جموں و کشمیر میں دی وائر کے نامہ نگار جہانگیر علی کا موبائل فون بغیر کسی قانونی بنیاد کے ضبط کیا جانا، صحافیوں کو ڈرانے کی کوشش ہے۔ جموں و کشمیر پولیس کی یہ کارروائی میڈیا کی آزادی پر جبرکی ایک اور مثال ہے۔

صحافی جہانگیر علی۔ (تصویر: دی وائر)
کشمیری صحافی جہانگیر علی کا فون ضبط کیے جانے پر دی وائر کا بیان
نئی دہلی، 18 دسمبر 2025
بدھ، 17 دسمبر، 2025 کی شام کو جموں و کشمیر کے بڈگام ضلع کے پولیس افسران سینئر صحافی جہانگیر علی کی چرار شریف رہائش گاہ پر پہنچے۔ جہانگیر علی طویل عرصے سے جموں و کشمیر میں دی وائر کے نامہ نگار ہیں۔
پولیس اہلکاروں نے بغیر کوئی وجہ بتائے اور ایف آئی آر، کیس، وارنٹ یا عدالتی حکم کی تفصیلات فراہم کیے بغیر ان کا موبائل فون ضبط کرلیا۔ پولیس نے جہانگیر علی کو ضبط کیے گئے فون کی ہیش ویلیو فراہم نہیں کروائی، جو کہ مرکزی ایجنسیوں کو سپریم کورٹ کی ہدایات اور ضبط شدہ الکٹرانک آلات کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے عالمی سطح پر منظور شدہ معیارات کے خلاف ہے۔ ہیش ویلیو کو درج کیا جانا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حراست کے دوران ڈیوائس میں کوئی ڈیٹا جوڑا یاہٹایا نہ جائے۔
قابل ذکر ہے کہ جہانگیر علی کا فون اس وقت ضبط کیا گیا، جب وہ کشتواڑ میں رتلے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ میں مبینہ اقربا پروری اور بدعنوانی سے متعلق معاملے کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ پولیس کی اس کارروائی کے وقت بھی وہ اسی پروجیکٹ سے متعلق ایک اور تفتیش پر کام کر رہے تھے۔
دی وائر جموں و کشمیر پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے اپنے صحافی کوڈرانے- دھمکانے کی اس کوشش کی شدید مذمت کرتا ہے۔ یہ کارروائی جموں و کشمیر میں صحافیوں کو منظم طریقے سے ہراساں کرنے کی ایک اور مثال ہے۔
دی وائر یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ جہانگیر علی کا موبائل فون فوراًواپس کیا جائے اور جس وقت سے انہوں نے فون حوالے کیا ہے، اس پوری مدت کی مفصل ‘چین آف کسٹڈی ‘دستیاب کرائی جائے۔