یوپی: جونپور میں گئو شالہ کی حقیقت دکھانے پر صحافیوں کے خلاف درج ایف آئی آر رد

دو سال قبل جونپور میں ایک گئو شالہ کی بدحالی  پر خبر شائع ہونے کے بعد گاؤں کی پردھان نے صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا۔ 2024 میں ہائی کورٹ نے ایف آئی آر کو رد کر دیا تھا اور یوپی پولیس کو پھٹکار لگائی تھی۔ اب ایس سی-ایس ٹی کورٹ نے ہائی کورٹ کےحکم کے مطابق اس کیس کو بند کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔

دو سال قبل جونپور میں ایک گئو شالہ کی بدحالی  پر خبر شائع ہونے کے بعد گاؤں کی پردھان نے صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا۔ 2024 میں ہائی کورٹ نے ایف آئی آر کو رد کر دیا تھا اور یوپی پولیس کو پھٹکار لگائی تھی۔ اب ایس سی-ایس ٹی کورٹ نے ہائی کورٹ کےحکم کے مطابق اس کیس کو بند کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔

ان صحافیوں نے پسارا گاؤں میں ایک عارضی گئو شالہ کی ابتر حالت پر رپورٹ شائع کی تھی، جس کے بعد ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

ان صحافیوں نے پسارا گاؤں میں ایک عارضی گئو شالہ کی ابتر حالت پر رپورٹ شائع کی تھی، جس کے بعد ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

وارانسی: گزشتہ ماہ جونپور کی ایس سی-ایس ٹی کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے چار صحافیوں کے خلاف درج فرضی مقدمے کو رد کر دیا۔ یہ معاملہ دو سال پرانا تھا، جب اتر پردیش کے جونپور ضلع کے پسارا گاؤں میں ایک گئو شالہ  کی خراب حالت اور مرتے ہوئے مویشیوں کی رپورٹ شائع کرنے کے بعد گاؤں کی پردھان  چندا دیوی نے چار صحافیوں کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کرایا تھا۔ پولیس نے صحافی پنکج سنگھ، آدرش مشرا، اروند یادو اور ونود کمار کے خلاف 24 مارچ 2023 کو سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

ہائی کورٹ کا فیصلہ

ستمبر 2024 میں کیس کی سماعت کرتے ہوئے، الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا، ‘کیراکت کوتوالی پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر ہراسانی  اور بددیانتی سے متاثر تھی، اس لیے اسے رد کیا جاتا ہے۔’ عدالت نے یوپی پولیس کو بھی پھٹکار لگائی تھی اور ریاستی حکومت سے رپورٹ طلب کی تھی۔

تاہم، ہائی کورٹ کے فیصلے کی کاپی ایس سی-ایس ٹی کورٹ جونپور تک پہنچنے اور وہاں سے حتمی فیصلہ جاری کرنے میں چھ مہینے لگ گئے۔ 17 اپریل 2025 کو ایس سی-ایس ٹی کورٹ کے جج انل کمار یادو نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے کیس کو منسوخ کرنے کا حکم دیا۔

معاملہ ایس سی –ایس ٹی عدالت میں کیوں گیا؟

چونکہ اس معاملے میں شکایت کنندہ چندا دیوی دلت تھیں، اس لیے کیس کو خصوصی ایس سی-ایس ٹی عدالت میں منتقل کیا گیا۔ لیکن غور طلب ہے کہ صحافی ونود کمار خود  دلت ہیں، اس کے باوجود ایف آئی آر میں انہیں یادو (پسماندہ ذات) بتایا گیااور ان کے خلاف ایس سی-ایس ٹی ایکٹ سمیت پانچ سنگین دفعات لگائی گئیں۔

قابل ذکر ہے کہ 21 مارچ 2023 کو ان صحافیوں نے گائے کی موت اور پسارا گاؤں میں عارضی گئو شالہ کے مخدوش حالات پر ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ یہ خبر جونپور کے مقامی اخبار ‘تیجس ٹوڈے’ میں شائع ہوئی تھی، جس کے نامہ نگار ونود کمار ہیں۔

خبر شائع ہونے کے بعد گاؤں کی پردھان چندا دیوی ناراض ہوگئیں  اور 24 مارچ کو چار صحافیوں اور ایک اور شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی، جس میں ان پرالزام لگایا گیا کہ انہوں نے’21 مارچ 2023 کو صبح 7 بجے گاؤں کی گئو شالہ میں گھس کر وہاں موجود 115 مویشیوں کو پریشان کیا، جس کی وجہ سے مویشی ادھر ادھر بھاگنے لگے’ اورآواز کرنے لگے۔’

ایف آئی آر میں لکھا تھا کہ جب گاؤں کی پردھان اپنے شوہر کے ساتھ گئوشالہ پہنچیں اور ملزمین سے پوچھا کہ وہ بغیر اجازت کے اس میں کیوں داخل ہوئے؟ ایف آئی آر کے مطابق، ملزمین نے گاؤں کی پردھان کے خلاف مبینہ طور پر ذات پات سے متعلق نازیبا الفاظ  استعمال کیے اور مویشیوں کا ویڈیو بنایا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے  ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہ کرنے کے عوض 20 ہزار روپے کا مطالبہ بھی کیا۔

 پولیس کی کارروائی پر سوا ل اور صحافیوں کا احتجاج

مقامی صحافیوں نے پولیس کے کام کرنے کے انداز پر سوال اٹھائے اور کئی بار اعلیٰ حکام سے شکایت کی، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ بالآخر صحافیوں نے 3 اپریل 2023 کو الٰہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی۔

ہائی کورٹ نے پایا کہ ایف آئی آر بدنیتی کے ساتھ درج کی گئی تھی  اور یہ غیرجانبدارانہ صحافت پر حملہ  تھا۔ عدالت نے جونپور کے کیراکت پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا اور یوپی حکومت کی سرزنش کی۔

ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا، ‘عدالت نے پایا کہ یہ ایف آئی آر صرف اپیل کنندگان (صحافیوں) پر دباؤ ڈالنے کے لیے درج کی گئی تھی کہ وہ سوشل میڈیا پر اپلوڈ کیے گئے گئو شالہ کے ویڈیو  ہٹا لیں۔ اس لیے یہ ایف آئی آر قانونی عمل کا غلط استعمال ہے۔’

صحافی اروند یادو نے دی وائر کو بتایا، ‘ہم نے صرف سچ دکھایا تھا۔ اس کے باوجود ہمارے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔’

صحافی دیپ نارائن سنگھ نے کیس کی منسوخی کو سچائی کی جیت قرار دیا۔ انہوں نے کہا،’اگر سسٹم کی خامیوں کی نشاندہی پر مقدمات بنائے جائیں گے تو سچ دکھانے کی جرأت کون کرے گا؟ یہ رویہ توآمریت کی علامت ہے۔’

دلت صحافی کو نشانہ بنایا گیا

جونپور کے سینا پور گاؤں کے رہنے والے صحافی ونود کمار نے کہا، ‘میں  دلت ہوں، پھر بھی ایف آئی آر میں مجھے یادو ذات سے تعلق رکھنے والا بتایا گیا اور میرے خلاف ایس سی-ایس ٹی ایکٹ سمیت کئی سنگین دفعات لگائی گئیں۔ میری مالی حالت خراب ہے اس لیے پولیس کی ہراسانی کا خوف ہمیشہ رہا۔’

ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرنے کے بعد انہیں راحت ملی۔ ونود نے کہا، ‘عدالت نے مقدمے کی سماعت میں پایا کہ یہ مقدمہ فرضی ہے اور اسے خارج کر دیا گیا ہے۔’

اب ونود کمار ایس سی-ایس ٹی کمیشن اور پریس کونسل میں ہتک عزت کا مقدمہ چلانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘تاکہ آئندہ کسی صحافی کو ایسی تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔’

سپریم کورٹ پولیس کے طرز عمل پر برہم

قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایف آئی آر درج کرنے میں پولیس کے رویہ پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ یوپی پولیس من مانی طور پر تھانوں میں ایف آئی آر درج کر رہی ہے۔ تاہم، سپریم کورٹ کے اس سخت تبصرہ کا اثر ابھی تک زمینی سطح پر نظر نہیں آ رہا ہے۔