جمہوریت کو نقصان پہنچانے والی قوتوں کے خلاف کھڑے ہونے کی ضرورت: پاکستانی سول سوسائٹی

پاکستان کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی سول سوسائٹی کے ممبروں نے کہا کہ عوام کے شہری، انسانی، معاشی اور سماجی حقوق کو کچلا جا رہا ہے۔

پاکستان کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی سول سوسائٹی کے ممبروں  نے کہا  کہ عوام کے شہری، انسانی، معاشی اور سماجی حقوق کو کچلا جا رہا ہے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: پاکستان کی موجودہ صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے  پاکستانی سول سوسائٹی کے 100سے زیادہ ممبروں نے ایک بیان جاری کرکے تمام جمہوری قوتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آمرانہ قوتوں  اور ریاستی اداروں کی غیرآئینی دست درازیوں کو رد کرتے ہوئے حقیقی جمہوریت اور انسانی حقوق و آزادیوں  کے لیے متحد ہو کر مزاحمت کریں۔ان میں  ملک کے نامور سیاستدان، صحافی، دانشور، وکیل  اور انسانی حقوق کی تنظیموں  کے نمائندے شامل ہیں۔اس کا اعلان عوام کے حقوق کے لیے جمہوری و آئینی جدوجہد کے اعلان نامہ میں کیا گیا ہے۔

جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کے اعلامیہ میں  ملک کو درپیش ہمہ گیر بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:

1۔ایک دست نگر معیشت ایک بھاری بھر کم قومی سلامتی کی ریاست کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور اربوں  ڈالرز کے نئے قرضوں سے افاقہ ہونے والا نہیں جب تک کہ ایک مقروض و دست نگر معیشت کو ایک پیداواری معیشت میں نہ بدلا جائے اور ترقی کے ماڈل کا رخ عوام کی معاشی نجات کی طرف نہ ہو۔

2۔ سابقہ دو جمہوری حکومتوں کی تمام تر کمزوریوں  کے باوجود ایک دہائی سے جاری ’جمہوری عبور‘ کی جگہ ایک فسطائی رجحان کی حامل حکومت کے پس پردہ غیرآئینی و غیرمنتخب آمرانہ قوتوں  کی بالادستی قائم کر دی گئی ہے۔

3۔آئینی حکمرانی، پارلیامانی نظام، انصاف کا عمل،اظہار رائے کی آزادی، میڈیا کی آزادی، اداروں کی غیرجانبداری اور آئینی فرمانبرداری کو تحلیل کیا جا رہا ہے۔ سلامتی کے اداروں پر دفاع کے سوا دوسرے سویلین معاملات میں  عدم مداخلت کی جو آئینی بندش ہے وہ ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ سب سے بڑھ کر عوام کے شہری، انسانی، معاشی اور سماجی حقوق کو کچلا جا رہا ہے۔

4۔ تمام طرح کے میڈیا کو آمرانہ بندشوں میں جکڑ کر کھلی سینسرشپ مسلط کر دی گئی ہے، جس کی ذمہ داری سلامتی کے اداروں اور حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ہزاروں صحافی بےروزگار اور سینکڑوں  پر بندشیں  لگا دی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک عجیب الخلقت جنگ کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ عوام کے حقوق کی تحریکوں  اور گمشدہ شہریوں  کی باریابی کی تحریکوں(خاص طور پر بلوچ اور پشتون علاقوں  میں) کو کچلا جا رہا ہے۔ سیاسی مخالفین کو ایک یکطرفہ اور منتقمانہ احتساب کی صورت میں  بدترین انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عوامی نمائندوں  کو اسمبلیوں میں اپنے حلقوں کی نمائندگی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اگر اے این پی کے رہنماؤں  کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو حقوق کی پرامن جدوجہد کرنے والوں  جیسے پی ٹی ایم اور دوسری کئی تنظیموں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔

بلوچستان میں جاری تصادم ختم ہوتا نظر نہیں آرہا جس کا شکار ہوئے بلوچ بھائیوں کو مزاکرات کے ذریعے مین اسٹریم میں لانے کا جو عزم نیشنل ایکشن پروگرام (این اے پی) میں کیا گیا تھا وہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے جس سے ایک طرف بلوچ بھائی تختہ ستم بن رہے ہیں اور دوسری جانب بیرونی عناصر کو مداخلت کا موقع مل رہا ہے۔ فاٹا کے عوام نے طویل دہشت گردی اور رد دہشت کے دوران بہت جانیں گنوائیں ہیں، مصیبتیں جھیلی ہیں اور ان کے گھر بار تباہ ہوئے ہیں۔ ان کی شکایات جائزہیں اور ان سے مل کر ان کا حل نکالا جائے۔

5۔اٹھارہویں ترمیم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وفاقیت اور صوبائی خودمختاری کو تحلیل کیا جا رہا ہے اور صوبوں کو یا تو ریموٹ کنٹرول سے چلایا جا رہا ہے جیسے پنجاب اور پختون خوا یا پھر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جیسے سابقہ فاٹا، بلوچستان اور سندھ۔

6۔ مہم جویانہ اور تنہا رہ جانے والی خارجہ و سلامتی کی پالیسیوں  کے باعث عالمی برادری میں  پاکستان تنہا ہو کر رہ گیا ہے جس کی ایک مثال فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کا پاکستان کو مسلسل گرے لسٹ میں شامل کیے رکھنا ہے۔دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق رائے اور فوجی آپریشنز کے باوجود دہشت گردی اور انتہاپسندی کا عفریت ختم ہونے کو نہیں  جس کی وجہ ان عفریتوں  کے اسباب کو ختم کرنے سے اجتناب دکھائی دینا ہے۔

ان بدترین حالات کے پیشِ نظر جمہوری اعلامیہ میں عوام الناس اور جمہوری و ترقی پسند قوتوں  سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ درج ذیل امور پر سختی سے ڈٹ جائیں۔

1۔ عوام کے اقتدارِ اعلیٰ، شہری، انسانی و معاشی حقوق، بشمول حقِ اظہار جو عالمی اعلان ناموں اور آئینِ پاکستان میں  یقینی بنائے گئے ہیں اور عوام کو اپنے نمائندوں  کو ایک آزاد الیکشن کمیشن کے تحت آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے ذریعے چننے کے حق کی بازیابی تاکہ جعلی و چرائے گئے انتخابی عمل سے خلاصی ہو۔

2۔ ایک آئینی، جمہوری، وفاقی اور عوامی حکمرانی کا کوئی متبادل نہیں۔ اس کے لیے ایک اقتدارِ اعلیٰ کی حامل منتخب پارلیامنٹ، خودمختار صوبائی اسمبلیاں، بااختیار مقامی حکومتیں  ہونا ضروری ہیں۔ ریاست کے تمام اداروں کو عوام کے اقتدار اعلیٰ (یعنی پارلیامنٹ) اور ایک ایسی ذمہ دار حکومت جو پاکستان کے غریب عوام کی خادم ہو، کے تابع کرنا ہوگا۔

3۔ طاقت کی تکون اور ریاست کے تین بازوؤں  مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی واضح تقسیم کو ایسے قائم رکھنا کہ پارلیامنٹ کی بالادستی یقینی رہے جس کی کوئی ادارہ پامالی نہ کرے۔ اداروں  کی جانب سے ہر طرح کی غیرآئینی مداخلت کا سدِباب۔ جیسے سلامتی اداروں کی دفاع کے علاوہ دراندازیاں اور عدلیہ کی انتظامی امور میں حد سے بڑھی ہوئی مداخلت کا سدِباب۔ سلامتی کے ادارے قابلِ احترام ہیں اور انہیں  اپنی آئینی حدود میں  رہتے ہوئے دوسرے اداروں  کے امور میں  مداخلت سے پرہیز کرنا چاہیے۔

4۔ ریاست کے تمام اداروں  کو آئین میں  دئے گئے تمام انسانی، شہری، سماجی و معاشی حقوق کا نہ صرف احترام بلکہ انہیں تحفظ فراہم کرنے کو یقینی بنانا چاہیے اور کسی سے اس کے مذہب، فقہ، جنس اور قومیت کی بنا پر تفریق نہ کی جائے کہ سب شہری برابر ہیں۔ آزادی اظہار اور میڈیا پر بندشوں و سینسرشپ کا خاتمہ، گمشدہ شہریوں کی باریابی، عورتوں  کے ساتھ کیے جانے والے جنسی و غیرانسانی امتیاز اور اقلیتوں کے ساتھ تمام تر ناانصافیوں کا خاتمہ۔ پُرامن شہریوں  اور ان کی پُرامن تحریکوں  کے خلاف ریاستی و غیرریاستی عناصر کے تشدد کا سدِباب۔بلوچستان میں جاری سورش کے خاتمے کے لیے بلوچ قوم پرستوں سے بات چیت کے ذریعہ مسئلے کا حل نکالا جائے جیسا کہ نیشنل ایکشن پلان کی منشا تھی تاکہ بلوچ بھائیوں کی مشکلات ختم ہوں اور ناداض عناصر قومی دھارے میں واپس آئیں اور بیرونی ریشہ دوانیاں ناکام ہوجائیں۔ فاٹا کے نوجوانوں کو گلے لگایا جائے نہ کہ پرے دھکیلا جائے۔ ان کی پر امن تحریک کے جائز مطالبات پورے کیے جائیں اور قبائیلی علاقوں کی خیبر پختون خواہ میں جمہوری جزب پزیری کو جلد منطقی نتیجے پہ پہنچایا جائے۔

 5۔ کرپشن کی تمام صورتوں  کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ سب کے بلااستثنیٰ احتساب کو شفاف، منصفانہ بنایا جائے اور سب کے بلاامتیاز احتساب کے لیے ایک ہی خودمختار ادارہ ہو جو کسی بھی انتقامی اور جعلی کارروائیوں  سے اجتناب کرے۔

6۔ پاکستان ایک پائیدار پیداواری بنیاد پر بیرونی دست نگری، محتاجی اور قرضوں  کے جال سے نجات پا سکتا ہے۔ جو سارے عوام کی سلامتی، روزگار، صحت و تعلیم اور اچھی زندگی کو یقینی بنائے۔ اس کے لیے معاشی، سلامتی و علاقائی تجارت و تعاون کا فروغ ضروری ہے۔

7۔ پاکستان کو قومی سلامتی کے جنگجویانہ نظریہ کی جگہ عوامی سلامتی و ترقی کے نظریہ کو اپنانا ہوگا اور ایک ایسے قومی بیانیے کو فروغ دینا ہوگا جو انسان دوستی، بھائی چارے، عوامی فلاح، عدل و انصاف، برداشت اور اندرون و بیرونِ ملک امن کا داعی ہو، جو اچھی ہمسائیگی، دوطرفہ تعاون اور اختلافات کے پُرامن حل پہ اصرار کرے۔

اعلان نامہ پر دستخط کرنے والوں کے نام:

اس اعلامیہ پر پیپلز پارٹی کے سکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر، سینیٹر رضا ربانی، مسلم لیگ کے جنرل سکریٹری احسن اقبال اور سینیٹر پرویز رشید، نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک، سینیٹر حاصل بزنجو اور آرگنائز پنجاب ایوب ملک، عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سکریٹری افتخار حسین، عوامی ورکز پارٹی کے صدر یوسف مستی خان، افراسیاب خٹک، بی این پی کے لشکر رئیسانی، مزدور کسان پارٹی کے سکریٹری جنرل تیمور رحمٰن، پیپلز پارٹی سندھ کے جمیل سومرو، بلوچ عوامی موومنٹ کے منظور گچکی، لاہور لیفٹ فرنٹ کے ڈاکٹر لال خان، فاروق طارق، ڈاکٹر عمار و دیگر؛

وکلا کی جانب سے سینئر وکیل عابد حسن منٹو، پاکستان بار کونسل کے نائب صدر امجد علی شاہ، پاکستان بار کونسل کے ممبران اختر حسین، عابد ساقی اور احسن بھون، سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن علی احمد کرد، کامران مرتضیٰ، سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر ایم عقیل، پشاور ہائی کورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی، بابر ستار، سیف الملوک، نائب صدر کراچی بار ایسوسی ایشن کے عابد فیروز، سندھ ہائی کورٹ کے محمد یٰسین آزاد، کراچی بار ایسوسی ایشن کے حیدر خان رضوی اور امیر الدین، بیرسٹر احمر جے خان، سابق صدر کراچی بار ایسوسی ایشن حیدر امام رضوی، پختونخوا سے سروپ، حبیب طاہر، ضیا خان اور سو کے قریب دیگر معروف وکلا نے اس کی توثیق کی ہے۔

جبکہ پاکستانی صحافت کے بڑے ناموں سینئر ایڈیٹر اور کالمنسٹ ایم ضیا الدین، سینئر صحافی احمد رشید، مصنف زاہد حسین و کالمنسٹ ڈان، ایڈیٹر و اینکر طلعت حسین، سکریٹری جنرل سافما امتیاز عالم، اینکر حامد میر، عاصمہ شیرازی، افتخار احمد، ابصار عالم، کالنمسٹ جنگ عطا الحق قاسمی، تجزیہ کار مظہر عباس، ایڈیٹر آواز خالد فاروقی، پی ایف یو جے کے افضل بٹ، سکریٹری جنرل اے پی این ای سی خورشید عباسی، ناصر زیدی، ناصر ملک، ایڈیٹر ڈیلی ٹائمز کاظم خان، ایڈیٹر رضا رومی، سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار، سما ٹی وی کے احمد ولید، کراچی پریس کلب فاران خان، لاہور پریس کلب کے نائب صدر ذوالفقار مہتو، اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ، لاہور اور پشاور کے پریس کلبز کے عہدیداران، سی پی این ای کے جنرل سکریٹری اور ایڈیٹر عوامی آواز ڈاکٹر جبار خٹک، ایڈیٹر و ممبر سی پی این ای محمد عامر و دیگر عہدیداران، سافما کے مستنصر جاوید، جنرل سکریٹری سافما پاکستان سرمد منظور، ریزیڈنٹ ایڈیٹر دی نیوز محمد صدیق، آج ٹی وی محمد طارق، سکریٹری جنرل ایم یو جے شفقت بھٹہ، ایچ یو جے کے خالد کھوکھر اور لالہ رحمن، ایس یو جے کے لالہ اسد پٹھان، کراچی یونین آف جنرنلسٹ کے صدر سید حسن عباس، صدر اشرف خان، سکریٹری احمد خان ملک، سکریٹری جنرل اعجاز جمالی، دی نیوز کی زیب النسا برکی، تجزیہ کار محمل سرفراز، سام کی تنزیلہ مظہر اور مختلف علاقائی صحافی تنظیموں  کے عہدیدار شامل ہیں۔

سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے ایچ آر سی پی کے حارث خلیق، طاہر حسین، مونا بیگ، ترقی پسند مصنفین کے عابد علی عابد، انسانی و خواتین حقوق کی علمبردار سلیمہ ہاشمی، شیما کرمانی، نگہت سعید خان، سیپ کے محمد تحسین اور عرفان مفتی، اور دانشوروں میں ڈاکٹر وسیم، ڈاکٹر طارق، ڈاکٹر پرویز طاہر، ڈاکٹر قیصر بنگالی، مسعود خالق، مشتاق صوفی، روبینہ سہگل، قاضی جاوید (سندھ)، اشفاق سلیم مرزا، باچا خان سینٹر کے خادم حسین، نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے دیپ سعید اور انیس ہارون، ایچ آر سی پی کی عظمیٰ نورانی، ویرو کے سالام دھاریجو اور میر ذوالفقار علی، عورت فاؤنڈیشن کے ناظم حاجی، فرحان تنویر، مہناز رحمٰن، سماجی کارکن نغمہ اقتدار، محترمہ جویریہ یونس، اقلیتی حقوق کے علمبردار پیٹر جیکب اور دیگر پچاس دانشور شامل ہیں۔

شعبہ تعلیم سے ڈاکٹر وسیم، ڈاکٹر طارق، ڈاکٹر سرفراز،ڈاکٹر پرویز طاہر، ڈاکٹر قیصر بنگالی، ڈاکٹر ریاض احمد شیخ، مسعود خالق، پنجابی شاعر صوفی مشتاق و دیگر شامل ہیں۔

ٹریڈ یونین کے رہنماؤں  میں  پائلر اور جنرل سکریٹری ایل این سی کرامت علی اور پیپلز لیبر بیورو کے حبیب الدین جنیدی، جنرل سکریٹری فشری کوآپریٹیو سوسائٹی کے سعید بلوچ، سکریٹری جنرل نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن نثار منصور، پی آئی اے سکائی وے یونین کے شیخ مجید و دیگر شامل ہیں۔

Next Article

بہار انتخابات پر نظر- مرکز کی ذات پر مبنی مردم شماری کو منظوری، لیکن ڈیڈ لائن طے نہیں

بہار انتخابات سے پہلے مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ 2024 کی انتخابی مہم میں بی جے پی کے اس موقف کے بالکل برعکس ہے، جب اس نے ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک ایسا قدم قرار دیا تھا جس سے سماج تقسیم ہو گا۔ تاہم، حکومت نے مردم شماری یا متعلقہ ذات پر مبنی  مردم شماری کے لیے کوئی ٹائم لائن نہیں دی ہے۔

وزیر ٹیلی کام اشونی ویشنو۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

وزیر ٹیلی کام اشونی ویشنو۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی:بہار انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے بدھ (30 اپریل) کو اعلان کیا کہ دس سالہ مردم شماری کے ساتھ ذات پر مبنی مردم شماری بھی کرائی جائے گی۔

مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات اشونی ویشنو نے کابینہ کی بریفنگ میں یہ اعلان کیا۔ تاہم، انہوں نے اس بارے میں کوئی ٹائم فریم نہیں بتایا کہ دس سالہ مردم شماری یا متعلقہ ذات کی مردم شماری کب کرائی جائے گی۔

آخری مردم شماری 2011 میں ہوئی تھی اور 2021 کی مردم شماری جو کہ وبائی امراض کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی تھی، ابھی تک نہیں کرائی گئی ہے۔

ویشنو نے کہا، ‘وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں کابینہ کمیٹی برائے سیاسی امور (سی سی پی اے) نے آج یعنی 30 اپریل 2025 کو فیصلہ کیا ہے کہ آنے والی مردم شماری میں ذات پر مبنی مردم شماری کو شامل کیا جانا چاہیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری حکومت معاشرے اور ملک کی اقدار اور مفادات کے لیے پرعزم ہے۔ جیسے کہ پہلے بھی  ہماری حکومت نے بھی سماج کے معاشی طور پر کمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس) کے لیے 10فیصد ریزرویشن متعارف کرایا تھا، جس کی وجہ سے کسی طبقے پر کوئی دباؤ نہیں پڑا۔’

ذات پر مبنی مردم شماری اپوزیشن جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران یہ ایک اہم ایشو تھا۔

بدھ کو اعلان کرتے ہوئے ویشنو نےانڈیا الائنس پر ذات پر مبنی مردم شماری کو ‘سیاسی ٹول’ کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ کانگریس کی حکومتوں نے ‘ہمیشہ ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کی ہے۔’

ویشنو نے کہا، ‘کانگریس حکومتوں نے ہمیشہ ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کی ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک ہونے والی تمام مردم شماری میں ذات کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ 2010 میں آنجہانی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے لوک سبھا میں یقین دہانی کرائی تھی کہ ذات پر مبنی مردم شماری پر کابینہ میں غور کیا جائے گا۔ اس پر غور کرنے کے لیے وزراء کا ایک گروپ تشکیل دیا گیا۔ زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے اس کی سفارش کی تھی۔ اس کے باوجود کانگریس حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کے بجائے صرف ذات کا سروے کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس سروے کو سماجی و اقتصادی ذات کی مردم شماری (ایس ای سی سی) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں نے ذات پر مبنی مردم شماری کو صرف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔’

وزیرموصوف نے کہا کہ مردم شماری آئین کے تحت ایک یونین کا موضوع ہے اور جب کہ کچھ ریاستوں نے اس طرح کے ذات پر مبنی سروے ‘بہتر’  طریقے سے کیے ہیں،  وہیں دوسروں نے اسے ‘غیر شفاف’طریقے سے کیا ہے۔

اگرچہ ویشنو نے کسی ریاست کا نام نہیں لیا، لیکن انہوں  نے بہار کے سروے کا حوالہ دیا جو نومبر 2023 میں کرایا گیا تھا، جب نتیش کمار کی قیادت والی جے ڈی (یو) عام انتخابات سے قبل قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) میں واپس آنے سے پہلے انڈیا الائنس کا حصہ تھی۔

کانگریس مقتدرہ تلنگانہ میں بھی ایسا ہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے، جبکہ کرناٹک میں سدرامیا حکومت نے 10 سال پرانے ذات کے سروے کو تسلیم کر لیا ہے۔

ویشنو نے کہا، ‘ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 246 کے مطابق، مردم شماری کا موضوع 7ویں شیڈول میں یونین لسٹ میں 69 کے طور پر درج ہے۔ ہندوستان کے آئین کے مطابق مردم شماری ایک یونین کا موضوع ہے۔ کچھ ریاستوں نے ذاتوں کی گنتی کے لیے سروے کرائے ہیں۔ کچھ ریاستوں نے اسےبخوبی انجام دیا ہے جبکہ کچھ دیگر نے خالص سیاسی نقطہ نظر سے اس طرح کے سروے غیر شفاف طریقے سے کئے ہیں۔ اس طرح کے سروے نے معاشرے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔’

ویشنو نے کہا کہ سی سی پی اے نے فیصلہ کیا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری شفاف طریقے سے کی جانی چاہیے تاکہ معاشرے کے’سماجی تانے بانے’ کو نقصان نہ پہنچے۔

انہوں نے کہا، ‘ان تمام حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ سیاست کی وجہ سے ہمارا سماجی تانا بانا متاثر نہ ہو، مردم شماری میں ذات پات کی گنتی کو سروے کے بجائے شفاف طریقے سے شامل کیا جانا چاہیے۔ اس سے ہمارے معاشرے کا سماجی اور معاشی ڈھانچہ مضبوط ہوگا اور قوم ترقی کرتی رہے گی۔’

امت شاہ نے فیصلے کو تاریخی قرار دیا

ایک بیان میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس اقدام کو ‘تاریخی’ قرار دیا، لیکن اس کے نفاذ کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا۔

شاہ نے کہا کہ یہ قدم سماجی مساوات کے تئیں مضبوط وابستگی کا پیغام ہے اور آئندہ مردم شماری میں ذات کو شامل کرنے کا فیصلہ کرکے ہر طبقہ کو حق دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘کانگریس اور اس کے اتحادیوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے کئی دہائیوں تک ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کی اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے اس پر سیاست کی۔ یہ فیصلہ تمام معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ طبقات کو بااختیار بنائے گا، شمولیت کو فروغ دے گا اور پسماندہ افراد کی ترقی کے لیے نئی راہیں ہموار کرے گا۔’

بہار انتخابات پر نظر!

قابل ذکر ہے کہ ویشنو کا یہ اعلان اس سال کے آخر میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل آیا ہے۔

معلوم ہو کہ جنتا دل (یونائیٹڈ) کے ذریعے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے ساتھ مل کر 2023 کی بہار میں  ذات پر مبنی مردم شماری نے ریاست میں سیاسی طوفان کھڑا کردیا تھا۔

بہار حکومت نے 2 اکتوبر 2023 کو ذات کے سروے کے اعداد و شمار جاری کیے تھے، جس کے مطابق، دیگر پسماندہ طبقات (اوبی سی) ریاست کی کل آبادی کا 63 فیصد ہیں، جن میں انتہائی پسماندہ طبقات (ای بی سی) سب سے بڑا حصہ (36فیصد) ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق بہار کی کل آبادی 13 کروڑ سے زیادہ ہے، جس میں پسماندہ طبقہ 27.13 فیصد، انتہائی پسماندہ طبقہ 36.01 فیصد اور جنرل 15.52 فیصد ہے۔

جے ڈی (یو) – آر جے ڈی حکومت نے ریاستی اسمبلی میں ریزرویشن پر سپریم کورٹ کی مقرر کردہ 50 فیصدکی حد  کو توڑنے  کے لیے اہم ترامیم منظور کیں۔ یہ ترامیم بہار میں ذات پر مبنی سروے کے بعد کی گئی ہیں، جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہار کی 65فیصد آبادی ان چار پسماندہ گروہوں سے تعلق رکھتی ہے، لیکن سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ان کی نمائندگی انتہائی کم ہے۔

جون 2024 میں پٹنہ ہائی کورٹ نے ریزرویشن کی زیادہ سے زیادہ حد کی خلاف ورزی کرنے کے بہار حکومت کے فیصلے کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کیس کی سماعت اب سپریم کورٹ میں چل رہی ہے ۔

بہارانتخابات سے قبل مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ 2024 کی انتخابی مہم میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس موقف کے بالکل برعکس ہے، جب اس نے ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک ایسا قدم قرار دیا تھا جو معاشرے کو تقسیم کرے گا ۔ اس وقت بی جے پی کی بہار یونٹ نے اسمبلی میں نتیش کمار حکومت کی مکمل حمایت کی تھی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

اتر پردیش حکومت کا نیا نشانہ: سنبھل کی شاہی مسجد کا خشک کنواں

فسادات اور دہشت سے گزرنے کے بعد سنبھل کو ایک نئے مسئلے کا سامنا ہے – ایک کنویں کو لےکرقانونی لڑائی۔ انتظامیہ شاہی جامع مسجد سے ملحقہ کنویں پر اپنا دعویٰ کر رہی ہے، جبکہ مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ کنواں ان کے احاطے کا حصہ ہے اور اس کا پانی مسجد کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔

'دھرنی وراہ کوپ'  پر بنائی گئی پولیس چوکی(بائیں)، سنبھل میں جامع مسجد کا داخلی دروازہ(دائیں) (تمام تصویریں: شروتی شرما/ دی وائر )

‘دھرنی وراہ کوپ’  پر بنائی گئی پولیس چوکی(بائیں)، سنبھل میں جامع مسجد کا داخلی دروازہ(دائیں) (تمام تصویریں: شروتی شرما/ دی وائر )

نئی دہلی: گزشتہ کئی مہینوں سے تنازعات میں گھری اتر پردیش کے سنبھل ضلع کی شاہی جامع مسجد کو اب ایک نئے تنازعہ کا سامنا ہے۔ اس بار تنازعہ کے مرکز میں کنواں ہے۔

مسجد سے متصل ’دھرانی وراہ کوپ‘ کنویں کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے۔ ضلع انتظامیہ ایک سرکاری اسکیم کے تحت اس کی تجدید کرنا چاہتی ہے اور اس کے ذریعے کنویں پر مسجد کا دعویٰ کمزور کرنا چاہتی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ جگہ سرکاری زمین پر واقع ہے اور اس کا مسجد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وہیں،مسجد کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ کنواں مسجد احاطے کا ایک حصہ ہے اور طویل عرصے سے ان کی مذہبی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کنواں تقریباً خشک ہو چکا ہے۔ یہ کنواں اوپر سے ڈھانپ دیا گیا ہے اور اس کے ایک حصے پر پولیس چوکی بھی ہے۔ مسجد کمیٹی نے اس کنویں میں ایک بورویل لگایا ہے جو تھوڑا بہت پانی کھینچ لیتا ہے۔ یہ پانی مسجد میں آنے اور جانے والے مسلمانوں کے استعمال میں آتا ہے۔  اتر پردیش حکومت خشک کنویں کے حصول کے لیے سپریم کورٹ میں لڑائی  لڑ رہی ہے۔

کیا ہےدھرنی وراہ کوپ کے حوالے سے تنازعہ؟

سنبھل کے کنویں کا معاملہ پچھلے کچھ مہینوں سے سرخیوں میں ہے۔ ضلع انتظامیہ کے مطابق سنبھل میں مذہبی اہمیت کے حامل 19 پرانے کنویں ہیں، جنہیں وہ دوبارہ زندہ کرنا چاہتی ہے۔  ان 19 کنوؤں میں سے 14 کی بحالی کے لیے 1.23 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ ان میں سے 20.56 لاکھ روپے کی لاگت سے ‘چترمکھ کوپ’ کا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔

دھرنی وراہ  کوپ انہی  19 کنوؤں میں سے ایک ہے۔

جامع مسجد سے متصل کنواں جسے ضلع انتظامیہ 'دھرنی وراہ  کوپ' کہتی ہے۔

جامع مسجد سے متصل کنواں جسے ضلع انتظامیہ ‘دھرنی وراہ  کوپ’ کہتی ہے۔

مسجد کمیٹی نے جنوری کے مہینے میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مقامی انتظامیہ نے کنویں کو ہندو مذہبی مقام قرار دیتے ہوئے نوٹس جاری کیا تھا اور ہندوؤں کو وہاں پوجا کرنے کی اجازت دی تھی۔

کمیٹی کا کہنا تھا کہ یہ کنواں مسجد کے دروازے پر واقع ہے اور اسے مسجد سے متعلق مذہبی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کمیٹی نے دلیل دی تھی کہ اگر اس جگہ پر پوجا پاٹھ کی اجازت دی گئی تو اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب ہو سکتی ہے۔

دس جنوری کو چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ نے ریاست کو مقامی انتظامیہ کے اس نوٹس پر کوئی کارروائی کرنے سے روکنے کی ہدایت دیتے ہوئے پوری صورتحال پر رپورٹ طلب کی تھی۔

حکومت کیا کہتی ہے

گزشتہ 29 اپریل کو عدالت میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں ریاستی حکومت نے دعویٰ کیا کہ دھرنی وراہ  کوپ مسجد کے احاطے کے باہر واقع ہے اور اس کا مسجد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حکومت نے کہا کہ یہ کنواں 1978 کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد بند کر دیا گیا تھا اور اب اسے رین واٹر ہارویسٹنگ اسکیم کے تحت بحال کرنے کا منصوبہ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کنواں عوامی ہے، وہاں ایک پولیس چوکی بنی ہوئی  ہے، اور یہ میونسپلٹی کی ملکیت ہے۔

مسجد کمیٹی نے عدالت میں کیا کہا

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، مسجد کمیٹی کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی نے 29 اپریل کوسپریم کورٹ کو بتایا کہ یہ کنواں جزوی طور پر مسجد کی حدود میں آتا ہے اور اسے مذہبی رسومات کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ اس کنویں کو عوام کے استعمال کے لیے کھولنے سے مذہبی جذبات مجروح ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا،’یہ کنواں اوپر سے سیمنٹ سے ڈھکا ہوا ہے، اسے کبھی اوپر سے نہیں کھولا گیا، اور اس کا ایک حصہ مسجد کے اندر  واقع ہے۔ ہم اس کنویں سے پانی نکالتے رہے ہیں، ہم اسے کافی عرصے سے استعمال کر رہے ہیں۔’

عدالت نے 29 اپریل کے اپنے حکم نامے میں فی الحال کنویں کی صورتحال کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے اور مسجد کمیٹی کو دو ہفتوں میں اپنا جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔

مسجد سے متصل کنواں اور ہندوؤں کی پوجا

سنبھل 24 نومبر کے تشدد کے بعد سے سرخیوں میں ہے ۔ تمام مذہبی مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے۔ کبھی شاہی جامع مسجد کی سفیدی کا مسئلہ ہو ، کبھی مسجد سے ملحقہ زمین پر پولیس چوکی کی تعمیر کا مسئلہ یا  پھرشہر کے مسلم اکثریتی علاقے میں مبینہ طور پر مندر کی دریافت کا معاملہ ۔

سنبھل میں، جہاں لوگ اس کشیدگی کے درمیان رہ رہے ہیں، انتظامیہ اب ہندوؤں کو مسجد سے متصل کنویں میں لانا چاہتی ہے۔ جبکہ اس علاقے میں شاید ہی کوئی ہندو خاندان رہتا ہے۔

‘عدالت سے رجوع کیا تاکہ مذہبی ہم آہنگی خراب نہ ہو’

مسجد کمیٹی کے وکیل قاسم جمال کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی بھی اس کنویں کے ہندو مذہبی مقام کا مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔ ‘اس کنویں پر ہندوؤں کوپوجا کرنے کی اجازت دینے کا مسئلہ پہلے کبھی نہیں اٹھایا گیا تھا۔ یہ پورا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے سنبھل میں ایک مذہبی اہمیت کے کنویں کے ہونے کی بات کہی،  تو اس کنویں کوبھی اس میں شامل کر لیا گیا۔’

عدالت نے مسجد کے فریق سے دو ہفتوں میں جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔

Next Article

پہلگام حملے میں  ہلاک ہونے والے بحریہ کے افسر کی بیوہ نے کہا – مسلمانوں یا کشمیریوں کو نشانہ نہ بنائیں

پہلگام دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کی اہلیہ ہمانشی نے نروال کی سالگرہ کے موقع پر منعقدہ ایک پروگرام میں کہا کہ کسی سے نفرت نہیں ہونی چاہیے۔ ہم نہیں چاہتے کہ لوگ مسلمانوں اور کشمیریوں کے پیچھے پڑیں۔ ہم صرف امن چاہتے ہیں۔

پہلگام دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کی اہلیہ ہمانشی نروال۔ (تصویر بہ شکریہ: اے این آئی ویڈیو اسکرین گریب)

پہلگام دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کی اہلیہ ہمانشی نروال۔ (تصویر بہ شکریہ: اے این آئی ویڈیو اسکرین گریب)

نئی دہلی: پہلگام دہشت گردانہ حملے میں اپنی جان گنوانے والے ہندوستانی بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کی 27ویں سالگرہ کے موقع پر ان کی اہلیہ ہمانشی نروال نے جمعرات کو امن اور اتحاد کی اپیل کی۔ ونے نروال ان 26 افراد میں شامل تھے ،جنہیں 22 اپریل کو جموں و کشمیر کے پہلگام کے قریب بائی سرن میں دہشت گردوں نے مارڈالاتھا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ہمانشی نروال نے لوگوں سے مسلمانوں اور کشمیریوں کو ہراساں نہ کرنے کی اپیل کی اور اپنے شوہر لیفٹیننٹ ونے نروال کے لیے انصاف پر زور دیتے ہوئے امن  وامان کی دعا کی۔

ہمانشی نے کہا ، ‘ہم نہیں چاہتے کہ لوگ مسلمانوں اور کشمیریوں کے پیچھے پڑیں۔ ہم امن اور صرف امن چاہتے ہیں۔ یقیناً ہم انصاف چاہتے ہیں۔ جن لوگوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا ہے انہیں سزا ملنی چاہیے۔’

انہوں نے کہا، ‘میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ پورا ملک ان (ونے) کے لیے دعا کرے کہ وہ جہاں بھی ہوں، سکون سے رہیں۔ میں صرف یہی چاہتی ہوں۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘میں ایک اور بات کہنا چاہتی ہوں۔ کسی سے نفرت نہیں ہونی چاہیے۔ میں لوگوں کو مسلمانوں یا کشمیریوں کے خلاف نفرت پھیلاتے دیکھ رہی ہوں۔ ہم یہ نہیں چاہتے۔ ہم امن اور صرف امن چاہتے ہیں۔’

بتا دیں کہ 22 اپریل کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل ہمانشی کی شادی لیفٹیننٹ نروال سے ہوئی تھی۔ ہمانشی اور نروال پہلگام میں اپنے ہنی مون پر تھے،  جب دہشت گردوں نے بحریہ کے افسر کو بہت نزدیک  سے گولی مار دی۔

ہمانشی ونے نروال کی 27 ویں یوم پیدائش کے موقع پر ہریانہ کے کرنال میں خون کے عطیہ کیمپ سے پہلے خطاب کر رہی تھیں۔

اس کیمپ کا اہتمام کرنال کی این جی او نیشنل انٹیگریٹڈ فورم آف آرٹسٹ اینڈ ایکٹوسٹس نے کیا تھا۔ اس موقع پر مختلف مقررین نے کہا کہ مرحوم افسر نے اپنی خدمات کے دوران انتہائی لگن سے ملک کی خدمت کی اور وہ ہمیشہ سب کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

نروال کی بہن سرشٹی نے خون کے عطیہ کیمپ میں حصہ لینے والے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ سرشٹی نے کہا، ‘میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جو دور دور سے یہاں خون کا عطیہ دینے آئے ہیں۔ ہمیں پیغامات بھی مل رہے ہیں۔ لوگوں نے (خون کے عطیہ کیمپ میں) جوش و خروش سے شرکت کی۔ حکومت نے بھی بہت کچھ کیا ہے۔’

معلوم ہوکہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔

کچھ جگہوں پر کشمیری طلبہ پر حملے کیے گئے اور ان کے مکان مالکوں نے انہیں رہائش خالی کرنے کو بھی کہا۔ پنجاب میں بہت سے کشمیری طلبہ کو پڑھائی  درمیان میں چھوڑ کر اپنی ریاست واپس جانے کے لیے مجبور ہونا پڑا ۔

Next Article

مرشد آباد تشدد صرف فرقہ وارانہ تصادم نہیں، بلکہ ’بے حد منظم اور منصوبہ بند‘ تھا: فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ

بنگال کے مرشد آباد میں حالیہ تشدد کی تحقیقات کرنے والی ایک 17 رکنی ٹیم نے پایا کہ یہ تشدد ‘بے حدمنظم اور سیاسی طور پر محرک تھا، جس میں مذہبی پولرائزیشن، ریاستی بے عملی اور پولیس کے جبر نے برسوں سے امن وامان سے رہ رہے  ہندو- مسلم بقائے باہمی کو بگاڑ دیا۔’

مرشد آباد میں تشدد کے بعد سیکورٹی اہلکار ۔ (تصویر بہ شکریہ: پی ٹی آئی)

مرشد آباد میں تشدد کے بعد سیکورٹی اہلکار ۔ (تصویر بہ شکریہ: پی ٹی آئی)

کولکاتہ:  بنگال کے مرشد آباد میں حالیہ تشدد کے بعد ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے پایا ہے کہ یہ تشدد محض فرقہ وارانہ تصادم یا امن و امان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک’بے حدمنظم، منصوبہ بند اور سیاسی طور پر محرک صورت حال تھی، جہاں مذہبی پولرائزیشن، حکومت کی  بے عملی اور پولیس کے جبر نے مل کر سالوں کے پرامن ہندو مسلم بقائے باہمی کو بگاڑ دیا ہے۔’

رپورٹ کے مطابق،  18 اور 19 اپریل کو فیمنسٹ ان ریزسٹنس (ایف آئی آر)، ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف ڈیموکریٹک رائٹس (اے پی ڈی آر)، ناری چیتنا،کمیٹی فار دی ریلیز آف پولیٹیکل پریزنرز (سی آر پی پی) اور گونو سونگرام مونچو (مرشد آباد) سمیت 17 رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے کے مرشدآبادکے شمشیر گنج بلاک کے گردونواح کے متعدد علاقوں کا دورہ کیا۔

ٹیم نے ایک پریس ریلیز، جس کو ابھی پوری طرح سے جاری نہیں کیا گیا ہے، میں اہم حصوں کو شامل کیا ہے۔ اس میں متاثرین، عینی شاہدین، قریبی علاقوں کے باشندوں اور پولیس اور انتظامیہ کے نمائندوں سے بات کرنے کے بعد جو کچھ معلوم ہوا اس کو درج کیا گیا ہے۔

تشدد کا آغاز

ٹیم نے پایا کہ 11 اپریل کو دھولیان کے گھوش پارہ میں وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف ایک احتجاجی ریلی میں مظاہرین پر پتھراؤ کیا گیا۔ ریلی منتشر ہو گئی؛ کچھ لوگ زخمی ہوئے۔ اس اچانک حملے سے مشتعل ہجوم نے آس پاس کی دکانوں میں توڑ پھوڑ شروع کر دی، جس میں ہندوؤں کی دکانیں بھی شامل تھیں۔ ٹائروں کو آگ لگا دی گئی اور ہندوؤں کی ایک مٹھائی کی دکان کو بھی آگ لگ گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمشیر گنج پولیس اسٹیشن سے صرف چند منٹ کے فاصلے پر واقع پولیس نے کوئی مدد نہیں کی۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ جن تین گھروں سے پتھر پھینکے گئے ،ان میں سے ایک ہندوتوا تنظیم سے وابستہ کسی شخص کا ہے، جس نے حال ہی میں ایک دھمکی آمیز ویڈیونشر کیا تھا۔ باقی دو گھر ان کے حامیوں کے تھے۔

مٹھائی کی دکان کے مالک نے ٹیم کو بتایا کہ  توڑ پھوڑ کے بارے میں اطلاع دینے کے باوجود پولیس نے کچھ نہیں کیا۔ اگلے دن جب انہوں نے مبینہ طور پر اپنی دکان بند کرنے کی کوشش کی تو انہیں اور ان  کے ملازمین کو بی ایس ایف اہلکاروں نے تھپڑ مارے۔ ٹیم نے بتایا کہ چونکہ شٹر کھلا تھا، اس لیے اگلے دن دوبارہ دکان  میں لوٹ پاٹ کی گئی۔

نقاب پوش حملہ آور

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسی دن ڈاک بنگلہ موڑ پر ایک پرامن احتجاج اس وقت پرتشدد ہو گیا،  جب کچھ نقاب پوش افراد نے ‘شری ہری ہندو ہوٹل’ پر حملہ کیا اور اسے آگ کے حوالے کر دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے ایک اور مٹھائی کی دکان پر حملہ کرنے کی بھی کوشش کی، لیکن علاقے کے مسلمان دکانداروں نے انہیں روک دیا اور ہندوؤں کی ملکیت والی  دکان کی حفاظت کی۔

ٹیم کا اہم ترین انکشاف یہ ہے کہ 11 اپریل کو تشدد پر قابو پانے میں انتظامیہ کی ناکامی افواہوں کے پھیلنے کا باعث بنی، جس سے کمیونٹی کے درمیان طویل مدتی پرامن بقائے باہمی میں خلل پڑا اور بداعتمادی پیدا ہوئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہوس نگر میں’پولیس اور بی ایس ایف اہلکاروں کے لباس میں نقاب پوش افراد نے مسلم علاقوں میں گھروں پر چھاپہ مارا اور بغیر کسی وارنٹ یا وضاحت کے 17-30 سال کی عمر کے نوجوانوں کو اٹھا لیا۔’

مقامی باشندوں نے دعویٰ کیا کہ ان  ‘پولیس’ کے پاس چاقو، خنجر اور ہتھوڑے تھے۔’ ان میں سے اکثر کو حراست میں بے دردی سے مارا گیا۔ ایک ہی  علاقے سے حراست میں لیے گئے افراد کی کل تعداد 274 کے لگ بھگ تھی۔

آنے والے دنوں میں مزید تشدد کے واقعات ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 12 اپریل کو شیو مندر بازار میں ایک مسلمان کی دکان کو جلا دیا گیا۔ بیٹ بونا اور جعفرآباد میں بھی حملے ہوئے اور نقاب پوش افراد نے تباہی مچا ئی۔ اس دوران پولیس نے کچھ  نہیں کیا۔

ٹیم کی طرف سے انٹرویو کیے گئے کچھ لوگوں نے مقامی کونسلر پر تشدد بھڑکانے کا الزام بھی لگایا۔ رپورٹ میں پایا گیا کہ کئی  لوگ خود کو بچانے کے لیےندی پار کر کے مالدہ بھاگ گئے۔

رپورٹ میں ایک اور اہم نکتہ جس پر روشنی ڈالی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ حملہ آور نقاب پوش تھے اور بچے ہوئے لوگ ان کی  شناخت کے بارے میں یقینی نہیں تھے، پھر بھی  پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر میں انہیں ‘مسلم دہشت گرد’ قرار دیا گیا ہے۔ متاثرین نے دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں کے پاس بم کے علاوہ تلواریں تھیں۔

اسی طرح کے حملے جعفرآباد میں ہوئے،  جہاں باپ بیٹا ہرگوبندو داس اور چندن داس مارے گئے۔ ٹیم نے رہائشیوں کے حوالے سے بتایا کہ تشدد 3-4 گھنٹے تک جاری رہا، لیکن پولیس کو پہنچنے میں پانچ گھنٹے لگے – حالانکہ جائے واردات پولیس اسٹیشن سے صرف آٹھ منٹ کی دوری پر تھی۔

یہاں بھی نقاب پوشوں نے نشانہ بناکر حملے کیے۔ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وقف کے احتجاج اور حملوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوتی پولیس اسٹیشن کے تحت سجور موڑ پر وقف احتجاج کی وجہ سے قومی شاہراہ 12 پر سڑک بلاک ہوگئی تھی اور پولیس کی فائرنگ میں قاسم نگر کے رہنے والے اعجاز احمدکی موت ہو گئی۔ بنگال پولیس نے ابھی تک اس بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔

رپورٹ میں پایا گیا ہے کہ تارباگان میں جھڑپیں ہوئیں اور فائرنگ میں ایک 12 سالہ لڑکا اور دو دیگر شدید زخمی ہوگئے۔

تنظیم اور مزاحمت

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح منصوبہ بند طریقے سے تشدد کیا گیا۔ ‘حملے سب کو نشانہ بناکر کیے گئے تھے۔ ہندو یا مسلمان، گھروں اور دکانوں کو اتنی صفائی سے آگ لگائی گئی کہ ایک گھر جل کرراکھ ہو گیا،  جبکہ پڑوس کی عمارتوں میں اس کا کوئی نشان نظر نہیں آیا۔

مزید یہ کہ فرضی بی ایس ایف کے چھاپوں میں صرف مسلمانوں کے گاؤں کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ حملہ اور آتش زنی صرف دو ہندو علاقوں میں ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مخلوط آبادی والے علاقے پرامن رہے۔’

ٹیم نے یہ بھی بتایا کہ مالدہ کے بیشنو نگر کے پرلال پور ہائی اسکول میں واقع سرکاری ریلیف کیمپ کا دورہ کرنے کی کوشش کے دوران پولیس اور بی ایس ایف کے اہلکاروں نے ٹیم کو مین گیٹ پر روک دیا، جس کی وجہ سے وہ کیمپ میں موجود لوگوں سے بات نہیں کر سکے۔

ٹیم نے یہ بھی پایا کہ جب یہ کام چل رہا تھا، تو کچھ باہری  لوگوں کو فون کرکے یہ بتایا جا رہا تھا کہ  جو کچھ بھی بات چیت ہو رہی تھی، وہ سب کچھ بتا دیا گیا ہے۔ اکثر پنچایت کے اہلکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ ٹیم کو روکتے اور پوچھتے کہ کیا ان کے پاس اجازت ہے۔ اکثران کی تصویریں کھینچی جاتی تھیں اور ویڈیوگرافی کی جاتی تھی۔

جعفرآباد میں کچھ لوگوں نے ایک ہندوتوا تنظیم کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو دھمکی بھی دی۔

رپورٹ میں اہم مقامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل عدم موجودگی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں پایا گیا کہ غلط معلومات اور افواہوں نے بھی مذہبی پولرائزیشن کو بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا۔

رپورٹ میں پایا گیا کہ یہاں حقیقی متاثرین عام لوگ ہیں- ہندو اور مسلمان دونوں، جنہوں نے اپنے گھر، معاش، امن اور بھروسے کوکھو دیا ہے۔

رپورٹ میں اٹھائے گئے سوال

اس میں  اس حقیقت پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ ان حملوں کو کس نے منظم کیا اور پولیس اور انتظامیہ ‘جان بوجھ کر غیر فعال’ کیوں تھے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اور بھی سوال بنے ہوئے ہیں؛

بیٹ بونا اور جعفرآباد کے متاثرین کو پرلال پور کے لوگوں کے ذریعے ناؤسے کیوں بچایا جانا پڑا؟

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو پرلال پور ریلیف کیمپ میں داخل ہونے سے کیوں روکا گیا؟

مسلم علاقوں میں تباہی پھیلانے والے یہ فرضی بی ایس ایف اہلکار کون ہیں؟

پولیس بغیر وارنٹ یا میمو کے مسلم نوجوانوں کو کیوں اٹھا رہی ہے؟

ٹیم نے 11 اپریل کے بعد سے پیش آنے والے تمام واقعات کی فوری اور آزادانہ  عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق، ریاستی حکومت کو متاثرہ علاقوں میں فوراًامن  و امان کی بحالی کاعمل شروع کرنے اور معمولات کو بحال کرنے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے تمام افراد کی فوری اور غیر مشروط رہائی اور غیر قانونی گرفتاری میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ متاثرہ خاندانوں کو فوراً معاوضہ دیا جائے اور بے گھر افراد کی بازآبادی  کی جائے۔ اس میں بربریت اور لاپرواہی میں ملوث پولیس اور بی ایس ایف اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

فائرنگ کے متاثرین کی شکایات کو قبول کرنے کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست کو فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنے میں اپنی انتظامی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور ان تمام افسران کے خلاف فوری طور پر انکوائری شروع کرنی چاہیے جو ان دنوں ڈیوٹی پر تھے۔

Next Article

ایم پی: پہلگام حملے کے خلاف ریلی میں بی جے پی لیڈر نے کانگریس ایم ایل اے کو جان سے مارنے کی دھمکی دی

بھوپال سینٹرل سے کانگریس کے ایم ایل اے عارف مسعود کو بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا کے قریبی کرشنا گھاڈگے سے جان سے مارنے کی دھمکی ملی ہے۔ پہلگام حملے پر ایک ریلی میں گھاڈگے نے مسعود کو ‘پاکستانی ایجنٹ’ بتایا اور ان کے خلاف دشنام طرازی بھی کی۔

بھوپال سینٹرل ایم ایل اے عارف مسعود (بائیں) اور بی جے پی لیڈر کرشنا گھاڈگے (دائیں)۔

بھوپال سینٹرل ایم ایل اے عارف مسعود (بائیں) اور بی جے پی لیڈر کرشنا گھاڈگے (دائیں)۔

نئی دہلی: مدھیہ پردیش کانگریس کے سینئر لیڈر اور بھوپال سینٹرل اسمبلی سیٹ سے ایم ایل اے عارف مسعود کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک دھمکی بی جے پی لیڈر کرشنا گھاڈگے نے عوامی طور پر دی ہے ۔

انہوں نے مسعود کو ‘پاکستانی ایجنٹ’ اور ‘چور’ کہہ کر مخاطب کیا اور ان کے حامیوں کو ‘کتا’ کہا۔  گھاڈگے کو مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔

‘یہ موضوع  پاکستان کا نہیں ہے۔ اس پاکستان کے ایجنٹ اسی چوراہے پر کھڑے ہو کر سن رہے ہیں۔ میں انہیں بتانا چاہتا ہوں – اب تم بھوپال میں ہنگامہ کرکے دکھاؤ۔ چور عارف مسعود، چور اور اس کے حامی جو ہمارے مذہب کی مخالفت کریں گے، ان…کو چھوڑیں گے نہیں، یہیں پر ماریں گے۔ بی جے پی لیڈر گھاڈگے کو کئی ویڈیوز میں ایسا کہتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، وہ یہ بیان حالیہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے تناظر میں دے رہے تھے۔

بائیں سے - مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا اور بی جے پی لیڈر کرشنا گھاڈگے (تصویر: فیس بک)

بائیں سے – مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا اور بی جے پی لیڈر کرشنا گھاڈگے (تصویر: فیس بک)

ریاستی بی جے پی ورکنگ کمیٹی کے رکن گھاڈگے نے بھی اپنی تقریر میں مسعود کے لیے گالی گلوچ کا استعمال کیا۔

مسعود کے حامیوں نے گھاڈگے کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی ہے، لیکن بی جے پی لیڈر نے اپنے بیان پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے۔

اپنے بیان میں گھاڈگے نے کہا، ‘ہماری ریلی پاکستان کے خلاف تھی۔ میں نے اسے (مسعود) پاکستانی ایجنٹ کہا اور اس کی جان لینے کی بات کہی… یہ معاملہ اب اوربہتر انداز میں سامنے آرہا ہے کیونکہ عارف مسعود کے فین کلب کے لوگ میرے خلاف شکایت کر رہے ہیں۔ میں نے پاکستان کے خلاف بات کی تھی اور وہ پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے میرے خلاف رپورٹ درج کروا رہے ہیں۔’

اس سے قبل بھی عارف مسعود کو سچن رگھوونشی نامی شخص کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔ رگھوونشی کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر کے ساتھ رگھوونشی کی تصویریں بھی سامنے آئی تھیں۔

عارف مسعود نے اخبار کو بتایا،’وہ لوگ ناراض ہیں کیونکہ میں لگاتار الیکشن جیتتا رہتا ہوں اور ان کی پوری طاقت لگانے کے باوجود بھوپال کا ایم ایل اے بنا ہوا ہوں۔ انہیں ہندو مسلم اتحاد کا بیانیہ بھی پسند نہیں ہے، اسی لیے وہ مجھے نشانہ بناتے ہیں۔’