نتیش کمار کی بدتمیزی اور بے حیائی کے دفاع میں دلائل پیش کیے جا رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کو خواتین مخالف یا مسلم مخالف نہیں کہا جا سکتا کیونکہ انہوں نے دونوں کے حق میں بہت کام کیے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ نے کسی طرح میری مدد کی ہے تو میں آپ کو اپنے ساتھ بدتمیزی کرنے کا حق دے دوں؟

‘آپ مسلمانوں کے خیر خواہ ہونے کے نام پر کسی مسلمان عورت کے شخصی وقار کو مجروح نہیں کر سکتے۔’اسکرین گریب بہ شکریہ: ایکس/آر جے ڈی
گزشتہ ہفتے لاکھوں لوگوں نے ایک ویڈیو دیکھا، جس میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ایک سرکاری تقریب میں اپنے سامنے کھڑی خاتون کا حجاب کھینچتے ہوئےنظر آئے۔ یہ سرکاری اسکیم آیوش کے تحت ڈاکٹروں کو تقرری کا خط تقسیم کرنے کا ایک پروگرام تھا۔ وہ خاتون دوسروں کے ساتھ نوکری کا اپنا کاغذ لینے آئی تھی۔
آج کل، سرکاری نوکری ملنا ایک واقعہ ہے، انتہائی غیر معمولی واقعہ؛ یہی وجہ ہے کہ اس کےاعلان کےلیے باقاعدہ پروگرام کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جنہیں نوکری ملتی ہے ، وہ قطار میں کھڑے ہوکر وزرائے اعلیٰ یا وزیر اعظم سے تقرری کاخط حاصل کرتے ہیں،گویا وہ کوئی ان کا ‘پرساد’ ہو۔ اب وہ نوکری دیتے ہیں ، راشن دیتے ہیں۔ یہ بذات خود ذلت آمیز ہے، لیکن اب کوئی اس پر بات ہی نہیں کرتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں شخصی وقار کے تصور کو دھندلا کر دیا گیا ہے۔ حکمراں تو اس کوکچل ہی رہے ہیں، معاشرہ بھی عزت نفس سے محروم ہو چکا ہے۔ حکمراں کو باپ یا ماں تصور کیا جانے لگا ہے۔ عوام اس کی اولاد ہو گئی ہے۔ ہندوستانی والدین اپنے بچوں کے ساتھ من مانی سلوک کرنے کے عادی رہے ہیں۔ بچے کو زبردستی گلے لگالینا، گود لے لینا، اس کی مرضی کے بغیر اسے چومنا، یہ سب ہماری معاشرتی خصلت ہے۔
بچے کی اپنی مرضی ہے، خود مختاری ہےاور شخصی وقار ہے، یہ کہتے ہی لوگ حیرانی سے آپ کو گھورنے لگیں گے۔ بیٹی یا بیٹا اپنی مرضی کی زندگی کا انتخاب کریں، یہ انہیں منظور نہیں اور وہ اس جرم کے لیے انہیں قتل بھی کروا سکتے ہیں۔
حاکم مائی-باپ ہے، اس لیے وہ اپنی رعایا کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کر سکتا ہے۔ جو لوگ باپ کی شفقت چاہتے ہیں انہیں اپنے باپ کے غصے یا اس کی بدتمیزی بھی برداشت کرنی چاہیے ۔
نتیش کمار خاتون کےچہرے سے نقاب کھینچتے ہوئےمسکرا رہے ہیں۔ پاس کھڑے عہدیدار یا رہنما بھی مسکرا رہے ہیں۔ خاتون حیران و پریشان ہے۔خبر ہے کہ وہ نتیش کمار کی اس حرکت سے اس قدر صدمے میں ہیں کہ بہار میں اس نوکری کے خیال پر نظر ثانی کر رہی ہیں۔ نتیش کمار نے ابھی تک اس پر کوئی افسوس ظاہر نہیں کیا ہے، معافی مانگنا تو دور کی بات ہے۔ ان کی حکومت اور پارٹی کے ترجمان اس حرکت کو ہوا میں اڑا دینے کی کوشش کر رہے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ نتیش بزرگ ہیں اور وہ صرف چاہتے تھےکہ عورت کا چہرہ صاف نظر آئے۔
لیکن یہی توبات ہے۔ وہ عورت انہیں اپنا چہرہ نہیں دکھانا چاہتی تھی۔ ورنہ وہ نقاب کیوں پہنتی؟ کیا وزیراعلیٰ کو کسی کا چہرہ اس کی مرضی کے خلاف دیکھنے اور اور دکھانے کا حق حاصل ہے؟ یاکیا انہیں اس طرح کسی کو پریشان کرنے کا حق ہے؟
اس سے پہلے کہ ہم اس واقعے پر مزید بات کریں، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ نتیش کمار کی بدتمیزی اور بے حیائی کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی خواتین کے ساتھ اسٹیج پرنازیبا سلوک کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ ایک پولیس افسر نے بتایا کہ اب نتیش کے گرد ایک گھیرا رکھا جاتاہے کیونکہ وہ کب کس کے ساتھ کون سی جسمانی حرکت کر بیٹھیں گے،نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا اپنے اوپر قابو نہیں رہ گیا ہے۔ اس لیے ان کی اس حرکت کو بھی ان کی صحت کے پیش نظر معاف کر دینا چاہیے۔
معافی کی بات دوسری ہے، بہار کے لوگوں کو فکر مند ہونا چاہیے کہ ان کا وزیر اعلیٰ ایک ایسا آدمی ہے جو ذہنی طور پر غیر مستحکم ہےاور اس کے اعصاب اس کے قابو میں نہیں ہیں۔ ایسے شخص کو پوری ریاست کے لیے پالیسی بنانے اور نافذ کرنے کی ذمہ داری کیسے سونپی جا سکتی ہے؟
کیا نتیش کمار کے ذہنی توازن کے بارے میں بہار کے لوگوں صحیح جانکاری دی گئی تھی؟ کیا اس کی جانکاری کے باوجود ان کے ووٹر نے انہیں ووٹ دیا؟ یہ ہماری جمہوریت کی صحت کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
نتیش کمار کی صحت توخراب ہے اور اس کے لیے ان کے ساتھ ہمدردی رکھی جا سکتی ہے۔ ان کا علاج چلنا چاہیے اورانہیں اس طرح کی کسی بھی عوامی ذمہ داری سے دور رکھنا چاہیے۔ لیکن خراب صحت کسی کے شخصی وقار کو پامال یا مجروح کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہو سکتا۔
اس واقعے کے بعدسامنے آئے ردعمل سے ہمارے معاشرے کی ذہنی صحت کا بھی کچھ پتہ چلتا ہے۔ نتیش کمار کی پارٹی کے لوگوں میں سے کسی نے افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ انہوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ ان کا دماغ اب کام نہیں کر رہا ہے اور انہوں نے جو کیا وہ ہوش و حواس میں نہیں کیا، اس لیے انہیں معاف کر دینا چاہیے۔ اس کے بجائے، وہ وزیر اعلیٰ کی بدتمیزی کے دفاع میں دلائل پیش کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کو خواتین مخالف یا مسلم مخالف نہیں کہا جا سکتا کیونکہ انہوں نے دونوں کے حق میں بہت کام کیے ہیں۔
اگر آپ نے میری کوئی مدد کی ہے تو کیا میں آپ کواپنے ساتھ بدتمیزی کرنے کا حق دے دوں؟ دوسری بات، وہ خاتون ایک آزاد، ایک الگ شخصیت ہے، اس کا جسم اس کا جسم ہے۔ آپ مسلمانوں کے خیر خواہ ہونے کے نام پر کسی مسلمان عورت کی انفرادیت کو پامال نہیں کر سکتے۔
نتیش کمار کی حلیف بھارتیہ جنتا پارٹی اور نہ ہی کسی وزیر نے وزیر اعلیٰ کی سرعام بے حیائی پر کسی طرح سے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اب تک ہم نے اس حرکت پر تنقید کرتے ہوئے کسی ایک اخبار کا اداریہ نہیں پڑھا۔
لیکن سوشل میڈیا پر نظر آ رہا ہے کہ ہندو ہونے کا دعویٰ کرنے والے بہت سے لوگ اس کو بہانہ بنا کر یہ نصیحت کر رہے ہیں کہ مسلم خواتین کو نقاب اور حجاب سے آزاد ہو جانا چاہیے۔ بہت سے لوگ ایرانی خواتین کی مثال دے رہے ہیں کہ انہوں نے حجاب کے خلاف کتنی مؤثرتحریک شروع کی تھی۔گویا نتیش کمار اسی تحریک کو ہندوستان میں آگے بڑھا رہے ہوں۔
اس سے قبل، ہم نے ایسے مظاہروں کی خبریں دیکھیں، جن میں وشو ہندو پریشد(وی ایچ پی) کے لوگ تعلیمی اداروں میں مسلم لڑکیوں کے حجاب پہننے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پہلے ایک جگہ ہندو لڑکوں نےبھگوا اسکارف لگا لیا کیونکہ وہ مسلمان لڑکیوں کے حجاب پہننے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ حجاب پہننے والی مسلم خواتین سے ہندوؤں کے کون سے حقوق پامال ہو رہے ہیں؟ ان کے مقابلے میں وہ بھگوا کیوں پہن رہے ہیں؟
نتیش کمار کی بیماری سے الگ ہے ہندو سماج میں پھیلی یہ ذہنی بیماری ۔ یہ اور بھی خطرناک ہے۔ اسے اصلاحی بیماری کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اصلاح پسندی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ انہیں مسلم خواتین کو ان کے مذہب اور ان کے مردوں کے جبر سے آزاد کرانے کا حق ہے یا یہ ان کا فرض ہے۔ یہاں تک کہ وہ مسلم خواتین کی توہین کرنا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں۔
پچھلے 11 سالوں میں، ہم نے ہندو برادری میں اس رجحان کو بڑھتے دیکھا ہے۔ مسلم خواتین کی توہین کے ساتھ مردوں کی ٹوپی اچھالنا، ان کی داڑھی کھینچنا، یہ سب اب کئی جگہوں پر رپورٹ نہیں ہوتے ۔ کچھ لوگ شکایت کرنے لگے ہیں کہ حجاب اور داڑھی-ٹوپی سے انہیں ڈر لگتا ہے۔
نتیش کمار کی ذہنی بیماری یا عدم توازن نے ایک بار پھر ہندو سماج کے ایک طبقے کی سوچ کو اجاگر کر دیا ہے۔ نتیش کے ساتھ اس کے فوراً علاج کی سخت ضرورت ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)