تین طلبا نے ایک عرضی دائر کر ملک کی سبھی جیلوں میں بند قیدیوں کوووٹنگ رائٹس دینے کی گزارش کی تھی۔ دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ سہولت قانون کے تحت دی گئی ہے اور اسے قانون کے ذریعے سے چھینا جا سکتا ہے۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے قیدیوں کو ووٹنگ رائٹس دینے کی گزارش کرنے والی ایک پی آئی ایل یہ کہتے ہوئے خارج کر دی کہ یہ سہولت قانون کے تحت مہیا کرائی گئی ہے اور اسے قانون کے ذریعے سے چھینا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس سی ہری شنکر کی بنچ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا سسٹم ہے کہ ووٹنگ رائٹس کوئی بنیادی حق نہیں ہے اور یہ محض قانون کے ذریعے مہیا کرایا گیا ہے۔
بنچ نے کہا کہ ووٹنگ رائٹس کا اہتمام ری پریزنٹیشن آف دی پیوپل ایکٹ کے تحت ہے جو قانون کے ذریعے نافذ حدود کے ماتحت ہے اور یہ قیدیوں کو جیل سے ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا۔ہائی کورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور قانونی حالات کے مد نظر، اسے یہ عرضی قابل غور نہیں معلوم ہوتی اور اس کو خارج کیا جاتا ہے۔
یہ فیصلہ قانون کے تین طلبا پروین کمار چودھری، اتل کمار دوبے اور پریرنا سنگھ کی طرف سے دائر ایک عرضی پر آیا ہے جس میں ملک کی سبھی جیلوں میں بند قیدیوں کو ووٹنگ رائٹس دینے کی گزارش کی گئی تھی۔اس عرضی میں ری پریزنٹیشن آف دی پیوپل ایکٹ کی دفعہ 62 (5) کے جواز کو چیلنج کیا گیا تھا جو قیدیوں کو ووٹنگ رائٹس نہیں دیتی ہے۔
الیکشن کمیشن نے عرضی کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ قانون کے تحت قیدیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہے اور سپریم کورٹ نے اس کی حمایت کی تھی۔کمیشن نے سپریم کورٹ کے 1997 کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ایکٹ کی دفعہ 62 کے سب سیکشن (5) کا اثر یہ ہے کہ کوئی بھی شخص سزا کاٹتے وقت جیل میں بند ہے یا قانوناً قید میں ہے یا کسی بھی وجہ سے پولیس حراست میں ہے تو الیکشن میں ووٹ دینے کا حقدار نہیں ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)