پاکستان کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی سول سوسائٹی کے ممبروں نے کہا کہ عوام کے شہری، انسانی، معاشی اور سماجی حقوق کو کچلا جا رہا ہے۔
نئی دہلی: پاکستان کی موجودہ صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی سول سوسائٹی کے 100سے زیادہ ممبروں نے ایک بیان جاری کرکے تمام جمہوری قوتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آمرانہ قوتوں اور ریاستی اداروں کی غیرآئینی دست درازیوں کو رد کرتے ہوئے حقیقی جمہوریت اور انسانی حقوق و آزادیوں کے لیے متحد ہو کر مزاحمت کریں۔ان میں ملک کے نامور سیاستدان، صحافی، دانشور، وکیل اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے شامل ہیں۔اس کا اعلان عوام کے حقوق کے لیے جمہوری و آئینی جدوجہد کے اعلان نامہ میں کیا گیا ہے۔
جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کے اعلامیہ میں ملک کو درپیش ہمہ گیر بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:
1۔ایک دست نگر معیشت ایک بھاری بھر کم قومی سلامتی کی ریاست کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور اربوں ڈالرز کے نئے قرضوں سے افاقہ ہونے والا نہیں جب تک کہ ایک مقروض و دست نگر معیشت کو ایک پیداواری معیشت میں نہ بدلا جائے اور ترقی کے ماڈل کا رخ عوام کی معاشی نجات کی طرف نہ ہو۔
2۔ سابقہ دو جمہوری حکومتوں کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ایک دہائی سے جاری ’جمہوری عبور‘ کی جگہ ایک فسطائی رجحان کی حامل حکومت کے پس پردہ غیرآئینی و غیرمنتخب آمرانہ قوتوں کی بالادستی قائم کر دی گئی ہے۔
3۔آئینی حکمرانی، پارلیامانی نظام، انصاف کا عمل،اظہار رائے کی آزادی، میڈیا کی آزادی، اداروں کی غیرجانبداری اور آئینی فرمانبرداری کو تحلیل کیا جا رہا ہے۔ سلامتی کے اداروں پر دفاع کے سوا دوسرے سویلین معاملات میں عدم مداخلت کی جو آئینی بندش ہے وہ ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ سب سے بڑھ کر عوام کے شہری، انسانی، معاشی اور سماجی حقوق کو کچلا جا رہا ہے۔
4۔ تمام طرح کے میڈیا کو آمرانہ بندشوں میں جکڑ کر کھلی سینسرشپ مسلط کر دی گئی ہے، جس کی ذمہ داری سلامتی کے اداروں اور حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ہزاروں صحافی بےروزگار اور سینکڑوں پر بندشیں لگا دی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک عجیب الخلقت جنگ کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ عوام کے حقوق کی تحریکوں اور گمشدہ شہریوں کی باریابی کی تحریکوں(خاص طور پر بلوچ اور پشتون علاقوں میں) کو کچلا جا رہا ہے۔ سیاسی مخالفین کو ایک یکطرفہ اور منتقمانہ احتساب کی صورت میں بدترین انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عوامی نمائندوں کو اسمبلیوں میں اپنے حلقوں کی نمائندگی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اگر اے این پی کے رہنماؤں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو حقوق کی پرامن جدوجہد کرنے والوں جیسے پی ٹی ایم اور دوسری کئی تنظیموں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان میں جاری تصادم ختم ہوتا نظر نہیں آرہا جس کا شکار ہوئے بلوچ بھائیوں کو مزاکرات کے ذریعے مین اسٹریم میں لانے کا جو عزم نیشنل ایکشن پروگرام (این اے پی) میں کیا گیا تھا وہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے جس سے ایک طرف بلوچ بھائی تختہ ستم بن رہے ہیں اور دوسری جانب بیرونی عناصر کو مداخلت کا موقع مل رہا ہے۔ فاٹا کے عوام نے طویل دہشت گردی اور رد دہشت کے دوران بہت جانیں گنوائیں ہیں، مصیبتیں جھیلی ہیں اور ان کے گھر بار تباہ ہوئے ہیں۔ ان کی شکایات جائزہیں اور ان سے مل کر ان کا حل نکالا جائے۔
5۔اٹھارہویں ترمیم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وفاقیت اور صوبائی خودمختاری کو تحلیل کیا جا رہا ہے اور صوبوں کو یا تو ریموٹ کنٹرول سے چلایا جا رہا ہے جیسے پنجاب اور پختون خوا یا پھر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جیسے سابقہ فاٹا، بلوچستان اور سندھ۔
6۔ مہم جویانہ اور تنہا رہ جانے والی خارجہ و سلامتی کی پالیسیوں کے باعث عالمی برادری میں پاکستان تنہا ہو کر رہ گیا ہے جس کی ایک مثال فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کا پاکستان کو مسلسل گرے لسٹ میں شامل کیے رکھنا ہے۔دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق رائے اور فوجی آپریشنز کے باوجود دہشت گردی اور انتہاپسندی کا عفریت ختم ہونے کو نہیں جس کی وجہ ان عفریتوں کے اسباب کو ختم کرنے سے اجتناب دکھائی دینا ہے۔
ان بدترین حالات کے پیشِ نظر جمہوری اعلامیہ میں عوام الناس اور جمہوری و ترقی پسند قوتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ درج ذیل امور پر سختی سے ڈٹ جائیں۔
1۔ عوام کے اقتدارِ اعلیٰ، شہری، انسانی و معاشی حقوق، بشمول حقِ اظہار جو عالمی اعلان ناموں اور آئینِ پاکستان میں یقینی بنائے گئے ہیں اور عوام کو اپنے نمائندوں کو ایک آزاد الیکشن کمیشن کے تحت آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے ذریعے چننے کے حق کی بازیابی تاکہ جعلی و چرائے گئے انتخابی عمل سے خلاصی ہو۔
2۔ ایک آئینی، جمہوری، وفاقی اور عوامی حکمرانی کا کوئی متبادل نہیں۔ اس کے لیے ایک اقتدارِ اعلیٰ کی حامل منتخب پارلیامنٹ، خودمختار صوبائی اسمبلیاں، بااختیار مقامی حکومتیں ہونا ضروری ہیں۔ ریاست کے تمام اداروں کو عوام کے اقتدار اعلیٰ (یعنی پارلیامنٹ) اور ایک ایسی ذمہ دار حکومت جو پاکستان کے غریب عوام کی خادم ہو، کے تابع کرنا ہوگا۔
3۔ طاقت کی تکون اور ریاست کے تین بازوؤں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی واضح تقسیم کو ایسے قائم رکھنا کہ پارلیامنٹ کی بالادستی یقینی رہے جس کی کوئی ادارہ پامالی نہ کرے۔ اداروں کی جانب سے ہر طرح کی غیرآئینی مداخلت کا سدِباب۔ جیسے سلامتی اداروں کی دفاع کے علاوہ دراندازیاں اور عدلیہ کی انتظامی امور میں حد سے بڑھی ہوئی مداخلت کا سدِباب۔ سلامتی کے ادارے قابلِ احترام ہیں اور انہیں اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے دوسرے اداروں کے امور میں مداخلت سے پرہیز کرنا چاہیے۔
4۔ ریاست کے تمام اداروں کو آئین میں دئے گئے تمام انسانی، شہری، سماجی و معاشی حقوق کا نہ صرف احترام بلکہ انہیں تحفظ فراہم کرنے کو یقینی بنانا چاہیے اور کسی سے اس کے مذہب، فقہ، جنس اور قومیت کی بنا پر تفریق نہ کی جائے کہ سب شہری برابر ہیں۔ آزادی اظہار اور میڈیا پر بندشوں و سینسرشپ کا خاتمہ، گمشدہ شہریوں کی باریابی، عورتوں کے ساتھ کیے جانے والے جنسی و غیرانسانی امتیاز اور اقلیتوں کے ساتھ تمام تر ناانصافیوں کا خاتمہ۔ پُرامن شہریوں اور ان کی پُرامن تحریکوں کے خلاف ریاستی و غیرریاستی عناصر کے تشدد کا سدِباب۔بلوچستان میں جاری سورش کے خاتمے کے لیے بلوچ قوم پرستوں سے بات چیت کے ذریعہ مسئلے کا حل نکالا جائے جیسا کہ نیشنل ایکشن پلان کی منشا تھی تاکہ بلوچ بھائیوں کی مشکلات ختم ہوں اور ناداض عناصر قومی دھارے میں واپس آئیں اور بیرونی ریشہ دوانیاں ناکام ہوجائیں۔ فاٹا کے نوجوانوں کو گلے لگایا جائے نہ کہ پرے دھکیلا جائے۔ ان کی پر امن تحریک کے جائز مطالبات پورے کیے جائیں اور قبائیلی علاقوں کی خیبر پختون خواہ میں جمہوری جزب پزیری کو جلد منطقی نتیجے پہ پہنچایا جائے۔
5۔ کرپشن کی تمام صورتوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ سب کے بلااستثنیٰ احتساب کو شفاف، منصفانہ بنایا جائے اور سب کے بلاامتیاز احتساب کے لیے ایک ہی خودمختار ادارہ ہو جو کسی بھی انتقامی اور جعلی کارروائیوں سے اجتناب کرے۔
6۔ پاکستان ایک پائیدار پیداواری بنیاد پر بیرونی دست نگری، محتاجی اور قرضوں کے جال سے نجات پا سکتا ہے۔ جو سارے عوام کی سلامتی، روزگار، صحت و تعلیم اور اچھی زندگی کو یقینی بنائے۔ اس کے لیے معاشی، سلامتی و علاقائی تجارت و تعاون کا فروغ ضروری ہے۔
7۔ پاکستان کو قومی سلامتی کے جنگجویانہ نظریہ کی جگہ عوامی سلامتی و ترقی کے نظریہ کو اپنانا ہوگا اور ایک ایسے قومی بیانیے کو فروغ دینا ہوگا جو انسان دوستی، بھائی چارے، عوامی فلاح، عدل و انصاف، برداشت اور اندرون و بیرونِ ملک امن کا داعی ہو، جو اچھی ہمسائیگی، دوطرفہ تعاون اور اختلافات کے پُرامن حل پہ اصرار کرے۔
اعلان نامہ پر دستخط کرنے والوں کے نام:
اس اعلامیہ پر پیپلز پارٹی کے سکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر، سینیٹر رضا ربانی، مسلم لیگ کے جنرل سکریٹری احسن اقبال اور سینیٹر پرویز رشید، نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک، سینیٹر حاصل بزنجو اور آرگنائز پنجاب ایوب ملک، عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سکریٹری افتخار حسین، عوامی ورکز پارٹی کے صدر یوسف مستی خان، افراسیاب خٹک، بی این پی کے لشکر رئیسانی، مزدور کسان پارٹی کے سکریٹری جنرل تیمور رحمٰن، پیپلز پارٹی سندھ کے جمیل سومرو، بلوچ عوامی موومنٹ کے منظور گچکی، لاہور لیفٹ فرنٹ کے ڈاکٹر لال خان، فاروق طارق، ڈاکٹر عمار و دیگر؛
وکلا کی جانب سے سینئر وکیل عابد حسن منٹو، پاکستان بار کونسل کے نائب صدر امجد علی شاہ، پاکستان بار کونسل کے ممبران اختر حسین، عابد ساقی اور احسن بھون، سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن علی احمد کرد، کامران مرتضیٰ، سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر ایم عقیل، پشاور ہائی کورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی، بابر ستار، سیف الملوک، نائب صدر کراچی بار ایسوسی ایشن کے عابد فیروز، سندھ ہائی کورٹ کے محمد یٰسین آزاد، کراچی بار ایسوسی ایشن کے حیدر خان رضوی اور امیر الدین، بیرسٹر احمر جے خان، سابق صدر کراچی بار ایسوسی ایشن حیدر امام رضوی، پختونخوا سے سروپ، حبیب طاہر، ضیا خان اور سو کے قریب دیگر معروف وکلا نے اس کی توثیق کی ہے۔
جبکہ پاکستانی صحافت کے بڑے ناموں سینئر ایڈیٹر اور کالمنسٹ ایم ضیا الدین، سینئر صحافی احمد رشید، مصنف زاہد حسین و کالمنسٹ ڈان، ایڈیٹر و اینکر طلعت حسین، سکریٹری جنرل سافما امتیاز عالم، اینکر حامد میر، عاصمہ شیرازی، افتخار احمد، ابصار عالم، کالنمسٹ جنگ عطا الحق قاسمی، تجزیہ کار مظہر عباس، ایڈیٹر آواز خالد فاروقی، پی ایف یو جے کے افضل بٹ، سکریٹری جنرل اے پی این ای سی خورشید عباسی، ناصر زیدی، ناصر ملک، ایڈیٹر ڈیلی ٹائمز کاظم خان، ایڈیٹر رضا رومی، سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار، سما ٹی وی کے احمد ولید، کراچی پریس کلب فاران خان، لاہور پریس کلب کے نائب صدر ذوالفقار مہتو، اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ، لاہور اور پشاور کے پریس کلبز کے عہدیداران، سی پی این ای کے جنرل سکریٹری اور ایڈیٹر عوامی آواز ڈاکٹر جبار خٹک، ایڈیٹر و ممبر سی پی این ای محمد عامر و دیگر عہدیداران، سافما کے مستنصر جاوید، جنرل سکریٹری سافما پاکستان سرمد منظور، ریزیڈنٹ ایڈیٹر دی نیوز محمد صدیق، آج ٹی وی محمد طارق، سکریٹری جنرل ایم یو جے شفقت بھٹہ، ایچ یو جے کے خالد کھوکھر اور لالہ رحمن، ایس یو جے کے لالہ اسد پٹھان، کراچی یونین آف جنرنلسٹ کے صدر سید حسن عباس، صدر اشرف خان، سکریٹری احمد خان ملک، سکریٹری جنرل اعجاز جمالی، دی نیوز کی زیب النسا برکی، تجزیہ کار محمل سرفراز، سام کی تنزیلہ مظہر اور مختلف علاقائی صحافی تنظیموں کے عہدیدار شامل ہیں۔
سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے ایچ آر سی پی کے حارث خلیق، طاہر حسین، مونا بیگ، ترقی پسند مصنفین کے عابد علی عابد، انسانی و خواتین حقوق کی علمبردار سلیمہ ہاشمی، شیما کرمانی، نگہت سعید خان، سیپ کے محمد تحسین اور عرفان مفتی، اور دانشوروں میں ڈاکٹر وسیم، ڈاکٹر طارق، ڈاکٹر پرویز طاہر، ڈاکٹر قیصر بنگالی، مسعود خالق، مشتاق صوفی، روبینہ سہگل، قاضی جاوید (سندھ)، اشفاق سلیم مرزا، باچا خان سینٹر کے خادم حسین، نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے دیپ سعید اور انیس ہارون، ایچ آر سی پی کی عظمیٰ نورانی، ویرو کے سالام دھاریجو اور میر ذوالفقار علی، عورت فاؤنڈیشن کے ناظم حاجی، فرحان تنویر، مہناز رحمٰن، سماجی کارکن نغمہ اقتدار، محترمہ جویریہ یونس، اقلیتی حقوق کے علمبردار پیٹر جیکب اور دیگر پچاس دانشور شامل ہیں۔
شعبہ تعلیم سے ڈاکٹر وسیم، ڈاکٹر طارق، ڈاکٹر سرفراز،ڈاکٹر پرویز طاہر، ڈاکٹر قیصر بنگالی، ڈاکٹر ریاض احمد شیخ، مسعود خالق، پنجابی شاعر صوفی مشتاق و دیگر شامل ہیں۔
ٹریڈ یونین کے رہنماؤں میں پائلر اور جنرل سکریٹری ایل این سی کرامت علی اور پیپلز لیبر بیورو کے حبیب الدین جنیدی، جنرل سکریٹری فشری کوآپریٹیو سوسائٹی کے سعید بلوچ، سکریٹری جنرل نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن نثار منصور، پی آئی اے سکائی وے یونین کے شیخ مجید و دیگر شامل ہیں۔