سال 2024: آئین اور امبیڈکر کا سال

سال 2024 ہندوستانی سیاست میں آئین اور امبیڈکر کی مرکزیت کا سال رہا۔ لوک سبھا انتخابات آئین کی دفعات اور اس کے تحفظ کے مسئلہ پر لڑا گیا۔ اپوزیشن نے آئین اور ریزرویشن کو درپیش خطرے کو زور شور سے اٹھایا، جبکہ حکمراں پارٹی ہندوتوا کے ایشو پر دفاعی انداز میں نظر آئی۔ لیکن اسے محض انتخابی حکمت عملی تک محدود رکھنا عوام کے ساتھ چھلاوہ ہوگا۔ آئین اور بابا صاحب پر مرکوز اس بحث کو انقلابی جہت سے آشنا کرنے کی ضرورت ہے۔

سال 2024 ہندوستانی سیاست میں آئین اور امبیڈکر کی مرکزیت کا سال رہا۔ لوک سبھا انتخابات آئین کی دفعات اور اس کے تحفظ کے مسئلہ پر لڑا گیا۔ اپوزیشن نے آئین اور ریزرویشن کو درپیش خطرے کو زور شور سے اٹھایا، جبکہ حکمراں پارٹی ہندوتوا کے ایشو پر دفاعی انداز میں نظر آئی۔ لیکن اسے محض انتخابی حکمت عملی تک محدود رکھنا عوام کے ساتھ چھلاوہ ہوگا۔ آئین اور بابا صاحب پر مرکوز اس بحث کو انقلابی جہت سے آشنا کرنے کی ضرورت ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

(تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

یہ پہلا موقع ہے کہ آزاد ہندوستان  میں لوک سبھا  کا کوئی الیکشن (2024)آئین اور اس کی دفعات کے ارد گرد لڑا گیا۔ جہاں حکومت مخالف ‘انڈیا’ اتحاد نے زور شور سے آئین کے خطرے میں ہونے اور اس میں بنیادی تبدیلی کیے  جانے کے خدشات کو ایشو بنایا، وہیں حکمران جماعت کی قیادت ہندوتوا کے مسئلے کو کمزور ہوتے دیکھ کر دفاعی انداز میں یہ کہنے کو مجبور ہوگئی کہ ‘اگر امبیڈکر بھی آجائیں توآئین کو تبدیل نہیں کرسکتے۔’

آئین اور امبیڈکر پر اس بحث کی بازگشت  لوک سبھا کے انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد اس وقت اپنے عروج کو پہنچ گئی جب نومنتخب ارکان نے اپنے ہاتھوں میں آئین کی کاپی لے  کر ‘جئے بھیم’ کا نعرہ لگایا۔ سال کی شروعات 22 جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے ساتھ جس ذاتی مفاد سے ہوئی تھی ،اس کے پس پردہ  ہندوتوا کے مسئلہ پر لوک سبھا الیکشن لڑنے اور جیتنے کی منشا صاف تھی۔ لیکن جس طرح سے بی جے پی کے ‘چار سو پار’ کے نعرے کو آئین اور ریزرویشن کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دینے کی انڈیا الائنس کی حکمت عملی نے بی جے پی کو لوک سبھا میں اپنے دم  پر اکثریت سے محروم کر دیا، وہ ہندوتوا کے مسئلے کی کراری  شکست اور آئین کامسئلہ اس کی مرکزیت کی نشاندہی کرتا ہے۔

رام مندر کی پران پرتشٹھاکے سیاسی اور مذہبی کارنیوال کے بعد ایودھیا (فیض آباد) کی غیر ریزرو لوک سبھا سیٹ سے  سماج وادی پارٹی کے دلت امیدوار اودھیش پرساد پاسی کا الیکشن جیتنا اور الیکشن کے دوران یہ نعرہ لگانا کہ ‘نہ متھرا، نہ کاشی، اب کی جیتے ہیں  اودھیش پاسی’ کے گہرے مضمرات ہیں۔ یہی نہیں، بابا وشوناتھ کے شہر کاشی سے نریندر مودی کی جیت کا مارجن صرف ڈیڑھ لاکھ کے فرق تک سمٹ جانا بھی ہندوتوا کے مسئلے پر گرہن لگانے والا تھا۔ اس سب کے درمیان راہل گاندھی نے جس طرح آئین کی کاپی ہاتھ میں لے کر ذات پر مبنی  مردم شماری کے معاملے کو اٹھایا، وہ آئین کو ایک مرکزی مسئلہ کے طور پر زندہ رکھنے میں کامیاب رہا۔ لیکن اس سب کے باوجود بی جے پی نے جس طرح ہریانہ، جھارکھنڈ اور مہاراشٹر کے انتخابات میں ہندوتوا کے مسئلے کو زندہ کیا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لوک سبھا کے انتخابی دھکے کے باوجود بی جے پی کا اصل ہدف ہندوتوا پر مبنی اکثریت پرستی کی سیاست ہے۔

یہ مان لینا چاہیے کہ ہندوستانی آئین میں موجود ‘مساوات، آزادی اور بھائی چارے’ کی اقدار ہندوتوا کی سیاست سے میل نہیں کھاتی ہیں۔ بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا کہ ‘اگر واقعی ہندو راج قائم ہوتا ہے تو بلاشبہ اس سے اس ملک کو بہت بڑا خطرہ ہو گا۔ ہندو کچھ بھی کہیں، ہندوتوا آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے لیے خطرہ ہے۔ اس بنیاد پر یہ جمہوریت کے لیے نا مناسب ہے۔ ہندو راج کو ہر قیمت پر روکا جانا چاہیے۔ (ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر)۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بی جے پی کی سیاست سیکولرازم کے برخلاف جس مذہب پر مبنی سیاست پر ٹکی ہوئی  ہے، اس کی راہ میں موجودہ آئین ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ یہ بلا وجہ نہیں ہے کہ ملک کے نائب صدر جگدیپ دھنکر کی واضح رائے ہے کہ ‘آئین کے بنیادی ڈھانچے جیسا کوئی اصول نہیں ہے۔ پارلیامنٹ سپریم ہے، وہ اس میں کوئی بھی ترمیم کر سکتی ہے۔’

وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کمیٹی کے اس وقت کے سربراہ وویک دیبرائے (اب آنجہانی) نےتو  نیا آئین لکھنے کی وکالت کی تھی۔ لوک سبھا انتخابات سے پہلے بی جے پی کے کئی ممبران پارلیامنٹ نے بھی آئین کو تبدیل کرنے کی بات کہی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ بی جے پی اور اس کی سابقہ بنیادی تنظیمیں آئین ہند سے عدم اطمینان اور عدم اتفاق کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ اس تناظر میں ہمیں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کےغیر اعلانیہ ماؤتھ پیس ‘آرگنائزر’ کا اداریہ یاد آتا ہے جو دستور ساز اسمبلی کے آئین کو تسلیم کرنے کے چار دن بعد 30 نومبر کو 1949 میں شائع ہوا تھا۔ تسلیم  شدہ آئین کو مسترد کرتے ہوئے اس اداریے میں کہا گیا تھا کہ، ‘ہندوستان کے اس نئے آئین کی سب سے بری بات یہ ہے کہ اس میں کچھ بھی ہندوستانی نہیں ہے۔ قدیم ہندوستانی آئینی قانون، اداروں، ناموں اور اصطلاحات کا کوئی اشارہ نہیں ہے اور نہ ہی اس میں قدیم ہندوستان میں ہونے والی آئینی پیش رفت کا ذکر ہے۔ منو کا قانون اسپارٹا کے لیزرگس اور فارس کے سولون سے بہت پہلے لکھا گیا تھا۔ ان کی لکھی ہوئی منوسمرتی آج بھی دنیا میں قابل احترام، قابل تحسین   اور قابل تقلید ہے۔’

ہندوستانی آئین کے اس انکار کی بنیاد میں ہندوستان کا وہ نظریہ(آئیڈیا آف انڈیا)تھا جو ‘سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف، سوچ، اظہار، عقیدہ، مذہب اور عبادت کی آزادی  پر مبنی ہے۔ یہ وقار اور موقع کی مساوات اور بھائی چارے پر مبنی ہے۔’ اس میں ہندو چول راج شاہی  کی علامت ‘سینگول’ کی رسم کے ساتھ پارلیامنٹ  میں اس کی تنصیب یا ایودھیا میں وزیر اعظم کے ذریعے رام مندر کی پران پرتشٹھاکی کوئی جگہ اور جواز نہیں تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ پچھلے دس برسوں کی اس پوری مدت کے دوران حکمران ہندوتوا سیاست نے جارحانہ انداز میں اکثریت پرستی کی سیاست کو نافذ کیا ہے اور آئین کے ذریعے محفوظ ہندوستانی سماج کے تکثیری ڈھانچے کو نظر انداز کیا ہے۔ یہاں تک کہ اقتدار کی چوٹی پر بیٹھے سیاست دانوں نے انتخابی مہم کے دوران ‘ایک ہیں تو نیک ہیں’ اور ‘بٹیں گے  تو کٹیں گے ‘ جیسے تفرقہ انگیز نعروں کا سہارا لیا۔ انتخابی ریلیوں کے دوران آئینی عہدوں پر فائز لیڈروں کا ‘جئے بجرنگ بلی’ اور ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانا اور الیکشن کمیشن کا اسے نظر انداز کرنا آئینی اداروں کے زوال کی علامت ہے۔

مرکزی وزیر گری راج سنگھ کی طرف سے بہار میں ‘ہندو سوابھیمان یاترا’ نکالنا آئین کے تئیں بے حسی کی علامت ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے آئینی عہدے پر فائز ایک جج کا یہ بیان کہ ‘یہ ملک اکثریت کے مطابق چلے گا’ اور ‘ہندو زیادہ روادار اور لبرل ہوتے ہیں’ اس دور میں آئین کی توہین کی ایک روشن مثال ہے۔ درحقیقت ہندوستانی آئین کے رہتے ہوئے آئین کی اس توہین کی جڑ میں ہندوتوا سوچ ہے جس کی جڑیں منوادی فکر میں پیوست ہیں۔ سناتن کا مسئلہ اسی بنیاد پر اٹھایا جا رہا ہے۔ تمل ناڈو کی دراوڑی سیاست کی طرف سے سناتن کی مخالفت کرنا فطری تھا۔ آئین کو نظر انداز کرکے مذہب کی یہ سیاست ملک کی سالمیت کے لیے بھی مہلک ہے۔ ایسے میں لوک سبھا میں آئین پر بحث کے دوران اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کا یہ کہنا مناسب ہے کہ ‘اصل مسئلہ منوسمرتی بنام آئین کا ہے۔’

آئین کے مسئلہ کو مرکزیت دے کر اپوزیشن پارٹیوں نے حکمراں پارٹی کے ہندوتوا مسئلہ پر سوال اٹھانے اور ملک کے سیاسی حالات کو صحیح سمت میں موڑنے کی پہل کی ہے۔ اس دور میں جس طرح سے آئین اور امبیڈکر ایک دوسرے کے مترادف ہو گئے ہیں، حکمران اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ آسان ہے کہ وہ اس بحث کو آئین سے ہٹا کر بابا صاحب امبیڈکر کے احترام تک محدود کر دیں۔ حکمران جماعت نے آئین پر پارلیامنٹ میں دو روزہ بحث کے دوران  یہی کیا۔ امبیڈکربنام  نہرو کی  بحث کا مقصد بھی یہی تھا۔ لیکن جس طرح سے وزیر داخلہ امت شاہ نے راجیہ سبھا میں بحث کا جواب دیتے ہوئے بیہودہ انداز میں ‘امبیڈکر بنام  بھگوان’ کے معاملے کو اٹھایا وہ ان کے لیے مہلک ثابت ہوا۔ پارلیامنٹ کے دروازے پر پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان تصادم ہندوستان کی پارلیامانی تاریخ کا شرمناک باب ہے۔ یہ سب کچھ امبیڈکر اور آئین کے نام پر ہوا، یہ سال اس وجہ سے بھی یاد رکھا جائے گا۔

یہاں یہ ماننا پڑے گا کہ جہاں امبیڈکر کو ‘صبح سویرے یاد کیے جانے’ کے زمرے میں ڈال کر سنگھ اور بی جے پی ‘ہم آہنگی’ کی آڑ میں ہندو مذہب کے ورناشرم یاذات پات کے نظام  کی حقیقت کو جھٹلانا اور اپنی اشرافیہ بنیاد محفوظ کرنا چاہتی ہیں؛وہیں راہل گاندھی اور اپوزیشن اتحاد ذات پر مبنی  مردم شماری اور بابا صاحب کی توہین کے معاملے کو مضبوط کرکے بہوجن برادری کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اسے انتخابی حکمت عملی تک محدود رکھنا عوام کے ساتھ ایک چھلاوہ ہوگا۔ آئین اور بابا صاحب پر مرکوز اس بحث کو انقلابی جہت سے آشنا کرنے کے لیے اپوزیشن کو واضح متبادل پالیسیوں کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ آئین کے معاملے کو علامت سے آگے لے جانے اور ان آئینی مسائل کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جو فلاحی ریاست کے اہداف کے حصول میں معاون ہیں۔ آئین کی دفعات کے ذریعے یہ ثابت کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات، تعلیم، طبی دیکھ بھال اور روزگار جیسے مسائل سے ریاست کا لاتعلقی ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ ’جئے سمویدھان‘ اور ’جئے بھیم‘ کے نعروں کو ڈی کوڈ کرنے کی ضرورت ہے۔

سال 2024 میں ہونے والی آئینی بحث نے ہندوستان کے تکثیری اور سیکولر ڈھانچے کو ان اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے بچانے کا موقع فراہم کیا ہے جنہیں آئین سازوں نے تحریک آزادی میں جدید ہندوستان کے تصور سے جوڑا تھا۔ سال جاتے جاتےیہ ایک خوشگوار خبر ہے کہ آنند تیلٹمبڑے کی تحریر کردہ ‘آئیکونوکلاسٹ- اے ریفلیکٹو بایوگرافی آف ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر’ کے عنوان سے بابا صاحب امبیڈکر کی ایک فکر انگیز اور مفصل سوانح حیات’ شائع ہو گئی ہے۔ اس سے بابا صاحب کے ارد گرد پیدا کی گئی  خرافات اور غلط فہمیوں کو ختم کرنے میں یقیناً مدد ملے گی۔ اسے بھی اس سال کی حصولیابی کے طور پر درج کیا جانا چاہیے۔

(ویریندر یادوسینئر ہندی نقاد ہیں۔)