حال ہی میں ہریانہ میں پریکٹس کے دوران باسکٹ بال کا پول گرنے سے دو باصلاحیت نوجوان کھلاڑیوں کی جان چلی گئی۔ ریاست کے محکمہ کھیل نے کچھ عہدیداروں کو معطل تو کیا، لیکن خود کو کلین چٹ دیتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ جہاں حادثہ ہوا، اس کا ذمہ محکمہ کے پاس نہیں تھا ۔ سوگوار خاندانوں کا کہنا ہے کہ بھلے ‘عالمی معیار کی’ سہولیات میسر نہ ہوں، لیکن انہیں کم از کم اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کوئی بچہ کھیلتے ہوئے اپنی جان نہ گنوا بیٹھے۔

(بالکل دائیں) امن کی والدہ، ہاردک راٹھی اور امن کوملے تمغے اور ایوارڈ۔ (فوٹو: سونیا یادو اور شروتی شرما/ دی وائر )
بہادر گڑھ، روہتک: قومی اور بین الاقوامی میدانوں میں سب سے زیادہ تمغہ جیتنے والے کھلاڑی پیدا کرنے والی ریاست ہریانہ میں گزشتہ دنوں کھیلوں کی بنیادی سہولیات کی خستہ حالی نے دو نوجوان کھلاڑیوں کی جان لے لی۔ روہتک کے 16 سالہ ہاردک راٹھی اور بہادر گڑھ کے 15 سالہ امن کی موت اس نظام کی غفلت کے نتیجے میں ہوئی جو کھلاڑیوں کو محفوظ اور مؤثر تربیتی ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہا۔
امریکی باسکٹ بال کھلاڑی لیبرون اور برونی جیمز کی طرح ہی ایک دن باسکٹ بال کی دنیا میں اپنا نام بنانے کی چاہت رکھنے والے روہتک کے ہاردک کی 25 نومبر کو موت ہو گئی۔
ہاردک قومی سطح کے کھلاڑی تھے اور انہوں نے متعدد تمغے جیتے تھے۔ ان کے والد کے مطابق، ہاردک کو باسکٹ بال سب سے زیادہ پسند تھا۔ وہ اس کھیل کو ہی اپنی زندگی سمجھتے تھے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہاردک کی موت اسی خستہ حال باسکٹ بال کے کھمبے کی وجہ سے ہوئی جس نے انہیں زندگی میں ہمیشہ اونچی اڑان کی ترغیب دی۔
ہریانہ کا گاؤں لاکھن ماجرا، جہاں سے یوں تو کئی سالوں سے باسکٹ بال اور کبڈی کے کھلاڑی قومی سطح پر اپنا نام درج کرواتے رہے ہیں، لیکن یہ گاؤں سرخیوں میں اس وقت آیا، جب یہاں کے یوتھ اسپورٹس کلب میں باسکٹ بال کا کھمبا گرنے سے ہاردک کی موت ہوگئی۔
ہاردک کے کوچ موہت راٹھی نے دی وائر کو بتایا کہ یہ کھیل کا میدان پنچایت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، لیکن کئی سالوں سے اس کی دیکھ بھال کا کوئی کام نہیں کیا گیا ہے۔ گاؤں والے ہی اکثر چندہ اکٹھا کرتے ہیں اور معمولی مرمت بھی کرواتے ہیں، لیکن انتظامیہ سے بار بار مدد کی درخواست کے باوجود صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

ہاردک کے کوچ موہت راٹھی۔ (تصویر: سونیا یادو/دی وائر)
کوچ ہاردک کے ساتھ ہوئے حادثے کے دن کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں،’قریب دس ساڑھے دس بجے ہاردک معمول کے مطابق پریکٹس کے لیے گراؤنڈ پر آیا تھا۔ باقی تمام بچے اپنے وارم- اپ کی تیاری کر رہے تھے۔وہیں ہاردک کورٹ پر اکیلا کھیل رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیرمیں پول اس پر گرگیا، جس سے وہ بے ہوش ہو گیا۔ اسے اسپتال لے جایا گیا، لیکن وہ زندگی کی جنگ ہار گیا۔’
کوچ کے مطابق، باسکٹ بال کے یہ پول سال 2008-2009 کے دوران لگائے گئے تھے ،لیکن اس کے بعد ان کی کوئی دیکھ بھال نہیں کی گئی۔
یہ پول، جو اب حادثے کے بعد الگ ہٹا کر رکھ دیے گئے ہیں، جگہ جگہ زنگ آلود اور خستہ حال ہیں۔ اس کی کہانی تصویروں میں صاف بیاں ہوتی ہے۔

یوتھ اسپورٹس کلب کا باسکٹ بال کورٹ، جہاں ہاردک کے ساتھ حادثہ پیش آیا۔ (تصویر: سونیا یادو/دی وائر)
ادھر، گراؤنڈ اور کھلاڑی کی موت کو لے کر سیاست اپنے عروج پر ہے۔ سیاستدان مسلسل دورہ کر رہے ہیں۔ ریاست کے محکمہ کھیل نے کچھ اہلکاروں کو معطل توکر دیا ہے، لیکن اس نے خود کو اس معاملے میں کلین چٹ بھی دے دی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ وہ اس جگہ کے لیے ذمہ دار نہیں ہے جہاں حادثہ ہوا ہے۔
حکمران اور اپوزیشن جماعتیں ممبر آف پارلیامنٹ لوکل ایریا ڈیولپمنٹ اسکیم (ایم پی ایل اے ڈی فنڈز)، دیکھ بھال کی ذمہ داری اور بنیادی ڈھانچے کے بجٹ کو لے کر ایک دوسرے پر الزام لگا رہی ہیں۔
کوچ سمیت وہاں موجود کئی لوگوں نے بتایا کہ روہتک کے ایم پی دیپیندر ہڈا نے اس جگہ کے لیے کروڑوں کی رقم منظور کی ، لیکن اس کے باوجود کوئی کام نہیں ہوا۔ جب بھی مقامی لوگوں نے اس بارے میں انتظامیہ سے شکایت کی تو انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
نوجوانوں نے کہا- کھیلنے کی کوئی سہولت نہیں ہے
دی وائر نے اس میدان پر کھیلنے والے کچھ نوجوانوں سے بات کی، جنہوں نے بتایاکہ یہاں کھیلنے کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ باہر جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جبکہ اندر گرد آلود اور ٹوٹے پھوٹے ٹریک ہیں۔ پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہے۔ بچے اپنا پانی خود لاتے ہیں، گیند خریدنے کے لیے پیسے جمع کرتے ہیں، اور اپنی کٹ خود تیار کرتے ہیں۔ کوچ اور گاؤں والے اپنے پیسے سے جتنا کر پاتے ہیں ، اتنا ہی ہو پاتا ہے۔

یوتھ اسپورٹس کلب کا گیٹ۔ (تصویر: سونیا یادو/دی وائر)
اس کھیل کے میدان کا سکیورٹی سسٹم بھی خدا کے رحم و کرم پر ہے۔ کبڈی کے کئی کھلاڑیوں نے بتایا کہ یہاں آوارہ کتے گھومتے ہیں اور کئی بچوں کو کاٹ چکے ہیں۔ اندھیرا ہوتے ہی منشیات کے عادی اور شرابی اسے اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں۔ لائٹس کبھی کام کرتی ہیں، کبھی بند ہو جاتی ہیں۔ کچھ کیمرے نصب ہیں، لیکن وہ سکیورٹی میں زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوتے۔
تاہم، ان سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ہی ہاردک کی موت کی حقیقت دنیا کے سامنے آئی۔ ورنہ روہتک سے صرف 41 کلومیٹر کے فاصلے پرامن کے ساتھ بھی دو دن پہلے بھی اسی طرح حادثہ پیش آیا تھا، لیکن اس کی خبر نہ کے برابر ہی لوگوں کے کان تک پہنچی تھی۔
ہاردک کے کوچ موہت کہتے ہیں،’اگر ہمیں امن کی موت کے بارے میں پہلے پتہ چل گیا ہوتا تو شاید ہاردک کے ساتھ ایسا نہ ہوتا۔ ہم زیادہ چوکس رہتے اور اپنے تمام پول کی جانچ کروا لیتے۔’
یہ ستم ظریفی ہے کہ کھیلوں میں سب سے آگے رہنے والے ہریانہ میں مقامی ضلعی سطح کے کھیل کے میدان بنیادی ڈھانچے کی کمی کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہاں میڈل ملنے پر نقد انعامات، سرکاری نوکری اور شاباشی کی گونج تو سب کو سنائی پڑتا ہے،لیکن زنگ آلود کھمبوں، ٹوٹے پھوٹے ٹریک اور بانس کے عارضی کھمبوں پر شاید ہی کسی کی نظر جاتی ہے۔
‘امن کی دنیا اس کے کھیل کے گرد ہی گھومتی تھی‘
امن ، جو دسویں جماعت کے طالبعلم تھے اوربہادر گڑھ کے شہید بریگیڈیئر ہوشیار سنگھ اسٹیڈیم میں باسکٹ بال کی پریکٹس کے لیے روزانہ جایا کرتے تھے، 23 نومبر کو پریکٹس کے دوران پول گرنے سے شدید زخمی ہوگئے۔ سول اسپتال اور پھر روہتک پی جی آئی میں علاج کے دوران ان کی موت ہوگئی۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے ان کی ماں کانتا دیوی نےبتایاکہ امن ہمیشہ جیتنے کی باتیں کرتا تھا۔ اس کی دنیا اس کے کھیل کے گرد گھومتی تھی۔ گھر میں تہوار ہو یا شادی، اس کو کھیل کے آگے کچھ نظرنہیں آتا تھا۔
کانتا دیوی آگے بتاتی ہیں،’امن کو کھیلوں سے بہت پیار تھا۔ اس نے کبھی بھی دوسرے بچوں کی طرح اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ اس نے اسکول میں بہت سے تمغے جیتے، لیکن جب بھی اس نے چاندی کا تمغہ جیتا تو وہ ہمیں گھر پر نہیں لگانے دیتا کیونکہ وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ وہ گولڈ لے کر آئے گا۔’

امن کی ماں کانتا دیوی۔ (تصویر: سونیا یادو/دی وائر)
امن کے والد سریش کماردہلی میں ڈی آر ڈی او کے دفتر میں ایک کنٹریکٹ ملازم کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ حادثے کے دن کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ ابھی تک اپنے بیٹے کو کھونے کے صدمے میں ہے۔ انہیں لگتاہے کہ ان کے بیٹے کی موت نہیں ہوئی بلکہ انتظامیہ کی لاپرواہی نے اس کا قتل کر دیا۔
سریش کمارکہتے ہیں،’23 تاریخ کو اتوار کا دن تھا۔ لڑکا دوپہر 2 بجے کے قریب کھیلنے کے لیے نکلا تھا، گھر میں ایک فیملی فنکشن تھا، اس لیے سب نے اسے منع کیا، لیکن اس پر کھیلنے کا جنون تھا اوروہ پریکٹس کا ایک دن بھی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد اس کے ایک دوست کا فون آیا، جس سے امن کےزخمی ہونے کی جانکاری ملی۔’
وہ مزید بتاتے ہیں، ‘امن کو پہلے بہادر گڑھ کے سول اسپتال اور پھر روہتک کے پی جی آئی لے جایا گیا۔ بہادر گڑھ سے روہتک کے سفر میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔ اس دوران امن کو تکلیف تھی، لیکن وہ مکمل طور پر ہوش میں تھا اور بول رہا تھا۔ اس کو کوئی بیرونی چوٹ نہیں آئی تھی۔ تاہم، پی جی آئی پہنچنے کے بعد گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ علاج کے بغیر رکھا گیا، جس کے بعد اس کی حالت زیادہ خراب ہو گئی اور آخر میں اس نے دم توڑ دیا۔’
مزید تفصیلات بتاتے ہوئے امن کے چچا کے بیٹے روہت کا کہنا ہے کہ ‘جیسے ہی ہم روہتک پی جی آئی پہنچے، ہم نے کئی بار ڈاکٹر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ انہیں بتایا کہ میرے بھائی کی حالت تشویشناک ہے، لیکن ٹراما سینٹر کے ڈاکٹروں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ ہم نے بار بار مدد کی التجا کی، لیکن ہمارے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا، اور آخرکار علاج میں لا پرواہی کی وجہ سے امن کی جان چلی گئی ۔’
روہت کا الزام ہے کہ ڈاکٹر کے خلاف بولنے اور علاج میں تاخیر پر ناراضگی ظاہر کرنے کے بعد اسپتال نے انہیں سمجھوتے کے لیے رجوع کیا۔ انہیں ایک وہاٹس ایپ کال پر بتایا گیا کہ وہ اس معاملے کو مزید آگے نہ بڑھائیں اور اسے آمنے سامنے بیٹھ کرحل کرلیں۔
دی وائر نے اس سلسلے میں روہتک پی جی آئی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ سوالات انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور سپرنٹنڈنٹ کو ای میل کے ذریعے بھیجے گئے ہیں۔ خبر لکھے جانے تک ہمیں کوئی جواب نہیں ملا ہے۔جواب موصول ہونے پر اس خبر کواپڈیٹ کیا جائے گا۔
روہت نے امن کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے صفحے پر ‘میل’ کی جگہ ‘فی میل ‘ لکھا گیا ہے، اس کی عمر 15 کے بجائے 25 لکھی گئی ہے، اور اسپتال میں داخلے کا وقت 00:00، یعنی رات کے 12:00 بجےدرج کیا گیا ہے، جو کہ غلط ہے۔
روہت نے سسٹم کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے 2022 میں پیش آئے ایک اور واقعے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ تقریباً تین سال قبل 2022 میں اسی شہید بریگیڈیئر ہوشیار سنگھ اسٹیڈیم میں باسکٹ بال کھیلتے ہوئے ایک بچہ زخمی ہو چکا ہے اور وہ پوری طرح سے صحت یاب نہیں ہوا ہے۔
امن کا پورا خاندان چاہتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ اپنی غلطیوں کو سدھارے ۔ بچوں کے کھیل کے میدان کی مرمت کی جائے اور اسے بہتر سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ کسی اور بچے کے ساتھ ایسا نہ ہو۔

روہتک میں یوتھ اسپورٹس کلب اور بہادر گڑھ کے شہید بریگیڈیئر ہوشیار سنگھ اسٹیڈیم کی تصویر۔ (تصویر: سونیا یادو/دی وائر)
اسٹیڈیم میں کھیل کی کوئی سہولت نہیں
دی وائر نے اسٹیڈیم کا بھی دورہ کیا، جہاں امن کے اوپر باسکٹ بال کا پول گرا تھا۔ یہ کھیل کا میدان گورنمنٹ ماڈل سنسکرت سینئر سیکنڈری اسکول کے بالکل سامنے واقع ہے جو 1928 میں قائم کیا گیا تھا۔
اسٹیڈیم میں موجود لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ اسکول کا میدان ہے، جہاں سے کوئی بھی شخص کسی بھی وقت آ جا سکتا ہے۔ داخلے اور باہر نکلنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لوگوں کے مطابق، یہاں سرکاری طور پر صرف ایک ریسلنگ کوچ تعینات ہے، باقی کوچ غیر رسمی طور پر کھلاڑیوں کو ٹریننگ دیتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر بچے بغیر کوچ کے ہی کھیلتے ہیں۔

تصویر: سونیا یادو/دی وائر
یوتھ کانگریس نے اسٹیڈیم میں باسکٹ بال کورٹ اور اس کے آس پاس کچھ ‘امر ہے امن’ کے پوسٹر لگائے ہیں۔ بچے اب بھی وہاں کھیل رہے ہیں۔ تاہم اب کرکٹ باسکٹ بال کورٹ پر کھیلی جا رہی ہے۔

تصویر: سونیا یادو/دی وائر
اس اسکول کے ایک سابق طالبعلم اور ہریانہ کے ایک ریٹائرڈ سرکاری اہلکار دلجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ اکثر گھومنے پھرنے یا دھوپ لینے کے لیے اسٹیڈیم جاتے ہیں۔ وہ اس جگہ کو بھگت سنگھ، مانگےرام وتس اور آزاد ہند فوج کے کپتان چودھری کنول سنگھ دلال کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
ان کے مطابق،’اس جگہ کی بہت اہم تاریخ ہے۔ کپتان کنول سنگھ دلال نے یہاں رات میں پڑھائی کے لیے ایک نائٹ کالج کھولا تھا۔ بھگت سنگھ اور دیگر مجاہد آزادی اکثر برطانوی راج سے چھپنے کے لیے یہاں پناہ لیتے تھے۔ لیکن آزادی کے بعد اسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ۔’
ان کا کہنا ہے کہ یہ کئی دہائیوں سے اسی خستہ حالی میں پڑا ہے۔ یہاں کچھ نہیں ہوتا سوائے دیواروں کے پینٹ کرنے کے۔ کچھ سماجی کارکن اپنی خواہش کے مطابق یہاں کچھ کام کروانے کا بندوبست کرتے ہیں۔ کبھی ورزش کے لیے، کبھی کھیلوں کے لیے، اپنے بجٹ کے لحاظ سے۔ لیکن محکمہ تعلیم کے ماتحت آنے والی انتظامیہ کچھ نہیں کرتی۔
یہاں والی بال کھیلنے والے کچھ بچوں کا کہنا ہے کہ اس حادثے کے بعد اسکول نے تمام کھمبے ہٹا دیے۔ اس لیے اب ان بچوں کو لکڑی اور بانس کےجگاڑ سے کام چلانا پڑ رہاہے۔

تصویر: سونیا یادو/دی وائر
اسکول کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس واقعے کے بعد اسکول میں موجود ہر شخص پریشان ہے۔ واقعے کے دن زیادہ ہنگامہ نہیں ہوا۔ جب بچے کو لے جایا گیا تو لگتا تھا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے، شاید اندرونی چوٹ زیادہ سنگین لگی ہو۔ تاہم روہتک واقعہ کے بعد یہاں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ تمام میڈیا والے آنے لگے، اور یہ واقعہ روزانہ ٹی وی پر دکھایا جانے لگا۔
ملازم مزید بتاتے ہیں،’اسکول کے پرنسپل نے اب کسی سے بھی ملنے سے انکار کر دیا ہے، میڈیا سے کوئی آتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت موجود نہیں ہیں، ہم کیا کر سکتے ہیں، اس میں ان کا قصور بھی نہیں ہے۔ اگر حکومت رقم فراہم نہیں کرے گی تو کام کیسے ہو گا؟’
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسکول نے یہ باسکٹ بال کا پول لگوایا ہے توانہوں نے کچھ نہیں بولا اور آگے بڑھ گئے۔
اس دوران قریب کھڑی ایک خاتون جن کے بچے کا اسکول میں امتحان تھا، کہتی ہیں ،’ساری لڑائی اسی کو لے کر ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ اسکول نے پول نہیں لگوایا،وہ غیر قانونی ہے۔ لیکن اگر اسکول نے نہیں لگوایا، تو جس نے بھی لگوایا، اسے روکا کیوں نہیں گیا؟’
مقامی ایم ایل اے راجیش جون نے دی وائر کو بتایا کہ حکومت متاثرہ خاندان کے ساتھ کھڑی ہے اور ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔ کیس کی تفتیش جاری ہے اور کھیلوں کے لیے بہتر سہولیات فراہم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
تاہم ایم ایل اے کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو ہونا ہے اسے کون روک سکتا ہے؟ انہوں نے اس واقعہ کو سڑک حادثہ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ سڑک اور ڈرائیور کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، جب حادثہ ہونا ہوتا ہے تو ہو ہی جاتا ہے۔
دیواروں پر میڈل اور خالی مکان
غور طلب ہے کہ ہاردک اور امن دونوں کی کہانیاں تقریباً ایک جیسی ہیں۔ ان کے خالی گھروں میں ان کے تمغے اور انعام میں ملی ٹرافیاں ان کے اہل خانہ کو ہر لمحہ ان کی غیر موجودگی کی یاد دلا رہی ہیں۔

ہاردک کے تمغے اور ٹرافی۔ (تصویر: سونیا یادو/دی وائر)
دونوں بچوں کے اہل خانہ نے حکومت اور انتظامیہ کی عدم توجہی پر احتجاج کے لیے پولیس سے بھی رجوع کیا ہے۔ اگرچہ ہاردک کے والد کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے، لیکن امن کے خاندان کو یہاں بھی مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔
ان کی شکات کا تھانے میں کیا ہوا، اس کی جانکاری تک کوئی انہیں نہیں دے رہا، کیونکہ معاملہ کس محکمے کا ہے اور سٹیڈیم کس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، سب اسی میں الجھےہوئے ہیں۔

امن کے میڈل اور سرٹیفکیٹ۔ (تصویر: سونیا یادو/دی وائر)
ہریانہ کے کئی مقامی نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسٹیڈیم کی خستہ حالت نہ صرف ان جگہوں پر ہے جہاں یہ دونوں حادثات ہوئے ہیں بلکہ ریاست کے کئی اضلاع کے کھیلوں کے میدانوں کی بھی یہی تصویر ہے۔
یہاں کے نوجوان کھلاڑیوں کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ انہیں اسکول اور پنچایت کی سطح پر کھیلوں کے لیے بہتر سہولیات ملنی چاہیے، جس میں فلیٹ گراؤنڈ، مناسب رننگ ٹریک، تمام کھیلوں کے لیے بنیادی کورٹ، پانی اور بیت الخلا کی سہولیات اور ایک ایسا کوچ جو باقاعدگی سے میدان میں موجود ہو۔
غور طلب ہے کہ ہریانہ ملک بھر میں کھیلوں میں سب سے آگے ہے۔ یہاں کے زیادہ تر گھروں سے ایسے کھلاڑی نکلتے ہیں جنہوں نے قومی کھیلوں سے لے کر اولمپکس تک مختلف مقابلوں میں اعزاز حاصل کیے ہیں۔ ان دونوں واقعات نے ایک بار پھر ہریانہ میں کھیلوں کی بنیادی سہولیات کے فقدان کو نمایاں کر دیا ہے۔
دی وائر نے اس معاملے سے متعلق سوالات روہتک کے اسپورٹس ڈویژن کی ڈپٹی ڈائریکٹر سنیتا کھتری اور ہریانہ حکومت کے محکمہ کھیل کے کمشنر اور سکریٹری وجئے سنگھ دہیا کو بھیجے ہیں، لیکن رپورٹ کی اشاعت کے وقت تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ اگر کوئی جواب موصول ہوا تو اسےرپورٹ میں شامل کیا جائے گا۔
ذمہ داری کس کی؟
کانگریس کے رکن پارلیامنٹ دیپندر ہڈا نے کہا کہ کھیلوں کی پالیسی میں آئی گراوٹ بھارتیہ جنتا پارٹی کی’مکمل عدم توجہی’ کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے ہاردک اور امن کے اہل خانہ کے لیے ایک کروڑ روپے کا معاوضہ اور سرکاری ملازمت کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے حکومت نے نئے اسٹیڈیم کی تعمیر روک دی ہے اور ورثے میں ملے اسٹیڈیم کو بھی برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ ہڈا نے اس عدم توجہی کے ثبوت کے طور پر کھیلو انڈیا کے لیے مختص کی گئی رقم کا بھی حوالہ دیا۔
انہوں نے کہا، ‘میڈل جیتنے والی ریاستوں کو سب سے کم رقم ملتی ہے۔ جو ریاستیں کوئی تمغہ نہیں جیتتی ہیں انہیں کروڑوں روپے ملتے ہیں۔’
انہوں نے نشاندہی کی کہ ہریانہ کو کھیلو انڈیا انفراسٹرکچر فنڈ کے تحت صرف 66.59 کروڑ روپے ملے، جبکہ گجرات کو 426.13 کروڑ ملے۔ ہریانہ کے پاس کھیلو انڈیا کے 117 تمغے ہیں، جبکہ گجرات کے پاس صرف 13 ہیں۔
تاہم، وزیر کھیل نے اس کے جواب میں گزشتہ چند سالوں میں نقد انعامات اور کھیلوں کی نرسریوں میں مسلسل اضافے کا حوالہ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف پچھلے مہینے پی ڈبلیو ڈی کو مرمت کے لیے 114 کروڑ روپے منتقل کیے گئے تھے، اور حکام کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ریاست بھر کے تمام اسٹیڈیم کا نقشہ بنائیں اور ان کی درجہ بندی کریں۔
تاہم، ہاردک اور امن کے خاندانوں کے لیے یہ سیاسی کشمکش اب کوئی اہمیت نہیں رکھتی، کیونکہ وہ اپنے بچے کھو چکے ہیں۔ دونوں خاندانوں کا کہنا ہے کہ کوئی کچھ نہیں کرے گا، یہ صرف دو چار دن کی فیئر اینڈ بلیم گیم ہے اور آخر کار سب کچھ پرسکون ہو جائے گا اور لاپرواہی دوبارہ شروع ہو جائے گی۔
یہ خاندان حکومت سے اپنے بچوں کے لیے ‘عالمی معیار کی’ سہولیات نہیں چاہتے، وہ صرف یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کی بنیادی ضروریات پوری ہوں تاکہ کم از کم کوئی بچہ کھیلتے ہوئے اپنی جان نہ گنوا بیٹھے۔