاؤس اور شہر کے مرکز پر بمباری ہو رہی ہے۔استنبول میں واقع فاتح سلطان محمد پل اور باسفورس پل بند کر دیے گئے۔فوجی ہیڈکوارٹر میں بعض افراد کو یرغمال بنایا گیا، جن میں چیف آف جنرل اسٹاف حلوصی آقار بھی شامل تھے۔

تقریباً رات 9 بجے باغیوں نے ترک زمینی افواج کے کمانڈر صالح زکی چولاک کو فوجی ہیڈکوارٹر بلایا اور گرفتار کیا۔ترک فضائیہ کے سربراہ عابدین اونال، جو استنبول میں ایک شادی کی تقریب میں شریک تھے، کو وہیں سے اٹھا کر اغوا کیا گیا۔

آقار کو بتایا گیا کہ وہ اس بغاوت کی حمایت کرتے ہوئے جنرل کنعان ایورن کی طرح ملک کا نظم و نسق سنبھال لیں اور انہیں اس موقع پر امریکہ میں موجود د حزمت تحریک کے سربراہ  فتح اللہ گولن سے بھی ٹیلی فون پر بات چیت کرنے کی پیشکش کی گئی الیکن جنرل حلوصی نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا اور آئینی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کو ترجیح دی۔اس دوران بیلٹ سے ان کا گلا گھونٹنے کی بھی کوشش کی گئی۔انکار پر انہیں آکن جی ایئر بیس منتقل کر دیا گیا۔وہاں دیگر کمانڈروں کو بھی رکھا گیا تھا۔

صدر رجب طیب ایردوان جنوب مغربی ترکی کے شہر مارماریس میں بحیرہ روم کے ساحل پر اپنی فیملی کے ساتھ ایک ہوٹل میں تعطیلات گزار رہے تھے۔رات گئے فضا میں تین فوجی ہیلی کاپٹرنمودا رہوئے اور ہوٹل پر بم برسانے لگے۔ اسی دوران چھاتہ بردار فوج کے  کمانڈودستے بھی ہوٹل کے پاس اترنے لگے۔

مگر ان کو معلوم نہیں تھا کہ محض بیس منٹ قبل ایردوان ایک ہیلی کاپٹر پر دالامان کے ایرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے پائلٹ کو ہیلی کاپٹر کی لائٹس بند کرنے اور نچلی پرواز کرتے ہوئے ریڈار کی پہنچ سے دوررہتے ہوئے  ائیر پورٹ پہنچنے کا حکم دیا۔ اس ہوٹل کے پاس اسپیشل فورسز اور باغی فوجیوں میں جھڑ پ بھی ہوئی۔

اوز ترک کے مطابق فرار سے قبل اسی قبل اسی ہوٹل کے صحن میں ایردوان نے صحافیوں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے اس فوجی بغاوت کی مذمت کی اور عوام کو سڑکوں پر آنے مزاحمت کرنے کی ترغیب دی۔ مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ نشر نہیں ہو پائی۔

لیکن جب وہ تقریباً سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے دالامان کے ایرپورٹ پہنچ کر ایک پرائیوٹ جیٹ میں سوار ہوئے، تو رات 12  بجکر 23 منٹ پر انہوں نے سی این این ترک چینل سے رابطہ کیا، جس نے براہ راست ان کا بیان اور اپیل نشر کی۔ اس کے نشر ہوتے ہی عوام سڑکوں پر امنڈ پڑے۔

پارلیامنٹ اسپیکر نے اسی وقت ہنگامی اجلاس طلب کرکے سبھی ارکین پارلیامنٹ کو ایوان میں پہنچنے کی ہدایت دی۔ٹینکوں نے ترک پارلیامان کے قریب فائرنگ کی اور عمارت کو فضائی حملے میں بھی نشانہ بنایا گیا۔ انقرہ کے مئیر ملیح گوکچیک نے میونسپلٹی کے تمام ٹرکوں، جن میں کچرا اٹھانے والے بھاری بھرکم ٹرک بھی تھے کے ڈرائیوروں کو ہدایت دی کہ ان کو فوجی ہیڈکوارٹر اور بیرکوں کے آس پاس کھڑا کردیں، تاکہ فوجی نقل و حمل میں رکاوٹ ڈالی جاسکے۔ ان کا یہ انوکھا پلان خاصا کار گر ثابت ہوا۔باغیوں کی رفتار سست ہوگئی۔

رات ایک بجے کے آس پاس ایردوان نے سی این این ترک چینل کو فون پر تفصیلی انٹرویو دیا اور عوام سے اپیل کی کہ کرفیو کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر اوراستنبول کے اتا ترک ایئر پورٹ پر جمع ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ و ہ جلد ہی استنبول ایر پورٹ پہنچ رہے ہیں۔

ایردوان کا طیارہ دالامان ایئرپورٹ سے رات 11 بج کر 47 منٹ پر روانہ ہوا تھا، اور صبح 2 بج کر 50 منٹ پر اتاترک ایئرپورٹ پر اترا۔بتایا جاتا ہے کہ راستے میں اس کو مار گرانے کی کوشش ہوئی تھی، مگر پائلٹ نے ریڈیو پر اپنے آپ کو ترک فضائیہ کے طیارہ کے طور پر شناخت کروائی۔ ایک امریکی ویب سائٹ نے اس طیارہ کے روٹ کی اطلاع اپنی ویب سائٹ پر دی تھی۔جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی ادارے کسی سطح پر اس بغاوت میں شریک تھے۔

رات 11 بجے سے نصف شب تک انقرہ کے مضافاتی علاقے گولباشی میں پولیس اسپیشل فورسز کے ہیڈکوارٹر اور پولیس ایئر فورس ہیڈکوارٹر پر ہیلی کاپٹروں سے بمباری کی گئی۔گولباشی میں واقع تُرک سیٹ کے ہیڈکوارٹر پر بھی حملہ کیا گیا۔

رات 11 بج کر 50 منٹ پر فوجیوں نے استنبول کے مرکز تقسیم اسکوائر پر قبضہ کر لیا۔ رات ایک بجے تک  ایئرپورٹ کے اندر ٹینک موجود  تھے اور وہاں گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ان کا ہدف کسی طرح ایردوان کے طیارے کو اترنے نہیں دینا تھا یا فوراً گرفتار کرنا تھا۔ ایروان کے انٹرویو اور عوام کے اژدھام کے باعث اسی دوران فوج نے ایرپورٹ سے انخلاء شروع کردیا۔

مگر انقرہ میں صبح 3 بجے تک فوج نے پارلیامنٹ کا محاصرہ کیا ہوا تھا اور ایک فوجی ہیلی کاپٹر فائرنگ کر رہا تھا۔ صبح 3 بج کر 12 منٹ پر وزیر اعظم بن علی یلدرم نے اعلان کیا کہ حکومت نے حالات پر قابو پا لیا ہے، انقرہ پر نو فلائی زون نافذ کر دیا گیا ہے اور جو فوجی طیارے اب بھی پرواز کریں گے، انہیں مار گرایا جائے گا۔

ادھر استنبول پہنچنے کے بعد ایردوان نے ایئرپورٹ کے اندر سے ہی ٹی وی پر خطاب کیا، اس وقت لاکھوں افراد ایئرپورٹ کے باہر جمع تھے۔تقریباً 6 بج کر 30 منٹ پروہ ایرپورٹ سے باہر آئے اور کہا کہ ترکیہ میں حکومت اب صرف بیلٹ بکس سے ہی تبدیل ہوسکتی ہے اور فوج ریاست کو نہیں چلا سکتی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک سابق حلیف اور امریکی ریاست پنسلوانیا میں موجود فتح اللہ گولن اور ان کی حز مت یعنی خدمت تحریک پر غیر ملکی شہہ پر اس بغاوت کا الزام لگایا۔

ادھر  استنبول کے تقسیم اسکوائر اور باسفورس پل پر باغی فوجیوں نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔یہ شاید واحد مثال ہوگی، جب فوج پولیس اور عوام کے سامنے بے بس ہو گئی تھی۔ صبح 5 بج کر 18 منٹ تک حکومت نے اتاترک ایئرپورٹ پر مکمل کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔

مگر انقرہ کے فوجی ہیڈ کوارٹر کے اندر صبح  8 بجے تک بھی جھڑپیں ہورہی تھیں۔ وہاں  700  مسلح فوجیوں نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، جبکہ 150 مسلح فوجیوں کو پولیس نے محصور کر دیا۔ یہ اب طے تھا کہ بغاوت کا زور ٹوٹ چکا ہے۔

جنرل حلوصی آقار کی غیر موجودگی میں استنبول میں تعینات فرسٹ آرمی کے سربراہ جنرل امید دوندار کو قائم مقام چیف آف اسٹاف مقرر کیا گیا۔چند گھنٹوں کے اندر ہی آکن جی  ایئر بیس پر یرغمال بنائے گئے چیف آف اسٹاف آقار کو بھی حکومت کے حامی دستوں نے بازیاب کرا لیا۔اس پوری رات کے آپریشن میں 350افراد ہلاک اوردوہزارکے قریب زخمی ہوگئے۔ انقرہ میں صدارتی محل کے پاس ان کی یاد میں بنائے گئے مینار اور اس کے ساتھ ڈیموکریسی میوزیم میں ان کے نام درج ہیں۔

انقرہ میں 15 جولائی کی یادگار

بتایا جاتا ہے کہ بغاوت کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ باغیوں کی صفوں میں انتشار اور افراتفری اور ایردوان کو حاصل عوامی حمایت تھی۔ اس کے علاوہ ترکیہ کی قومی انٹلی جنس ایجنسی (ایم آئی ٹی) کے سربراہ حکان فدان (موجودہ وزیر خارجہ) کو بغاوت کی سن گن مل گئی تھی۔

کئی ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ اس بغاوت کے تانے بانے امریکہ میں بنے گئے تھے، اس لیے روسی خفیہ ایجنسیوں کو اس کی بھنک مل گئی تھی اور انہوں نے اس کو ترک ذرائع کے ساتھ شیئر کر دیا تھا۔

ترک نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کے ساتھ پچھلے تیس سالوں سے وابستہ معروف صحافی فرقان حمید کے مطابق اس اطلاع کے ملنے کے فوراً بعد فدان نے جنرل آقار کو ٹیلی فون کرتے ہوئے فوری طور پر ملنے کی اطلاع دی اور وقت ضائع کیے بغیر مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گئے۔ وہاں بری فوج کے سربراہ جنرل صالح ذکی چولاک بھی موجود تھے۔جنہوں نے آرمی ہی کے چیف آف اسٹاف، جنرل اِحسان اُیار کو ٹیلی فون کرتے ہوئے آرمی ایویشن اسکول جانے اور حالات کا خود جائزہ لینے کے احکامات جاری کیے۔

 حمید کا کہنا ہے کہ فوج کے جتھے جس نے حکومت کا تختہ الٹنے کا پلان تیار کیا تھا میں صدر کے اے ڈی سی کے علاوہ تینوں افواج کے سربراہان کے اے ڈی سی بھی شامل تھے۔ چیف آف جنرل اسٹاف کے آفس میں انٹلی جنس سروس کے سربراہ  کی آمد نے باغیوں میں خطرے کی گھنٹی بجائی، جس پر انہوں نے رات تین بجے حکومت کا تختہ الٹنے کے پلان میں تبدیلی کرتے ہوئے رات دس بجے  ہی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے علاوہ بغاوت کے اہم منتظمین میں سے ایک جنرل سیمیح ترزی کو آغاز پر ہی ایک سارجنٹ میجر عمر خالص دمیر نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔اس واقعے نے باغیوں کی کمان اور ان کے حوصلے کو شدید نقصان پہنچایا اور ان کی کارروائیاں انتشار کا شکار ہو گئیں۔

ان  دونوں واقعات سے بغاوت بے ربط اور غیر مربوط ہوگئی۔ باغیوں نے جن سپاہیوں کو متحرک کیا تھا، وہ مشن کی اصل حقیقت سے ناواقف تھے اور بعد میں بددل ہو گئے۔ان میں سے کئی نے مظاہرین پر فائرنگ کرنے کے بجائے ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دی۔

بتایا جاتا ہے کہ استنبول میں تعینات فرسٹ آرمی کے کمانڈر جنرل امید دوندار نے خود ایردوان کو بغاوت سے خبردار کیا اور قائل کیا  کہ وہ ہوٹل چھوڑ دیں اور ان کو استنبول پہنچانے میں مدد دی۔

خفیہ ایجنسی ایم آئی ٹی نے اپنی اینٹی ایئرکرافٹ توپیں بھی متحرک کر دیں تھیں جن کی موجودگی سے باغی لاعلم تھے، اور یہ باغیوں کے طیاروں اور کمانڈو ٹیموں کے لیے رکاوٹ بن گئیں۔ایک اسپیشل فورسز یونٹ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے صدر کو قتل یا گرفتار کرنے کے لیے بھیجا گیا، مگر وہ بیس منٹ کی دیری سے وہاں پہنچے، تب تک ایردوان وہاں سے نکل چکے تھے۔

مصنف نونہال سنگھ اپنی کتاب سیزنگ پاور: دی اسٹریٹجک لاجک آف ملٹری کوپس میں تحریر کرتے ہیں کہ اس بغاوت کی ناکامی کی ایک اور بڑی وجہ یہ تھی کہ باغی میڈیا پر کنٹرول حاصل نہ کر سکے اور اپنی مرضی کا بیانیہ ترتیب نہ دے سکے۔

کامیاب بغاوتوں میں لازمی ہوتا ہے کہ باغی ذرائع ابلاغ پر مکمل قبضہ حاصل کریں۔اس طرح چھوٹے باغی گروہ بھی خود کو مکمل طور پر فاتح ظاہر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اپنی کامیابی کو ناگزیر بنا کر پیش کرتے ہیں۔یوں وہ عوام، غیر جانبدار اور حتیٰ کہ وفادار فوجیوں کو قائل کر لیتے ہیں کہ وہ باغیوں کی حمایت کریں یا کم از کم مزاحمت نہ کریں۔

اس کے علاوہ باغی ترک سیٹ، جو ترکی کی مرکزی کیبل اور سیٹلائٹ مواصلاتی کمپنی تھی اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک اور موبائل فون کے نیٹ ورک کو کنٹڑول نہیں کرسکے۔ اسی وجہ سے ایردوان کو فیس ٹائم کال کے ذریعے عوام سے خطاب کرنے کا موقع ملا اور وہ ٹی وی پر براہ راست بات کر سکے۔

اوز ترک کے مطابق باغی گروپ نے ان کی نیوز ایجنسی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ رات گئے فیکس آیا کہ موجودہ انتظامیہ کو برخاست کیا گیا ہے اور نئی انتظامیہ نیوز ایجنسی کی دیکھ بھال کرے گی۔ مگر نئی انتظامیہ نے اپنی شکل ہی نہیں دکھائی۔ اس لیے انہوں نے اپنے نیوز آپریشن جاری رکھے اور ایردوان اور دیگر لیڈروں کے بیانات جاری کرتے رہے۔

اس بغاوت میں امریکی ادراوں کے تانے بانے بعد میں ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ نومبر 2017 کے اوائل میں ترک حکام نے ہنری جے بارکی کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا، جو وُڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز کے مشرقِ وسطیٰ پروگرام کے سابق ڈائریکٹر تھے۔

حکام کا کہنا تھا کہ وہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں، اور  بغاوت کے دوران استنبول میں موجود تھے اور اس کے اہم منصوبہ سازوں میں شامل تھے۔

اسی طرح استنبول کے پراسیکیوٹر آفس نے گراہم ای فلر کے خلاف بھی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔جو ایک  امریکی مصنف اور اسلامی انتہا پسندی کے ماہر سیاسی تجزیہ کار ہیں، جنہوں نے سی آئی اے میں طویل مدت تک خدمات انجام دیں اور امریکہ کی نیشنل انٹلی جنس کونسل کے نائب سربراہ کے طور پر بھی کام کیا۔

پراسیکیوٹر آفس کے مطابق فلر نے بغاوت کی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کی۔ ترک حکام کا خیال ہے کہ انہوں نے بغاوت سے پہلے اور بعد میں فلر کی ترکیہ میں موجودگی کا سراغ لگایا تھا۔

ویسے تو مغربی ممالک جمہوریت کے فروغ اور شہری آزاد ی کے نام پر خاصی رقوم خرچ کرتی ہیں اور مختلف ممالک میں ان تحریکوں کی پشت پناہی بھی کرتی ہیں، مگر جب یہ جمہوریت ان کے اقدار سے زیادہ ان کے مفاد  پر پوری نہیں اترتی ہے تو جمہوری حکومتوں کو اقتدار سے باہر کرنے کی سازشیں کرکے آمروں کو تخت پر بٹھانے میں مدد کردیتی ہیں۔

 عدنان مندرس نے  پہلی بار کثیر جماعتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے 1950 سے 1960 تک  ترکیہ کے وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔21 مئی 1960 کو تقریباً ایک ہزار افراد، جن میں ملٹری اکیڈمی کے طلبا اور افسران شامل تھے، نے حکومت کے خلاف انقرہ میں خاموش مارچ کیا، جس کی بنا پر ان کو معزول کر دیا گیا اور پھر 17 ستمبر 1961 کو 62برس کی عمر میں ان کو امرالی جزیرے پر پھانسی دی گئی۔اس کا نام بدل کر اب ڈیموکریسی جزیرہ رکھا گیا ہے۔

ان کا قصور تھا کہ اس نے شخصی آزادیاں  بحال کرکے  مساجد اور دینی مدارس دوبارہ کھولنے کے احکامات دئے تھے، قانون سازی کرکے اذان، عربی میں دینے کی اجازت دی تھی۔

سال  1950 کے انتخابات میں عدنان بیگ کی ڈیموکریٹ پارٹی نے نعرہ دیا تھا؛ ”بس! اب عوام کی آواز سنی جائے!“اور اب وہ اس نعرے کوعملی جامہ پہنانے نکلے تھے۔

انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے چند ہفتوں میں ہی تمام سیاسی قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا تھا۔پابندیوں کے خاتمے کے نتیجے میں ایک ایسا آزاد پریس وجود میں آگیا تھا، جو ٹائم میگزین کے الفاظ میں”طوروس کی پہاڑیوں سے آنے والی ہوا کی طرح آزاد“ تھا۔ ان سبھی اقدامات کو سخت گیر سیکولرازم کے لیے انتہائی خطرہ قرار دیا گیا۔

اسی طرح ہمسایہ ملک ایران میں 1953 میں مقبول لیڈر محمد مصدق کی حکومت کو ایک بغاوت کے ذریعے برطرف کر دیا گیا، جس میں برطانیہ کی خفیہ ایجنسی (ایم آئی 6) اور امریکہ کی سی آئی اے کا کردار تھا۔مصدق پر بعد میں غداری کا مقدمہ چلایا گیا، انہیں تین برس کے لیے قید کی سزا دی گئی، اور پھر وہ اپنی وفات تک نظر بند رہے۔انہیں ان کے اپنے گھر میں ہی دفنایا گیا۔

خیر ترکیہ میں اس بغاوت کی ناکامی کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں، جن میں کم از کم 40,000 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ان میں 10,000 سے زائد فوجی اور 2,745 جج شامل تھے۔15,000 تعلیمی شعبے کے ملازمین کو بھی معطل کر دیا گیا۔21,000 نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے لائسنس منسوخ کر دیے گئے کیونکہ حکومت نے دعویٰ کیا کہ وہ گولن کے وفادار تھے۔

تقریباً 160,000 سے زائد افراد کو ان کی نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا کیونکہ ان پر گولن سے روابط کا الزام تھا۔اس بغاوت کے بعد بتدریج حکومتی معاملات میں فوجی مداخلت ختم کر دی گئی۔ آئینی عدالت میں جہاں فوجی جنرل کی بھی نشست ہوتی تھی، کو ختم کردیا گیا۔جس کی وجہ سے ترکیہ کی تاریخ میں اتا ترک کے بعد شاید ایردوان ہی واحد ایسے سویلین حکمران رہے ہوں گے، جنہوں نے طاقت کے سبھی اداروں اور مراکز پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔