صدر جمہوریہ رامناتھ کووند نے تین طلاق بل کو دی منظوری

تین طلاق کا یہ قانون 21 فروری کو اس سے متعلق لائے گئے آرڈیننس کی جگہ لے‌گا۔ بل میں بیوی کو تین طلاق دے کر چھوڑنے والے مسلم مردوں کے لئے تین سال تک کی جیل اور جرمانے کا اہتمام ہے۔

تین طلاق کا یہ قانون 21 فروری کو اس سے متعلق لائے گئے آرڈیننس کی جگہ لے‌گا۔ بل میں بیوی کو تین طلاق دے کر چھوڑنے والے مسلم مردوں کے لئے تین سال تک کی جیل اور جرمانے کا اہتمام ہے۔

صدر جمہوریہ  رامناتھ کووند (فوٹو : رائٹرس)

صدر جمہوریہ  رامناتھ کووند (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: صدر جمہوریہ  رامناتھ کووند نے پارلیامنت  میں پاس تین طلاق بل کو منظوری دے دی ہے جس سے اب یہ ایک قانون کی صورت  میں تبدیل ہو گیا ہے۔ سرکاری نوٹیفکیشن میں یہ جانکاری دی گئی۔بدھ کو شائع گزٹ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ صدر جموہوریہ  نے پارلیامنٹ  میں پاس بل کو منظوری دے دی ہے۔ یہ قانون 21 فروری کو اس سے متعلق  لائے گئے آرڈیننس کی جگہ لے‌گا۔

بیوی کو تین طلاق کے ذریعے چھوڑنے والے مسلم مرد کو تین سال تک کی جیل کے اہتمام والے اس بل کو منگل کو راجیہ سبھا نے پاس کر دیا تھا۔ اس سے پہلے یہ لوک سبھا میں پاس ہوا تھا۔نیا قانون- مسلمان عورت (شادی پر حقوق کےتحفظ) آرڈیننس، 2019مسلم شوہر کے ذریعے دئے جانے والے طلاق ثلاثہ  کو غیر قانونی بتاتا ہے۔قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی مسلم شوہر اپنی بیوی کو زبانی طور پر، لکھ‌کر یا الیکٹرانک صورت میں یا کسی بھی دوسرے طریقے  سے طلاق ثلاثہ دیتا ہے تو یہ غیر قانونی مانا جائے‌گا۔

طلاق ثلاثہ میں کوئی مسلم شوہر اپنی بیوی کو تین بار ‘ طلاق ‘ بول‌کر اس سے رشتہ  ختم کر لیتا ہے۔قانون میں ‘ تین طلاق ‘ دینے والے مسلم مرد کو تین سال تک کی قید ہو سکتی ہے اور اس پر جرمانہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔اس میں یہ بھی اہتمام کیا گیا ہے کہ ‘ تین طلاق ‘ سے متاثرین خاتون اپنے شوہر سے خود اور اپنی منحصر اولادوں کے لئے گزر بسر کے لیےالاؤنس  حاصل کرنے کی حقدارا ہوگی۔ اس رقم کو مجسٹریٹ طے کرے‌گا۔

لوک سبھا میں یہ قانون پچھلے ہفتہ پاس کیا گیا تھا، جس کے بعد راجیہ سبھا نے 84 کے مقابلے 99 ووٹ سے اس کو پاس کر دیا۔ حکمراں این ڈی اے کو راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں ہے لیکن وہ بی جے ڈی کی حمایت اور حکمراں این ڈی اے کا حصہ جے ڈی (یو) اور اے آئی اے ڈی ایم کے کے واک آؤٹ کی وجہ سے  راجیہ سبھا میں اس بل کو پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی۔

اس بل کو پاس کراتے وقت حزب مخالف کانگریس، ایس پی اور بی ایس پی کے کچھ ممبروں اور تلنگانہ راشٹر سمیتی اور وائی ایس آر کانگریس کے کئی ممبروں کے ایوان میں موجود نہ رہنے کی وجہ سے حکومت کو کافی راحت مل گئی۔لوک سبھا میں بل پر ووٹنگ کے دوران بھی کانگریس اور ترنمول کانگریس سمیت کئی حزب مخالف پارٹیوں  نے واک آؤٹ کیا تھا۔حزب مخالف پارٹیوں  کا کہنا تھا کہ قانون کی موجودہ ساخت سے مجوزہ قانون مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور پارلیامانی کمیٹی کو اس کا تجزیہ کرنا چاہیے۔

بتا دیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے ستمبر 2018 اور فروری 2019 میں دو بار تین طلاق آرڈیننس جاری کیا تھا۔ اگرچہ، لوک سبھا میں اس متنازعہ بل کی منظوری کے بعد وہ راجیہ سبھا میں زیر التوا رہا تھا۔راجیہ سبھا میں زیر التوا ہونے کی وجہ سے گزشتہ ماہ 16 ویں لوک سبھا کے تحلیل ہونے کے بعد پچھلا بل غیر مؤثر ہو گیا تھا۔مسلمان عورت (شادی پر حقوق کےتحفظ) آرڈیننس، 2019 کے تحت تین طلاق کے تحت طلاق غیر قانونی اور غلط ہے اور شوہر کو اس کے لئے تین سال کی قید کی سزا ہو گی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)