آل پارٹی وفد میں شامل جان برٹاس اور اویسی بولے – حکومت سے شدید اختلاف، لیکن ملک کے لیے متحد

مرکزی حکومت نے ہندوپاک کشیدگی سے متعلق مسئلے پر 30 سے ​​زائد ممالک میں سات وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے رہنما شامل ہیں، جن کے بارے میں حزب اختلاف کے ارکان پارلیامنٹ کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے باہر مختلف اندرونی اختلافات کے باوجود متحد ہیں۔

مرکزی حکومت نے ہندوپاک کشیدگی سے متعلق مسئلے پر 30 سے ​​زائد ممالک میں سات وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے رہنما شامل ہیں، جن کے بارے میں حزب اختلاف کے ارکان پارلیامنٹ کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے باہر مختلف اندرونی اختلافات کے باوجود متحد ہیں۔

سی پی آئی (ایم) ایم پی جان برٹاس اور اے آئی ایم آئی ایم ایم پی اسد الدین اویسی (تصویر: ایکس اور پی ٹی آئی ویڈیو)

سی پی آئی (ایم) ایم پی جان برٹاس اور اے آئی ایم آئی ایم ایم پی اسد الدین اویسی (تصویر: ایکس اور پی ٹی آئی ویڈیو)

پہلگام دہشت گردانہ حملے اورآپریشن سیندور کے بعد جب اپوزیشن نریندر مودی حکومت سے مشترکہ پارلیامانی اجلاس اور وزیر اعظم کی موجودگی والی آل پارٹی میٹنگ بلانے کا مطالبہ کر رہی تھی،اسی درمیان سب کو حیران کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے اعلان کر  دیاکہ  وہ ہندوپاک کشیدگی سے متعلق مسئلے پرایک اہم سفارتی اقدام کے تحت  30 سے ​​زائد ممالک میں سات وفد بھیجے گی ۔

حکومت کے مطابق،اس  وفد میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اپوزیشن پارٹیوں کے ایم پی شامل ہوں گے، جن میں کچھ  کی قیادت وہ خود کریں گے، مثلاً ششی تھرور (کانگریس)، سپریا سولے (نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد چندر پوار)) اور کنیموزی (دراویڈ منیترا کزگم)۔

توقع ہے کہ یہ وفد 22 اور 23 مئی کو جاپان، جنوب مشرقی ایشیا، عرب دنیا اور افریقہ سے لے کر برطانیہ، یورپی یونین، لاطینی امریکہ اور امریکہ تک دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں نمائندوں سے ملاقات کے لیے روانہ ہوگا۔

تاہم، اس سے چین  کوباہررکھا جائے گا کیونکہ اس اقدام کا بنیادی مقصد آپریشن سیندور کے بعد پاکستان کی دہشت گردی کی نوعیت کو بے نقاب کرنا اور پاکستان کو عالمی سطح پر الگ -تھلگ کرنا ہے۔

حکومت کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ‘کُل جماعتی وفد تمام صورتوں  اور اظہاریہ میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے  کے لیے ہندوستان کےقومی اتفاق رائے اورنظریے  کا مظاہرہ کرے گا۔ وہ دنیا کو دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کا مضبوط پیغام پہنچائیں گے…’

اس حوالے سے پارلیامانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا، ‘یہ سیاست سے بالا تر قومی اتحاد کا ایک طاقتور عکس ہے… ہندوستان ایک آواز میں بات کرے گا۔’

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس اقدام کے ذریعے حکومت نے ایک ہی جھٹکے میں اپوزیشن کی ان تنقیدی آوازوں کو دبا دیا ہے، جس نے انٹلی جنس کی ناکامی پر سوال اٹھائے تھے اورجس کی وجہ سے پہلگام میں قتل عام ہوا؟ متاثرین کو مدد ملنے میں تاخیر ہوئی۔ نام نہاد امریکی ثالثی سے جنگ بندی؛ اور دیگر متعلقہ سوالات کے مناسب جوابات مانگے جا رہےتھے؟

اس سلسلے میں دی وائر نے حزب اختلاف کے دو سرکردہ رہنماؤں سے بات کی، جو اس وفد کا حصہ ہیں –کیرالہ سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے رکن پارلیامنٹ جان برٹاس، جو جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور، ملائیشیا اور انڈونیشیا کا دورہ کریں گے، اور حیدرآباد سےآل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ایم پی اسد الدین اویسی،جو سعودی عرب، کویت ، بحرین اور الجیریاکا دورہ کریں گے۔

پیش ہیں اس بات چیت کے بعض اہم  اقتباسات؛

کیا مودی حکومت نے پہلگام کے بعد بین الاقوامی سفارتی رابطہ کاری  کے لیے حزب اختلاف کے اراکین پارلیامنٹ کو شامل کرکے اپنی غلطیوں اور تنقیدوں کو کم کرنے کا کام کیا ہے؟ حکومت نے اس معاملے پر سوال کا جواب دینے کے لیے پارلیامنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

جان برٹاس: ہاں، ہم چاہتے تھے کہ حکومت پارلیامنٹ کا خصوصی اجلاس بلائے، ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ وزیراعظم ایک آل پارٹی اجلاس کی صدارت کریں، کیونکہ وہ پاکستان سے متعلق گزشتہ دو اجلاس میں غیر حاضر تھے۔

ہمارے پاس بہت سارے سوال اور خدشات ہیں اور ہمیں وضاحت کی ضرورت ہے – ڈونالڈ ٹرمپ کے کئی  گھمنڈ بھرے بیانات سے کہ انہوں نے کس طرح جنگ بندی کی ثالثی کی اور کس طرح انہوں نے تجارت کو لالچ دیا۔ اس کے علاوہ انٹلی جنس کی ناکامی، سیکورٹی فورسز کی طرف سے ردعمل میں تاخیر؛ میڈیا کے ذریعے نفرت، بنیاد پرستی اور جنگی جنون ؛ سکریٹری خارجہ اور ان کے اہل خانہ سمیت مارے گئے بحریہ  کےافسر کی اہلیہ پر سائبر حملے۔ ہم ان کا جواب چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں میں نے وزیر داخلہ کو ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں ان سے سائبر حملوں کے پس پردہ  کون  لوگ ہیں،اس کی جانچ کرنے کی اپیل کی گئی تھی،  لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

ان تمام اور دیگر بہت سے پہلوؤں پر ہمیں اس حکومت سے شدیداختلاف ہے، لیکن جب بین الاقوامی سطح پر سفارت کاری کے ذریعے عوامی رابطوں کی بات آتی ہے تو ہمیں تعاون کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ دنیا میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان واضح تفریق کرنا ضروری ہے۔

امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ وہ ہمیں ایک جیسا سمجھتے ہیں، اور ہم اسے بالکل بھی بدل نہیں پائے ہیں۔

نیز، ہماری جمہوریت میں دو حزبی وفود کو بیرون ملک بھیجنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ منموہن سنگھ کے دور میں ممبئی میں 26/11 کے بعد وفود پاکستان کے دہشت گرد نیٹ ورک کو اجاگر کرنے کے لیے گئے تھے۔

اب ہماری بھنویں تن گئی  ہیں، کیونکہ ہمیں مودی حکومت سے ایسے صحت مند سیاسی کلچر کی کبھی توقع نہیں تھی جیسا کہ ہم نے گزشتہ 11 سالوں میں کسی جمہوریت کا تجربہ نہیں کیا ہے۔ ہماری شرکت دنیا کویہ  دکھانے کے لیے ہے کہ اس ملک کے جمہوری عمل میں اپوزیشن کا اہم کردار ہے۔

اسدالدین اویسی: پارلیامانی وفد سفارت کاری میں کوئی نئی روایت  نہیں ہے، نرسمہا راؤ، اٹل بہاری واجپائی یا منموہن سنگھ کی قیادت والی سابقہ حکومتوں نے بھی ایسا کیا ہے۔

اب پاکستان سے آئے دہشت گردوں کے ذریعے کیے گئے ہولناک قتل عام،جنہوں نےمذہب کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کیا اور اس کے بعدپاکستان میں دہشت گردوں کے 9 ٹھکانوں  پر ہندوستان کے حملوں کے بعد یہ ضروری ہے کہ ہم ارکان پارلیامنٹ عالمی رہنماؤں سے ملاقات کریں اور انہیں اس خطے کے مسائل سے آگاہ کریں۔ ہندوستان  کئی سالوں سے دہشت گردی کا شکار  ہے، جس کی منصوبہ بندی اور سرپرستی ہمارے پڑوسی نے کی ہے اور ماضی میں بھی کئی حملے ہوئے ہیں۔

کئی ایسے مسائل ہیں جن پر ہم حکومت سے متفق نہیں ہیں اور جہاں تک میری پارٹی کا تعلق ہے، 2014 میں مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وقف (ترمیمی) بل کی منظوری تک، ہم نے اس حکومت کے ہر بل کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ اپوزیشن میں شامل نام نہاد سیکولر جماعتوں نے 2019 میں خطرناک غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ترمیمی ایکٹ کی بھی حمایت کی، جس نے اتنے سارے نوجوانوں کو جیل میں ڈال دیا ہے۔

ہم حکومت کی حمایت نہیں کر رہے ہیں، ہم اس ملک کی حمایت کر رہے ہیں جہاں ہم دنیا کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کی وجہ سے ہمارے شہری اپنی جان گنوا رہے ہیں۔

کیا حکومت نے آپ کو ایجنڈے اور ان لوگوں کے بارے میں معلومات فراہم کی  ہیں، جن سے آپ ملاقات کریں گے؟

جان برٹاس: دوسرے ممالک کو یہ بتانے کا بہترین موقع ہے کہ ہم ایک ذی شعور جمہوریت ہیں اور میں نے کل سکریٹری خارجہ کے ساتھ پروگرام کی بریفنگ کے دوران اس کا اشتراک کیا۔ میں نے کہا کہ ہمیں اپنے بھرپور تنوع اور ثقافتی کثرت کو اجاگر کرنا چاہیے اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ ہم پاکستان کے برعکس ایک متحرک جمہوریت ہیں، جو مذہب کی بنیاد پر پیدا ہوا تھا۔

ہمیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہیے کہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ مسلسل جھڑپوں میں دلچسپی نہیں رکھتا اور پاکستان شروع سے ہی دہشت گردی کی کارروائیاں انجام دیتا رہا ہے۔

ہمیں دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہم پاکستان کی نقل نہیں بننے جا رہے ہیں، بلکہ ہمارے پاس ایک آئین ہے اور ہم ترقی، معاشی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں۔

ہم نہ صرف ان ممالک کے ایکٹرز کے ساتھ بلکہ سول سوسائٹی، میڈیا اور تھنک ٹینکس کے ساتھ بھی بات چیت کریں گے، جیسا کہ وزارت خارجہ نے ہمیں مطلع کیا ہے۔ جب ممبران پارلیامنٹ اور معززین کا وفد دورہ کرتا ہے تو ہم لوگوں کے بہت سے طبقوں کے ساتھ آزادانہ بات چیت کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ حکومت اس کی اجازت دیتی ہے، لیکن ہمارے پاس ابھی تک دورے کا کوئی شیڈول نہیں ہے۔

اسدالدین اویسی : ایجنڈا بالکل واضح ہے – جب  میں نے صاف کر دیا ہے کہ جہاں تک ملک کے اندر مودی حکومت کی پالیسیوں کا تعلق ہے، ہم ان کی مخالفت کرتے ہیں اور ہم ان کی مخالفت کرتے رہیں گے- لیکن اس آؤٹ ریچ پروگرام کا تعلق ہمارے ملک پر بیرونی حملے سے ہے۔

اور اگر موجودہ حکومت کو لگتا ہے کہ یہ ملک کے مفاد میں ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیامنٹ جا کر بتائیں کہ پڑوسی ملک نے کیا کیا ہے، اور براہ کرم یاد رکھیں، آئین کا آرٹیکل 355 کہتا ہے کہ اگر کوئی بیرونی حملہ ہوتا ہے تو حکومت  کوفوری ایکشن لینا چاہیے، ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

وزارت خارجہ نے ابھی ہم سے بریفنگ کے لیے ملاقات کرنی ہے، ہم دوسرے بیچ میں جا رہے ہیں، لیکن ہم واضح ہیں کہ ملک کے دفاع کے لیے عالمی رہنماؤں سے ملیں گے۔

کیا ہوگا اگر بین الاقوامی رہنما اور دیگر افرادجن سے آپ بات چیت کرتے ہیں وہ اقلیتوں پر مہلک حملوں کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ یا مثال کے طور پر، حال ہی میں  علی خان محمود آباد کی ایک جائز سوشل میڈیا پوسٹ کے لیے سیڈیشن کے الزام میں گرفتاری؟

جان برٹاس: یہ مسائل یقینی طور پر ہماری تشویش کا حصہ ہیں – یہ مکمل طور پر مضحکہ خیز ہے کہ سوشل میڈیا پر تبصرے کرنے والے کسی شخص کوبناوٹی الزام میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے یہ مسئلہ کئی بار اٹھایا ہے اور پارلیامنٹ میں بھی غیر آئینی گرفتاریوں کی بات  کی ہے۔

یقیناً، ہم سے ایسے بہت سے سوال پوچھے جائیں گے، لیکن ہمارا وفد ان پر فیصلہ کرنے کے لیے کافی سمجھدار ہے۔ سفارتی رسائی میں شامل بین الاقوامی وفود کے لیے، ہمارا کام اور مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارا بڑا ایجنڈا سامنے آئے۔ جہاں تک ملکی مسائل کا تعلق ہے، ہم اسے ملک کے اندر ہینڈل کرلیں گے۔

اسد الدین اویسی:  دنیا کو ہم سے اقلیتوں پر حملے اور ان کے خلاف طے شدہ تعصبات پر سوال پوچھنے دیجیے۔ میں اس کا دفاع کرنے کے قابل ہوں۔ اگر آپ میرے 2013 کے ویڈیو دیکھیں، جب میں نے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کی، تو مجھ سے بھی یہی سوال پوچھا گیا تھااوریہ سمجھائے  گا کہ میں ایسے سوالوں کا سامنا کیسے کرتا ہوں۔

میں ایک ٹیلی ویژن چینل پر آیا اور مجھ سےملک میں مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں پوچھا گیا۔ میرا سادہ سا جواب تھا؛’آپ ہندوستانی مسلمانوں کی فکر کرنا چھوڑ دیں، انہوں نے 60 سال پہلے ہی طے کر لیا تھاکہ ہندوستان ان کا ملک ہے۔ ہمارا آئین بھی سیکولر ہے اور ہم اس پر عمل کریں گے۔’

کیا پی ایم مودی اپنی عالمی رسائی میں ناکام رہے ہیں؟ انہوں نے مبینہ طور پر 11 سالوں میں 72 ممالک کے 129 دورے کیےہیں، لیکن انہیں کسی بھی عالمی رہنما  سے معمول کے وعظ و نصیحت کے سوا مشکل سے ہی حمایت حاصل ہوئی ہے۔

جان برٹاس: میں حقیقت میں حیران ہوں کہ اسرائیل کی بھرپور حمایت کے علاوہ میں نے کسی دوسرے ملک کی حمایت نہیں دیکھی۔ میں بھی اتنا ہی حیران ہوں کہ امریکہ نے کس طرح  کےرد عمل کااظہار کیا، جس طرح امریکہ نے برتاؤ کیا ہےاور ہمیں نیچا دکھایا ہے۔

ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی طرف سے کی جا رہی بکواس پر ہندوستان کو شروع میں ہی واضح جواب دینے کی ضرورت ہے – جس طرح انہوں نے جنگ بندی کے معاہدے کی تصویر کشی کی، جس طرح سے انہوں نے اس سودے کو انجام دیا، وہ کہتے ہیں؛ یہ باتیں ہمارے خلاف گئی  ہیں۔

میرے خیال میں مودی سرکار کی طرف سے محض انکار کے علاوہ ایگزیکٹو کی طرف سے بھی واضح جواب دیا جانا چاہیے۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہو رہا ہے۔

ٹرمپ کی لین دین کی ڈپلومیسی بھی ہمارے لیے تباہ کن ہے، وہ صرف اپنے ملک کی تجارت میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مودی سرکار کے ترکی اور بنگلہ دیش کے ساتھ تجارت کے بائیکاٹ کے باوجود انہوں نے وہاں جا کر ان ممالک کے ساتھ تجارتی سودے کیے۔

میرے خیال میں مودی حکومت کو سب سے بڑا دھچکا پاکستان کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا قرض تھا۔ یہ امریکہ کی چال تھی، کیونکہ قرض کی منظوری میں آئی ایم ایف بورڈ پر اس کا غالب اختیار ہے۔

ہندوستان نے مغربی ممالک کے ساتھ سفارت کاری میں جو بے تحاشہ سرمایہ کاری کی ہے، اس کے پیش نظر، ردعمل کم سے کم کہنے کے لیے مایوس کن رہاہے۔

اسد الدین اویسی: یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمیں ایک ایسے ملک سے زوردار حمایت ملی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو اب بھی نسلی امتیاز پر عمل پیرا ہے، جو کہ اسرائیل ہے؛ اور بعد میں افغانستان کی طالبان حکومت کی طرف سے، جس نے پہلگام قتل عام کی کھل کر مذمت کی ہے۔ یہ صرف دو حکومتیں ہیں جنہوں نے ہندوستان کی حمایت کی ہے۔

تو ہاں، یقینی طور پر امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین  جیسے ہمارے اتحادیوں کے ساتھ ضرور اصلاحات کی ضرورت ہے، جنھیں واضح طور پر اس نسل کشی کی مذمت کرنی چاہیے تھی۔

جہاں تک جنگ بندی اور تجارتی معاہدے پر ٹرمپ کے بیانات کا تعلق ہے تو ہمیں انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا ہوگا کہ سیاسی قیادت ٹرمپ کی تردید کرےگی یا نہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )