
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کو لے کر وہاٹس ایپ پیغامات فارورڈ کرنے کے الزام میں گرفتار سرکاری کالج کی گیسٹ فیکلٹی کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے ویڈیو کو فارورڈ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کو غیر معینہ مدت تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

علامتی تصویر بہ شکریہ: پکسابے
نئی دہلی: مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے ویڈیو کو فارورڈ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی شخص کو غیر معینہ مدت تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے ڈنڈوری کے گورنمنٹ ماڈل کالج کی گیسٹ فیکلٹی ڈاکٹر نسیم بانو کو ضمانت دیتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ انہیں پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بارے میں مبینہ طور پر وہاٹس ایپ پیغامات اور ایک ویڈیو فارورڈ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
جسٹس اویندر کمار سنگھ نے 13 جون کے اپنے آرڈر میں کہا، ‘پہلی نظر میں یہ بہت محفوظ طریقے سے کہا جا سکتا ہے کہ کالج میں گیسٹ فیکلٹی کے عہدے پر فائز ایک پڑھے لکھے شخص پر وہاٹس ایپ پیغامات فارورڈ کرتے ہوئے زیادہ ذمہ داری عائدہوتی ہے۔ لیکن محض پیغامات اور ویڈیوز کو فارورڈ کرنے کی بنیاد پر، جس سے کسی کمیونٹی کے مذہبی جذبات مجروح ہوسکتے ہیں، کسی شخص کو غیر معینہ مدت تک جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔’
معلوم ہو کہ ڈاکٹر بانو کو 28 اپریل کو ڈنڈوری پولیس اسٹیشن میں دیپیندر جوگی نامی شخص کی شکایت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف بھارتیہ نیائےسنہتا(بی این ایس) 2023 کی دفعہ 196، 299 اور 353 (2) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ پروفیسر نے ایک وہاٹس ایپ گروپ میں کچھ پوسٹ ڈالے تھے، جن کا مقصد ایک کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے، ساتھ ہی ‘نیا راون’ کے عنوان سے ایک ویڈیو بھی نشر کیا تھا ہے۔
ایڈوکیٹ ایشان دت اور سینئر ایڈوکیٹ منیش دت نے ڈاکٹر بانو کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے دلیل دی کہ وہ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں اور ان کا کسی کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے سرکاری وکیل رویندر شکلا نے دعویٰ کیا کہ درخواست گزار نے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر وہاٹس ایپ پیغام اور ویڈیو کو آگے بڑھایا تھا۔
تاہم، انہوں نے بتایاکہ پروفیسر کے خلاف کوئی اور جرم درج نہیں ہے۔ دونوں فریقوں کو سننے اور کیس ڈائری کا جائزہ لینے کے بعد جسٹس سنگھ نے حقائق اور حالات کو دیکھتے ہوئے ضمانت دینا مناسب سمجھا۔