نئے ہندوستان میں نماز پڑھنا جرم بنتا جا رہا ہے …

اگر آپ نئے ہندوستان میں مسلمان ہیں، تو آپ کو مسلسل یہ خطرہ در پیش ہے کہ آپ کے نماز پڑھنے کے عمل کو جرم سمجھ لیا جائے۔

اگر آپ نئے ہندوستان میں مسلمان ہیں، تو آپ کو مسلسل یہ خطرہ در پیش ہے کہ آپ کے نماز پڑھنے کے عمل کو جرم سمجھ لیا جائے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

سال 2022 کے موسم خزاں میں اتر پردیش کے پریاگ راج، جس کا پرانا نام الہ آباد ہے؛ کے ایک سرکاری ہسپتال کے وارڈ کے باہرایک خاتون نے  نماز پڑھنے کے لیے چٹائی بچھائی۔ میں  نہیں جانتا کہ  ہسپتال کے وارڈ میں مریض کون تھا؟ اس کا شوہر، اس کا بیٹا، اس کا بھائی یا اس کا باپ۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اسے ڈینگی ہو گیا تھا اور وہ اس کےلیے پریشان تھی۔ اس نے خاموشی سے اپناسرہسپتال کے فرش پر سر جھکا یا اور نماز پڑھنے لگی۔

کچھ لوگوں نے اسے دیکھا۔ انہوں نے نماز پڑھتے ہوئے اس کی تصویریں لیں اور  سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیں۔ کئی لوگ برہم ہو گئے۔ کئی  لوگوں نے کہا ‘عوامی مقامات پر نماز پڑھنا غیر قانونی ہے۔’ تیج بہادر سپرو سرکاری اسپتال کے چیف میڈیکل آفیسر نے بھی واضح طور پر اپنی برہمی کا اظہار کیا۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا،’ہم نے وارڈ میں ایسی سرگرمیوں کے خلاف سخت وارننگ جاری کی ہے۔ یہ ایک عوامی مقام ہے۔ ہم نے تمام وارڈ انچارج کو ہدایت کی ہے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ رونما نہ ہونے دیں۔ ہم نے خاتون سے  بھی کہا کہ دوبارہ ایسا نہ کرے۔ ہماری جانچ  رپورٹ آنے کے بعدآگے کی کارروائی کریں گے۔’

پولیس نے بھی تفتیش کی۔ اتفاق سے انہوں نے بعد میں اعلان کیا کہ ان کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون بغیر کسی غلط  ارادے کے اور کسی بھی کام یا نقل و حرکت میں خلل ڈالے بغیر اپنے مریض کی جلد صحت یابی کے لیےنماز پڑھ رہی تھی۔ یہ عمل کسی بھی  جرم کےدائرے میں نہیں آتا ۔ لیکن اس ملک میں کئی لوگ ایسے ہیں جو اتنے خوش قسمت نہیں ہیں۔ اگر آپ نئے ہندوستان میں مسلمان ہیں، تو عبادت کرنا جرم بنتا جا رہا ہے۔

اس کی ایک مثال 2024 کے موسم بہار میں قومی دارالحکومت کے اندرلوک سے سامنے آنے والا ایک ویڈیو ہے۔ اندرلوک کی مسجد میں جمعہ کی نماز کے لیے لوگ جمع ہوئے تھے۔ مسجد بھری ہوئی تھی، اس لیے کچھ لوگ مسجد کے باہر سڑک پر نماز پڑھ رہے تھے۔ ویڈیو میں دہلی پولیس کا ایک اہلکار نماز ادا کرنے والے لوگوں کو لات-گھونسوں اورڈنڈے سے مارتا ہوانظر آ رہا ہے۔ کانگریس کے راجیہ سبھا ایم پی عمران پرتاپ گڑھی نے افسوس کے ساتھ کہا، ‘ نماز پڑھتے ہوئے ایک شخص کو لات مارنے والا دہلی پولیس کا یہ سپاہی شاید انسانیت کے بنیادی اصولوں کو نہیں سمجھتا۔ اس سپاہی کے دل میں یہ کیسی نفرت بھری ہوئی ہے؟’

لکھنؤ کےلولو مال میں ، جس کا حال ہی میں وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے افتتاح کیا تھا،  ہندوتوا گروپوں کے کارکنوں نے اس وقت ہنگامہ کھڑا کر دیا،  جب 2022 کے موسم گرما میں مال کے ایک کونے میں کچھ لوگوں کے نماز ادا کرنے کا ایک اور ویڈیوسامنے آیا۔ کارکنوں نے شور مچا کر نماز میں خلل ڈالا اور زور زور سے ہنومان چالیسہ پڑھ کر نماز کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔

اتر پردیش پولیس نے نماز پڑھنے والے افراد کے خلاف دفعہ 153اے (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 341 (غلط طریقے سے روکنے کی سزا)، 505 (عوامی بدامنی کو فروغ دینے والا بیان) اور 295اے (مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سےجان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی عمل) کے تحت مقدمہ درج کیا۔ درجنوں پولیس اہلکاروں نے آدھی رات کے بعد ڈرامائی طور پر نماز پڑھنے والے نوجوان میں سے ایک– فارماکولوجی کے طالبعلم ریحان – کے گھر پر چھاپہ مارااور اس کو حراست میں لے لیا۔

انہوں نے اس کے دو دوستوں لقمان اور نعمان کو بھی گرفتار کر لیا،  جو چائے کا اسٹال چلاتے ہیں۔ اسی موسم گرما میں، تین لوگوں نے، جن میں سے دو حیدرآباد سے اور ایک اعظم گڑھ سے تھے، آگرہ میں تاج محل کی مسجد میں نماز پڑھنا چاہا تو پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا اور ایک بار پھر ان پر دفعہ 153اےکے تحت مذہبی گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کا الزام لگایا۔

سال 2022 میں عیدکے دوران، کانپور کے تین علاقوں میں پولیس کی اجازت کے بغیر مساجد کے باہر سڑکوں پر نماز ادا کرنے پر 1700 لوگوں کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج کیے گئے ۔ یہ شکایت پولیس کے ایک سینئر سب انسپکٹر نے درج کرائی تھی۔ دفعہ 186(سرکاری ملازم کے کام میں رکاوٹ ڈالنا)، 188(سرکاری ملازم کی طرف سے جاری کردہ حکم کی نافرمانی)، 283(پبلک ٹرانسپورٹ میں رکاوٹ)، 341(غلط طریقے سے رکاوٹ ڈالنے کی سزا) اور دفعہ 353 ( سرکاری ملازم کو اس کی  ڈیوٹی کی ادائیگی سے روکنے کے لیے مجرمانہ طاقت کا استعمال)کے تحت الزامات درج کیے گئے۔ کئی بار ہندوتوا کے کارکنوں نے پرتشدد طریقے سے مساجد میں بھی نماز کو روکا۔

سال 2022 کے اوائل میں گجرات کے سورت کے مورا گاؤں میں کچھ لوگوں نے ‘جئے شری رام’ کا نعرہ  لگاتے ہوئےایک مسجد پر حملہ کیا، حملہ آور چپل پہن کر اندر گئے اور عقیدت مندوں کو مسجد سے باہر نکال دیا۔ مسجد کے امام عاقب انصاری نے بعد میں کلیریئن انڈیا کو بتایا کہ اس دن کیا ہوا تھا۔ ‘تقریباً 100 لوگوں کا ہجوم  رہاہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مسجد بند کرو، یہاں نماز نہیں ہوگی۔ وہ  لوگ اس چٹائی کو پھینکنے لگے جس پر لوگ نماز پڑھنے بیٹھے تھے۔ انہوں نے ہمیں جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی اور اس دن کے بعدسے  ہم دوبارہ مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکے۔ ہم نے مقامی پولیس اسٹیشن میں اپنی شکایت درج کرائی۔ وہاں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں نے ہندو مردوں کے جرم کو کم کرنے کی کوشش کی…‘

اٹھارہ  مارچ 2022 کو شب برات کے بابرکت دن، دہلی پولیس نے بغیر کسی تحریری حکم کے 16 مساجد میں ہفتہ وار باجماعت نماز کو اچانک روک دیا، ان  میں سے کئی  تاریخی مساجد ہیں جہاں مسلمان عقیدت مند سینکڑوں سالوں سے نماز ادا کرتے آ رہے ہیں۔ ہیں۔مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید رمضان کے مقدس مہینے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ رمضان کے مہینے میں تراویح کی نماز مذہبی اعمال کا حصہ ہے، جس میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ۔ معروف اسکالر رعنا صفوی نے لکھا ہے کہ یہ روایت بہت پرانی ہے۔ نماز گھر میں، اکیلے، اجتماعی طور پر یا مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے۔

نماز تراویح اکثر باجماعت  پڑھی جاتی ہے کیونکہ مسلمان رمضان میں پورا قرآن سننا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں کئی نسلوں سے نماز تراویح پرامن طریقے سے ادا کی جاتی رہی ہے۔ لوگ اکثر اس کے لیے گھروں، مساجد، ہالوں اور یہاں تک کہ کیفے میں بھی جمع ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود، خاص طور پر 2022 سےہندوتوا ہجوم اور پولیس دونوں کی طرف سے اس میں خلل ڈالنے اور روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

سال 2022 میں اتر پردیش پولیس نے مراد آباد میں 26 مسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جو نماز تراویح کے لیے دو نجی گھروں میں جمع ہوئے تھے۔ ان 26 مسلمانوں کے خلاف بھارتیہ دنڈ سنہتا کی دفعہ 505 (2) (عوامی دشمنی کو بڑھاوا دینے والے بیانات) کے تحت ‘دوسری برادری کے پڑوسیوں کے اعتراضات کے باوجود ‘بغیر کسی اطلاع کے دو دو مقامی لوگوں کے گھر پر جمع ہونے اور نماز ادا کرنے’ کا الزام لگایا گیا تھا۔

اگلے سال، ایک مسلمان تاجر اور ذاکر آئرن اسٹور کے مالک ذاکر حسین پر مرادآباد پولیس نے پھرسے  تراویح کی نماز ادا کرنے کا الزام لگایا۔ وہ اپنے خاندان کے ایک درجن سے زائد افراد کے ساتھ مرادآباد کے لاجپت نگر میں واقع اپنے گودام میں نماز تراویح کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اچانک بجرنگ دل کے لوگ داخل ہوئے اور ہنگامہ کرنے لگے اور کہا کہ یہ لوگ یہاں نماز نہ پڑھیں۔ آخر کار پولیس والوں کا ایک گروپ وہاں پہنچا جس کے بعد بجرنگ دل کے ارکان منتشر ہوگئے۔ اس رات وہ نماز تراویح پڑھ پائے۔ لیکن اس دن کے بعد، پولیس نےانہیں تراویح کی نماز مجاز مذہبی مقامات یا اپنے گھروں میں ادا کرنے کی ہدایت کی۔

حسین نے دلیل دی،’یہ ہمارا ذاتی انتظام تھا کہ ہم اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ نماز ادا کریں اور ہم اسے اپنی جائیداد میں ادا کر رہے تھے۔ یہ کسی کے لیے مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔’

انہیں اس وقت مزید صدمہ پہنچا جب کچھ دنوں بعد ایک ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ نے حسین اور ان کے خاندان کے نو افراد کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 111 کے تحت ایک نوٹس جاری کیا، جس میں الزام لگایا گیا کہ ان کے نماز اداکرنے سے علاقے میں’امن و امان ‘ کامسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ان سے 5 لاکھ روپے کے بانڈ پر دستخط کرائے گئے، جس میں کہا گیا کہ اگر ان کے علاقے میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو وہ اس کے لیے ذمہ دار ہوں گے۔ انہیں بھیجے گئے نوٹس میں لکھا تھا ‘اس بات کا خدشہ ہے کہ آپ امن و امان کو بگاڑ سکتے ہیں اس لیے میری رائے میں آپ کے خلاف کارروائی کے لیے کافی بنیادیں موجود ہیں۔’

سپریم کورٹ کے وکیل شاہ رخ عالم نے اسے ‘ہیکلرز ویٹو’ قرار دیا ہے۔ (سادہ زبان میں ‘ہیکلرز ویٹو’ کا مفہوم یہ ہے کہ محبت اور بقائے باہمی کی بات کرنے والوں کو نفرت کرنے والا گروہ بولنے نہ دیں اور آخر میں اسی نفرت انگیز گروہ کی بات کو مان لیا جائے۔) انہوں نے کہا، اب اپنے گھر میں نماز پڑھنا بھی لوگوں کے جذبات کو بھڑکا سکتا ہے۔ (مسلمانوں کا) وجود ہی لوگوں کو مشتعل کر رہا ہے۔’

عالم نے ‘آرٹیکل 14’ میں شائع ایک مضمون میں لکھا، ‘ذاکر حسین کو یہ نوٹس کیوں دیا گیا؟ امن کون بگاڑے گا؟ دوسرا فریق امن میں خلل ڈالے گا۔ لیکن یہ ذمہ داری بھی حسین پر ڈال دی گئی ہے۔ یہ کچھ ایسا ہی ہے کہ ‘براہ کرم کچھ ایسا نہ کریں جس کی وجہ سے دوسرا شخص کچھ غلط کرے’۔ تشدد کا الزام اصل مجرموں سے ان لوگوں کی طرف منتقل ہو گیا ہے جو انہیں تشدد کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔’

نیشنل کیپٹل ریجن کے گریٹر نوئیڈا اور نوئیڈا کے اشرافیہ اور مخلوط علاقوں میں بھی 2023 کے رمضان کے دوران تراویح کی نماز پڑھنے کے لیے جمع لوگوں کے گروپ (ہمیشہ بغیر کسی لاؤڈ اسپیکر کے ادا کرنے کے لیے) کو لے کر پڑوسیوں کے اعتراضات میں اضافہ ہوا ہے۔ آرٹیکل 14 کی رپورٹ کے مطابق، 24 مارچ، 2023 کو، نوئیڈا سیکٹر 137 میں سپرٹیک ایکوسٹی میں ایک رہائشی سوسائٹی کے تقریباً آٹھ یا 10 لوگوں نے سوسائٹی کی پہلی منزل پر ایک چھوٹے سے پارٹی ہال میں تراویح کی نماز کو زبردستی روک دیا۔

پولیس نے بعد میں کہا کہ تراویح نے قانون کو توڑا کیونکہ ضلع میں سی آر پی سی کی دفعہ 144 نافذ تھی، جو چار یا اس سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگاتی ہے۔ یہ بالکل مضحکہ خیز ہے، جیسا کہ وکیل شاہ رخ عالم بتاتے ہیں، ‘میرے خیال میں جب دفعہ 144 نافذ  ہوتی ہے، تب بھی اس کا اطلاق عوامی مقامات جیسے ریستوران، مالز یا سوسائٹیز پر نہیں ہوتا۔ ان لوگوں نے تراویح پڑھنے کے لیے سوسائٹی سے اجازت لی تھی۔ آپ لوگوں کو مجاز عوامی مقامات پر جمع ہونے سے نہیں روک سکتے۔ کیا آپ لوگوں سے یہ بھی کہیں گے کہ وہ پانچ سے زیادہ لوگوں کے گروپ میں ریستوران میں کھانا نہ کھائیں؟’

کچھ دنوں بعد گریٹر نوئیڈا کے سپرٹیک ایکو ولیج-2 میں ایک بار پھر سوسائٹی کے مکین دوسری سوسائٹی سے آئے اور سوسائٹی کے کمرشیل مارکیٹ کے اوپر تیسری منزل پر خالی کمرے میں مسلمانوں کے نماز پڑھنے پر اعتراض کیا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے نماز پڑھنا بند کر دیا۔

دہلی یونیورسٹی میں ہندی کے پروفیسر اپوروانند ہمیں اس تفرقہ انگیز دور میں بجا طور پر یاد دلاتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند کے 20ویں صدی کے سب سے مشہور ادیبوں میں سے ایک منشی پریم چند مسلمانوں کے اس عمل سے مسحور تھے۔ اپنی یادگار زمانہ کہانی’عیدگاہ’ میں مسلمانوں کی باجماعت نمازکو شدت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے منشی پریم چند لکھتے ہیں؛


یہاں کوئی رتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔… کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے، لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے ایسا معلوم ہو رہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کتنا پر احترام رعب انگیز نظارہ ہے۔ جس کی ہم آہنگی اور وسعت اور تعداد دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ گویا اخوت کا رشتہ ان تمام روحوں کو منسلک کیے ہوئے ہے۔


ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی نماز نے منشی پریم چند کو عقیدت، فخر اور خوشی سے بھر دیا تھا۔ آج ہمارے دل اتنے تنگ کیوں ہو گئے ہیں کہ یہ نمازیں بہت سے ہندوؤں کے دلوں میں ناراضگی اور شکایت پیدا کرتی ہیں اور بعض اوقات تشدد کا باعث بنتی ہیں؟ آج، جب ایک اپارٹمنٹ میں ناراض لوگوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ مسلمانوں کی باجماعت نماز پر اعتراض کرتے ہیں اور انہیں روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں، تواسی رہائشی کمپلیکس کے ایک ہزار یا اس سے زیادہ مکین خاموش کیوں رہتے ہیں؟

ہندوستان کے کسی بھی ہسپتال میں کسی عزیز کے رشتہ دار کے لیے ان کی صحت یابی کے لیے دعا کرنا بہت عام بات ہے۔ بہت سے ہسپتالوں میں چھوٹے چھوٹے ہندو مندربھی ہیں۔ پھر ایک ہسپتال کا مینجمنٹ مسلمان عورت کو نماز پڑھنے کی اجازت دینے سے کیسے انکار کر سکتا ہے؟

میرے بچپن کے ملک میں، اگر کوئی شخص ٹرین میں نماز پڑھنا چاہتا تو دوسرے مسافر احتراماً اس کے لیے جگہ بناتے تھےاور اس کی نماز میں خلل نہ ڈالتے ہوئے خاموش رہتے تھے۔ آج ٹرین میں نماز پڑھنا ایک مسلمان کے لیے ہمت کی بات ہے اور اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کو نوجوانوں کے ایک ایسے شرپسندگروہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو ہنومان چالیسہ  بلند آواز سے پڑھ کر آپ کو اکساتے ہیں۔

اگر آپ مسلمان ہیں، تو آپ کو مسلسل یہ خطرہ  در پیش ہے کہ آپ کی نماز کو جرم سمجھا جائے۔ کچھ آوازیں یہ پوچھنے کے لیے اٹھ رہی ہیں کہ کس قانونی اور انسانی اصولوں کے تحت نماز پڑھنے والوں پر دوسرے مذاہب کے لوگوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا الزام لگایا جا سکتا ہے؟

آج، ایسا کیوں ہے کہ مسلمانوں کی نماز کا ایک سادہ ساعمل بہت سے لوگوں کو شکایت اور تشدد پر اکساتا ہے اور پولیس کو ان کی مجرمانہ جوابدہی کے لیے آمادہ کرتا ہے؟ میں آج کے ہندوستان کو مشکل سے پہچان پاتا ہوں۔ یہ اس ملک سے بہت الگ ہو گیا ہے جس میں میں پلا بڑھا ہوں۔

میں سید روبیل حیدر زیدی کے تحقیقی تعاون کے لیے ان کا مشکور ہوں۔

(ہرش مندر انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔)

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ ہندی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔