لوک سبھا میں اپنی پہلی تقریر میں پرینکا گاندھی واڈرا نے آئین، ریزرویشن اور ذات پر مبنی مردم شماری کے معاملوں پر حکومت کو نشانہ بنایا۔ 1975 کی ایمرجنسی کا ذکر کرتے ہوئے پرینکا نے سبق لینے کی بات کہی اور آئین کے تحفظ پر زور دیا۔
نئی دہلی: وایناڈ سے کانگریس کی رکن پارلیامنٹ پرینکا گاندھی واڈرا نے 13 دسمبر 2024 کو لوک سبھا میں اپنی پہلی تقریر میں آئین، ریزرویشن اور ذات پر مبنی مردم شماری جیسےمعاملوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے سابق وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی میراث اورآئین کی اہمیت اور پر روشنی ڈالی۔ 1975 کی ایمرجنسی سے سبق لینے کی بات کہی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے نظریے کو تنقید کانشانہ بنایا۔
نہرو اور آئین کی اہمیت
پرینکا گاندھی نے اپنی تقریر میں آئین سازی کے تناظر میں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو، وزیر قانون ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر، وزیر تعلیم مولانا آزاد کی خدمات کو اجاگر کیا اور کہا کہ آئین ہر ہندوستانی کو برابری اور انصاف کا حق فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ہمارا آئین انصاف، امید، اظہار اور عزم کا وہ چراغ ہے، جو ہر ہندوستانی کے دل میں روشن ہے۔ اس چراغ نے ہر ہندوستانی کو یہ پہچاننے کی قوت دی کہ اسے انصاف حاصل کرنے کا حق ہے، وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہےکہ جب وہ آواز اٹھائے گا تواقتدارکو اس کے سامنے جھکنا پڑے گا۔ اس آئین نے ہر شہری کو یہ حق دیا ہے کہ وہ حکومت بنا بھی سکتا ہے اور حکومت بدل بھی سکتا ہے۔ یہ چراغ جو ہر ہندوستانی کے دل میں روشن ہے، اس نے ہر ہندوستانی کو یہ یقین دلایا ہے کہ ملک کی دولت میں اور اس کے وسائل میں اس کا بھی حصہ ہے، اسے محفوظ مستقبل کی امید رکھنے کا حق ہے، ملک کی تعمیرمیں اس کی بھی شراکت ہے۔ میں نے امید کی اس کرن کو ملک کے کونے کونے میں دیکھا ہے۔’
آئین کو ایک حفاظتی ڈھال قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘یہ افسوسناک ہے کہ ہماری حکمران جماعت نے اس حفاظتی ڈھال کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ آئین معاشی، سماجی اور سیاسی انصاف کا وعدہ کرتا ہے۔ وہ لیٹرل انٹری کے ذریعے آئین کو ختم کر رہے ہیں۔ اگر انہیں لوک سبھا میں اکثریت مل جاتی تو وہ آئین کو بدل دیتے۔’
حکومت پرخوف وہراس پھیلانے کا لگایاالزام
مودی حکومت پر خوف پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے پرینکا نے کہا، ‘یہ قدرت کا اصول ہے کہ جو لوگ خوف پھیلاتے ہیں وہ ڈرے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ بحث اور تنقید سے ڈرتے ہیں۔ ہم کئی دنوں سے بحث کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ان میں ہمت نہیں ہے۔ پرانے زمانے میں بادشاہ بھی خاموشی سے بھیس بدل کر باہر نکل جاتے تھے تاکہ وہ جان سکیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ جبکہ موجودہ بادشاہ اپنا بھیس بدلنا پسند کرتا ہے لیکن اس میں عوام کی بات سننے یا تنقید کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔’
پرینکا گاندھی نے مزید کہا کہ ملک کو زیادہ دیر تک ڈر کے بھروسے نہیں چلایا جا سکتا، بلکہ اس کو ہمت کے سہارے ہی چلایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘جب کسی پر اتنا تشدد کیا جاتا ہے کہ آخر کار اسے لگتا ہے کہ اس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے، تو ڈر غائب ہو جاتا ہے…’
‘ہندوستان کا آئین سنگھ کا نظریہ نہیں ہے’
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو نشانہ بناتے ہوئے پرینکا گاندھی نے الزام لگایا کہ موجودہ حکومت کے پیچھے سنگھ کا نظریہ کام کر رہا ہے، جو سماجی انصاف اور مساوات کی اقدار کو کمزور کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ،’ جہاں بھائی چارہ اور اپنا پن تھا، جہاں ہمارے آئین نے اتحاد کا حفاظتی ڈھال دیا تھا، وہاں شک اور نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ اتحاد کے حفاظتی ڈھال کو توڑا جا رہا ہے۔’ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وزیر اعظم صرف علامتی طور پر آئین کی کتاب اپنی پیشانی لگاتے ہیں، لیکن اس کے نظریات کو اپنانے میں ناکام رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘یہاں ایوان میں وزیر اعظم آئین کی کتاب کو یوں پیشانی سے لگاتے ہیں، لیکن جب سنبھل، ہاتھرس اور منی پور میں انصاف کی پکار اٹھتی ہے تو ان کی پیشانی پر شکن تک نہیں آتی۔ شاید وہ یہ نہیں سمجھ پائے ہیں کہ ہندوستان کا آئین سنگھ کا نظریہ نہیں ہے۔’
1975 کا ذکر اور ایمرجنسی پر وضاحت
پرینکا نے 1975 کی ایمرجنسی کا بھی ذکر کیا اور موجودہ حکومت کو اس سے سبق لینے کا مشورہ دیا۔
انہوں نے کہا، ‘عوام کے ذہنوں میں ہمیشہ سے یہ یقین تھا کہ اگر کچھ نہیں ہے تو آئین ہماری حفاظت کرے گا، لیکن آج عام لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت صرف اڈانی جی کے منافع کے لیے چل رہی ہے۔ ملک میں عدم مساوات بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جو غریب ہے وہ اورغریب ہوتا جا رہا ہے، جو امیر ہے وہ اورامیر ہوتا جا رہا ہے۔ اس حکومت نے معاشی انصاف کے حفاظتی ڈھال کوبھی توڑ دیا ہے۔ سیاسی انصاف کی جب بات ہوتی ہے تو حکمران جماعت کے میرے ساتھی کھڑے ہوئے گنتی کرنے لگےکہ یہ ہوا، وہ ہوا، 1975 میں جو ہوا، تو سیکھ لیجیے نہ آپ بھی، آپ بھی اپنی غلطیوں کے لیے معافی مانگ لیجیے۔ آپ بھی بیلٹ پر الیکشن کر لیجیے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔’