شاہین باغ سے پارلیامنٹ تک: تشدد بی جے پی کا سیاسی حربہ

بی جے پی نے 19 دسمبر کو جو کچھ بھی کیا اس کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تشدد کے بعد ہمیشہ شک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ دو فریق بن جاتے ہیں۔ دوسرے فریق کو وضاحت پیش کرنی پڑتی ہے۔ بی جے پی ہر عوامی تحریک یا اپوزیشن کے احتجاج کے دوران تشدد کا سہارا لےکر یہی کرتی ہے۔

بی جے پی نے 19 دسمبر کو جو کچھ بھی کیا اس کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تشدد کے بعد ہمیشہ شک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ دو فریق بن جاتے ہیں۔ دوسرے فریق کو وضاحت پیش کرنی پڑتی ہے۔ بی جے پی ہر عوامی تحریک یا اپوزیشن کے احتجاج کے دوران تشدد  کا سہارا لےکر یہی کرتی ہے۔

جمعرات کی شام منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں راہل گاندھی، ملیکارجن کھڑگے اور پارٹی کے دیگر رہنما۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@RahulGandhi)

جمعرات کی شام منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں راہل گاندھی، ملیکارجن کھڑگے اور پارٹی کے دیگر رہنما۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@RahulGandhi)

بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کو تشدد کے سہارے انتشار کی طرف دھکیل رہی ہے۔ 19 دسمبر کو اس کے ارکان پارلیامنٹ نے منصوبہ بند طریقے سے پارلیامنٹ میں پرتشدد مناظر پیدا کیے اور راہل گاندھی کو گھیرنے کی سازش کی۔ راہل گاندھی پر اس نے سب سے گھناؤنا الزام یہ لگایا کہ وہ اس کی ایک خاتون ایم پی  کے وقار کو پامال کرنا چاہتے تھے۔ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ اس میں انسداد شیڈول کاسٹ ٹرائب ایٹروسیٹیز ایکٹ کی ایک دفعہ بھی شامل کی گئی ہے۔ اور تو اور ان  پر اقدام قتل کا بھی الزام  لگایا گیاہے۔

یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ جس بی جے پی رکن پارلیامنٹ نے یہ الزام لگایا ہے وہ ناگالینڈکی ہیں۔ راہل گاندھی پر اقدام قتل کا الزام  بھی  لگایا گیاہے۔ اس الزام کی صداقت کو قائم کرنے کے لیے بی جے پی کے دو ممبران پارلیامنٹ کو آئی سی یو میں داخل کرانا پڑا۔ ماتھے پر لگی چھوٹی پٹی آہستہ آہستہ تقریباً پگڑی میں بدل گئی۔ ہسپتال کے چیف آفیسر کو یہ بیان دینا پڑا کہ وہ نگرانی میں  ہیں اور ان کی حالت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے، لیکن اتنا ہی خوفناک بھی؛ اگر ہم اس کے پیچھے کی سازش کو سمجھ پائیں۔

راہل گاندھی پر یہ حملہ منصوبہ بند ہے۔ چونکہ راہل گاندھی گزشتہ کچھ عرصے سے ذات پر مبنی مردم شماری پر اصرار کر رہے ہیں،انہیں  شیڈول ٹرائب ایکٹ کےسنگین الزام کے ہتھیار سے نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی طرح، شمال مشرق کی ایک ریاست منی پور میں تشدد کی طرف مسلسل توجہ مبذول کرانے اور حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کی ان کی اور اپوزیشن کی کوششوں  کا جواب ہے شمال مشرق کے ہی  ایک اور ریاست ناگالینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی جانب سے ان پر لگایا الزام ۔

یہ سب کچھ اتنا شفاف ہے، لیکن بی جے پی کو یقین ہے کہ اس کا سب سے بڑا حامی اور مہم چلانے والا ہندوستان کا بڑا میڈیا اس سازش میں اس کے ساتھ رہےگا اور اس گھٹیا جھوٹ کو سچ میں بدل دے گا۔ بہت سے تجزیہ نگار غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرتے ہوئے کہیں گے کہ اگر الزام ہے تو کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہوگا۔ راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی سے وضاحت طلب کی جاتی رہے گی۔

ایک دن پہلے تک وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی کے دیگر عہدیدار پارلیامنٹ میں بابا صاحب امبیڈکر کے خلاف اپنے متکبرانہ ریمارکس کی صفائی  پیش کر رہے تھے۔ یہ غیر فطری نہیں تھا کہ اپوزیشن اسے ایشو بنائے۔ اس کے بعد بی جے پی کو دفاعی قدم اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن انہوں نے اپنی فطرت کے مطابق اپوزیشن کی مخالفت کا جواب جارحیت سے دینے کا فیصلہ کیا۔

کسی بھی احتجاج کو تباہ کرنے کا سب سے مؤثر حربہ تشدد ہے۔ بی جے پی نے پچھلے 10 سالوں میں ہر احتجاج کا جواب تشدد سے دیا ہے۔ بھیما کورےگاؤں میں دلتوں کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کے خلاف تشدد کیا گیا۔ پھر حکومت کے ناقدین کو اس تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ اپریل 2018 میں دلتوں نے بھارت بند کی کال دی تھی۔ اس دن دلتوں کے خلاف تشدد کیا گیا اور سینکڑوں دلتوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ جب شہریت قانون کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو ایک بار نہیں بلکہ کئی بار تشدد ہوا۔ شاہین باغ کے احتجاجی مقامات پر منصوبہ بند حملے کیے گئے۔ کسانوں کی تحریک کے دوران ہم نے کئی بارٹکری اور سنگھو سرحدوں پر ہڑتال پر بیٹھے کسانوں پر  حملے دیکھے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی، حیدرآباد یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حکومت کے ناقدین پر پرتشدد حملوں کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں۔

تشدد کے بعد ہمیشہ شک وشبہات پیدا ہوتے ہیں۔ دو فریق بن جاتے  ہیں۔ اور جو پہلے الزام لگا دیتا ہے اس کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے۔ دوسرے فریق کو وضاحت پیش کرنی پڑتی ہے۔ بی جے پی ہر عوامی تحریک یا اپوزیشن کے احتجاج کے دوران تشدد کر کے یہی کرتی ہے۔ جس معاملے پر احتجاج ہوا وہ بحث سے غائب ہو جاتا ہے، باقی رہ جاتا ہےتشدد۔ چونکہ تمام بڑا میڈیا بی جے پی کا حامی اور اپوزیشن مخالف ہے، اس لیے وہ بحث کے دوران ہمیشہ اپوزیشن کو نشانہ بناتا رہتا ہے۔

اب تک یہ سب کچھ سڑکوں  پر ہوتا تھا۔ بی جے پی اس  کو پارلیامنٹ تک  لے گئی ہے۔ پارلیامنٹ کے اندر بی جے پی کی طرف سے گالی گلوچ اور بدتمیزی کی کئی مثالیں دیکھی گئی ہیں۔ 19 دسمبر کو یہ جسمانی تشدد میں بدل گیا۔ ہم نے دوسری حکومتوں کے دوران اپوزیشن کو اس سے پہلے سینکڑوں بار احتجاج کرتے دیکھا ہے۔ حکمران جماعت نے کبھی اپوزیشن کی اس طرح مخالفت نہیں کی۔ حکمران جماعت ہمیشہ زیادہ تحمل سے کام لیتی ہے۔ لیکن بی جے پی ہمیشہ اس کے برعکس کام کرتی آئی  ہے۔

بی جے پی نے 19 دسمبر کو جو کچھ بھی کیا اس کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ راہل گاندھی کی ساکھ کو ختم  کر دینا چاہتی ہے۔ وہ جس جس جگہ کارگر ہوسکتے ہیں، وہ ان سے چھین لینا چاہتی ہے۔ پچھلی بار ان کی پارلیامنٹ کی رکنیت ختم کرنے کے پیچھے یہی وجہ تھی۔ اس بار بھی تیاریاں وہی ہیں۔ راہل گاندھی واحد اپوزیشن لیڈر ہیں جن کا چہرہ پورے ہندوستان میں لوگ پہچانتے ہیں۔ ان  کے چہرے کو غائب کر کے ہی اپوزیشن کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

میڈیا شیطانی خوشی کے ساتھ اس پروپیگنڈے میں کود پڑا ہے۔ کانگریس اور اپوزیشن کے سامنے چیلنج ہے کہ وہ عوام کو بی جے پی کی اس مکروہ سازش سے آگاہ کرے۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)

Next Article

نہیں رہے معاشی اصلاحات اور آر ٹی آئی کے سرخیل؛ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کا انتقال

سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال پر اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے صدر دروپدی مرمو نے کہا کہ ڈاکٹر سنگھ نے ہندوستانی معیشت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں ملک کے لیےان کی خدمات اور بے داغ سیاسی زندگی کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/منموہن سنگھ)

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/منموہن سنگھ)

نئی دہلی: سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نہیں رہے ۔ عمر سے متعلق بیماریوں کی وجہ سے دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) میں بھرتی ہوئے سنگھ  نے جمعرات کی رات تقریباً 10 بجے آخری سانس لی۔ وہ  92 سال کے تھے۔

ایمس نے 26 دسمبر کو دیر رات جاری ایک مختصر بیان میں کہا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ 26 دسمبر 2024 کو گھر میں اچانک بے ہوش ہو گئے۔ علاج فوری طور پر گھر پر شروع کیا گیا اور انہیں رات 8:06 بجے ایمس، نئی دہلی میں میڈیکل ایمرجنسی میں لایا گیا۔ تمام کوششوں کے باوجود انہیں  بچایا نہیں جا سکا اور رات 9:51 پر انہوں نے آخری سانس لی۔

خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے سرکاری  ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی آخری رسومات پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی جائیں گی اور سات روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا جائے گا۔

برطانوی ہندوستان (اب پاکستان میں) کے صوبہ پنجاب کے گاؤں گاہ میں 1932 میں پیدا ہوئے منموہن سنگھ نے اسکول کی تعلیم پہلے اپنے گاؤں اور پھر پشاور میں حاصل کی اور 1947 میں آزادی اور تقسیم کے بعد ہندوستان آگئے۔ بٹوارے سے اجڑے لاکھوں دوسرے لوگوں کی طرح سنگھ کے خاندان کو بھی اپنے آپ کو ایک نئی جگہ پر آباد ہونے میں جدوجہد کرنی پڑی۔

منموہن سنگھ بنیادی طور پر معاشیات  کے ماہرتھے۔ انہوں نے کیمبرج میں تعلیم حاصل کی تھی، جہاں انہیں ممتاز ماہرین اقتصادیات جان رابنسن اور نکولس کلڈور کی رہنمائی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے آکسفورڈ میں ہندوستان کی برآمدی کارکردگی (ایکسپورٹ پرفارمنس)پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔ اس کے بعد وہ پڑھانے کے لیے ہندوستان واپس آئے، انھوں نے پہلے پنجاب یونیورسٹی میں پڑھایا اور پھر دہلی اسکول آف اکنامکس، دہلی یونیورسٹی میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا۔

معاشیات میں ان کی مہارت کا امتحان 1972 میں اس وقت ہوا جب وہ اندرا گاندھی کی وزارت عظمیٰ کے دوران مرکزی وزارت خزانہ کے چیف اکنامک ایڈوائزر مقرر ہوئے۔ اس وقت یشونت راؤ چوہان وزیر خزانہ تھے۔ اس کے بعد وہ متعدد دیگر اہم اقتصادی عہدوں پر فائز رہے جیسے فنانس سکریٹری، پلاننگ کمیشن کے ممبر اور ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر۔ سال 1991 میں وہ نرسمہا راؤ حکومت کے وزیر خزانہ بنے۔

وہ 1996 تک اس عہدے پر فائز رہے، اس دوران انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ انہوں نے معاشی اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا – جو اس وقت متنازعہ تھا – جس نے بالآخر ہندوستانی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ روپے کی قدر میں کمی، صنعتی کنٹرول کے خاتمے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے دروازہ  کھولنا بڑے پیمانے پرانتشار کی وجہ بنا، جس کے ثمرات صرف بعد کی دہائیوں میں حاصل ہوئے۔

19 مئی 2004 کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے منتخب ہونے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اس عہدے کی ذمہ داری سونپتے ہوئے اس وقت کے صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام۔ ساتھ میں کانگریس پارلیامانی پارٹی کی صدر سونیا گاندھی۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: حکومت ہند)

19 مئی 2004 کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے منتخب ہونے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اس عہدے کی ذمہ داری سونپتے ہوئے اس وقت کے صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام۔ ساتھ میں کانگریس پارلیامانی پارٹی کی صدر سونیا گاندھی۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: حکومت ہند)

سال 2004 میں جب کانگریس کو اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی بی جے پی پر حیرت انگیز فتح کے بعد حکومت بنانے کا موقع ملا، تو کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے منموہن سنگھ کو پارٹی کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد ساری زندگی منموہن سنگھ پر ‘ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر’ کا ٹیگ لگا رہا، جہاں ناقدین نے سونیا گاندھی پر پردے کے پیچھے سے ان کی حکومت چلانے کی  کڑی تنقید کی۔

تاہم، ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سسٹم منموہن سنگھ جیسے ٹیکنو کریٹک لیڈر کے لیے موزوں تھا، جو معیشت کے لیے اپنے وژن کو عملی جامہ پہنانے کے خواہشمند تھے۔ تاہم، ان کے پاس سیاسی بصیرت بھی تھی، جس کی وجہ سے انھوں نے بڑے اقدامات کیے، خاص طور پر خارجہ پالیسی کے محاذ پر، جس نے کبھی کبھی سونیا گاندھی اور وسیع تر کانگریس پارٹی کو بے چین بھی کیا۔

پارٹی کے اندر اختلافات کے باوجود وہ  ہندوستان  اور امریکہ کو قریب لائے اور 1974 میں اپنے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد سے ملک میں جوہری علیحدگی اور ٹکنالوجی کی ممانعت کے نظام کو کامیابی سے ختم کیا۔ جولائی 2005 میں انہوں نے اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدے کیے، جس کی وجہ سے نیوکلیئر سپلائرز گروپ نے ہندوستان  کے ساتھ جوہری تجارت پر سے پابندی اٹھا لی، اور شاید یہ ان کی سب سے اہم سفارتی کامیابی تھی۔

سنگھ نے اس بات کو یقینی بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا کہ جی20 عالمی معیشت کو 2008 کے مالیاتی بحران سے نکالے۔

یہ منموہن سنگھ کا ہی چہرہ تھا جس نے 2009 کے عام انتخابات میں متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) کی حکومت کو فتح دلائی، جبکہ اپوزیشن بی جے پی نے نومبر 2008 میں ممبئی میں پاکستان کے لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں کو ان کی  کمزوری کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

وزیر اعظم کے طور پر ڈاکٹر سنگھ نے تین بڑی اصلاحات متعارف کروائیں جو ملک نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں: معلومات کا حق قانون، مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (منریگا) اور ترمیم شدہ اراضی حصول قانون۔

منریگا اس دیہی بحران کا جواب تھا، جسے واجپائی حکومت نے ‘انڈیا شائننگ’ کے نعرے سے چھپانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن ان کی دوسری میعاد ٹیلی کام سپیکٹرم اور کوئلے کی کان کنی کے لیز کی تقسیم پر تنازعات کی زد میں رہی، اپوزیشن بی جے پی اور میڈیا کے ایک بڑے حصے نے ڈاکٹر سنگھ پر سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے کا الزام لگایا۔ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کی رپورٹ کی وجہ سے ان الزامات کو اعتبار حاصل ہوا، حالانکہ بطور وزیر اعظم انہوں نے اپنے ہی ٹیلی کام وزیر – ڈی ایم کے کے اے راجہ کو فوری طور پر 2G گھوٹالے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کر وایا تھا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت شروع کیے گئے تمام مجرمانہ مقدمات نریندر مودی کے وزیر اعظم کے دور میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچے، جس کی وجہ سے تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا۔

منموہن سنگھ کا دور اس لیے بھی اہم تھا کہ وہ ملک کے وزیر اعظم بننے والے اقلیتی برادری کے پہلے فرد تھے۔ یہ حقیقت اس لیے بھی اہم ہے کہ ایک سکھ ہونے کے ناطے انھوں نے 31 اکتوبر 1984 کو اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی اور شمالی ہندوستان کے دیگر شہروں میں ہوئے سکھوں کے قتل عام ، جسے شروع کرنے کا الزام بھی کانگریس پر ہی تھا، کے لیے معافی مانگی تھی۔ سکھ مخالف فسادات پر ناناوتی کمیشن کی رپورٹ کے فوراً بعد 12 اگست 2005 کو پارلیامنٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

‘مجھے سکھ برادری سے معافی مانگنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ میں نہ صرف سکھ برادری سے بلکہ پورے ہندوستان سے معذرت خواہ ہوں کیونکہ 1984 میں جو کچھ بھی ہوا وہ ہمارے آئین میں درج قوم پرستی کے تصور کے خلاف ہے۔’

ان کی معافی ایک سیاست دان کی طرف سے، خاص طور پر وزیر اعظم کے عہدے پر فائز شخص  کے لیے ایک غیر معمولی عمل تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے کمیشن کی طرف سے نامزد سینئر کانگریس لیڈر جگدیش ٹائٹلر کو برطرف کرنے کا ان کا فیصلہ تھا۔

اس وقت امریکی سفارت خانے کے ایک کیبل میں کہا گیا تھا، ‘وزیراعظم کی طرف سے معافی مانگنے اور گاندھی خاندان سے دیرینہ تعلقات رکھنے والے وزیر کے جبری استعفیٰ نے ان ہندوستانیوں کو چونکا دیا ہے جو اپنے لیڈروں سے صرف خراب  توقع  ہی رکھتے تھے۔ وزیر اعظم کے سیاسی جسارت کے اس غیر معمولی قدم کو لمبے وقت تک ہندوستان کے مذہبی ہم آہنگی کے طویل سفر میں اخلاقی وضاحت کے ایک اہم لمحے – تقریبا گاندھیائی –  لمحے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔’

ڈاکٹر سنگھ کے انتقال پر صدر دروپدی مرمو، وزیر اعظم نریندر مودی اور ملک اور بیرون ملک کےتمام  لیڈروں نے غم کا اظہار کیا ہے۔

ایکس پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صدر مرمو نے لکھا ، ‘سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ جی ان کمیاب سیاست دانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے تعلیم اور ایڈمنسٹریشن کی دنیا میں یکساں قدرت کے ساتھ کام کیا۔ عوامی دفاتر میں اپنے مختلف کرداروں میں، انہوں نے ہندوستانی معیشت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں ملک کی خدمت، ان کے بے عیب سیاسی کیریئر اور ان کی خاکساری کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا…’

ان کے ساتھ مختلف تصاویر شیئر کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا ہے، ‘ہندوستان اپنے سب سے معزز رہنما ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کے انتقال سے غمزدہ ہے۔ ایک عام پس منظر سے آتے ہوئے وہ ایک مشہور ماہر اقتصادیات بن گئے۔ وہ مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہے، جن میں وزیر خزانہ کا عہدہ بھی شامل ہے، اور انہوں نے گزشتہ برسوں میں ہماری اقتصادی پالیسی پر گہرا نشان چھوڑا۔ پارلیامنٹ میں ان کی مداخلتیں بھی بہت عملی تھیں۔ ہمارے وزیر اعظم کے طور پر انہوں نے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر کوششیں کیں۔’

انہوں نے مزید کہا کہ ‘ڈاکٹر منموہن سنگھ جی اور میں اس وقت باقاعدگی سے بات کرتے تھے جب وہ وزیر اعظم تھے اور میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا۔ ہم گورننس سے متعلق مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔ ان کی ذہانت اور عاجزی ہمیشہ نظر آتی تھی۔ غم کی اس گھڑی میں میری تعزیت ڈاکٹر سنگھ کے اہل خانہ، ان کے دوستوں اور ان گنت مداحوں کے ساتھ ہے۔ اوم شانتی۔’

منموہن سنگھ کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس کے صدر ملیکارجن کھڑگے نے کہا کہ ہندوستان نے ایک دور اندیش سیاست دان، بے داغ ایماندار رہنما اور قدآور ماہر معاشیات کو کھو دیا ہے۔

کانگریس کے سابق صدر اور لوک سبھا میں اس وقت اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے ڈاکٹر سنگھ کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اپنے سرپرست سے محروم ہو گئے۔

منموہن سنگھ کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ گرشرن کور اور تین بیٹیاں – اپندر سنگھ، دمن سنگھ اور امرت سنگھ ہیں۔

Next Article

سال 2024: آئین اور امبیڈکر کا سال

سال 2024 ہندوستانی سیاست میں آئین اور امبیڈکر کی مرکزیت کا سال رہا۔ لوک سبھا انتخابات آئین کی دفعات اور اس کے تحفظ کے مسئلہ پر لڑا گیا۔ اپوزیشن نے آئین اور ریزرویشن کو درپیش خطرے کو زور شور سے اٹھایا، جبکہ حکمراں پارٹی ہندوتوا کے ایشو پر دفاعی انداز میں نظر آئی۔ لیکن اسے محض انتخابی حکمت عملی تک محدود رکھنا عوام کے ساتھ چھلاوہ ہوگا۔ آئین اور بابا صاحب پر مرکوز اس بحث کو انقلابی جہت سے آشنا کرنے کی ضرورت ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

(تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

یہ پہلا موقع ہے کہ آزاد ہندوستان  میں لوک سبھا  کا کوئی الیکشن (2024)آئین اور اس کی دفعات کے ارد گرد لڑا گیا۔ جہاں حکومت مخالف ‘انڈیا’ اتحاد نے زور شور سے آئین کے خطرے میں ہونے اور اس میں بنیادی تبدیلی کیے  جانے کے خدشات کو ایشو بنایا، وہیں حکمران جماعت کی قیادت ہندوتوا کے مسئلے کو کمزور ہوتے دیکھ کر دفاعی انداز میں یہ کہنے کو مجبور ہوگئی کہ ‘اگر امبیڈکر بھی آجائیں توآئین کو تبدیل نہیں کرسکتے۔’

آئین اور امبیڈکر پر اس بحث کی بازگشت  لوک سبھا کے انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد اس وقت اپنے عروج کو پہنچ گئی جب نومنتخب ارکان نے اپنے ہاتھوں میں آئین کی کاپی لے  کر ‘جئے بھیم’ کا نعرہ لگایا۔ سال کی شروعات 22 جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے ساتھ جس ذاتی مفاد سے ہوئی تھی ،اس کے پس پردہ  ہندوتوا کے مسئلہ پر لوک سبھا الیکشن لڑنے اور جیتنے کی منشا صاف تھی۔ لیکن جس طرح سے بی جے پی کے ‘چار سو پار’ کے نعرے کو آئین اور ریزرویشن کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دینے کی انڈیا الائنس کی حکمت عملی نے بی جے پی کو لوک سبھا میں اپنے دم  پر اکثریت سے محروم کر دیا، وہ ہندوتوا کے مسئلے کی کراری  شکست اور آئین کامسئلہ اس کی مرکزیت کی نشاندہی کرتا ہے۔

رام مندر کی پران پرتشٹھاکے سیاسی اور مذہبی کارنیوال کے بعد ایودھیا (فیض آباد) کی غیر ریزرو لوک سبھا سیٹ سے  سماج وادی پارٹی کے دلت امیدوار اودھیش پرساد پاسی کا الیکشن جیتنا اور الیکشن کے دوران یہ نعرہ لگانا کہ ‘نہ متھرا، نہ کاشی، اب کی جیتے ہیں  اودھیش پاسی’ کے گہرے مضمرات ہیں۔ یہی نہیں، بابا وشوناتھ کے شہر کاشی سے نریندر مودی کی جیت کا مارجن صرف ڈیڑھ لاکھ کے فرق تک سمٹ جانا بھی ہندوتوا کے مسئلے پر گرہن لگانے والا تھا۔ اس سب کے درمیان راہل گاندھی نے جس طرح آئین کی کاپی ہاتھ میں لے کر ذات پر مبنی  مردم شماری کے معاملے کو اٹھایا، وہ آئین کو ایک مرکزی مسئلہ کے طور پر زندہ رکھنے میں کامیاب رہا۔ لیکن اس سب کے باوجود بی جے پی نے جس طرح ہریانہ، جھارکھنڈ اور مہاراشٹر کے انتخابات میں ہندوتوا کے مسئلے کو زندہ کیا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لوک سبھا کے انتخابی دھکے کے باوجود بی جے پی کا اصل ہدف ہندوتوا پر مبنی اکثریت پرستی کی سیاست ہے۔

یہ مان لینا چاہیے کہ ہندوستانی آئین میں موجود ‘مساوات، آزادی اور بھائی چارے’ کی اقدار ہندوتوا کی سیاست سے میل نہیں کھاتی ہیں۔ بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا کہ ‘اگر واقعی ہندو راج قائم ہوتا ہے تو بلاشبہ اس سے اس ملک کو بہت بڑا خطرہ ہو گا۔ ہندو کچھ بھی کہیں، ہندوتوا آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے لیے خطرہ ہے۔ اس بنیاد پر یہ جمہوریت کے لیے نا مناسب ہے۔ ہندو راج کو ہر قیمت پر روکا جانا چاہیے۔ (ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر)۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بی جے پی کی سیاست سیکولرازم کے برخلاف جس مذہب پر مبنی سیاست پر ٹکی ہوئی  ہے، اس کی راہ میں موجودہ آئین ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ یہ بلا وجہ نہیں ہے کہ ملک کے نائب صدر جگدیپ دھنکر کی واضح رائے ہے کہ ‘آئین کے بنیادی ڈھانچے جیسا کوئی اصول نہیں ہے۔ پارلیامنٹ سپریم ہے، وہ اس میں کوئی بھی ترمیم کر سکتی ہے۔’

وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کمیٹی کے اس وقت کے سربراہ وویک دیبرائے (اب آنجہانی) نےتو  نیا آئین لکھنے کی وکالت کی تھی۔ لوک سبھا انتخابات سے پہلے بی جے پی کے کئی ممبران پارلیامنٹ نے بھی آئین کو تبدیل کرنے کی بات کہی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ بی جے پی اور اس کی سابقہ بنیادی تنظیمیں آئین ہند سے عدم اطمینان اور عدم اتفاق کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ اس تناظر میں ہمیں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کےغیر اعلانیہ ماؤتھ پیس ‘آرگنائزر’ کا اداریہ یاد آتا ہے جو دستور ساز اسمبلی کے آئین کو تسلیم کرنے کے چار دن بعد 30 نومبر کو 1949 میں شائع ہوا تھا۔ تسلیم  شدہ آئین کو مسترد کرتے ہوئے اس اداریے میں کہا گیا تھا کہ، ‘ہندوستان کے اس نئے آئین کی سب سے بری بات یہ ہے کہ اس میں کچھ بھی ہندوستانی نہیں ہے۔ قدیم ہندوستانی آئینی قانون، اداروں، ناموں اور اصطلاحات کا کوئی اشارہ نہیں ہے اور نہ ہی اس میں قدیم ہندوستان میں ہونے والی آئینی پیش رفت کا ذکر ہے۔ منو کا قانون اسپارٹا کے لیزرگس اور فارس کے سولون سے بہت پہلے لکھا گیا تھا۔ ان کی لکھی ہوئی منوسمرتی آج بھی دنیا میں قابل احترام، قابل تحسین   اور قابل تقلید ہے۔’

ہندوستانی آئین کے اس انکار کی بنیاد میں ہندوستان کا وہ نظریہ(آئیڈیا آف انڈیا)تھا جو ‘سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف، سوچ، اظہار، عقیدہ، مذہب اور عبادت کی آزادی  پر مبنی ہے۔ یہ وقار اور موقع کی مساوات اور بھائی چارے پر مبنی ہے۔’ اس میں ہندو چول راج شاہی  کی علامت ‘سینگول’ کی رسم کے ساتھ پارلیامنٹ  میں اس کی تنصیب یا ایودھیا میں وزیر اعظم کے ذریعے رام مندر کی پران پرتشٹھاکی کوئی جگہ اور جواز نہیں تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ پچھلے دس برسوں کی اس پوری مدت کے دوران حکمران ہندوتوا سیاست نے جارحانہ انداز میں اکثریت پرستی کی سیاست کو نافذ کیا ہے اور آئین کے ذریعے محفوظ ہندوستانی سماج کے تکثیری ڈھانچے کو نظر انداز کیا ہے۔ یہاں تک کہ اقتدار کی چوٹی پر بیٹھے سیاست دانوں نے انتخابی مہم کے دوران ‘ایک ہیں تو نیک ہیں’ اور ‘بٹیں گے  تو کٹیں گے ‘ جیسے تفرقہ انگیز نعروں کا سہارا لیا۔ انتخابی ریلیوں کے دوران آئینی عہدوں پر فائز لیڈروں کا ‘جئے بجرنگ بلی’ اور ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانا اور الیکشن کمیشن کا اسے نظر انداز کرنا آئینی اداروں کے زوال کی علامت ہے۔

مرکزی وزیر گری راج سنگھ کی طرف سے بہار میں ‘ہندو سوابھیمان یاترا’ نکالنا آئین کے تئیں بے حسی کی علامت ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے آئینی عہدے پر فائز ایک جج کا یہ بیان کہ ‘یہ ملک اکثریت کے مطابق چلے گا’ اور ‘ہندو زیادہ روادار اور لبرل ہوتے ہیں’ اس دور میں آئین کی توہین کی ایک روشن مثال ہے۔ درحقیقت ہندوستانی آئین کے رہتے ہوئے آئین کی اس توہین کی جڑ میں ہندوتوا سوچ ہے جس کی جڑیں منوادی فکر میں پیوست ہیں۔ سناتن کا مسئلہ اسی بنیاد پر اٹھایا جا رہا ہے۔ تمل ناڈو کی دراوڑی سیاست کی طرف سے سناتن کی مخالفت کرنا فطری تھا۔ آئین کو نظر انداز کرکے مذہب کی یہ سیاست ملک کی سالمیت کے لیے بھی مہلک ہے۔ ایسے میں لوک سبھا میں آئین پر بحث کے دوران اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کا یہ کہنا مناسب ہے کہ ‘اصل مسئلہ منوسمرتی بنام آئین کا ہے۔’

آئین کے مسئلہ کو مرکزیت دے کر اپوزیشن پارٹیوں نے حکمراں پارٹی کے ہندوتوا مسئلہ پر سوال اٹھانے اور ملک کے سیاسی حالات کو صحیح سمت میں موڑنے کی پہل کی ہے۔ اس دور میں جس طرح سے آئین اور امبیڈکر ایک دوسرے کے مترادف ہو گئے ہیں، حکمران اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ آسان ہے کہ وہ اس بحث کو آئین سے ہٹا کر بابا صاحب امبیڈکر کے احترام تک محدود کر دیں۔ حکمران جماعت نے آئین پر پارلیامنٹ میں دو روزہ بحث کے دوران  یہی کیا۔ امبیڈکربنام  نہرو کی  بحث کا مقصد بھی یہی تھا۔ لیکن جس طرح سے وزیر داخلہ امت شاہ نے راجیہ سبھا میں بحث کا جواب دیتے ہوئے بیہودہ انداز میں ‘امبیڈکر بنام  بھگوان’ کے معاملے کو اٹھایا وہ ان کے لیے مہلک ثابت ہوا۔ پارلیامنٹ کے دروازے پر پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان تصادم ہندوستان کی پارلیامانی تاریخ کا شرمناک باب ہے۔ یہ سب کچھ امبیڈکر اور آئین کے نام پر ہوا، یہ سال اس وجہ سے بھی یاد رکھا جائے گا۔

یہاں یہ ماننا پڑے گا کہ جہاں امبیڈکر کو ‘صبح سویرے یاد کیے جانے’ کے زمرے میں ڈال کر سنگھ اور بی جے پی ‘ہم آہنگی’ کی آڑ میں ہندو مذہب کے ورناشرم یاذات پات کے نظام  کی حقیقت کو جھٹلانا اور اپنی اشرافیہ بنیاد محفوظ کرنا چاہتی ہیں؛وہیں راہل گاندھی اور اپوزیشن اتحاد ذات پر مبنی  مردم شماری اور بابا صاحب کی توہین کے معاملے کو مضبوط کرکے بہوجن برادری کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اسے انتخابی حکمت عملی تک محدود رکھنا عوام کے ساتھ ایک چھلاوہ ہوگا۔ آئین اور بابا صاحب پر مرکوز اس بحث کو انقلابی جہت سے آشنا کرنے کے لیے اپوزیشن کو واضح متبادل پالیسیوں کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ آئین کے معاملے کو علامت سے آگے لے جانے اور ان آئینی مسائل کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جو فلاحی ریاست کے اہداف کے حصول میں معاون ہیں۔ آئین کی دفعات کے ذریعے یہ ثابت کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات، تعلیم، طبی دیکھ بھال اور روزگار جیسے مسائل سے ریاست کا لاتعلقی ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ ’جئے سمویدھان‘ اور ’جئے بھیم‘ کے نعروں کو ڈی کوڈ کرنے کی ضرورت ہے۔

سال 2024 میں ہونے والی آئینی بحث نے ہندوستان کے تکثیری اور سیکولر ڈھانچے کو ان اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے بچانے کا موقع فراہم کیا ہے جنہیں آئین سازوں نے تحریک آزادی میں جدید ہندوستان کے تصور سے جوڑا تھا۔ سال جاتے جاتےیہ ایک خوشگوار خبر ہے کہ آنند تیلٹمبڑے کی تحریر کردہ ‘آئیکونوکلاسٹ- اے ریفلیکٹو بایوگرافی آف ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر’ کے عنوان سے بابا صاحب امبیڈکر کی ایک فکر انگیز اور مفصل سوانح حیات’ شائع ہو گئی ہے۔ اس سے بابا صاحب کے ارد گرد پیدا کی گئی  خرافات اور غلط فہمیوں کو ختم کرنے میں یقیناً مدد ملے گی۔ اسے بھی اس سال کی حصولیابی کے طور پر درج کیا جانا چاہیے۔

(ویریندر یادوسینئر ہندی نقاد ہیں۔)

Next Article

’جب وزیر خزانہ منموہن سنگھ مزدوروں کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے‘

منموہن سنگھ کم گو، شائستہ مزاج اور نرم خو طبعیت کے مالک تھے اور انہیں بخوبی احساس تھا کہ کب، کہاں اور کتنا بولنا ہے۔ نہ انہوں نے کبھی میڈیا سے منہ چھپایا اور نہ ہی بے وجہ کے نعرے اچھالے۔ جب بھی موقع آیا اور ضرورت پڑی، پریس کانفرنس کی اور ہر سوال کا جواب دیا۔

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس)

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس)

یہ 1994-95 کی بات ہے۔ میں پہلی بار ایم ایل اے بنا تھا۔ میرے اسمبلی حلقہ میں اسٹیل فاؤنڈری کا ایک معاملہ مزدوروں کے توسط سے میرے پاس آیا۔ یہ غیر منقسم مدھیہ پردیش کی دوسری بڑی فاؤنڈری تھی اور مالی بحران سے دوچارتھی۔ معاملہ کچھ ایسا تھا کہ صرف مرکزی حکومت ہی کچھ کر سکتی تھی۔

میں نے یہ معاملہ درگ ایم پی اور اپنے سیاسی گرو چندولال چندراکر جی کے سامنے رکھا۔ انہوں نے کہا کہ میں فاؤنڈری کی انتظامیہ کے لوگوں کو لے کر دہلی پہنچ جاؤں۔ میں نے بات کی تو نہ صرف مزدور بلکہ مالکان بھی میرے ساتھ چلنے کو تیار ہو گئے۔ ہم پہنچے نارتھ بلاک میں وزارت خزانہ۔ اس وقت وزیر خزانہ تھےمنموہن سنگھ جی ۔ یہ منموہن سنگھ جی سے میری پہلی ملاقات تھی۔

اس وقت تک وہ معیشت کو نئی پٹری پر لا چکے تھے۔ اس کا چرچہ بہت تھا، لیکن اثر ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔

انہوں  نے مسئلہ سنا۔ پہلے تو وہ اس بات سے خوش ہوئے کہ مسئلہ حل کرنے فاؤنڈری کے مالکان اور مزدور دونوں ساتھ آئے ہیں۔ انھوں نے شائستگی سے کہا کہ انھیں نہیں لگتا کہ وہ اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کر پائیں گے۔ پھر فرمایا کہ،’ آپ لوگ آگئے تو میں ایک کوشش ضرور کروں گا۔’

انہوں نے متعلقہ بینک سے لے کر ریزرو بینک تک کئی مقامات پر فون کیا اور ہمارے سامنے ہی بات کی اور سب کو ہدایت دی کہ اگر قواعد و ضوابط میں کوئی گنجائش ہے تو مدد ضرور کی جائے۔

مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ لیکن فاؤنڈری کے مالکان اور مزدور خوش تھے کہ ملک کے وزیر خزانہ نے اتنی سنجیدگی سے کوشش کی۔ میرے لیے یہ سیاسی زندگی کا ایک سبق تھا۔ منموہن سنگھ جی کی سادگی، عاجزی اور کام کے تئیں ان کی لگن کی تصویر آدھے گھنٹے میں دل میں اتر گئی۔

تب تک وہ ملک میں معاشی انقلاب برپا کر چکے تھے۔ آنے والے سالوں میں جس طرح سے ملک کی معیشت بدلی اس سے یہ احساس ہوا کہ منموہن سنگھ نے خاموشی سے ملک کو بدل دیا ہے۔ اگلی دو دہائیاں ہندوستانیوں کے لیےکسی  خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کی طرح تھیں۔

لبرلائزیشن اور بازار کھولنے کے لیے ان پر بہت تنقید ہوئی اور وہ شائستگی سے جواب دیتے رہے۔ انہیں وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی سرپرستی حاصل تھی اور انہیں یقین تھا کہ مستقبل کے لیے یہی راستہ ہے۔ ان کا دیرینہ ہدف ہندوستان سے لائسنس راج کا خاتمہ تھا۔ اور وہ ایسا کر چکے تھے۔

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ساتھ کانگریس لیڈر بھوپیش بگھیل۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@bhupeshbaghel)

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ساتھ کانگریس لیڈر بھوپیش بگھیل۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@bhupeshbaghel)

اس کے دس سال بعد جب ہماری لیڈر محترمہ سونیا گاندھی نے خود وزیر اعظم بننے کے بجائے منموہن سنگھ کا انتخاب کیا تو ملک حیران رہ گیا۔ اٹل بہاری واجپائی جیسےمقرر کے بعد منموہن سنگھ جیسے کم گو شخص؟ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک اور خدشات پیدا ہوئے، بہت سے لوگوں نے بہت سی باتیں کہیں۔ لیکن منموہن سنگھ جی اس ملک کو بخوبی سمجھتے تھے۔

سال 2004 سے 2014 تک انہوں نے وزیر اعظم کے طور پر دو مدت مکمل کی۔اس بار وہ ملک کے عام لوگوں کو تحفظ اور حقوق فراہم کرنے کے راستے پر تھے۔ اس کا آغاز کسانوں کو ان کی فصلوں کی صحیح قیمت دینے سے ہوا۔ ان کے دور میں ایم ایس پی میں اضافہ ناقابل تصور تھا۔

یو پی اے کے دس سالوں میں منموہن سنگھ کی قیادت میں ایسے سات قوانین بنائے گئے جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ روزگار کا حق دینے والا قانون ‘منریگا’،بنای، خوراک، تعلیم اور صحت کا حق بھی ملا۔ زمین کے حصول کا قانون آیا۔ اور ملک میں شفافیت لانے کے لیے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ نافذ ہوا۔

منریگا اور ان قوانین کا مجموعی طور پر اثر یہ ہوا کہ ملک میں 14 کروڑ لوگ غربت کی زندگی  سے باہر نکل آئے۔ کسانوں اور مزدوروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ ترقی کسے کہتے ہیں۔ اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کیے بغیر جی ڈی پی کو دوہرے ہندسوں تک لے جانا بھی انہی  کے حوصلے کی بات تھی۔ تبھی ہندوستان ایک مضبوط معیشت کے طور پر دنیا میں پہچانا گیا۔

منموہن سنگھ جی کم گو، شائستہ مزاج اور نرم خو طبعیت کے مالک تھے، لیکن وہ جانتے تھے کہ کب، کہاں اور کتنی بات کرنی ہے۔ نہ انہوں نےکبھی میڈیا سے منہ چھپایا اور نہ ہی بے وجہ کےنعرے اچھالے۔ جب موقع آیا اور جب بھی ضرورت پڑی، پریس کانفرنس کی اور ہر سوال کا جواب دیا۔

ایک ایسے وقت میں جب میڈیا یکطرفہ فیصلےسنارہا تھا، تب بھی انہوں نے شائستگی سے اتنا ہی کہا کہ انہیں امید ہے کہ تاریخ ان کا تجزیہ کرنے میں میڈیا کے مقابلے زیادہ فراخدلی کا مظاہرہ کرے گی۔

منموہن سنگھ جی آج نہیں رہے لیکن ان کا تجزیہ ان کے جیتے جی ہونے لگا تھا۔ اور ہر باشعور اہل وطن کے ذہن میں پشیمانی کا احساس تھا کہ انہوں نے سیاسی طور پرسازش کرنے والوں  کے بہکاوے میں  ان کے ساتھ ناانصافی کی۔

یہ ملک اور اس کی نسلیں منموہن سنگھ جی کو ممنویت کے ساتھ یاد رکھیں گی۔ اُن کو لاکھوں سلام۔

(بھوپیش بگھیل  کانگریس کے سینئر رہنما اور چھتیس گڑھ کے سابق وزیر اعلیٰ ہیں۔)

Next Article

شیام بینگل کا ایک یادگاری لیکچر: سیکولرازم اور مقبول ہندوستانی سنیما

’گرم ہوا‘پہلی فلم تھی جس میں تقسیم ملک کے فوراً بعد ہندوستانی مسلمانوں کے تجربے کو سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔گرم ہواکے بننے سے پہلے تک مقبول ہندی فلموں میں خاص کر مسلم کرداروں کو ٹوکن کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔

Photo : The Hindu

Photo : The Hindu

اگر مقبول عام سنیما (پاپولر سنیما)نے آزمودہ فارمولوں کی بنیاد پر عمل کیا جن میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں نے شاذ و نادر ہی کسی فلم میں مرکزی کردار ادا کیا ہے (اگر کسی فلم میں ایک مسلمان کو ہیرو کی حیثیت سے پیش کیا جاتا تو صرف ایک مسلم معاشرے اور مسلم ماحول میں ایسا ہونا ممکن تھا)، تو ‘جدید سنیما’ کی یہ خصوصیت تھی کہ بازار کے دباؤ سے آزاد ہو کر اس نے بہت سے نازک سماجی موضوعات کو اختیار کیا۔1969ء میں ‘فلم انسٹی ٹیوٹ کے ایک گریجویٹ، منی کول نے اپنی فلم، اس کی روٹی، بنائی جس میں ایک سکھ نے مرکزی کردار ادا کیا جو بذات خود مقبول ہندی فلم کے بے شناخت ہندو ہیرو کے خلاف ایک سیاسی اعلان ثابت ہوا۔

فلم فائنینس کارپوریشن کے مالی تعاون سے بنائی گئی اہم ترین فلموں میں ایک ایم۔ ایس۔ ستھیو کی فلم ‘گرم ہوا’ (1973) تھی۔ یہ پہلی فلم تھی جس میں تقسیم ملک کے فوراً بعد ہندوستانی مسلمانوں کے تجربے کو سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ جیسا کہ اس سے پہلے میں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ‘گرم ہوا’ کے بننے سے پہلے تک مقبول ہندی فلموں میں خاص کر مسلم کرداروں کو ٹوکن (علامت) کے طور پر پیش کیا جاتا تھا  اور اکثر ان میں کسی طرح کا عیب نہیں پایا جاتا تھا۔ اس طرح ان کو مؤثر انداز میں “غیر” بنا کر اپنے فرقے سے الگ حیثیت سے پیش کیا جاتا تھا۔

عصمت چغتائی کے ایک مختصر افسانے کی بنیاد پر کیفی اعظمی کی تحریر کردہ فلم’ گرم ہوا’ میں شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے ایک مسلم خاندان کی تکلیف دہ صورت حال کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو تقسم ملک کے وقت پیدا شدہ غیر معمولی حالات پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔ اس خاندان کو یہ تکلیف دہ فیصلہ کرنا تھا کہ ایسی حالت میں اسے اپنے آبائی وطن آگرہ (ہندوستان) میں رہنا چاہیے یا ترک وطن کر کے پاکستان چلا جانا چاہیے۔

اس فلم کی کہانی میں ایک بڑے مشترکہ خاندان کی تقسیم کا نقشہ کھینچا گیا ہے جس کے ممبر مختلف وجوہات کی بنا پر انفرادی طور سے پاکستان روانہ ہوجاتے ہیں مگر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کے برخلاف، فلم کا ہیرو سلیم مرزا اس نئے مسلم ملک کو ہجرت کرنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ اسے اس مقام سے یعنی آگرہ سے گہری انسیت ہے۔

یہ فلم اس بات کا سراغ لگاتی ہے کہ تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کے خلاف شک اور عدم اعتماد کی فضا میں سلیم مرزا کی قوت برداشت جواب دے گئی اور آخرکار نوبت یہاں تک پہونچی کہ اس کو یہ تکلیف دہ فیصلہ کرنا پڑا کہ جو لوگ بھی خاندان کے بچ گئے ہیں ان کے ساتھ وہ بھی ترک وطن کر کے یہاں سے چلا جائے۔ بہر کیف، مظلوموں کی وفاداری کی تصدیق و توثیق کرنےوالے ایک کمیونسٹ جلوس سے متاثر ہو کر، فلم کے آخری مرحلے میں، مرزا اور اس کا چھوٹا بیٹا سکندر اپنی تمام مشقت اور پریشانی کے باوجود اپنا فیصلہ تبدیل کردیتے ہیں۔

اگرچہ اس کا اختتام انتہائی مثبت انداز میں سیکولر قوم پرستی کا عکاس ہے، تاہم ‘گرم ہوا’ تنہا ایسی فلم ہے جس نے مسلمانوں کی اس تکلیف دہ صورت حال کی تصویر کشی کی ہے جو انھیں تقسیم ہند کے نتیجے میں آزادی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں پیش آئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلم فرقے کے ایک طبقے کی جانب سے اس فلم کو بڑی پریشانی اٹھانی پڑی جنہوں نے گورنمنٹ سے اس فلم پر پابندی عائد کرنے کی اپیل کردی۔ خود فلموں کو دکھانے کی اجازت دینے والے حضرات (سینسرز) کوئی فیصلہ نہ کرسکے لہٰذا فلم بننے کے برسوں بعد آخرکار اسے نمائش کے لیے جاری کیا گیا۔ اس فلم کو پورے ملک میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ ہی دیکھنے کا موقع  حاصل ہوسکا۔

اگر حکومت کے مالی تعاون سے چلنے والی ایجنسیوں کا نظام ایک طرف ‘گرم ہوا’ جیسی فلموں کی تیاری میں مددگار ثابت ہوا تو میری رائے میں تاریخی صورت حال کا بھی ایسی فلم کے بننے میں اہم کردار رہا ہے۔ یہ بات غیر اہم نہیں ہے کہ ‘گرم ہوا’ 1971ء میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد بنائی گئی تھی۔ آزادی کے بعد ابتدائی بیس سال تک مسلمانوں کے لیے ترک وطن اور ہجرت کا زمانہ تھا کیونکہ اس وقت بھی پاکستان ان کی توجہ کا مرکز تھا لیکن یہ رجحان اچانک بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد پورے طور پر غائب ہوگیا۔

اس کے علاوہ لسانی بنیاد پر مبنی۔ اس بار پاکستان کی۔ اس نئی تقسیم نے بھی ہندوستانی مسلمانوں کی الجھنوں کو کسی حد تک کم کرنے میں مدد کی۔ ہندوستان کے تئیں مسلمانوں کی وفاداری اب شکوک کے دائرے سے باہر اور قوم پرستی کی الجھن سے دور ہو سکی، لہذا اب ستھیو ایسے موضوع کا انتخاب کرسکتے تھے جسے اس وقت تک نظر انداز کیا جارہا تھا یا زیادہ تر معروف فلم ساز جس کا محض ایک ہلکا سا اشارہ دیتے تھے۔ کیونکہ 1971ء سے پہلے اس قسم کی فلم بنانا ناممکن تھا۔

garam-hawa-poster

‘جدید سنیما’کے اندر 70ء اور 80ء کے دہائی میں معاصر مسلم تجربے پر مبنی کہانیاں منظر عام پرآئیں۔ مظفر علی نے 1978ء میں ‘گمن’ اور 1986ء میں ‘انجمن’ نام کی فلمیں بنائیں۔ پہلی فلم ممبئی کے ایک مسلم ٹیکسی ڈرائیور کے متعلق ہے جبکہ دوسری فلم لکھنؤ میں ‘چکن’ کا کام کرنے والے مسلمانوں کی زندگی کی دستاویزی شہادت فراہم کرتی ہے۔ ستیہ جیت رے نے 1857ء کے واقعہ سے متعلق پریم چند کی کہانی پر مبنی فلم ‘شطرنج کے کھلاڑی’ 1977ء میں بنائی اور میں نے 1978ء میں ‘جنون’ نام کی فلم بنائی۔

جو اترپردیش کی ایک فوجی چھاؤنی والے چھوٹے سے شہر کے واقعات پر مبنی ہے جن کا تعلق ہندو، مسلم اینگلو انڈین اور برطانوی نژاد مختلف فرقوں کے تجربات سے ہے جو اس شورش کا شکار ہوئے تھے۔ اس کے بعد ہی 1980ء میں سعید مرزا نے ممبئی میں مقیم گوا کے ایک کیتھولک عیسائی خاندان کے متعلق فلم ‘البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے؟’ اور ازاں بعد 1989ء میں ‘سلیم لنگڑے پر مت رو’ نام کی فلم بنائی جس کا تعلق مسلم جھگی جھونپڑی میں رہنے والے ایک نوجوان چور سے تھا۔

میں نے 1985ء میں ‘تریکال’ نام کی ایک فلم بنائی جو گوا کی آزادی کے وقت گوا کے ایک گاؤں میں مقیم ایک مراعات یافتہ کیتھولک عیسائی فیملی سے متعلق تھی۔ اس سے پہلے اقلیتی فرقوں کے امور سے متعلق مضامین کو نبھانے میں فلم سازوں کو جس کم ہمتی کا احساس ہوتا تھا اب اس کی جگہ نئے اعتماد اور حوصلے نے لے لی۔ اقلیتوں کی بے جان اور لاحاصل نمائندگی کی جگہ جو 1971ء سے پہلے ہندوستانی سنیما کا ایک خاصہ تھی، اب ان فلموں میں ایسے معمولی قسم کے لوگوں کو بھی پیش کیا جانے لگا جو جدید دنیا کےبدلتے ہوئے حالات اور زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہو رہے تھے۔ میں نے اوپر جن فلموں کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے بہت سی فلموں کو بے حد عوامی مقبولیت حاصل ہوئی اور کچھ کو معقول طریقے سے باکس آفس پر کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

بہرحال پہلی فلم جس نے تقسیم ملک کے دوران ہندو مسلم اختلافات کے مسئلے کو پیش کیا وہ بھیشم ساہنی کے ناول ‘تمس’ پر مبنی ہے جسے گووند نہلانی نے 1987ء میں منی سیریز کی شکل میں بنایا تھا۔ اس سیریز کی خوش قسمتی تھی کہ اسے فلم سنسر بورڈ کے ذریعہ اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پیش آئی، چونکہ یہ ٹیلی ویژن کے لیے تیار کی گئی تھی، ورنہ سنسر اس بنیاد پر اس کے اوپر پابندی عائد کردیتا کہ اس میں دو فرقوں کے درمیان عداوت اور جنگ و جدال کو نمایاں کیا گیا ہے۔

جس وقت نیشنل ٹیلی ویژن چینل’دوردرشن’ اسے ٹیلی کاسٹ کرنے پر غور کر رہا تھا اس وقت آر۔ ایس۔ ایس اور اس کی دیگر ہمنوا جماعتوں نے اس کو دکھائے جانے کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ ممبئی میں واقع نہلانی کی قیام گاہ پر حملہ کیا گیا اور ان کو جان سے مارنے کی دھمکی دئی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ‘دوردرشن’نے سیریز کو نہ دکھانے کا فیصلہ اس عذر کی بنا پر کیا کہ اس سے نقص امن کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے کیونکہ دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے بھی ٹیلی ویژن اسٹیشن کو نذر آتش کرنے کی دھمکی دی تھی۔

نہلانی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ‘سیریز’ کو ملاحظہ کرنے کے بعد بمبئی ہائی کورٹ نے دوردرشن کو اسے دکھلانے کی ہدایت دی، کیوں کہ اس فلم میں کوئی ایسی بات خلاف دستور نہیں تھی جس پر پابندی عائد کی جاتی، اس کے بعد ہی پوری فلم کو دوردرشن پر ایسے وقت دکھایا گیا جب بڑی تعداد میں ٹی وی دیکھا جاتا ہے۔ تین شاموں تک دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد نے اس فلم کو دیکھا اور اس دوران کوئی (ناخوشگوار) واقعہ نہیں ہوا۔

1986ء میں جب راجیو گاندھی کی حکومت نے دستور ہند میں ترمیم کے ذریعہ شاہ بانوکیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کردیا تو اس نے ملک کی سیکولر حیثیت کو ناقابل تلافی نقصان پہونچایا۔ یہ ایک طرف ‘مسلم بنیاد پرستی’ کو سہولت و رعایت دینے کے مترادف تھا، دوسری طرف یہ اقدام مسلم خواتین کے حقوق پر زبردست حملہ تھا۔ مزید یہ کہ اس نے مسلم فرقے کے سیکولر طبقے کو مصالحت پر آمادہ کیا اور دائیں بازو کی ہندو سیاسی تنظیموں کو موقع فراہم کیا کہ وہ حکومت پر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جانبداری و ہمدردی کا الزام عائد کریں۔

ایل۔ کے۔ اڈوانی نے اس وقت “سیڈو سیکولرازم”(نقلی سیکولرازم) کی اصطلاح ایجاد کی اور سیکولرسٹ طبقے پر (کسی حد تک معقولیت کے ساتھ) یہ الزام عائد کیا کہ ان کا رویہ تمام مذہبی فرقوں کے ساتھ یکساں نہیں ہے۔ اس کےسیاسی نتائج بہت دوررس تھے۔ اس نے ‘رام جنم بھومی’ کے مسئلہ کو اجاگر کیا جس کے نتیجہ میں بابری مسجد کے انہدام کا حادثہ پیش آیا جس نے ایک بار پھر مسلم اور ہندو فرقوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کا بیج ڈال دیا۔

‘شاہ بانو کیس’ کے اہم واقعے کے بعد 89-1988ء میں، میں نے ایک بڑی ٹیلی ویژن سیریز ‘بھارت ایک کھوج بنانا شروع کی جو جواہر لعل نہرو کی کتاب “ڈسکوری آف انڈیا” پر مبنی تھی۔ اس کتاب میں بہت سی خامیوں کے باوجود اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان کی رنگا رنگ و متنوع خصوصیات کو نمایاں کیاجائے اور ملک کے لیے ایک سیکولر نظریے کی نشاندہی کی جائے۔ جب کہ رامائن اور مہابھارت کو پورے ہند میں ٹیلی ویژن پر دیکھنے والوں کی تعداد کے نقطہ نظر سے بلند ترین درجہ حاصل ہوا، ‘بھارت ایک کھوج’ اس مقابلے میں تیسرے نمبر پر رہی۔

دوبارہ ٹیلی کاسٹ کئے جانے پر اس کے دیکھنے والوں کی تعداد میں برابر اضافہ ہوتا رہا۔ 80ء اور 90ء کی دہائی کے دوران ہندوستان میں بی۔ جے۔ پی کے ظہور کے نتیجے میں “پاپلر سنیما” کے اندر نئی تبدیلیاں دیکھی جاسکتی تھیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے ایٹمی تجربات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے نتیجے میں پاکستان کی مخالفت کی بنیاد پر قائم جنگ جویانہ وطن پرستی ‘پاپولر ہندی سنیما” کا اہم مرکزی موضوع بن گیا۔ جیسا کہ اس کی توقع کی جاتی تھی نیشنلزم  اور اسی کے نتیجے میں سیکولرزم (سیکولرازم) کی تعریف کافی حد تک محدود کردی گئی اور صرف ہندو فرقے کے لیے اسے بالکل بلا شرکت غیرے مخصوص و محفوظ کر دیا گیا۔

مثال کے طور پر جے۔ پی۔ دتا کی فلم “بارڈر” 1997ء میں جو 1965ء کی ہند پاک جنگ کے ایک مورچہ کا حال بیان کرتی ہے، پاکستان (بمعنی مسلم) انتہا پسندی کے مقابلہ میں ہندوستانی (بمعنی ہندو) فیاضی پر خاصا زور ہے اور جس میں ‘پاکستانی’ اور ‘مسلم’ دونوں کو مترادف اور ہم معنی قرار دیا گیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ جنگ جویانہ پالیسی کا مظاہرہ فلم ‘غدر’ (2001ء) میں کیا گیا ہے۔

یہ دونوں فلمیں باکس آفس پر ہٹ ہوئیں اور شمالی ہند کے صوبوں میں خاص طور سے کامیاب رہیں۔ بہرکیف اگر ایک جانب ‘ہندوتوا سیاست’ کے عروج نے مسلم مخالفت پر مبنی سلسلہ وار فلموں کی تخلیق کا راستہ ہموار کیا تو دوسری جانب ‘لگان’ جیسی بیحد کامیاب فلموں کے ابھرنے کا موقع بھی فراہم کیا جن میں ایک جامع سیکولر اتحاد کو نیشنلزم (قوم پرستی) کے ہم معنی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بیسویں صدی کے آخری دس سالوں میں ‘ممو’ (1995ء)، ‘نسیم’ (1995ء)، ‘فضا’ (2000ء) اور ‘بامبے’ جیسی فلمیں منظر عام پر آئیں جن میں ہندوستانی سماج میں مسلمانوں کے مقام و مرتبے کی عکاسی کی گئی ہے۔

تین سال قبل گودھرا کے ہیبت ناک واقعہ کے بعد اور گجرات میں بے رحمانہ انتقامی قتل عام اور آتش زنی کے نتیجے میں جس میں صوبائی حکومت نے بھی بے عملی کے ذریعہ مدد پہونچائی تھی، ہندوستان ایک انتہائی نازک موڑ پر پہونچ گیا تھا۔ اس وقت یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ کیا ہندوستانی سیکولرزم ملک کو ایک ساتھ قائم رکھے گا یا ہندوتوا کے نظریے کے آگے ہتھیار ڈال دے گا جو خطرناک حد تک مملکت کی تقسیم کا باعث بنے گا؟

میرے نزدیک گزشتہ سال یو۔پی۔اے اتحاد کے اقتدار میں آنے کے نتیجے میں تصویر کا رخ کئی حیثیتوں سے تبدیل ہو گیا ہے۔ اس سے قبل کہ اپنی بات ختم کروں، میں آپ کے سامنے ہارورڈ لاء اسکول کے پروفیسر لانی گینیر کی ایک عبارت نقل کرنا چاہتا ہوں: “سماج کی صحت کی جانچنے کا سبب سے بہترین پیمانہ یہ ہے کہ اس کی اقلیتوں کی حالت پر نظر ڈالی جائے۔

اقلیتیں، کوئلہ کان کنوں کے بلبل زرد (قینری) کی مانند ہیں۔ کوئلے کی کان میں زہریلی گیس کی اطلاع سب سے پہلے کینری پرندے کو ہی ہوتی ہے۔ اگر (سماج میں) اقلیتوں کی حالت غیر مامون ہےتو اجتماعی معاشرہ کو صحت مند نہیں تصور کیاجاسکتا۔”

‘مقبول سنیما’ میں اقلیتوں کی تصویر کشی سنیما کے تئیں عوامی رویے کا ایک اچھا پیمانہ ہے۔ اسے بآسانی ہندوستانی سماج میں کوئلہ کان کنوں کا وہ پرندہ تصور کیاجاسکتا ہے جس کو سب سے پہلے زہریلی گیس کی خبر ملتی ہے۔

(مضمون نگار معروف اور سینئر فلم ڈائریکٹر ہیں۔سرسید میموریل لیکچر 2005،سیکولرزم اور مقبول ہندوستانی سنیما ،مترجم محمد عبدالمنان سے ماخوز)

یہ مضمون19 نومبر2017 کو شائع کیا گیا تھا۔

Next Article

دہلی انتخابات کے درمیان وشو ہندو پریشد کی مہم: راجدھانی میں 50 ہزار ترشول تقسیم کرنے کا ہدف

انتخابات کے دوران وی ایچ پی دہلی میں اس طرح کے 200 سے زیادہ پروگرام منعقد کر رہی ہے جس کے تحت 50000 سے زیادہ ترشول تقسیم کیے جانے ہیں۔ دہلی میں آخری بار ترشول تقسیم کرنے کی مہم ایک دہائی قبل چلائی گئی تھی۔

(تصویر بہ شکریہ: facebook/@ رام تیاگی ہندو)

(تصویر بہ شکریہ: facebook/@ رام تیاگی ہندو)

نئی دہلی: دہلی اسمبلی انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں نے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ مہم زور پکڑ رہی ہے اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) دہلی میں بڑے پیمانے پر ترشول تقسیم کر رہی ہے۔ سات سے آٹھ ہزار ترشول تقسیم کیےجا چکے  ہیں۔ انتخابات سے قبل 50 ہزار سے زائد ترشول تقسیم کرنے کا ہدف ہے۔ تاہم، وی ایچ پی کا کہنا ہے کہ اس کا انتخابات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

دہلی اسمبلی کی میعاد 23 فروری 2025 کو ختم ہو رہی ہے۔ تاریخوں کا باضابطہ اعلان جنوری کے پہلے ہفتے میں ہو سکتا ہے اور ووٹنگ فروری کے وسط میں ہو سکتی ہے۔

ترشول دکشا سماروہ  میں کم عمر کے لڑکے بھی حصہ لے رہے ہیں۔

ترشول دکشا سماروہ  میں کم عمر کے لڑکے بھی حصہ لے رہے ہیں۔

دہلی میں وی ایچ پی کا ‘ترشول دکشا سماروہ’

یہ مہم 15 دسمبر کو شروع کی گئی تھی، جب پہاڑ گنج میں پہلی تقریب منعقد کی گئی تھی۔ اگلی بڑی تقریب 19 جنوری 2025 کو ہونی ہے۔ کوئی بھی شخص ان پروگراموں میں آکر ترشول لے سکتا ہے۔ وی ایچ پی عام لوگوں کو وہاٹس ایپ کے ذریعے مدعو کر رہا ہے -‘آپ سبھی اپنا نام لکھوائیں  اور شستر(ہتھیار) دھارن کریں۔’

اس ترشول کو خصوصی طور پر تیار کیا گیا ہے تاکہ یہ آرمز ایکٹ کے دائرے میں نہ آئے۔ جون 2017 میں احمد آباد مرر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ، اس وقت کے وی ایچ پی کے جنرل سکریٹری مہادیو دیسائی نے خود بتایاتھا کہ 'ترشول کو ممنوعہ ہتھیاروں سے ایک سینٹی میٹر چھوٹا رکھا گیا ہے۔'

اس ترشول کو خصوصی طور پر تیار کیا گیا ہے تاکہ یہ آرمز ایکٹ کے دائرے میں نہ آئے۔ جون 2017 میں احمد آباد مرر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ، اس وقت کے وی ایچ پی کے جنرل سکریٹری مہادیو دیسائی نے خود بتایاتھا کہ ‘ترشول کو ممنوعہ ہتھیاروں سے ایک سینٹی میٹر چھوٹا رکھا گیا ہے۔’

ایک طرح سے یہ وی ایچ پی کے یوتھ ونگ بجرنگ دل میں بھرتی کا پروگرام بھی ہے۔ گپتابتاتے ہیں،’جو لوگ پہلے سے تنظیم میں ہیں انہیں (ترشول) دھارن کرنا ہی ہوتا ہے۔ جو تنظیم میں نہیں ہوتاہے اور دھارن کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے، اسے تنظیم میں شامل کر لیا جاتا ہے۔’

دہلی میں طویل عرصے کے بعد ترشول تقسیم کرنے کا کام ہو رہا ہے۔ پرانت منتری (صوبائی وزیر) کے مطابق،’2024 سے پہلے دہلی میں آخری بارترشول تقسیم کرنے کا کام 2012 (یا 2015) میں کیا گیا تھا۔’

وی ایچ پی کے ذریعے تقسیم کیا گیا ترشول اور پرانت منتری سریندر گپتا(تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)

وی ایچ پی کے ذریعے تقسیم کیا گیا ترشول اور پرانت منتری سریندر گپتا(تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)

کیا اتنے سالوں بعد انتخابات کے پیش نظر ترشول تقسیم کیے جا رہے ہیں؟ سریندر گپتا اس کی تردید کرتے ہیں،’بجرنگ دل کے قیام  سے ہی ترشول دکشا کا پروگرام ہو رہا ہے۔ دہلی میں بھی وقتاً فوقتاً ایسا ہوتا رہا ہے۔ یہ پروگرام ایسا ہی ہوتا ہے، پانچ دس سال میں ایک بار۔ کیونکہ جس  جنریشن (نسل) کو ہم نے پہلے (ترشول) دے دیا ہے، اس کے پاس تو رہتا ہی ہے۔’

گپتا مزید کہتے ہیں،’اگر انتخابات کو ذہن میں رکھ کر یہ  کر رہے ہوتے، تو ابھی  جب لوک سبھا انتخابات ہوئے تب کیوں نہیں کیا؟ اس سے پہلے میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں کیوں نہیں کیا؟ ہندو سماج کے تحفظ کے لیے وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کا کارکن جو عہد لیتا ہے وہ انتخابات کی بنیاد پر نہیں لیتا۔’

تاہم، پہاڑ گنج کی تقریب میں اسی ایشو کی بازگشت سنائی دے رہی تھی جس کو بی جے پی انتخابی ایشو بنا رہی ہے یعنی بنگلہ دیشی درانداز۔

وی ایچ پی کے مرکزی جوائنٹ جنرل سکریٹری سریندر جین 15 دسمبر کو پہاڑ گنج میں منعقدہ تقریب سے خطاب کر تے ہوئے۔

وی ایچ پی کے مرکزی جوائنٹ جنرل سکریٹری سریندر جین 15 دسمبر کو پہاڑ گنج میں منعقدہ تقریب سے خطاب کر تے ہوئے۔

وی ایچ پی کے مرکزی جوائنٹ جنرل سکریٹری سریندر جین، جنہوں نے اس تقریب میں کلیدی مقرر کے طور پر شرکت کی، دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا، ‘لیفٹیننٹ گورنر ونے کمار سکسینہ جی کی پہل سے، دہلی پہلی ریاست بن گئی ہے جس نے بنگلہ دیشی دراندازوں کی پہچان کرتے ہوئے انہیں ہندوستان سے  نکالنے کی کوشش شروع کی ہے۔ لیکن ہمیں شک ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر کے اس قابل تحسین اقدام اور ہدایات پر ان کے انتظامی افسران سنجیدگی سے عمل کریں گے… بجرنگ دل کے سینکڑوں کارکن غیر قانونی بنگلہ دیشی دراندازوں کی نشاندہی کرنے اور انہیں نکال باہر کرنے کے لیےدہلی کے لیفٹیننٹ گورنر اور انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرنے کوتیار ہیں۔ ‘

تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے وی ایچ پی نے 18 دسمبر کو دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کو ایک خط بھی لکھا ہے۔

وشو ہندو پریشد کی طرف سے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کو لکھا گیا خط۔

وشو ہندو پریشد کی طرف سے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کو لکھا گیا خط۔

جہاں تک تقریب کے سیاسی سروکار کا سوال ہے تو خود سریندر گپتا نے ‘ترشول دکشا سماروہ’ کا ایک ایساپوسٹر شیئر کیا تھا، جس پر اسی  نعرے کا استعمال کیا گیا تھا، جو وزیر اعظم نریندر مودی نے مہاراشٹر کے انتخابات کے دوران استعمال کیا تھا-ایک  رہیں گےتو سیف رہیں گے۔

سریندر گپتا کے ذریعےفیس بک پر شیئر کیے گئے پوسٹر کا اسکرین شاٹ۔

سریندر گپتا کے ذریعےفیس بک پر شیئر کیے گئے پوسٹر کا اسکرین شاٹ۔

ترشول دکشا کا مقصد

وی ایچ پی ترشول کی تقسیم کا یہ پروگرام کیوں چلاتی ہے؟ اس کے جواب میں سریندر گپتا کہتے ہیں،’ہمارے تمام دیوی دیوتاؤں کے ہاتھوں میں ہتھیار ہیں۔ وجئے دشمی کے دن ہم ہتھیاروں کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر ہندو کو علامت کے طور پر بھگوان مہاکال کا آشیرواد ترشول دھارن کرے۔’

اسٹیج سے ترشول لہراتے ہوئے جتھےدار ہرجیت سنگھ نے پہاڑ گنج میں کہا تھا، 'یہ آپ کو ایک دیا ہے، آپ کے گھر میں پانچ پانچ فٹ کے پانچ (ترشول) ہونے چاہیے۔ …آپ کھانا کم کھائیں، سستا موبائل خریدیں، کچھ بھی کریں، لیکن یہ عہد کریں کہ آپ کے گھر میں پانچ ترشول ہوں گے۔'

اسٹیج سے ترشول لہراتے ہوئے جتھےدار ہرجیت سنگھ نے پہاڑ گنج میں کہا تھا، ‘یہ آپ کو ایک دیا ہے، آپ کے گھر میں پانچ پانچ فٹ کے پانچ (ترشول) ہونے چاہیے۔ …آپ کھانا کم کھائیں، سستا موبائل خریدیں، کچھ بھی کریں، لیکن یہ عہد کریں کہ آپ کے گھر میں پانچ ترشول ہوں گے۔’

پندرہ  دسمبر کی تقریب میں ہندوتوا ٹی وی چینل سدرشن نیوز سے بات کرتے ہوئے وی ایچ پی کے دہلی کے ریاستی صدر  کپل کھنہ نے کہا تھا، ‘ہم نے  عہد کیا ہے کہ دہلی میں ودھرمیوں کے شیطانی دائرے کو ختم کریں گے۔ ہم نےعہد کیا ہے کہ دہلی میں دھرمیوں کے ذریعے پھیلائے جا رہے لو جہاد، لینڈ جہاد ، ان سب کوکرموں(بُرے کاموں) کو ختم کریں گے۔ ہم نے گئو رکشا  کا بھی عہد لیا ہے۔’

بدھ مت کے سنت راہل بھنتے ترشول دکشا سماروہ میں عہد دلاتے ہوئے۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@BajrangDalOrg)

بدھ مت کے سنت راہل بھنتے ترشول دکشا سماروہ میں عہد دلاتے ہوئے۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@BajrangDalOrg)

پہاڑ گنج میں ہتھیاروں کی تقسیم کی تقریب کے دوران عہد دلانے کا کام بدھ مت کے ایک سنت راہل بھنتے نے کیا، جن کی بنیادی تعلیم ہی عدم تشدد اور ہمدردی کے فلسفے پر مبنی ہے۔

جین نے اس دن کہا تھا کہ سنبھل کا تشدد ‘ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ’ تھا۔ ’ ہندوؤں کے مذہبی یاتراؤں  پرجہادی حملے کرواتے ہیں اور اگر قائم مندروں کا قانونی طور پر سروے کیا جاتا ہے تو بھی فرقہ وارانہ جنون پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب بجرنگ دل کے کارکنان اس طرح کے حملوں کا جواب دینے کے لیے تیار ہو گئے ہیں’جین نے کہا تھا۔