بہار ووٹر لسٹ پر نظرثانی کے درمیان آسام کا مطالبہ – الیکشن کمیشن نظرثانی کے عمل میں این آر سی پر غور کرے

آسام کے حکام نے الیکشن کمیشن کو بتایا ہے کہ چونکہ یہ واحد ریاست ہے جس نے پہلے ہی این آر سی کی تیاری کا عمل شروع کر دیا ہے، اس لیے جب بھی الیکشن کمیشن ریاست کی انتخابی فہرست کے ایس آئی آر کے لیے اہلیت کے دستاویز کی فہرست کو حتمی شکل دے تو اس کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔

آسام کے حکام نے الیکشن کمیشن کو بتایا ہے کہ چونکہ یہ واحد ریاست ہے جس نے پہلے ہی این آر سی کی تیاری کا عمل شروع کر دیا ہے، اس لیے جب بھی الیکشن کمیشن ریاست کی انتخابی فہرست کے ایس آئی آر کے لیے اہلیت کے دستاویز کی فہرست کو حتمی شکل دے تو اس کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: آسام کے حکام نے الیکشن کمیشن (ای سی) سے کہا ہے کہ چونکہ یہ واحد ریاست ہے جس نے شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کی تیاری کا عمل پہلے ہی شروع کر دیا ہے، اس لیے جب بھی ای سی اپنی ٹائم لائن طے کرے اور ریاست کی انتخابی فہرستوں کی ایس آئی آرکے لیے اہلیت کے دستاویزوں کی فہرست بنائے تو اس پہلو کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، آسام حکومت کے ذرائع نے کہا کہ چونکہ الیکشن کمیشن ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے اہلیت کا فیصلہ کرتے ہوئے شہریت کے پہلو پر بھی غور کر رہا ہے – اور یہ دیکھتے ہوئے کہ آسام میں شہریت کی تصدیق کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے، این آر سی کے شائع ہونے کے بعد ایس آئی آر کے لیے قابل قبول دستاویزوں میں ایک بن سکتا ہے۔ اس لیے ریاست نے یہ درخواست  کی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب حزب اختلاف کی جماعتیں الزام لگا رہی ہیں کہ بہار ایس آئی آر عملی طور پر شہریت کی تصدیق کا عمل  ہے – یعنی پچھلے دروازے سے این آر سی – اور یہ الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں  ہے۔

اگر بہار میں ایس آئی آر کی مشق شروع ہونے کے بعد آسام کی درخواست کو قبول کر لیا جاتا ہے، تو اس کا واضح مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ریاست کے ایس آئی آر میں تاخیر ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آسام این آر سی – ریاست میں دہائیوں سے جاری آبادیاتی خدشات کو دور کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں چلنے والا عمل – غیر یقینی صورتحال میں پھنسا ہوا ہے۔

معلوم ہو کہ آسام میں این آر سی ہندوستانی شہریوں کی شناخت اور انہیں غیر قانونی تارکین وطن سے الگ کرنے کے لیے ایک طویل مدتی اور حساس عمل ہے۔ 2019 میں این آر سی کا مسودہ شائع ہونے کے بعد سے، 3.3 کروڑ درخواست دہندگان میں سے تقریباً 19.6 لاکھ لوگ باہر رہ گئے ہیں۔ تاہم، اس این آر سی کو ابھی تک مطلع نہیں کیا گیا ہے۔

تب سے، بی جے پی کی قیادت والی دونوں ریاستی حکومتوں نے کہا ہے کہ وہ فہرست کو اس کی موجودہ شکل میں قابل قبول نہیں سمجھتے ہیں۔

آسام حکومت کا کہنا ہے کہ اس میں شامل اور خارج کیے گئے نام غلط ہیں، اور یہ کہ اس میں ‘اصل باشندوں’ کو شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ ‘غیر ملکیوں’ کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ، 24 مارچ 1974 – این آر سی کی آخری تاریخ – کے بعد غیر قانونی طور پر ریاست میں داخل ہونے والوں کی تعداد 19 لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔

سال 2019 کے این آر سی کو حتمی شکل دینے سے پہلے ہی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے دوبارہ تصدیق کا سوال اٹھایا گیا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اسے مسترد کر دیا تھا۔

گزشتہ ماہ ایک خصوصی اسمبلی اجلاس میں وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے کہا کہ ریاستی حکومت ابھی بھی بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل اضلاع میں فہرست کے 20فیصد اور باقی اضلاع میں 10فیصد کی دوبارہ تصدیق کرنے کے عمل میں ہے۔

اخبار نے ایک ذرائع کے حوالے سے کہا،’این آر سی جاری ہونے والا ہے۔ اسے ایک یا دو ماہ میں، ممکنہ طور پر اکتوبر تک جاری کیا جائے گا۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘ہم محسوس کرتے ہیں کہ تصدیق کے بعد تیار کردہ این آر سی ڈیٹا – اور دوبارہ تصدیق کا عمل بھی جاری ہے – شہریت ثابت کرنے کے لیے ایک مثالی دستاویز ہوگا۔ یہ ان دستاویزوں میں سے ایک ہو سکتا ہے جن پر مکمل نظر ثانی کے لیے غور کیا جائے گا۔’

معلوم ہو کہ بہار میں ووٹر لسٹ پر خصوصی نظر ثانی کرنے کے الیکشن کمیشن کا فیصلہ تنازعات میں گھرا ہوا ہے ۔