بی جے پی نے 19 دسمبر کو جو کچھ بھی کیا اس کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تشدد کے بعد ہمیشہ شک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ دو فریق بن جاتے ہیں۔ دوسرے فریق کو وضاحت پیش کرنی پڑتی ہے۔ بی جے پی ہر عوامی تحریک یا اپوزیشن کے احتجاج کے دوران تشدد کا سہارا لےکر یہی کرتی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کو تشدد کے سہارے انتشار کی طرف دھکیل رہی ہے۔ 19 دسمبر کو اس کے ارکان پارلیامنٹ نے منصوبہ بند طریقے سے پارلیامنٹ میں پرتشدد مناظر پیدا کیے اور راہل گاندھی کو گھیرنے کی سازش کی۔ راہل گاندھی پر اس نے سب سے گھناؤنا الزام یہ لگایا کہ وہ اس کی ایک خاتون ایم پی کے وقار کو پامال کرنا چاہتے تھے۔ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ اس میں انسداد شیڈول کاسٹ ٹرائب ایٹروسیٹیز ایکٹ کی ایک دفعہ بھی شامل کی گئی ہے۔ اور تو اور ان پر اقدام قتل کا بھی الزام لگایا گیاہے۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ جس بی جے پی رکن پارلیامنٹ نے یہ الزام لگایا ہے وہ ناگالینڈکی ہیں۔ راہل گاندھی پر اقدام قتل کا الزام بھی لگایا گیاہے۔ اس الزام کی صداقت کو قائم کرنے کے لیے بی جے پی کے دو ممبران پارلیامنٹ کو آئی سی یو میں داخل کرانا پڑا۔ ماتھے پر لگی چھوٹی پٹی آہستہ آہستہ تقریباً پگڑی میں بدل گئی۔ ہسپتال کے چیف آفیسر کو یہ بیان دینا پڑا کہ وہ نگرانی میں ہیں اور ان کی حالت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے، لیکن اتنا ہی خوفناک بھی؛ اگر ہم اس کے پیچھے کی سازش کو سمجھ پائیں۔
راہل گاندھی پر یہ حملہ منصوبہ بند ہے۔ چونکہ راہل گاندھی گزشتہ کچھ عرصے سے ذات پر مبنی مردم شماری پر اصرار کر رہے ہیں،انہیں شیڈول ٹرائب ایکٹ کےسنگین الزام کے ہتھیار سے نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی طرح، شمال مشرق کی ایک ریاست منی پور میں تشدد کی طرف مسلسل توجہ مبذول کرانے اور حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کی ان کی اور اپوزیشن کی کوششوں کا جواب ہے شمال مشرق کے ہی ایک اور ریاست ناگالینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی جانب سے ان پر لگایا الزام ۔
یہ سب کچھ اتنا شفاف ہے، لیکن بی جے پی کو یقین ہے کہ اس کا سب سے بڑا حامی اور مہم چلانے والا ہندوستان کا بڑا میڈیا اس سازش میں اس کے ساتھ رہےگا اور اس گھٹیا جھوٹ کو سچ میں بدل دے گا۔ بہت سے تجزیہ نگار غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرتے ہوئے کہیں گے کہ اگر الزام ہے تو کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہوگا۔ راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی سے وضاحت طلب کی جاتی رہے گی۔
ایک دن پہلے تک وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی کے دیگر عہدیدار پارلیامنٹ میں بابا صاحب امبیڈکر کے خلاف اپنے متکبرانہ ریمارکس کی صفائی پیش کر رہے تھے۔ یہ غیر فطری نہیں تھا کہ اپوزیشن اسے ایشو بنائے۔ اس کے بعد بی جے پی کو دفاعی قدم اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن انہوں نے اپنی فطرت کے مطابق اپوزیشن کی مخالفت کا جواب جارحیت سے دینے کا فیصلہ کیا۔
کسی بھی احتجاج کو تباہ کرنے کا سب سے مؤثر حربہ تشدد ہے۔ بی جے پی نے پچھلے 10 سالوں میں ہر احتجاج کا جواب تشدد سے دیا ہے۔ بھیما کورےگاؤں میں دلتوں کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کے خلاف تشدد کیا گیا۔ پھر حکومت کے ناقدین کو اس تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ اپریل 2018 میں دلتوں نے بھارت بند کی کال دی تھی۔ اس دن دلتوں کے خلاف تشدد کیا گیا اور سینکڑوں دلتوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ جب شہریت قانون کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو ایک بار نہیں بلکہ کئی بار تشدد ہوا۔ شاہین باغ کے احتجاجی مقامات پر منصوبہ بند حملے کیے گئے۔ کسانوں کی تحریک کے دوران ہم نے کئی بارٹکری اور سنگھو سرحدوں پر ہڑتال پر بیٹھے کسانوں پر حملے دیکھے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی، حیدرآباد یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حکومت کے ناقدین پر پرتشدد حملوں کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں۔
تشدد کے بعد ہمیشہ شک وشبہات پیدا ہوتے ہیں۔ دو فریق بن جاتے ہیں۔ اور جو پہلے الزام لگا دیتا ہے اس کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے۔ دوسرے فریق کو وضاحت پیش کرنی پڑتی ہے۔ بی جے پی ہر عوامی تحریک یا اپوزیشن کے احتجاج کے دوران تشدد کر کے یہی کرتی ہے۔ جس معاملے پر احتجاج ہوا وہ بحث سے غائب ہو جاتا ہے، باقی رہ جاتا ہےتشدد۔ چونکہ تمام بڑا میڈیا بی جے پی کا حامی اور اپوزیشن مخالف ہے، اس لیے وہ بحث کے دوران ہمیشہ اپوزیشن کو نشانہ بناتا رہتا ہے۔
اب تک یہ سب کچھ سڑکوں پر ہوتا تھا۔ بی جے پی اس کو پارلیامنٹ تک لے گئی ہے۔ پارلیامنٹ کے اندر بی جے پی کی طرف سے گالی گلوچ اور بدتمیزی کی کئی مثالیں دیکھی گئی ہیں۔ 19 دسمبر کو یہ جسمانی تشدد میں بدل گیا۔ ہم نے دوسری حکومتوں کے دوران اپوزیشن کو اس سے پہلے سینکڑوں بار احتجاج کرتے دیکھا ہے۔ حکمران جماعت نے کبھی اپوزیشن کی اس طرح مخالفت نہیں کی۔ حکمران جماعت ہمیشہ زیادہ تحمل سے کام لیتی ہے۔ لیکن بی جے پی ہمیشہ اس کے برعکس کام کرتی آئی ہے۔
بی جے پی نے 19 دسمبر کو جو کچھ بھی کیا اس کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ راہل گاندھی کی ساکھ کو ختم کر دینا چاہتی ہے۔ وہ جس جس جگہ کارگر ہوسکتے ہیں، وہ ان سے چھین لینا چاہتی ہے۔ پچھلی بار ان کی پارلیامنٹ کی رکنیت ختم کرنے کے پیچھے یہی وجہ تھی۔ اس بار بھی تیاریاں وہی ہیں۔ راہل گاندھی واحد اپوزیشن لیڈر ہیں جن کا چہرہ پورے ہندوستان میں لوگ پہچانتے ہیں۔ ان کے چہرے کو غائب کر کے ہی اپوزیشن کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
میڈیا شیطانی خوشی کے ساتھ اس پروپیگنڈے میں کود پڑا ہے۔ کانگریس اور اپوزیشن کے سامنے چیلنج ہے کہ وہ عوام کو بی جے پی کی اس مکروہ سازش سے آگاہ کرے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)