
یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے طلباء نے 17 فروری کو معطل طالبعلموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یونیورسٹی میں کلاس کا بائیکاٹ کیا۔ تاہم، انتظامیہ معطل طلباء کی حمایت میں کسی بھی طرح کی مزاحمت اور آواز کو دبانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

جامعہ کے طلباء کا انتظامیہ کے خلاف احتجاج۔ (تمام تصویریں: یو آر اتھارا)
نئی دہلی: 13 فروری کی صبح دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے گیٹ نمبر 7 کے اندر احتجاج کرنے والے 14 طلباء کو سینٹرل کینٹین کے سامنے نیند سے بیدار کیا گیا اور یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی آفیسر سید عبدالرشید کی رہنمائی میں ادارے کے سیکورٹی گارڈ نے زبردستی اٹھا لیا۔
اس کے بعد ان طلباء کو دہلی پولیس کے حوالے کر دیا گیا، جو پہلے سے دوسرے گیٹ پر موجودتھی۔ ان طلباء کو بعد میں بغیر کوئی وجہ بتائے حراست میں لے لیا گیا اور وکلاء تک رسائی کے بغیر تقریباً 12 گھنٹے تک دہلی کے مختلف تھانوں میں رکھا گیا۔
معلوم ہو کہ یہ 14 طلبہ 10 فروری کو یونیورسٹی میں سینٹرل کینٹین کے سامنے شروع ہوئے احتجاجی مظاہرے کا حصہ تھے۔ وہ چار طالبعلم سوربھ، جیوتی، فضیل شبر اور نرنجن کے خلاف تادیبی کارروائی کو رد کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔دراصل ، ان چار طلباء کو 15 دسمبر 2019 کو شہریت (ترمیمی) ایکٹ اور شہریوں کے قومی رجسٹر (سی اے اے –این آر سی) کے خلاف احتجاج کے دوران یونیورسٹی کیمپس میں پولیس کارروائی کی پانچویں برسی کے موقع پر 16 دسمبر کو یوم مزاحمت منعقد کرنے کے لیے نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایم اے سوشیالوجی کے پہلے سال کی طالبہ اتھارا ان 14 طلباء میں سے ایک تھیں، جنہیں پولیس نے حراست میں لیا تھااور بعد میں یونیورسٹی نے معطل کر دیا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کے دوران سیکورٹی گارڈز، پولیس اور طلباء۔
انہوں نے بتایا، ‘گارڈ تین طرف سے آئے، جب میں سو رہی تھی۔ انہوں نے مجھے بالوں سے پکڑ لیا۔ جب میں بیدار ہوئی تو مرد گارڈ میری ٹانگ کھینچ رہے تھے، انہوں نے ہمیں چپل تک پہننےتک کی مہلت نہیں دی۔ مجھے ایک مرد اور ایک خاتون گارڈ لے گئے۔ میں چیخ رہی تھی اور ان سے کہہ رہی تھی کہ کم از کم مجھے اپنے کپڑے ٹھیک کرنے دو، میں نے جتنی مزاحمت کی، وہ اتنے ہی جارح ہوتے گئے۔’
احتجاج کی وجہ
معلوم ہو کہ احتجاج کرنے والے طلباء نے پراکٹر آفس سے 15 دسمبر کو یوم مزاحمت کے طور پرایک پروگرام منعقد کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔ لیکن انتظامیہ کی طرف سے اسے اجازت نہیں دی گئی۔
ان طلباء نے اگلے دن (16 دسمبر) شام 5.30 بجے کلاس کے بعد اپنے پروگرام کا انعقاد کیا۔ اس کا آغاز ایک مارچ سے ہوا، جو سینٹرل کینٹین پرشروع اور اختتام پذیر ہوا۔ اس کے بعد تقاریر کے ذریعے طلباء نے 2019 میں ہونے والی پولیس کی بربریت کو اجاگر کیا اور تعلیمی اداروں پر جاری فاشسٹ حملے کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ یہ پروگرام تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا۔
گزشتہ 17 دسمبر کو اس پروگرام کے منتظمین میں سے ایک ہندی ڈپارٹمنٹ کے پی ایچ ڈی اسکالر اور آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (اے آئی ایس اے) کے رکن سوربھ کو پراکٹر کے دفتر سے وجہ بتاؤ نوٹس موصول ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ اس پروگرام کا بدنیتی پر مبنی سیاسی ایجنڈا تھا، جو تعلیمی اداروں کو مفلوج کر دیتا ہے۔
تاہم سوربھ نے یونیورسٹی انتظامیہ کے دعووں کو خارج کیا۔
سوربھ نے دی وائر کو بتایا،’اس پروگرام میں کوئی بدنیتی پر مبنی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا۔ 15 دسمبر 2019 کو پولیس ایکشن پوری یونیورسٹی پر وحشیانہ حملہ تھا، ہمارا کوئی ذاتی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا۔’
سوربھ نے اس کے بعد 20 دسمبر کو انتظامیہ کو اپنا 16 صفحات کا جواب بھیجا، جسے انتظامیہ نے ‘غیر تسلی بخش’ قرار دیا۔
اس کے بعد سوربھ کو 3 فروری کو ایک نوٹس موصول ہوا، جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کے خلاف کارروائی کے لیے ایک تادیبی کمیٹی بنائی جائے گی، لیکن اس کے لیے کوئی تاریخ نہیں بتائی گئی۔
اس سلسلے میں جیوتی، جو ہندی ڈپارٹمنٹ کی پی ایچ ڈی اسکالر ہیں اور دیارِ شوق اسٹوڈنٹس چارٹر (ڈی آئی ایس ایس سی) کی رکن بھی ہیں، نے کہا، ‘اب تک ہم سمجھ چکے تھے کہ ہمیں معطل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے طالبعلم کے طور پرہمارے حقوق کو پوری طرح سے کچل دیا ہے۔’
سوربھ کے خلاف انتظامیہ کی طرف سے کی گئی کارروائی کے خلاف 10 فروری کو احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔ تاہم، اس سے ایک دن پہلے (9 فروری)، تین دیگر طلباء- جیوتی، فضیل اور نرنجن کو بھی تادیبی کارروائی کے لیے نوٹس جاری کیا گیا۔ فضیل کمپیوٹر انجینئرنگ میں بی ٹیک کے پہلے سال کے طالبعلم ہیں اور ڈی آئی ایس ایس سی کے ممبر ہیں۔ وہیں، نرنجن، قانون کے چوتھے سال کے طالبعلم اور آل انڈیا ریوولیوشنری اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آے آئی ایس ایس او) کے رکن ہیں۔
جیوتی کہتی ہیں،’اب احتجاج کرنا ضروری تھا کیونکہ بہت سے طلباء اجلاس کے لیے ان بے مطلب کے وجہ بتاؤ نوٹس سے متاثر ہو رہے تھے۔ انتظامیہ چاہتی ہے کہ ہم ہر تقریب کے لیے اجازت لیں جسے وہ بعد میں مسترد کر دیں۔ اب کیمپس کی یہی حالت ہے۔‘
یونیورسٹی کے رجسٹرار کی طرف سے 29 اگست 2022 کوجاری کردہ ایک میمورنڈم میں کہا گیا ہےکہ ‘کیمپس کے کسی بھی حصے میں پراکٹر کی پیشگی اجازت کے بغیر طلبہ کی میٹنگ/اسمبلی کی اجازت نہیں دی جائے گی، ایسا نہ کرنے کی صورت میں قصوروار طلبہ کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔’
گزشتہ سال 29 نومبر کو جاری کردہ ایک اور میمورنڈم میں کہا گیا تھا کہ یونیورسٹی کیمپس کے کسی بھی حصے میں کسی بھی باوقاراورآئینی شخصیت کے خلاف احتجاج، دھرنا، نعرے بازی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ کیمپس کے احاطے میں گرافٹی کرنے اور پوسٹر لگانے پر 50 ہزار روپے تک کا جرمانہ ہے۔

انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ میمورنڈم۔
ایم اے سوشیالوجی کے پہلے سال کے طالب علم مشکوٰۃ تحریم کو بھی احتجاج میں حصہ لینے پر حراست میں لیا گیا تھا اور بعد میں معطل کر دیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘جب ہم نے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عالمی دن کے موقع پر اسٹڈی سرکل منعقد کرنے کی اجازت مانگی تو انتظامیہ نے اس سے انکار کردیا۔ ہمیں پمفلٹ تقسیم کرنے کا سہارا لینا پڑا۔ پھر بھی ہمیں ایسے فون آئے کہ ہم ایسی سرگرمیوں میں شامل نہ ہوں۔ کیمپس میں کچھ بھی کرنے کی آزادی نہیں ہے۔’
طلباء بتاتے ہیں کہ تنظیم اور احتجاج کا حق آرٹیکل 19 کے تحت دی گئی چھ آزادیوں کا حصہ ہے۔ تاہم، وحشیانہ ریاستی جبر اور عسکریت پسندی نے یونیورسٹی میں طلباء کے ان حقوق پر کاری ضرب لگائی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کیمپس کے اندر پولیس کی موجودگی طلبہ کے تحفظ پر سنگین سوال اٹھاتی ہے۔
اتھارا کہتی ہیں،’یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پولیس احاطے میں داخل ہوئی ہو۔ یہ 2019 میں سی اے اے –این آر سی مخالف مظاہروں کے دوران ہوا تھا۔ اس وقت یہ زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ پولیس پہلے سے ہی احاطے کے اندر موجود تھی۔’
واضح ہو کہ جب دیگر طلباء اور میڈیا کالکاجی تھانے پہنچے تو انہیں حراست میں لیے گئے لوگوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ انہیں کہاں لے جایا جا رہا ہے۔
صبح تقریباً 10 بجے جب کالکاجی اسٹیشن کے باہر کافی لوگ جمع ہوگئے تو ان طلبہ کو کیمپس واپس لے جانے کے بہانے فتح پور بیری اسٹیشن لے جایا گیا۔ انہیں شام 4 بجے تک وہاں رکھا گیا اور بار باردرخواست کرنے کے باوجود انہیں ان کے وکیلوں سے ملنے نہیں دیا گیا۔
مزید برآں، طلباء کو ان دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا جن کے مندرجات وہ پڑھ نہیں سکتے تھے – کیونکہ انہیں دھمکی دی گئی تھی کہ جب تک وہ دستخط نہیں کریں گے انہیں رہا نہیں کیا جائے گا۔
تحریم نے کہا،’ہمارے والدین سے بھی کہا گیا کہ وہ ہمیں ان دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کریں، انہیں اس کے لیے پولیس اسٹیشن بھی بلایا گیا تھا’۔
طلباء نے الزام لگایا کہ پولیس افسران نے ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا اور جسمانی اور زبانی طور پر ہراساں کیا۔
مثال کے طور پر بدر پور پولیس اسٹیشن میں حراست میں لی گئی حبیبہ کو اپنا فون دینے پر اعتراض کرنے پر ایک پولیس افسر نے مبینہ طور پرتھپڑ مار دیا تھا۔
ایک اور طالبعلم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ انہیں اسلامو فک باتیں کہی گئیں، جیسے کہ’یہ مسلمان لوگ صرف ڈانگے فساد کرتے ہیں(یہ مسلمان ہر جگہ فساد اور جھگڑے پیدا کرتے ہیں)۔’
طلبہ کا کہنا ہے کہ یہی نہیں انتظامیہ نے ان کے احتجاج کو ختم کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے ۔
دس فروری کو احتجاج کی پہلی رات حکام نے کیمپس کی بجلی منقطع کر دی، بیت الخلاء بند کر دیے اور کینٹین کے علاقے کو بند کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی وائس چانسلر مظہر آصف نے مبینہ طور پر طلبہ سے کسی بھی طرح کی بات چیت سے انکار کر دیا ہے۔
گیارہ فروری کو ان مظاہرین طلباء کے والدین کو پولیس حکام نے بلایا اور اپنے بچوں کو احتجاج سے دستبردار ہونے کی ہدایت دینے کو کہا۔
تحریم کا کہنا ہے کہ ‘اس کا مطلب یہ تھا کہ انتظامیہ نے ہمارے نمبر پولیس کے ساتھ شیئر کیے تھے۔’
شاہجہاں کہتے ہیں،’ہمیں حراست میں لیے جانے سے ایک دن پہلے، جامعہ نگر پولیس نے میرے والد کو فون کیا اور ان سے کہا کہ وہ مجھے احتجاج سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کریں۔وہ کولکاتہ میں آٹو رکشہ چلاتے ہیں، انہیں پولیس کی طرف سے کئی دھمکی آمیز کالیں موصول ہوئیں کہ ان کے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی اور اسے کالج سے نکال دیا جائے گا، یہ انہیں اور مجھے ڈرانے کے لیے کیا گیا تھا۔’
حراست سے ایک رات پہلے12 فروری کو شاہجہاں سمیت سات طلباء کو احتجاجی مقام سے 800 میٹر کے فاصلے پر ہونے والی جھڑپ کے لیے معطلی کے خطوط موصول ہوئے تھے۔

جامعہ کیمپس میں لگائے گئے پوسٹر۔
بتا دیں کہ احتجاج میں شامل تمام 17 طلباء کو معطل کر دیا گیا ہے۔ معطلی کے خطوط میں جن وجوہات کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں لوگوں کے ایک بے ہنگم اور بے قابو گروپ کی قیادت کرنا اور یونیورسٹی کی املاک کو نقصان پہنچانا، کیمپس کے معمول کے کام میں خلل ڈالنا، کیمپس کے اندر ہنگامہ آرائی کرنا اور دیگر طلبہ کو شدید تکلیف پہنچانا شامل ہیں۔
اتھارا کہتی ہیں،’معطلی اس طرح نہیں ہو سکتی، اس کے لیے ایک ضابطہ ہے۔ آپ کو وجہ بتاؤ نوٹس ملنا چاہیے۔ اگر جواب غیر تسلی بخش ہے تو، ایک تادیبی کمیٹی معاملے کو دیکھے گی اور فیصلہ کرے گی کہ معطلی ضروری ہے اور اگر ضروری ہے تو اس کی تفصیلات بتائیں۔’
اتھارا کا مزید کہنا ہے کہ ‘اس معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ معطلی عام طور پر دو ہفتوں تک رہتی ہے۔ ہمیں موصول ہونے والے خطوط میں وقت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر میں دو ہفتوں کے بعد احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہوں تو وہ مجھے دوبارہ معطل کر سکتے ہیں۔’
گزشتہ 14 فروری کو حراست میں لیے گئے طلبہ کی رہائی کے بعد یونیورسٹی کی مہر کے ساتھ ان کے نام، فون نمبر، ای میل آئی ڈی اور سیاسی وابستگی والے پوسٹرادارےکے گیٹ نمبر 7، 8 اور 13 کے اندر چسپاں کر دیے گئے تھے۔
ایک بیان میں یونیورسٹی نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ کچھ افراد اور سماج دشمن عناصر گمراہ کن، توہین آمیز اور بدنیتی پر مبنی پیغامات پھیلا کر یونیورسٹی اور اس کے طلباء کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بیان میں احتجاج کرنے والے طلباء پر ذاتی معلومات پھیلانے کا الزام لگایا گیا اور کہا گیا کہ انتظامیہ ایسی بے شرمی اور غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی مذمت کرتی ہے۔
ایک اور معطل طالبہ سوناکشی گپتا کا نام اور نمبر پوسٹروں پر ظاہر ہونے کے بعد سےانہیں نامعلوم نمبروں سے کال اور پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔
شاہجہاں نے 16 فروری کو پریس کلب آف انڈیا میں جامعہ کی مختلف طلبہ سیاسی جماعتوں کے مشترکہ طور پر منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں سوال کیا،’اگر یونیورسٹی اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہے تو پھر ان پوسٹروں پر ان کی مہر کیسے لگی؟’
اپنی معطلی کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان طلباء نے پریس کانفرنس میں پانچ دیگر مطالبات بھی رکھے۔ اس میں بنیادی حقوق کا استعمال کرنے والے طلباء کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کے عمل کو فوری طور پر روکنا، طلباء کو آواز اٹھانے پر جاری کردہ تمام شوکاز نوٹس کو رد کرنا، 29 اگست 2022 اور 29 نومبر 2024 کے میمورنڈم کو رد کرنا، اختلاف ظاہر کرنے کے لیے طلبا کے خلاف وِچ ہنٹ کو ختم کرنا اورسزا دینے والے نوٹس واپس لینا شامل ہیں۔
معطل طلباء کی جانب سے منعقد کی گئی پریس کانفرنس میں مختلف تعلیمی اداروں اور سیاسی تنظیموں کے طلباء کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ یونیورسٹی کیمپس میں کس طرح ‘جمہوری جگہیں’ سکڑ رہی ہیں، جیوتی نے کہا،’ہم اپنے جمہوری حقوق واپس چاہتے ہیں۔ اگر انتظامیہ کو یونیورسٹی کے سیاسی کلچر سے کوئی مسئلہ ہے تو وہ استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ یا انہیں طلباء کی آزادی اور تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔’
معلوم ہو کہ یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے طلباء نے معطل طلباء کی حمایت میں یکجہتی کے بیانات جاری کیے ہیں۔ اس کے تحت 17 فروری کو یونیورسٹی میں کلاسز کا بائیکاٹ بھی کیا گیا تھا۔ تاہم، انتظامیہ معطل طلباء کی حمایت میں کسی بھی طرح کی مزاحمت اور آواز کو دبانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔
جیوتی پوچھتی ہیں،’رجسٹرار مہتاب عالم رضوی نے کہا ہے کہ اگر کوئی 17 فروری کو کلاس کا بائیکاٹ کرتا ہے تو پوری کلاس معطل کر دی جائے گی۔ یہ کیسی آمریت ہے۔’
تاہم بائیکاٹ میں طلباء کی بڑی تعداد کا مشاہدہ کیا گیا اور کلاس رومز خالی رہے۔ اسی دن طلباء نے 48 گھنٹے کے الٹی میٹم کے ساتھ ڈین آف اسٹوڈنٹ ویلفیئر کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں تمام معطلی خطوط کو فوراً منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )