آگرہ: پولیس نے ایک مسلمان شخص کے قتل کیس میں دو افراد کو گولی ماری، ایک دیگر گرفتار

گزشتہ 23 اپریل کو آگرہ میں ایک مسلمان شخص کو مبینہ طور پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کا چچازاد بھائی بھی حملے میں زخمی ہوگیا تھا۔ اس کے بعد خود کو گئو رکشک  بتانے والے ایک شخص نے قتل کو پہلگام حملے کا انتقام کہا تھا۔ اب یوپی پولیس نے اس کے ساتھ تین لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

گزشتہ 23 اپریل کو آگرہ میں ایک مسلمان شخص کو مبینہ طور پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کا چچازاد بھائی بھی حملے میں زخمی ہوگیا تھا۔ اس کے بعد خود کو گئو رکشک  بتانے والے ایک شخص نے قتل کو پہلگام حملے کا انتقام کہا تھا۔ اب یوپی پولیس نے اس کے ساتھ تین لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

پولیس نے مبینہ انکاؤنٹر میں پریانش یادو اور شیوم بگھیل کو ٹانگ میں گولی مارنے کے بعد گرفتار کر لیا۔ (فوٹو: آگرہ پولیس)

پولیس نے مبینہ انکاؤنٹر میں پریانش یادو اور شیوم بگھیل کو ٹانگ میں گولی مارنے کے بعد گرفتار کر لیا۔ (فوٹو: آگرہ پولیس)

نئی دہلی: اتر پردیش پولیس نے ایسے تین لوگوں کو گرفتار کیا ہے، جن میں وہ شخص بھی شامل ہے، جس نےخود کو گئو رکشک بتاتے ہوئے پہلگام دہشت گردانہ حملے کےانتقام میں آگرہ میں ایک مسلم ریستوراں کے ملازم- گلفام کے قتل کی ذمہ داری لیتے ہوئے سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کیا تھا۔

پولیس نے ان تین میں سے دو افراد کو بھی گرفتار کر لیا ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر 23 اپریل کی رات گلفام کو گولی مار کر ہلاک  کر دیا تھااور اس کے چچازاد بھائی سیف علی کو زخمی کر دیا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ  شیوم بگھیل (20) اور پریانش یادو (21) کو 28 اپریل کو ایک مبینہ انکاؤنٹر میں ٹانگ میں گولی لگنے کے بعد گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے بتایا کہ ان کے پاس سے .315 بور کے دو دیسی پستول برآمد ہوئے ہیں۔ تیسرا ملزم پشپیندر بگھیل ابھی تک مفرور ہے۔

گلفام اور سیف کی شوٹنگ کا کریڈٹ لیتے ہوئے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو اپلوڈ کرنے والے منوج چودھری کو بھی مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے دانستہ اور بدنیتی پر مبنی حرکتیں کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔

آگرہ پولیس نے کہا کہ چودھری نے ویڈیو اپلوڈ کیا تھا، جس میں اس نے ‘کشتریہ گئو رکشا دل’ کا رکن ہونے کا دعویٰ کیا تھا، جس کا مقصد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنا اور مقصد سے توجہ ہٹانا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ اس قتل کا پہلگام حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ پیسے کے تنازعہ کی وجہ سے ہوا، جو واقعہ سے چند روز قبل بریانی کی دکان پر تینوں کلیدی ملزمین اور گلفام کے درمیان ہوا تھا۔

آگرہ کے پولیس کمشنر دیپک کمار نے کہا کہ چودھری، جس کا کسی بھی کشتریہ تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے، نے مبینہ طور پر اس قتل کو کشتریہ گئو رکشک دل سے جوڑنے کی کوشش کی تھی۔

ملزم نے پچھلے​​تنازعہ پر گلفام کو گولی ماری: پولیس

سینئر اہلکار نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ تینوں افراد نے پیسے کو لے کر ریستوراں میں ہوئے پچھلے تنازعہ کی وجہ سے گلفام کو گولی ماری۔ انہوں نے کہا کہ جھگڑا اتنا معمولی تھا کہ کسی بھی فریق نے اس معاملے میں پولیس سے رابطہ نہیں کیا تھا۔ کمار نے کہا کہ ملزمین نے کیس میں گواہ سیف کی گواہی کے مطابق ‘ذات یا مذہب’ سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

آگرہ پولیس نے الزام لگایا کہ پشپندر بگھیل نے گلفام کو گولی ماری جبکہ شیوم بگھیل نے سیف کو گولی ماری۔ پریانش یادو نے اس واقعے  کا ویڈیو بنایا۔ تینوں ملزم آگرہ کے ایک ہی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور چھوٹی موٹی نوکری کرکے اپنا گزارہ کرتے ہیں۔

چوہدری کا مجرمانہ ریکارڈ ہے۔ 2017 میں، اس پر قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔ 23 اپریل کو فائرنگ کی خبر کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہونے لگا جس میں خود کو کشتریہ گئو رکشا دل کا مبینہ رکن بتا رہا منوج چودھری کہہ رہا تھا کہ اس نے آگرہ میں دو مسلمانوں کا قتل کیا ہے۔ اس نے کہا کہ اس نے پہلگام میں ہونے والی ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے لیے ایسا کیا تھا۔

ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد آگرہ پولیس نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ آگرہ میں کشتریہ گئورکشا دل نام کی کوئی تنظیم سرگرم نہیں ہے۔ پولیس نے ان خبروں کی بھی تردید کی کہ گلفام اور سیف علی کو مشتبہ افراد کے نام اور مذہب پوچھنے کے بعد نشانہ بنایا گیا۔

اس کے بعد پولیس نے چودھری کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 299 (مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے کیے گئے کام) اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 66 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

پولیس نے کہا کہ قتل کے بارے میں معلوم ہونے کے بعد بھی چودھری نے آگرہ میں کشتریہ کرنی سینا کے حالیہ احتجاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے جان بوجھ کر کشتریہ گئو رکشا دل کا نام لیا اور اسے پہلگام قتل  معاملے سے جوڑ دیا۔

آگرہ پولیس نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا اور دیگر ویب سائٹس پر ‘گمراہ کن’ معلومات کو بڑے پیمانے پر شیئر کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوششوں کے بعد انہیں دنیا بھر سے تبصرے موصول ہوئے۔ پولیس ان تمام سوشل میڈیا ہینڈل کی تحقیقات کر رہی ہے، جنہوں نے واقعے کے بعد ‘غیر ذمہ دارانہ پوسٹس اور تبصرے’ کیے ۔ پولیس نے کہا کہ ان کے کردار کو بھی تفتیش میں شامل کیا جائے گا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )