دہلی ہائی کورٹ نے سماجی کارکن ندیم خان کو گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا

دہلی ہائی کورٹ نے انسانی حقوق کے کارکن ندیم خان کو دشمنی کو فروغ دینے اور مجرمانہ سازش کے الزام والے معاملے میں گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا ہے۔ عدالت نے تحقیقات میں تعاون کے پیش نظر خان کے خلاف جاری کیے گئے غیر ضمانتی وارنٹ کو بھی رد کر دیا ہے۔

دہلی ہائی کورٹ نے انسانی حقوق کے کارکن ندیم خان کو دشمنی کو فروغ دینے اور مجرمانہ سازش کے الزام والے معاملے میں گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا ہے۔ عدالت نے تحقیقات میں تعاون کے پیش نظر خان کے خلاف جاری کیے گئے غیر ضمانتی وارنٹ کو بھی رد کر دیا ہے۔

ندیم خان (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ندیم خان)

ندیم خان (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ندیم خان)

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے بدھ (11 دسمبر) کو انسانی حقوق کے کارکن ندیم خان کو دشمنی کو فروغ دینے اور مجرمانہ سازش کے الزام والے ایک معاملے میں گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا ہے ۔

بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس جسمیت سنگھ نے ہدایت دی کہ اگر دہلی پولیس کو خان کی حراست کی ضرورت ہے تو انہیں تحریری طور پر سات دن کا پیشگی نوٹس دینا ہوگا۔

دہلی پولیس نے عدالت کو یقین دلایا کہ خان کو گرفتار نہیں کیا جائے گا اور اگر حراست میں پوچھ گچھ ضروری ہوئی تو وہ انہیں پیشگی اطلاع دیں گے۔

خان پر عدالت کی اجازت کے بغیر دہلی-این سی آر چھوڑنے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔

ندیم خان ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آت) کے قومی جنرل سیکرٹری ہیں، جو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی شہرت یافتہ قومی تنظیم ہے ۔

رپورٹ کے مطابق، خان نے عدالت میں دو درخواستیں دائر کی تھیں، جن میں تحقیقات روکنے اور ان کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر میں دشمنی کو فروغ دینے، عوامی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والی سرگرمی، عوامی شرپسندی اور مجرمانہ سازش جیسے جرائم کا الزام لگایا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات میں خان کے تعاون کے پیش نظر عدالت نے ان کے خلاف جاری کیے گئےغیر ضمانتی وارنٹ کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔

قبل ازیں ہائی کورٹ نے خان کو گرفتاری سے عبوری تحفظ دیا تھا ۔

سماعت کے دوران سینئر وکیل کپل سبل کی قیادت میں خان کی قانونی ٹیم نے دلیل دی کہ پولیس کی تفتیش کا تعلق بنیادی مسئلے سے نہیں ہے اور اسے خان کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ سبل نے خان کے فون کی جانچ کے پولیس کے مطالبے پر بھی اعتراض کیا۔

عدالت نے ان خدشات کو قبول کرتے ہوئے پولیس کے تفتیش کے حق پر زور دیا۔

بار اینڈ بنچ نے جسٹس سنگھ کے حوالے سے کہا، ‘انہیں تحقیقات کا حق ہے۔ وہ تفتیش کر رہے ہیں۔ آپ کی آزادی کے حق کا تحفظ کیا جا رہا ہے، آپ کو گرفتار نہیں کیا جا رہا ہے۔’

واضح ہوکہ سوشل میڈیا پر ہندوتوا کے حامیوں کے الزامات کے بعد دہلی پولیس نے خان کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔

اس اقدام کے فوراً بعد 29 نومبر کو اے پی سی آر کے دہلی دفتر پر چھاپہ مارا گیا۔ اگلے دن، پولیس نے خان کو بنگلورو میں ان کے بھائی کی رہائش گاہ سے حراست میں لینے کی کوشش کی ۔

قابل ذکر ہے کہ یہ معاملہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے ایک ویڈیو سے پیدا ہوا ہے، جس کے بارے میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ ایک خاص کمیونٹی کو مظلوم کے طور پر دکھایا گیا ہے اور لوگوں کو اکسایا گیا ہے۔

اس ویڈیو میں ہیٹ کرائم اور ہیٹ اسپیچ کی وجہ سے لوگوں کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کو دکھایا گیا تھا۔ لیکن اس ویڈیو کو دائیں بازو کے گروپ نے نفرت پھیلانے کے طور پرپیش کرتے ہوئے انتظامیہ اور پولیس  کو ٹیگ کرتے ہوئے کارروائی کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا  تھا۔

خان کا کہنا ہے کہ ویڈیو میں اقلیتوں کے حقوق، ہیٹ اسپیچ اور امتیازی سلوک کا ذکر کیا گیا ہے، اور یہ کہ یہ ان کے اظہار رائے کی آزادی کے حق کے تحت محفوظ ہے۔