
آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے جمعہ کو دھبری میں رات کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ 7 جون کو دھبری کے ہنومان مندر میں ایک جانور کا کٹا ہوا سر ملا تھا، جس کے بعد سے وہاں حالات کشیدہ ہیں۔

آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے جمعہ کو دھبری کا دورہ کیا۔تصویر بہ شکریہ: ایکس
نئی دہلی: آسام حکومت نے دھبری شہر میں ایک مندر کے قریب فرقہ وارانہ واقعات کے بعد جمعہ کی رات کودیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ یہ فیصلہ عیدالاضحیٰ کے عین بعد ہنومان مندر کے پاس مبینہ طور پر مویشیوں کے سر رکھے جانے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تشدد کے پیش نظر لیا گیا ہے۔
کیا تھا معاملہ
ہندوستان ٹائمز کے مطابق، پہلا واقعہ 7 جون کو بقرعید کے ایک دن بعد پیش آیا، جب دھبری کے ایک ہنومان مندر میں ایک گائے کا سر ملا ۔ اگرچہ ابتدائی طور پر ہندو اور مسلم دونوں برادریوں نے امن کی اپیل کی تھی، لیکن کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب اگلے دن اسی جگہ سے ایک اور مویشی کا سر ملا۔ مبینہ طور پر رات کے وقت پتھراؤ بھی کیا گیا، جس سے علاقے میں بدامنی میں مزید اضافہ ہوگیا۔
اس کے بعد امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ریپڈ ایکشن فورس (آر اے ایف) اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) سمیت سیکورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔ ہفتے کے شروع میں امتناعی احکامات نافذ کیے گئے تھے اور بعد میں اٹھا لیے گئے تھے، لیکن صورتحال اب بھی غیر مستحکم ہے۔
شرما نے امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے دھبری کا دورہ کرنے کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا ،’معاملہ دونوں برادریوں کے رہنماؤں کی میٹنگ کے بعد سلجھ گیا تھا، لیکن اگلے دن اسی جگہ پر ایک اور گائے کا سر رکھ دیا گیا، جس سے کشیدگی بڑھ گئی۔’
وزیر اعلیٰ شرما نے کہا، ‘یہ واقعہ کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہم مندروں اور مقدس مقامات کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنا رہے ہیں۔’ انہوں نے علاقے میں تشدد بھڑکانے اور ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش کے لیے ایک ‘فرقہ وارانہ گروپ’ مورد الزام ٹھہرایا۔
چیف منسٹر نے مبینہ ‘بیف مافیا’ پر بھی تشویش کا اظہار کیا، جس کے مطابق، عید سے قبل مغربی بنگال سے ہزاروں مویشیوں کو دھبری لایا گیا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ دراندازی ایک نئے مجرمانہ نیٹ ورک نے کی ہے اور انہوں معاملے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
وزیراعلیٰ کے الزامات
شرما نے مبینہ طور پر ‘نبین بنگلہ’ نامی تنظیم کے ذریعے لگائے گئے پوسٹروں کی جانب اشارہ کیا، جس میں دھبری کو بنگلہ دیش میں ضم کرنے کے اشتعال انگیز ایجنڈے کو بڑھاوا دیا گیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انتہا پسند عناصر آن لائن اور زمینی سطح پرفرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دھبری کو بنگلہ دیش کا حصہ بنانے کی مہم کے ذریعے فرقہ وارانہ بدامنی کو ہوا دینے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے۔
شرما نے کہا، ‘میں نے رات میں دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اگر کوئی پتھر پھینکے اور پولیس کو ان کی نیت پر شک ہو تو وہ گولی مار دیں گے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ خود آئندہ عید کی تقریبات کے دوران دھبری میں سیکورٹی کی نگرانی کریں گے۔
انہوں نے کہا، ‘ہم کمیونٹی کے ایک حصے کو اس طرح کی گڑبڑی پیدا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہماری حکومت اسے برداشت نہیں کرے گی اور دھبری کو ہمارے ہاتھوں سے جانے نہیں دے گی۔’
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، چیف منسٹر نے ضلع میں تمام معروف مجرموں کو فوری طور پر گرفتار کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں، جو ان کے بقول بنگلہ دیش میں ایک طویل عرصے سے بنیاد پرست قوتوں کے نشانے پرہیں۔
انہوں نے کہا، ‘وہ واقعات جن کا مقصد فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینا ہے، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بنگلہ دیشی طاقتیں دھبری میں کام کر رہی ہیں۔’
معلوم ہو کہ دھبری ضلع میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، جن میں سے زیادہ تر بنگالی بولنے والے ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، ضلع کی آبادی میں مسلمانوں کا حصہ تقریباً 74فیصد ہے۔
فرقہ وارانہ تشدد کے بعد 38 افراد کو گرفتار
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق ، چیف منسٹر ہمنتا بسوا شرما نے سنیچر کو کہا کہ دھبری میں 38 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ایک نوٹیفکیشن کے مطابق، ریاستی حکومت نے ضلع کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نوین سنگھ کا بھی تبادلہ کر دیا ہے اور ان کی جگہ ہیلاکنڈی کی ایس ایس پی لینا ڈولی کو مقرر کیا ہے۔