لوک سبھا میں وقفہ صفر کے دوران کانگریس صدرسونیا گاندھی نے الجزیرہ اور دی رپورٹرز کلیکٹو کی فیس بک الگورتھم سے متعلق رپورٹس کا حوالہ دیا، جن میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بی جے پی مخالف سیاسی جماعتوں کے مقابلے سستی شرحوں پر سوشل میڈیا کمپنی کو اشتہارات دے رہی اور اپنا پروپیگنڈہ کر رہی تھی۔
مارک زکربرگ کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)
نئی دہلی: کانگریس صدر سونیا گاندھی نے بدھ کو ملک کی انتخابی سیاست میں سوشل میڈیا کمپنیوں کی ‘منصوبہ بند مداخلت’ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے نفرت پھیلانے کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا اور کہا کہ حکومت کو اسے ختم کرنا چاہیے۔
انہوں نے وقفہ صفر کے دوران لوک سبھا میں اس ایشو کو اٹھایا اور کچھ بین الاقوامی میڈیا گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا کہ ‘حکمراں جماعت کی ملی بھگت سے سوشل میڈیا کمپنیوں کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔’
سونیا گاندھی نے کہا، ہماری جمہوریت کو ہیک کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سیاست دان، سیاسی جماعتیں اور ان کے نمائندے سیاسی ڈسکورس بنانے کے لیے فیس بک اور ٹوئٹر جیسی عالمی کمپنیوں کا بے جا استعمال کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق، یہ بات بارہا لوگوں کے علم میں آئی ہے کہ عالمی سوشل میڈیا کمپنیاں تمام سیاسی جماعتوں کو مقابلہ آرائی کے یکساں مواقع فراہم نہیں کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال ‘وال اسٹریٹ جرنل’ نے خبر دی تھی کہ کس طرح حکمراں پارٹی کے رہنماؤں کے حق میں نفرت انگیز تقریر کے ذریعے فیس بک کے اپنے قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
سونیا گاندھی نے الجزیرہ اور دی رپورٹرز کلیکٹو کی جانب سے شائع ہونے والے فیس بک کے اندرونی الگورتھم کے بارے میں ان رپورٹوں کا بھی حوالہ دیا، جن میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ فیس بک نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے مقابلے
سستے نرخوں پر اشتہارات کی پیشکش کی۔
ان رپورٹس کااردو ترجمہ دی وائر شائع کر رہا ہے۔ چار رپورٹس کی اس سیریز کے
پہلے،
دوسرے اور
تیسرے حصے کو یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
دی رپورٹرز کلیکٹو نے ان انکشافات کے
پہلے حصے میں بتایا تھا کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے،
نیوج نامی ایک کمپنی، جس کا پورا نام نیو ایمرجنگ ورلڈ آف جرنلزم لمیٹڈ تھا، نےفیس بک پر اشتہارات چلانے کے لیے ادائیگی کی۔ ان اشتہارات میں بی جے کے لیے پروپیگنڈہ کیا گیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کی گئی، اس کے ساتھ ہی کئی طرح سےاپوزیشن کی مذمت کی گئی۔غور طلب ہے کہ اس کمپنی کو مکیش امبانی کے ریلائنس گروپ کی مالی اعانت حاصل ہے۔
دوسرے حصے میں انکشاف کیا گیاکہ فیس بک نے کئی سروگیٹ مشتہرین کو خفیہ طور پر بی جے پی کے پروپیگنڈہ کو فنڈ کرنے کی اجازت دی، جس کی وجہ سے پارٹی کو بغیر کسی جوابدہی کے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملی۔
جبکہ
تیسرے حصے میں انکشاف کیا گیاکہ فیس بک کی طرف سے سستے نرخوں نے فیس بک کے ہندوستان میں سب سے بڑے سیاسی کلائنٹ – بھارتیہ جنتا پارٹی- کو کم پیسوں میں اشتہارات کے ذریعے زیادہ ووٹروں تک پہنچنے میں مدد کی۔ جبکہ اسی طرح کے اشتہارات کے لیے کانگریس سے زیادہ پیسے لیے گئے۔
کانگریس صدر نے تیسرے حصے کی اسی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، اس رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ فیس بک پر اشتہار دینے والوں کا ایک زہریلا نظام پروان چڑھ رہا ہے اور ہمارے ملک کے انتخابی قوانین کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، فیس بک کے اپنے اصول و ضوابط کو توڑا جا رہا ہے اور حکومت کے خلاف بولنے والوں کی آواز کو ہر طرح سے دبایا جا رہا ہے۔
سونیا گاندھی نے دعویٰ کیا،فیس بک سرکاری اداروں کے ساتھ ملی بھگت کرکے جس طرح سے سماجی ہم آہنگی کو کھلے عام خراب کر رہی ہے اس سے ہماری جمہوریت کو خطرہ ہے۔ جذباتی طور پر اکسانے والے پروپیگنڈے اوراشتہارات کے ذریعے نوجوانوں اور بزرگوں کے ذہنوں میں نفرت کو ہوا دیا جا رہا ہے۔ فیس بک جیسی کمپنیاں اس سے باخبر ہیں اور اس سے منافع کما رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ کس طرح بڑے کارپوریٹ گروپ، سرکاری ادارے اور فیس بک جیسی عالمی سوشل میڈیا کمپنیوں کے درمیان ‘سانٹھ گانٹھ ‘ ہے۔
کانگریس صدر نے کہا، میں حکومت سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی انتخابی سیاست میں فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کمپنیوں کے منصوبہ بند اثر و رسوخ اور مداخلت کو ختم کرے۔
انہوں نے زور دے کر کہا، یہ پارٹی کی سیاست سے اوپر کا معاملہ ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت اور سماجی ہم آہنگی کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے، چاہے کوئی بھی اقتدار میں ہو۔
دریں اثنا، کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک ‘جمہوریت کے لیے بہت خراب’ ہے۔
انہوں نے ٹوئٹر پر متعلقہ خبریں شیئر کرتے ہوئے فیس بک کو نشانہ بنایا ہے۔
فیس بک کی ملکیت والی کمپنی ‘میٹا’ کے نام کا حوالہ دیتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا، جمہوریت کے لیے ایک ‘میٹاورس’ (بہت خراب) ہے۔
بتادیں کہ ان انکشافات کے بعد سے اپوزیشن فیس بک کے ذریعے بی جے پی کی انتخابی مہم کی تشہیر کو
جمہوریت کا قتل قرار دے رہی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کےان پٹ کے ساتھ)