ہندوستان میں 2024 میں عیسائیوں پر 834 حملے ہوئے: یو سی ایف

یونائیٹڈ کرسچن فورم کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں عیسائیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ سال 2024 میں ایسے 834 واقعات کا مشاہدہ کیا گیا ،جو 2023 کے مقابلے ایک سو زیادہ ہے۔ اس طرح کے واقعات کا سب سے زیادہ مشاہدہ یوپی میں کیا گیا، اس کے بعد چھتیس گڑھ میں ایسے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے ۔

یونائیٹڈ کرسچن فورم کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں عیسائیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ سال 2024 میں ایسے 834 واقعات کا مشاہدہ کیا گیا ،جو 2023 کے مقابلے ایک سو زیادہ ہے۔ اس طرح کے واقعات کا سب سے زیادہ مشاہدہ یوپی میں کیا گیا، اس کے بعد چھتیس گڑھ میں ایسے سب سے زیادہ  واقعات پیش آئے ۔

وزیر اعظم نریندر مودی 23 دسمبر 2024 کو کیتھولک بشپ کانفرنس آف انڈیا کے زیر اہتمام کرسمس کی تقریبات میں شرکت کر تے ہوئے۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@narendramodi)

وزیر اعظم نریندر مودی 23 دسمبر 2024 کو کیتھولک بشپ کانفرنس آف انڈیا کے زیر اہتمام کرسمس کی تقریبات میں شرکت کر تے ہوئے۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@narendramodi)

نئی دہلی: سول سوسائٹی گروپوں  نے ایک بار پھر ہندوستان میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) کے جاری کردہ تازہ  اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ 2024 میں ایسے 834 واقعات کا مشاہدہ کیا گیا، جو 2023 میں پیش آنے والے 734 واقعات سے 100 زیادہ ہے۔

یو سی ایف نے 10 جنوری کو ایک پریس بیان میں کہا، ‘ان حملوں کے بارے میں سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ہندوستان میں ہر روز دو سے زیادہ عیسائیوں کو صرف ان کے مذہب پر عمل کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔’

یہ واقعات کئی طرح سے پیش آتے ہیں، جن میں گرجا گھروں یا دعائیہ اجتماعات پر حملے، اپنے عقیدے پر عمل کرنے والوں کوہراساں کرنا، بائیکاٹ اورکمیونٹی کے وسائل تک رسائی کو محدود کرنا، جھوٹے الزامات اور فوجداری مقدمات، خاص طور پر ‘جبری تبدیلی مذہب’ سے متعلق۔

بھارتیہ جنتا پارٹی مقتدرہ کئی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے خلاف متنازعہ اور سخت قوانین نے ہندوتوا کے کارکنوں اور ریاست کو اقلیتی گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے ایک ہتھیار دینے کا کام بھی کیا ہے۔

جیسا کہ دی وائر نے پہلے بتایاہے، 2014 کے بعد سے اس طرح کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جب نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے پہلی بار مرکزی حکومت بنائی تھی۔

عیسائیوں پر حملے

عیسائیوں کے حوالے سے سال 2024 میں سب سے زیادہ واقعات اتر پردیش (209) میں ریکارڈ کیے گئے، اس کے بعد چھتیس گڑھ (165) میں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے متعدد معاملات میں ایف آئی آر تک  درج نہیں کی جاتی، کچھ معاملات میں پولیس میں شکایت  ہونےکے باوجود یہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

اس کے علاوہ ، متاثرین پولیس سے رجوع کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ان کا مانناہے کہ پولیس معاملے کو گھمانے  کی کوشش کرے گی اورمتاثرین کے خلاف جھوٹے الزامات درج کر کے مجرموں کا ساتھ دے گی۔

یو سی ایف کے قومی کنوینر اے سی مائیکل نے 2023 میں دی وائر کو بتایا تھا کہ زیادہ تر ایف آئی آر تشدد کا نشانہ بننے والوں کے خلاف درج کی جاتی ہیں، جبکہ مجرموں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پولیس نے متاثرین کو کہا تھا کہ اگر آپ نے مقدمہ درج کروایا تو حملہ آور مزید جارحیت اختیار کر سکتے ہیں، اوراس کے بعد آپ کی جان کو زیادہ خطرہ ہو گا۔

یو سی ایف نے پایا ہے کہ حاشیہ پر رہنے والے گروہوں کے ان حملوں کا  نشانہ بننے کا زیادہ امکان رہتا ہے۔ دسمبر 2024 میں گروپ کے ذریعہ درج کیے گئے 73 واقعات میں سے 25 واقعات میں متاثرین درج فہرست قبائل سے تھے اور 14 میں وہ دلت تھے۔ ان میں سے نو واقعات میں خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔

دی وائر کے لیے عمر راشد کی رپورٹوں کی ایک حالیہ سیریز میں  اس بات پر روشنی ڈالی گئی  ہے کہ کس طرح ہندوتوا کے کارکنوں نے عیسائی مذہب کے پیروکاروں میں حاشیہ پر رہنے والے ذاتوں کے افراد کے خلاف تبدیلی مذہب  کے جھوٹے مقدمے دائر کیے ہیں۔ ان واقعات میں متاثرین نے اکثر اپنا مذہب تبدیل نہیں کیا ہے، پھر بھی ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کو ہندو مذہب چھوڑ کر عیسائی بننے پرمجبور کرتے ہیں۔ جبکہ نئے تبدیلی مذہب  مخالف قوانین کے تحت دائر کیے گئے زیادہ تر مقدمات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں، بعض حالات میں عدالتوں نے ریاستی استغاثہ کی کہانی کو درست نہ پاتے ہوئے مقدمات کو خارج تک  کر دیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ 31 دسمبر 2024 کو 400 سے زیادہ سینئر عیسائی رہنماؤں اور 30 چرچ گروپوں  کے ایک وفد نے صدر دروپدی مرمو اور وزیر اعظم مودی سے کمیونٹی کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کو حل کرنے کی اپیل کی تھی ۔ ان  کی اپیل کرسمس کے آس پاس اس طرح کے کئی مقدمات درج ہونے کے بعد سامنے آئی۔

ویسے یہ پہلی بار نہیں تھا جب ایسی اپیل کی گئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر اور وزیراعظم اس معاملے پر توجہ دیتے ہیں یا نہیں۔

تاہم، اس طرح کی اپیلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، پی ایم مودی پچھلے کچھ سالوں سے عیسائی برادری تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ 23 دسمبر 2024 کو بھی انہوں نے کیتھولک بشپ کانفرنس آف انڈیا کے زیر اہتمام کرسمس کی تقریبات میں شرکت کی ۔ وہاں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عیسائیوں کے خلاف تشدد کا ذکر کیا – لیکن صرف دنیا کے دیگر حصوں میں، جیسے جرمنی میں کرسمس مارکیٹ پر حملہ اور سری لنکا میں 2019 کے ایسٹر بم دھماکے۔

صحافی اور رائٹ ایکٹوسٹ جان دیال نے کیتھولک نیوز ایجنسی کو بتایا کہ اس تقریر نے مودی کے’دوغلے پن’ کو بے نقاب کر دیا ہے۔ تشدد کے واقعات پر اپنا درد ظاہر کرنے کے بعد پی ایم مودی نے 2024 میں ملک میں نفرت پر مبنی تشدد کے روزانہ دو واقعات میں سے ایک کا بھی ذکر نہیں کیا۔ اس کے بجائے انہوں نے مثال کے طور پر جرمنی حملے کا حوالہ دیا۔ یہ دوغلا پن ہے اور یہی ہندو بنیاد پرستوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

اپوزیشن رہنماؤں نے بھی وزیراعظم کے عیسائیوں کے تئیں ان کے رویے پر سوالات اٹھائے ہیں۔ مثال کے طور پرترنمول کانگریس کے راجیہ سبھا ایم پی ڈیرک اوبرائن نے کہا کہ مودی سے کمیونٹی کو درپیش مسائل کے بارے میں ‘سخت سوالات’ پوچھے جانے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ 9 جنوری کو احمد آباد میں عیسائی تنظیموں کی طرف سے منعقد ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اوبرائن نے کہا، ‘اگر آپ (بشپ) مودی کے ساتھ کرسمس کا لنچ کرنا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن آپ کو سخت سوالات بھی پوچھنے ہوں گے۔ چرچ کو سخت سوالات کرنے کی ضرورت ہے، جیسے کہ آپ کرسمس کو گڈ گورننس ڈے میں کیوں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ایف سی آر اے (فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ) کو ہتھیار کیوں بنا رہے ہیں؟’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)