یہ مبینہ معاملہ اس وقت سامنے آیا، جب کیرالہ مہیلا سماکھیا سوسائٹی کے ممبران نے علاقے کے دورے کے دوران متاثرہ سے ملاقات کی۔ پولیس نے اس معاملے میں ملزمین کے خلاف پاکسو اور ایس سی ایس ٹی ایکٹ کی دفعات لگائی ہیں۔
نئی دہلی: کیرالہ کے پتھانامتھیٹا ضلع کی ایک 18 سالہ کھلاڑی نے الزام لگایا ہے کہ گزشتہ 5 سالوں میں 62 لوگوں نے ان کا جنسی استحصال کیا۔ ان کی آپ بیتی سامنے آنے کے بعد دو تھانوں میں پانچ ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، کیرالہ پولیس اس معاملے میں اب تک 14 لوگوں کو گرفتار کر چکی ہے اور تحقیقات کی بنیاد پر مزید لوگوں کی گرفتاری کا امکان ہے۔
اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہےکہ خواتین کھلاڑی کا تعلق دلت کمیونٹی سے ہے اور انہوں نے الزام لگایا ہے کہ 13 سال کی عمر سے ان کا جنسی استحصال کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پولیس نے بتایا کہ انہیں ایسے شواہد بھی ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کھلاڑی کے ساتھ ان کے کوچ،ساتھی کھلاڑیوں اور ہم جماعتوں نے بھی جنسی استحصال کیا تھا۔
پولیس نے اس معاملے میں ملزمین کے خلاف پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکسول آفنس ایکٹ (پاکسو) اور درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل (مظالم کی روک تھام) ایکٹ 1989 کی دفعات لگائی گئی ہیں۔
معلوم ہو کہ یہ مبینہ واقعہ اس وقت سامنے آیا، جب ایک این جی او کیرالہ مہیلا سماکھیا سوسائٹی کے ممبران نے علاقے کے دورے کے دوران متاثرہ سے ملاقات کی۔ اس کے بعد این جی او نے ڈسٹرکٹ چائلڈ ویلفیئر کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کو پورے معاملے کی اطلاع دی اور پھر معاملہ پولیس تک پہنچا۔
اس سلسلے میں پتھانامتھیٹا کے پولیس سپرنٹنڈنٹ وی جی ونود کمار نے کہا کہ تحقیقات کو تیز کر دیا گیا ہے اور اس کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘متاثرہ کے تفصیلی بیان کی بنیاد پر مزید مقدمات درج کیے جائیں گے، جسے خاتون پولیس ان کی ماں کی موجودگی میں درج کر رہی ہے۔ ان کے بیانات کی بنیاد پر کارروائی جاری رہے گی۔’
پتھانامتھیٹا چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے چیف وکیل این راجیو نے کہا کہ یہ معاملہ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں کمیٹی کے سامنے آیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ متاثرہ13 سال کی عمر سے جنسی استحصال کا سامنا کر رہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘میں نے متاثرہ کو اپنی والدہ کے ساتھ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کو کہا۔ انہیں کونسلنگ دی گئی اور انہوں نے ایک ماہر نفسیات کے سامنے کھل کر 13 سال کی عمر سے ہو رہے جنسی استحصال کے بارے میں بتایا۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ لڑکی کے گھر والوں کو اس مبینہ جنسی زیادتی کا کوئی علم نہیں تھا۔ متاثرہ نے اپنی ماں کے ساتھ کچھ بھی شیئر نہیں کیا تھا۔ متاثرہ چونکہ ڈسٹرکٹ لیول کی کھلاڑی ہیں، اس لیے اس نے کئی سالوں میں مختلف کھیلوں کے کیمپوں میں حصہ لیا، ہوسکتا ہےاس صورتحال نے ان کے خلاف جنسی استحصال کو بڑھاوا دیا ہو۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نربھیا یوجنا کے ماہرین نفسیات نے متاثرہ سے بات کی تاکہ اس کے الزامات کی صداقت کا پتہ لگایا جا سکے۔ انہوں نے مبینہ جنسی استحصال کرنے والوں کے نام جاننے کے لیے ان کے والد کے موبائل فون کی بھی جانچ کی، جس تک ان کی رسائی تھی۔ تحقیقات میں پیش رفت کے بعد مزید لوگوں کے ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ متاثرہ کی سکیورٹی کےمدنظر رانہیں سی ڈبلیو سی کے تحت شیلٹر ہوم میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
واقعات کے مبینہ سلسلے کی وضاحت کرتے ہوئے پولیس نے کہا کہ گرفتار افراد میں سے ایک، جس کی عمر 21 سال تھی، نے متاثرہ کو فحش تصاویر اور ٹیکسٹ پیغامات بھیجے تھے جب وہ 13 سال کی تھی۔ اس کے بعد جب متاثرہ 16 سال کی ہوئیں تو انہیں وہ آدمی ربڑ کے ایک سنسان باغ میں لے گیا اور مبینہ طور پر اس کے ساتھ ریپ کیا اور اسے اپنے موبائل فون پر ریکارڈ کر لیا۔
الزام ہے کہ ملزم اور اس کے دوستوں نے ایک اور موقع پر متاثرہ کے ساتھ گینگ ریپ کیا اور ملزم نے ان کے والد کا فون نمبر لے لیا۔
قابل ذکر ہے کہ اس معاملے میں کچھ مشتبہ افراد کو پہلے ہی پاکسو سے لے کر غیر ارادتاً قتل تک کے مختلف مجرمانہ الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ تمام گرفتار کیے گئے افراد کے موبائل فون ضبط کر لیے گئے ہیں۔
متاثرہ کے اہل خانہ سے واقف ایک شخص نے ایکسپریس کو بتایا، ‘گرفتار کیے گئے لوگوں میں سے کچھ متاثرہ کے گاؤں سے ہیں۔ میں نے لڑکی کے والد سے بات کی، جنہوں نے کہا کہ انہیں ان واقعات کے بارے میں کبھی پتہ نہیں چلا۔’