پہلگام حملے کے بعد ہندوستان کے فیصلوں پر پاکستان کا انتباہ – اسے جنگی اقدام تصور کیا جائے گا

پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ وہ سندھ طاس آبی معاہدے کے تحت پانی کی سپلائی روکنے کی کسی بھی کوشش کو 'جنگی اقدام' تصور کرے گا اور پوری طاقت سے اس کا جواب دے گا۔ یہ بیان پہلگام حملے کے بعد ہندوستان  کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے اعلان کے ردعمل میں آیا ہے۔

پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ وہ سندھ طاس آبی معاہدے کے تحت پانی کی سپلائی روکنے کی کسی بھی کوشش کو ‘جنگی اقدام’ تصور کرے گا اور پوری طاقت سے اس کا جواب دے گا۔ یہ بیان پہلگام حملے کے بعد ہندوستان  کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے اعلان کے ردعمل میں آیا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے۔

پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے۔

نئی دہلی: پاکستان کی حکومت نے جمعرات  (24 اپریل) کو کہا کہ اگر سندھ آبی معاہدے کے تحت انہیں  ملنے والے پانی کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوئی کوشش کی گئی تو اسے’ایکٹ آف وار’  یعنی جنگی اقدام تصور کیاجائے گا اور ‘پوری طاقت’ کے ساتھ اس کا جواب دیا جائے گا۔ یہ کہتے ہوئے  پاکستان کا اشارہ  ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے امکان کی جانب  بھی تھا۔

یہ انتباہ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کی  دو گھنٹے کی میٹنگ کے بعد سامنے آیا، جو پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے جواب کی تیاری کے لیے بلائی گئی تھی ۔

منگل (22 اپریل) کو 26 ہندوستانی اور ایک نیپالی شہری، جن میں زیادہ تر سیاح تھے، پہلگام کے ایک بھیڑ بھاڑ والے  گھاس کے میدان میں چار دہشت گردوں کی اندھا دھند فائرنگ میں مارے گئے۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد ہندوستان میں دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی یہ سب سے بڑی تعداد تھی۔

ایک دن بعد ہندوستان نے اعلان کیا کہ وہ سندھ طاس معاہدہ معطل کر رہا ہے، ہندوستان میں موجود تمام پاکستانی شہریوں کے ویزے رد کر رہا ہے، پاکستانی فوجی حکام کو ملک سے نکال رہا ہے اور سفارتی مشنوں کی تعداد کم کر رہا ہے۔

سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان پریشان!

پاکستان نےکئی منفی اقدامات کیے، لیکن اس کی بنیادی پریشانی واضح طور پر پانی تھی۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان میں پاکستان کی قومی سلامتی کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے نے کہا کہ وہ’انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل کرنے کے ہندوستان کے اعلان کی سخت لفظوں میں مخالفت کرتا ہے۔’

اس معاہدے کو ایک’بائنڈنگ بین الاقوامی معاہدہ’ قرار دیتے ہوئے پاکستان نے کہا ہے کہ اس میں یکطرفہ طور پر معطلی کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔

بیان میں پانی کو ‘پاکستان کے اہم قومی مفاد اور 24 کروڑ لوگوں کے لیے لائف لائن’ قرار دیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ اس کی دستیابی کو ‘ہر قیمت پر محفوظ رکھا جائے گا۔’

مزید یہ کہ، ‘سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو ملنے والے پانی کے بہاؤ کو روکنےیا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اسے جنگی اقدام تصور کیا جائے گا اور اس کا جواب ‘قوم کی پوری طاقت’ کے ساتھ دیا جائے گا۔ یہ کہتے ہوئے دراصل  پاکستان اپنی ایٹمی طاقت کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔

کیا پاکستان ایٹمی طاقت کا استعمال کر سکتا ہے؟

سال 2002 میں پاکستانی فوج کے اسٹریٹجک پلانز ڈویژن کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل خالد قدوائی نے چار ریڈ لائن کی نشاندہی کی تھی،  جو ہندوستان کے خلاف ایٹمی  ردعمل کو ٹریگرکر سکتی تھیں۔ ان کے بیان کاحوالہ  پگواش کانفرنس کی ایک رپورٹ میں دیا گیا تھا ، جس میں پاکستان کے سینئر حکام کے ساتھ  بات چیت کے لیے وفد گیا تھا۔

قدوائی کی طرف سے جن چار ریڈ لائن کی نشاندہی کی گئی تھی، اس میں سے تیسری ریڈ لائن میں کہا گیا ہے کہ اگر ہندوستان پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگاتا ہے تو یہ جوہری ردعمل کو متحرک کر سکتا ہے۔

اس ریڈ لائن سے منسلک ایک فوٹ نوٹ میں لکھا تھا، ‘پاکستان کو معاشی طور پرجکڑنے کی مثالوں میں سمندری ناکہ بندی اور دریائے سندھ کے پانی کو روکنا شامل تھا۔’

ہندوستانی حکومت نے جمعرات کو پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کو ‘فوری اثر سے معطل’ کرنے کے اپنے فیصلے سے باضابطہ طور پر آگاہ کیا ۔

آبی وسائل کی سکریٹری دیباشری مکھرجی نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو لکھے ایک خط میں کہا کہ،’سرحد پار دہشت گردی’ نے’سیکورٹی کی غیریقینی صورتحال’ کو جنم دیا ہے جس نے ‘معاہدے کے تحت ہندوستان کے حقوق کے مکمل استعمال میں براہ راست رکاوٹ ڈالی ہے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘دیگر خلاف ورزیوں کے علاوہ پاکستان نے معاہدے کے تحت مذاکرات شروع کرنے کی ہندوستان کی درخواست کا جواب دینے سے انکار کر دیا ہے اور اس طرح یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔’

پاکستان نے تمام دوطرفہ معاہدوں کو معطل کیا

پاکستان نے جمعرات (24 اپریل) کو تمام دو طرفہ معاہدوں، جن میں 1972 کا شملہ معاہدہ بھی شامل ہے، کو معطل کر دیا۔ اس معاہدے پر ہندوستان اور پاکستان نے 1971 کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش کے قیام کے نتیجے میں دستخط کیے تھے، جس میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے اور دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کے پابند تھے۔

پاکستان نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بنیاد پر حل کیا جانا چاہیے، لیکن ہندوستان کا موقف ہے کہ 1972 کا شملہ معاہدہ بنیادی ہے اور اس کے تحت کشمیر دو طرفہ مسئلہ ہے، اسے کسی تیسرے فریق کی ضرورت نہیں ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے میں واضح طور پر اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ 1971 کی جنگ بندی کے بعد قائم ہونے والی لائن آف کنٹرول کا احترام کیا جانا چاہیے اور کوئی بھی فریق اسے یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔

ہندوستانی حکومت نے پاکستان کے اعلانات کا براہ راست جواب دیے بغیر اس بات پر توجہ مرکوز کی کہ پاکستان نے شملہ معاہدہ رد کردیا ہے جس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ  ہندوستان اب لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو عبور بھی کرسکتا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ایم پی: کرنل صوفیہ قریشی پر تبصرہ کرنے والے وزیر کے خلاف ہائی کورٹ نے ایف آئی آر درج کرنے کو کہا

مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت میں وزیر کنور وجئے شاہ نے ایک پروگرام میں کہا کہ ہندوستان نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے لیے ذمہ دار لوگوں کو ان کی اپنی بہن کا استعمال کرکے سبق سکھایا ہے۔ ہائی کورٹ نے اس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے وزیر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دی ہے۔

کنور وجئے شاہ اور کرنل صوفیہ قریشی۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

کنور وجئے شاہ اور کرنل صوفیہ قریشی۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے وزیر کنور وجئے شاہ ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں۔ اپوزیشن نے ان پر آپریشن سیندور کے چہروں میں سے ایک  کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔

وہیں، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے وزیر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کو کہاہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، بی جے پی میں آدی واسی کمیونٹی  کے ایک اہم رہنما اور اکثر تنازعات میں رہنے والے شاہ نے سوموار (12 مئی) کو مہو کے پاس ایک تقریب میں کہا تھا کہ ہندوستان نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے ذمہ دار لوگوں کو ان کی اپنی بہن کو استعمال کرکے سبق سکھایا ہے۔’

وجئے شاہ  ایک وائرل ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے سنے جا رہے ہیں،’جنہوں نے ہماری بیٹیوں کے سیندور اجاڑے،انہی کٹے –پٹے لوگوں کو انہی کی بہن بھیج کر ان کی ایسی تیسی کروائی۔ انہوں نے کپڑے اتار-اتار کر ہندوؤں کو مارا اور مودی جی نے ان کی اپنی بہن کو ایسی-تیسی کرنے کے لیے ہمارے جہاز سے ان کے گھر بھیجا۔’

حالاں کہ، اس پورے ویڈیو میں وزیر شاہ نے کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ لیکن حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے اس پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ انہوں  نے یہ باتیں کرنل قریشی کے بارے میں کہی ہیں۔ وزیر نے تقریر کے دوران اپنے ریمارکس کو تین بار دہرایا۔

معاملہ طول پکڑنے کے بعد انہوں نے واضح کیا کہ ان کی تقریر کو ‘الگ سیاق و سباق ‘ میں نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ‘وہ ہماری بہنیں ہیں، اور انہوں نے مسلح افواج کے ساتھ مل کر بڑی طاقت سے انتقام لیا ہے۔’

اپوزیشن نے برخاستگی کا مطالبہ کیا

معلوم ہوکہ کنور وجئے شاہ کے پورے معاملے کو لے کر کانگریس کی اعلیٰ قیادت نے وزیر کو برخاست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف توہین آمیز تبصرہ کرنے والے وجئے شاہ کو فوراًبرخاست کیا جانا چاہیے۔

وہیں، مدھیہ پردیش کانگریس کے صدر جیتو پٹواری نے بھی اس بیان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا، ‘ہندوستانی فوج نے صرف 25 منٹ میں پاکستان میں دہشت گردوں کے 9 ٹھکانے تباہ کر دیے۔ فوج نے یہ بھی بتایا کہ پاکستانی فوج کے 40-45 سے زیادہ لوگ مارے گئے، اور کئی دہشت گرد بھی مارے گئے، لیکن آج وزیر وجئے شاہ نے ان بیٹیوں کے خلاف توہین آمیز باتیں کہیں، جن سے پاکستانی فوج کانپتی تھی۔ اب وزیر اعلیٰ موہن یادو کو یہ واضح کرنا ہو گا کہ کیا ریاستی حکومت یا پوری کابینہ اس بیان سے متفق ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو وجئے شاہ کو ابھی برخاست کر دینا چاہیے۔’

معلوم ہو کہ شیڈولڈ ٹرائب (ایس ٹی) کے لیے مخصوص ہرسود سیٹ سے لگاتار آٹھ انتخابات جیتنے والے شاہ  فی الحال قبائلی امور، عوامی اثاثہ جات کے انتظام اور بھوپال گیس سانحہ ریلیف اور بحالی کے وزیر ہیں۔

تنازعات میں گھرے رہنے کی ان کی فطرت نے اکثر ان کے سیاسی سفر میں مشکلات پیدا کی ہیں۔

شاہ کی متنازعہ تاریخ

واضح ہو کہ 2013 میں شاہ کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی اہلیہ کے خلاف صنفی امتیازی ریمارکس کی وجہ سے ریاستی کابینہ سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ بعد ازاں انہیں پھر سے بحال کر دیا گیا۔

بی جے پی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اخبار کو بتایا کہ ہرسود اور آس پاس کے قبائلی علاقوں میں شاہ کی مضبوط گرفت نے انہیں 12 سال قبل تنازعہ پر تادیبی کارروائی کا سامنا کرنے کے باوجود’بچنے’ میں مدد کی۔ بی جے پی لیڈر نے کہا،’انہیں درکنار نہیں کیا جا سکتا اور چوہان دور کے کئی وزراء کو ہٹائے جانے کے باوجود موہن یادو کابینہ میں اہم قلمدان ان کے پاس ہیں۔’

بی جے پی میں شاہ کی اہمیت قبائلی ووٹروں پر پارٹی کی نئے سرے سے توجہ مرکوز کرنے سے پیدا ہوتی ہے، جو ریاست کی آبادی کا تقریباً 21 فیصد ہیں اوراندازہ ہے کہ  ریاست کی 230 اسمبلی سیٹوں میں سے 47 پر انتخابی نتائج کو متاثر کرتے ہیں۔

سال 2018 میں، بی جے پی نے کانگریس کی 30 کے مقابلے ان میں سے صرف 16 سیٹیں جیتیں، جس کی وجہ سے پارٹی ریاست میں اقتدار سے محروم ہوگئی۔ پانچ سال بعد، بی جے پی کی تعداد بڑھ کر 24 ہو گئی، کیونکہ اس نے اقتدار برقرار رکھا، جس نے  2020 میں کمل ناتھ انتظامیہ کے زوال کے بعد حکومت بنائی۔

معلوم ہو کہ 2018 میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی  پر شاہ کے تبصروں نے انہیں مشکل میں ڈال دیا تھا۔ یہی نہیں، چار سال بعد انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے پیش رو پر اپنے ‘تضحیک آمیز تبصروں’ سے بی جے پی کو پھرسے  مشکل میں ڈال دیا تھا۔

بی جے پی لیڈر نے تب کہا تھا، ‘ملک کو آزاد ہوئے 75 سال گزر چکے ہیں، لیکن مودی پہلے لیڈر ہیں جو غریبوں کی زندگی کو بہتر بنا رہے ہیں۔ ان سے پہلے تمام وزرائے اعظم کے پاس گھوڑا، گھڑااور ہاتھی چھاپ تھے۔ ان میں سے کسی نے غریبوں کی پرواہ نہیں کی۔’

بعد میں 2022 میں شاہ نے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا، ‘ان کی عمر 55-56 سال ہے اور وہ شادی شدہ نہیں ہیں۔ میرا بیٹا 28 سال کا ہے اور شادی شدہ ہے۔ ایک خاندان میں، اگر آپ کا بچہ 25 سال کی عمر میں غیر شادی شدہ ہے، تو پڑوسی سوال اٹھاتے ہیں۔’

ہرسود ایم ایل اے نے وزیر تعلیم کی حیثیت سے بھی اپنے دور میں تنازعہ کھڑا کیا تھا،  جب انہوں نے طلبہ سے ‘جئے ہند’ کہہ کر  حاضری لگانے کو کہا تھا۔ گزشتہ سال جولائی میں شاہ نے قومی ترانہ نہ بجانے والے اسکولوں اور مدارس کی سرکاری امداد میں کٹوتی کرنے کا انتباہ دیا تھا۔

شاہ کو دسمبر 2024 میں وائلڈ لائف  کارکنوں کی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کے خلاف جانچ شروع کی گئی تھی، جب کچھ ویڈیوز منظر عام پر آئے تھے، جس میں انہیں ستپورہ ٹائیگر ریزرو کے کور زون میں ‘پکنک کا مزہ لیتے ہوئے’ دیکھا گیا تھا۔

اس وقت سامنے آنے والے ویڈیو میں شاہ کو جنگل کے ایک واچ ٹاور کے اوپر کھڑے دو لوگوں کے ساتھ کھانا پکاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ وزیر کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا تھا، ‘آج صحیح پکنک ہے۔ شاندار پکنک ہے۔’

Next Article

صحافیوں کے لیے عدالتی عمل ہی سزا، چھوٹے شہروں سے کام کرنے والے زیادہ نشانے پر: رپورٹ

ایک حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں صحافیوں کے خلاف فوجداری مقدمات میں عدالتی عمل ہی سزا بن گیا ہے۔ اکثر معاملات میں تفتیش یا مقدمے کی سماعت مکمل نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے صحافیوں کو، خصوصی طور پر چھوٹے شہروں میں، مالی مشکلات، ذہنی دباؤ اور کیریئر پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: ہندوستان بھر میں صحافیوں کے لیے ‘عدالتی عمل بذات خود ایک سزا بنتا جا رہا ہے’ – یہ بات منگل کو جاری کی گئی ایک نئی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ یہ رپورٹ کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس کے ٹرائل واچ انیشیٹو، نیشنل لاء یونیورسٹی، دہلی اور کولمبیا لاء اسکول میں انسانی حقوق کے ادارے نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو فوجداری مقدمات میں پھنسانے کے عمل میں  ہر مرحلے کو طول دیا جاتا ہے، جس سے انہیں مالی مشکلات، ذہنی پریشانی، خوف اور تشویش سے گزرنا پڑتا ہے اور ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں شدید خلل پڑتا ہے۔

‘ پریسنگ چارجز: اے اسٹڈی آف کریمینل کیسیزاگینسٹ جرنلسٹس اکراس اسٹیٹ ان نڈیا’ کے عنوان سے رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘244 مقدمات میں سے 65 فیصد سے زیادہ 30 اکتوبر 2023 تک مکمل نہیں ہوئے تھے۔’

اس کے علاوہ، 40 فیصد مقدمات میں پولیس نے تفتیش مکمل نہیں کی۔ اور صرف 16 مقدمات (6فیصد) میں ہی  کیس کا حتمی تصفیہ ہوا – جس میں سزا یا بری ہونا بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی پایا گیا کہ چھوٹے شہروں یا قصبوں میں کام کرنے والے یا مقامی خبر رساں اداروں کے لیے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو بڑے شہروں میں کام کرنے والوں کے مقابلے میں گرفتار کیے جانے کا امکان زیادہ تھا۔

رپورٹ کے مطابق، انصاف کے نظام کے بارے میں صحافیوں کا تجربہ بھی ان کے مقام اور سماجی حیثیت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔

‘جہاں بڑے شہروں  میں صحافیوں کی گرفتاریاں کل مقدمات کا 24 فیصد تھیں، وہیں چھوٹے شہروں/قصبوں میں یہ تعداد بڑھ کر 58 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس کا تعلق اس بات سے تھا کہ صحافیوں کو انصاف تک کتنی رسائی حاصل ہے۔’

اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ بڑے شہروں میں رہنے والے صحافیوں کو 65 فیصد مقدمات میں گرفتاری سے عبوری راحت ملی، جبکہ چھوٹے شہروں میں صرف 3 فیصد صحافیوں کو یہ راحت مل سکی۔

رپورٹ کے مطابق، اس کی ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ راحت اکثر سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی، جس کی واحد بنچ دہلی میں ہے۔ ہندی یا دیگر علاقائی زبانوں میں کام کرنے والے صحافیوں کو انگریزی میں کام کرنے والے صحافیوں کے مقابلے زیادہ منفی تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔

‘ہمارا ڈیٹا ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ اگر ‘عمل ہی سزا ہے’، تو یہ سزا دہلی سے دوری کے تناسب میں بڑھ جاتی ہے۔’

یہ مطالعہ ایک نئے ڈیٹا سیٹ کے تجزیے پر مبنی ہے، جس میں ہندوستانی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 427 صحافیوں کے خلاف 423 مجرمانہ معاملوں کی جانکاری شامل ہے۔ اس میں 2012 سے 2022 کے درمیان صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے 624 مجرمانہ واقعات شامل ہیں۔

رپورٹ کے لیے 48 صحافیوں سے انٹرویو کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق، صحافیوں کے خلاف مقدمات ان کی صحافت کو شدید طور پرمتاثر کرتے ہیں؛

قابل ذکر ہے کہ 58فیصد صحافیوں نے مالی مشکلات کا سامنا کرنے کی بات کہی،56فیصد نے خوف یا تشویش کا اظہار کیا،73فیصد نے کہا کہ اس نے ان کی ذاتی زندگی کو متاثر کیا،اور 56فیصد نے کہا کہ اس سے ان کے کیریئر پر منفی اثر پڑا۔

اس کے علاوہ صحافیوں کے اہل خانہ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

‘میری گرفتاری کے بعد میرا خاندان بہت پریشان ہوا، خاص طور پر میرے چھوٹے بچے، جو بہت فکرمند تھے۔ ایسے معاملات صرف ایک فرد کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ پورے خاندان کو تباہ کر دیتے ہیں۔ بالآخر وہ آپ کو گھٹنوں کے بل لے آتے ہیں۔’ ایک صحافی نے محققین کو بتایا۔

ٹرائل واچ کے قانونی ڈائریکٹر اسٹیفن ٹاؤنلی نے کہا، ‘ہمارا مقصد یہ اجاگر کرنا ہے کہ کس طرح مختلف ممالک اور حکومتیں صحافیوں کو نشانہ بنانے اور اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے جدید طریقے استعمال کر رہی ہیں۔یہ رپورٹ عالمی بحث میں ایک نئے تناظر کا اضافہ کرتی ہے اور ہندوستانی تناظر میں اہم ڈیٹا فراہم کرتی ہے۔’

نیشنل لاء یونیورسٹی، دہلی کے پروفیسر انوپ سریندر ناتھ، جنہوں نے اس مطالعہ کی قیادت کی، انہوں نے کہا،’اس رپورٹ کی آئینی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح آئین کے ذریعے تحفظ یافتہ پریس کی آزادی کو عام فوجداری قانون اور طریقہ کار کے ذریعے ختم کیا جا رہا ہے۔’

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف مقدمات عام طور پر مبہم ہوتے ہیں اور آزادی اظہار کے ہندوستان کے آئینی تحفظات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ نیا انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) جو 2024 میں نافذ ہوا تھا نے بھی ان مبہم قوانین میں کوئی خاص اصلاحات نہیں کی ہیں۔

‘اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان قوانین کے غلط استعمال کا امکان اب بھی باقی ہے۔ اس کے علاوہ،بی این ایس میں ایک نئی غیر واضح شق شامل کی گئی ہے – دفعہ 195(1)(ڈی) – جو ‘ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد، سالمیت یا سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والی جھوٹی یا گمراہ کن معلومات’ کو جرم بناتی ہے۔

رپورٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں صحافت ایک خطرناک کام ہے۔

‘صرف پیشہ ور صحافی ہی نہیں بلکہ وہسل بلورز، ‘سٹیزن جرنلسٹ’ اور دیگر بھی ان دھمکیوں اور قانونی چارہ جوئی کے خطرے  کے دائرے میں آتے ہیں۔’

Next Article

ہندوستان-پاکستان اطلاعاتی جنگ اور صحافت کی موت

غلط انفارمیشن کے علاوہ ٹی وی اینکروں کی گندی زبان اور گالی گلوچ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔سفید جھوٹ اور پروپیگنڈہ کوئی انٹرنیٹ ٹرول نہیں بلکہ قومی سطح کے بڑے میڈیا ادارے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کے کہنے پر پھیلا رہے تھے۔

اسکرین شاٹ

اسکرین شاٹ

یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ کا پہلا شہید’سچ’ ہوتا ہے، کیونکہ گولہ بارود، ہتھیاروں اور انٹلی جنس کے علاوہ اطلاعاتی نظام بھی اس کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ مگر ہندوستانی میڈیا نے اس ہتھیار کو جس قدر اوچھے طریقے سے استعمال کیا کہ اس کو دیکھ کر ہی گھن آتی ہے۔

 اطلاعاتی جنگ کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں، جن سے دشمن کو زیر کیا جاسکتا ہے۔ میڈیا پروفیشنلز ان سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ میں پچھے تیس سالوں سے ہندوستان کے قومی میڈیا کا حصہ رہاہوں۔ چند سال قبل تک اہم نیوز رومز کے انتظام و انصرام کے علاوہ بطور چیف آف بیورو سینکڑوں رپورٹروں کی نگرانی و رہنمائی کا کام کیا ہے۔

 مگر ٹی وی اسکرینوں اور میڈیا ویب سائٹس نے اس جنگ کے دوران قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر سفید جھوٹ کے جو دریا بہاکر جنگی جنون برپا کرایا، سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اب اس میڈیا کے ساتھ وابستگی کا حوالہ دینا ہی سبکی جیسا لگتا ہے۔

کیا ان اینکروں اور مدیران کو معلوم نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں، جب اطلاعاتی ماحول جغرافیائی سرحدوں اور روایتی میڈیا کے کنٹرول سے آزاد ہوچکا ہے، کیسے ایک سفید جھوٹ کو پروسا جاسکتا ہے۔

ایک صحافی کی سب سے زیادہ اہم متاع اس کی ساکھ ہوتی ہے۔ اگر یہ متاع کھو جائے، تو صحافی کی موت واقع ہوجاتی ہے، گو کہ جسمانی طور پر وہ زندہ ہو۔رپورٹنگ میں غلطیاں تو ہو جاتی ہیں، مگر ان کو تسلیم کرکے ان پر شرمندہ ہونا اور اپنے قارئین یا سامعین سے معافی کا خواستگار ہونا، ایک عظیم صحافی کی نشانیاں ہیں۔

جب ٹی وی اینکر چیخ چیخ کربتا رہے تھے، کہ کراچی کو تباہ کردیا گیاہے، بلکہ نقشہ سے ہی غائب ہو گیا ہے، تو میں نے پہلے کچھ زیادہ سیریس تو نہیں لیا، مگر جب ایک صحافی برکھا دت، جس کو چند احباب معتبر صحافی سمجھتے ہیں، نے ٹوئٹ کرکے یہی خبر دی، میں نے اپنے ایک سابق کولیگ، جو اب کراچی شفٹ ہوگئے ہیں کو فون کیا۔ جب وہ فون اٹھا نہیں رہے تھے، تو یقین آگیا کہ شاید کراچی واقعی ختم ہو گیا ہے۔

 مگر چند ساعت کے بعد ان کا خود ہی فون آیا اور معذرت کہ کہ وہ اس وقت نہاری لینے کے لیے ایک ریسٹورنٹ کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا کی چند ہیڈلائنز دیکھیں۔ ہندوستانی بحریہ نے کراچی پورٹ تباہ کر دیا! آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بغاوت کے بعد گرفتار کر لیا گیاہے۔ ہندوستانی فوج نے اسلام آباد پر حملہ کر دیا اور شہباز شریف کو کسی’سیف ہاؤس’میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

زی نیوز نے سنسنی خیزی میں اضافہ کرتے ہوئے اعلان کر دیا؛’اسلام آباد پر قبضہ کر لیا گیا!’ جس وقت یہ خبر چلائی گئی، تو پینل پر موجود ماہرین خوشی سے ڈانس کرنے لگے۔ آج تک ٹی وی نے تو حد ہی کر دی۔کراچی پورٹ پر فرضی حملے کی ویڈیو اسٹوڈیو میں ہی تیار کر کے ایسے نشر کی جیسے یہ حقیقی مناظر ہوں۔اس کے انگریزی چینل انڈیا ٹوڈے نے لاہور اور کراچی پر بیک وقت حملے کا دعویٰ کر دیا۔

اے بی پی نیوز  نے سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے یہ دعویٰ کر ڈالا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر گرفتار ہو چکے ہیں۔ ٹی وی نو  نے بتایا کہ پاکستان کے 25شہر تباہ کر دئے گئے ہیں۔ا یک اور چینل نے دعویٰ کیا کہ پاکستان زیر انتظام کشمیر میں فوج گھس گئی ہے اور پینل میں موجود ایک ریٹائرڈ میجر تو خوشی سے چلانے لگا۔

 ایک سابق فوجی ہوتے ہوئے اس کو معلوم نہیں تھا کہ ہندوستان میں اسٹرائیک کور کو سرحد کی طرف کوچ کرنے کے لیے خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ 2001میں آپریشن پراکرم کے  وقت تو دو ہفتے کا وقت لگا تھا۔سبھی اسٹرائیک کورز اور دفاعی کورز کو تو دوماہ کا وقت لگا تھا۔

انڈیا نیوز نے تو نیا آرمی چیف بھی خود ہی تعینات کر دیا۔زی نیوز نے گرافکس چلائے کہ’پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور ہندوستانی افواج نے بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔اسی پروگرام میں اسکرین پر وزیراعظم شہباز شریف کو بنکر میں چھپتے اور ہندوستانی افواج کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے دکھایا گیا۔

 اس غلط انفارمیشن کے علاوہ ٹی وی اینکروں کی گندی زبان اور گالی گلوچ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ایک اینکر نے تو دورہ پر آئے ایرانی وزیر خارجہ کے خلاف نازیبا االفا ظ ادا کیے اور ان کو سور کی اولاد تک کہا۔ جس پر ایرانی سفارت خانہ نے احتجاج بھی درج کر دیا۔

 اس طرح ریپبلک ٹی وی پراینکر ایک پاکستانی مہمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے،’جنجوعہ، تمہاری فوج پٹ گئی۔ تم بھگوڑے ہو۔’یہی حال دیگر چینلوں پر پاکستانی پینلسٹوں کا ہو رہا تھا۔

یہ پروپیگنڈہ کوئی انٹرنیٹ ٹرول نہیں بلکہ قومی سطح کے بڑے میڈیا ادارے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کے کہنے پر پھیلارہے تھے۔ اس قدر پاگل پن، جب بریکنگ خبر دی گئی کہ پاکستان کا جہاز راجستھان میں مار گرایا گیا ہے اور پائلٹ زیر حراست ہے۔ کسی نے بطور مذاق ایک وہاٹس اپ گروپ میں لکھا کہ پائلٹ کا نام جہاز الدین ہے۔

 اگلے چند منٹ میں نیوز ٹکر ز پر جہازالدین کا نام آنے لگا۔  جو ٹوئٹر اکاونٹ یا میڈیا کے ادارے صحیح خبریں نشر کر رہے تھے، ان کو بلاک کردیا گیا۔

دی وائر کی ویب سائٹ بلاک کر دی گئی۔اس سلسلے میں آٹھ ہزارسے زائد اکاونٹس تک رسائی بند کر دی گئی۔ سچ بولنے والوں کو صرف اس لیے چپ کرایا جا رہا تھا،تاکہ جھوٹ پھیلانے والی فیکٹریوں کو کہیں سے مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

میڈیا کو قوت ضرب یا فورس ملٹیپلیرکے بطور استعمال کرنے کا پہلا تجربہ ہندوستان میں اکتوبر 1993میں اس وقت کیا گیا، جب جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ سے وابستہ عسکریوں کو حضر ت بل کی درگاہ سے باہر نکالنے کے لیے فوج نے آپریشن کیا تھا۔ یہ آپریشن 32دن جاری رہا۔ اس دوران سرینگر میں 15ویں کور میں اس و قت کے بریگیڈیر جنرل اسٹاف ارجن رے نے میڈیا کو آپریشن ایریا تک رسائی دی۔یہ آپریشن تو دو تین دن میں ختم ہو سکتا تھا۔ مگر اس کو طول دےکر میڈیا کو قوت ضرب کا حصہ بنانے کی ریہر سہل کی گئی۔

 دہلی سے قومی اوربین الاقوامی میڈیا اداروں کے نمائندوں کو لالاکر درگاہ کے اندر موجود عسکریوں کے انٹرویوز تک کرنے دیے گئے۔ اندر عسکری کمانڈروں کو کھانے بہم کروانے کو بھی میڈیا وار کا حصہ بنایا گیا۔ انہی دنوں فوج نے روزانہ بریفنگ کی روایت بھی شروع کی۔

 یہ تجربہ بعد میں 1999کی کرگل جنگ میں خاصا کام آیا۔ اس وقت ارجن رے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے اور ڈائرکٹر جنرل پبلک انفارمیشن کا محکمہ قائم کرکے ان کو اس کا سربراہ بنادیا گیا۔ وہ انتہائی زیرک، چہرے پر مسکراہٹ سجائے، میڈیا فرینڈلی جنرل تھے۔

گو کہ کرگل جنگ کے دوران روزانہ بریفنگ کرنل بکرم سنگھ (جو بعد میں آرمی چیف بن گئے) کرتے تھے، مگر ان کی بریفنگ کا انتظام، کرگل محاذ پر صحافیوں کو دورے کروانا،  بیک گراؤنڈ بریفنگ کروانا ا رجن رے اور ان کے دست راست کرنل منوندر سنگھ کے سپرد تھا۔

منوندر انڈین ایکسپریس میں دفاع کے بیٹ کے رپورٹر تھے اور انہی دنوں انہوں نے استعفیٰ دیکر ٹیریٹوریل آرمی جوائن کی تھی۔ ایک روز وہ بطور صحافی ہمارے ساتھ جنگ کور کر رہے تھے، اگلے روز وردی میں بریفنگ کا انتظام کر رہے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اور لیفٹنٹ جنرل عزیز کی ریکارڈ کردہ بات چیت کو عام کروانے کا مشورہ جنرل رے نے ہی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو دیا تھا۔ جسونت سنگھ منوندر کے والد تھے۔

مگر اس پوری سعی کے باوجود کرگل جنگ کے دوران قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا مطمئن نہیں تھے۔ ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر انڈین میڈیا کی ساکھ خاصی نیچے ہے اور اس پر کوئی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے۔

 پرائیوٹ چینلوں کا دور شروع ہو چکا تھا۔ نیوز چینلوں میں اسٹار نیوز اور زی نیوز آن ایر ہو چکے تھے۔ اسٹار نیوز کے انگریزی شعبہ کو این ڈی ٹی وی مواد اور اینکر فراہم کرتا تھا۔ جنگ کے فوراً بعد مشرا نے این ڈی ٹی وی کے سربراہ پرنائے راے کو بلا کر ان کو اپنی الگ چینل شروع کرانے کا مشورہ دیا۔

 ان دنوں ہندوستان سے اپ لنکنگ کی اجازت نہیں تھی۔ مشرا نے مداخلت کرواکے اپ لنکنگ کا مسئلہ حل کروادیا۔ این ڈی ٹی وی کے بجٹ کے ایک حصہ کا بار حکومت نے اپنے ذمہ لے لیا۔ طے ہوا کہ این ڈی ٹی وی ایک سینٹر ٹو لیفٹ کی پوزیشن لےکر ٹی وی صحافت میں ایک اعلیٰ معیار قائم کرے۔

حکومت کی کارکردگی کی جتنی بھی تنقید کرنا چاہیے کرسکتا ہے، اس میں حکومت کبھی مداخلت نہیں کرےگی، مگر نازک اوقات، خاص طور پر جب کشمیر میں مظاہرے ہورہے ہوں یا ملک حالت جنگ میں ہو، اس وقت حکومت کی مدد کرنے کے لیے ایک ایسا بیانیہ وضع کرے جس کوبین الاقوامی سطح پر قبولیت ہو۔

اس لیے جب بھی کشمیر میں عوام سڑکوں پر ہوتے تھے یا پتھر بازی ہوتی تھی، برکھا دت فوراً پہنچ کر اس کا بیانہ وضع کروانے کا کام کرتی تھی۔ لہذا جو افراد برکھا دت کو قابل اعتماد اور لبرل صحافی کی حیثیت سے جانتے  ہیں ان کو اپنی معلومات درست کرنی چاہیے۔

این ڈی ٹی وی اور اس کے اینکروں نے واقعی اس دوران اپنی کوریج اور حکومت کے ہمہ وقت احتساب کروانے کی وجہ سے ساکھ بنوائی۔ جس کا استعمال نازک اوقات، خاص طور پر کشمیر میں شورش کو موڑ دینے کے لیے بیشتر اوقات کیا گیا۔ یعنی یہ چینل برجیش مشرا کی توقعات پر بالکل پورا اترا۔

بین الاقوامی سطح پر اس نے بی بی سی، سی این این کی طرح معتبریت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔  2015کے بعد موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کے کہنے پر این ڈی ٹی وی کے فنڈز بند کر دیے گئے، کیونکہ معلوم ہو گیا تھا کہ فنڈز جو انگریزی چینل کے لیےمخصوص تھے ان کو دیگر شعبوں اور نان نیوز اداروں میں استعمال کیا جارہا تھا۔

 چونکہ موجودہ حکومت کو ادراک ہوا کہ ہندوستان اب ایک ہارڈ اور معاشی پاور بن چکا ہے اس لیے بین الاقوامی بیانیہ کے لیے اس کو کسی میڈیا کے سافٹ پاور کی اب ضرورت نہیں رہی۔طے ہوا کہ صرف اسی میڈیا کی سرپرستی کی جائےگی، جو بالکل حکومت کی گود میں بیٹھا ہو اور اس کی تعریفوں کے پل بغیر کسی ابہام کے باندھے۔

اطلاعاتی جنگ کا ایک بنیادی پہلو’اعتبار’ہوتا ہے۔ یہ اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب  غلط معلومات اور گمراہ کن دعوے کے ساتھ کچھ سچائی بھی پروسی جائے۔جس طرح کی کارکرگی اس وقت ہندوستانی چینلوں نے دکھائی اب کون ان کے بیانہ پر اعتبار کرےگا۔حکومت کی طرف سے بھی کرگل جنگ کے برعکس اس با ر دہلی میں کوئی تفصیلی بریفنگ نہیں دی گئی۔

یہ حال 1999میں پاکستان کا تھا۔لگ رہا تھا کہ اس بار رول تبدیل ہو چکے ہیں۔ جونیئر افسران کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویمکا سنگھ کو میڈیا کو بریفنگ کی ذمہ داری دی گئی۔ اس کے برعکس پاکستان نے ایئر فورس کے تیسرے سینئر ترین افسر، ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد کو میڈیا کے سامنے پیش کیا، جنہوں نے نقشے کے ذریعے ایک تفصیلی بریفنگ دی۔

انہوں نے صبر و تحمل سے بتایا کہ آپریشن سیندور کے آغاز سے قبل ہی پاکستانی فضائیہ نے الکٹرانک طریقے سے ہندوستانی طیاروں کی شناخت کرلی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فضائی حکمتِ عملی اب روایتی فضائی جھڑپوں تک محدود نہیں، بلکہ اب وہ ایک ‘کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی’ (ملٹی ڈومین آپیزیشنز) پر مبنی ہے۔

جن صحافیوں نے کرگل جنگ اور اس کے بعد آپریشن پراکرم کور کیا ہو، ان کو معلوم ہوگا کہ جب اتنی تفصیل سے بریفنگ دی جائے تو میڈیا بھی اسی بیانیے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔دونوں مواقع پر مجھے یاد ہے کہ نئی دہلی میں نہ صرف روزانہ آن ریکارڈ بلکہ اعلیٰ افسران متواتر ایک موقع پر تو خود آرمی چیف کی طرف سے بیک گراؤنڈ بریفنگ دی گئی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے جنگ اور نیوز کے دہلی کے بیورو چیف عبدالوحید حسینی بھی اس میں شریک ہوتے تھے اور تیکھے سوالات بھی پوچھتے تھے۔  ایڈیٹروں اور دہلی میں مقیم بین الاقوامی میڈیا کے سربراہوں کو خود وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور جسونت سنگھ بھی بسا اوقات بیک گراؤنڈ بریفنگ کے لیے بلاتے تھے۔

پاکستان نے چونکہ سینئر افسران کو میدان میں اتارا، اس لیے  اگلے روز بین الاقوامی اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں پر پاکستانی موقف چھایا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کی طرف سے کسی سینئر فضائی افسر نے  میڈیا سے بات نہیں کی۔جب اس غلطی کا اندازہ ہوگیا، تب تک دیر ہو چکی تھی۔ تو نتیجہ کیا نکلا؟

پاکستانی موقف کو اعتبار حاصل ہوا۔ اب یہ درست ہے یا غلط، یہ ایک الگ بحث ہے۔ مگر جب ہندوستان کی جانب سے کوئی متبادل بیانیہ ہی موجود نہ تھا، تو پھر یکطرفہ کہانی ہی سچ مان لی جاتی ہے۔

دفاعی تجزیہ نگار اور فورس میگزین کے ایڈیٹر پروین ساہنی کے مطابق پاکستان کی’کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی’ مودی حکومت کے کشمیر میں 5 اگست 2019 کو کیے گئے اقدمات کا شاخسانہ ہے۔ ان کے مطابق اس سیاسی قدم نے چین اور پاکستان کی افواج کو ایک تزویراتی اتحاد میں باندھ دیا۔ پہلے بھی تعاون موجود تھا، مگر اس کے بعد یہ رشتہ کہیں زیادہ گہرا اور ادارہ جاتی ہو گیا۔

 صدر شی جن پنگ سمیت تمام اعلیٰ چینی قیادت نے کھلے عام پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کے حق میں بیانات دیے۔ مطلب یہ کہ اگر ہندوستان کے ساتھ جنگ ہوئی، تو چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) براہ راست نہ سہی، پس منظر میں ضرور پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ اور اس کا اشارہ ہمیں آپریشن سیندور میں ملا۔ا

س وقت بھی پاکستان کے بجائے دراصل چھوٹا چین ہندوستان کے ساتھ برسرپیکار تھا۔ اب اگر آئندہ کبھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑجاتی ہے، تو وہ صرف یک محاذی جنگ نہیں ہوگی۔

ساہنی کا کہنا ہے کہ 2019 سے وہ خبر دار کرتے آئے ہیں کہ ہندوستان کو اب خطرہ اب صرف پاکستان سے نہیں، بلکہ چین اور پاکستان کے مشترکہ فوجی اتحاد سے ہے۔جس میں چینی فوج میدانِ جنگ میں تو نظر نہیں آئے گی، مگر اس کی موجودگی ہر مرحلے پر محسوس کی جائے گی۔

ان کے مطابق،’کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی’کے چھ بنیادی پہلو ہیں؛


لڑاکا طیارے – پاکستان کے موجودہ فرنٹ لائن طیارے، جے-10 اور جے ایف -17، دونوں چینی ساختہ ہیں،

بی وی آر میزائل – پی ایل -15، جو بہت دور تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے،

 چین سے حاصل کیا گیا ہے، سیٹلائٹ نظام – چین کے بیئی ڈوؤ نیٹ ورک سے استفادہ، جس میں 44 سیٹلائٹس موجود ہیں، پاکستان کو 24 گھنٹے میدانِ جنگ کی نگرانی اور میزائل ہدف بندی کی سہولت دیتا ہے،

  ایئربورن ارلی وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم (اے ای ڈبلیو اینڈ سی)،پاکستان کے پاس نو نظام موجود ہیں جو دشمن کے اہداف کی شناخت اور نگرانی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں,

الکٹرانک وار فیئر – 2019 کے بالا کوٹ حملے میں پاکستان نے نہ صرف ہندوستانی کمیونی کیشن جام کیا  تھا بلکہ اسے ریکارڈ بھی کیا۔اس بار بھی اورنگزیب نے ہندوستانی پائلٹوں کی پرواز کے دوران گفتگو کی ایک ویڈیو میڈیا کو سنائی، جس نے اُن کے دعوے کو مزید مستند بنایا اور

  ڈیٹا لنکنگ – تمام یونٹس، چاہے وہ سیٹلائٹ ہوں، زمینی افواج یا فضائی یونٹس، سب ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی وقت میں جڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے پاس لنک -17 نیٹ ورک پہلے سے موجود تھا، جسے اب مزید اپ گریڈ کیا گیا ہے۔

ان میں سب سے اہم دو صلاحیتیں ڈیٹا لنکنگ اور الکٹرانک وار فیئر ہیں، جو پائلٹ کو میدانِ جنگ کا مکمل 360 ڈگری منظر فراہم کراتی ہیں۔ اس نظام کو ’کل چین‘ کہا جاتا ہے—یعنی خبردار ہونا، ہدف تلاش کرنا، اس پر نظر رکھنا، اور پھر اسے مکمل طور پر تباہ کر دینا۔


اگر یہ تمام عناصر مربوط انداز میں کام کریں تو دشمن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔2020 کے بعد سے پاکستانی فضائیہ اور چینی فضائیہ نے اس حکمت عملی پر مشترکہ مشقیں شروع کی ہیں، جنہیں’شاہین ایکسرسائز’ کہا جاتا ہے۔ یہ مشقیں 2012 سے جاری تھیں، لیکن پہلے ان کا محور صرف ڈاگ فائٹ اور الکٹرانک وار فیئر ہوتا تھا۔ اب توجہ اس بات پر ہے کہ میدانِ جنگ میں کون پہلے کل- چین مکمل کرتا ہے۔

اور یہ ہم آہنگی 2019 کے بعد بہت زیادہ مستحکم ہو چکی ہے۔اسی طرح یہ آنے والے خصوصاً کروز میزائل کے سسٹم میں داخل ہوکر اس میں غلط معلومات درج کرواکر اس کو بھٹکاتا ہے۔ جیسا کہ ہندوستان کا ایک برہموس کروز میزائل اپنے ہدف کے بجائے پاکستان کی سرحد کو کراس کرکے افغانستان کے کسی علاقے میں گرا۔

ساہنی کے مطابق، آپریشن سیندور مکمل جنگ کے بجائے ایک بحران تھا۔ لیکن بحران اور جنگ کے درمیان قبل از جنگ مرحلہ ہوتا ہے۔ یہاں پاکستان کو برتری حاصل ہوگئی ہے۔ کیونکہ وہ  اپنے جغرافیائی خدوخال  ہولڈنگ کی وجہ سے اسٹرائیک فورسز کو 48 سے 72 گھنٹوں میں متحرک کر سکتا ہے۔

جبکہ ہندوستانی فوج چونکہ بہت بڑی ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے، اس لیے اس میں وقت لگتا ہے۔ جیسے 2001–2002 میں آپریشن پراکرم کے دوران اسٹرائیک کور کو متھرا، بھوپال اور آگرہ سے سرحد تک پہنچانے میں دو ہفتے لگے تھے۔ اگرچہ اب بہتری آئی ہے، مگر پاکستان کے مقابلے میں اب بھی سست ہے۔

 مودی حکومت کے 11 سالوں میں تین تھرش ہولڈ قائم ہوئے ہیں۔ پہلا قدم تھا 2019 کا بالا کوٹ حملہ—جب پہلی بار ہندوستانی فضائیہ نے کسی بحران میں کارروائی کی، یہ ایک نئی نظیر تھی، دوسرا قدم تھا آپریشن سیندور—اس بار پاکستان مکمل طور پر تیار تھا، فضائی حملے کا انتظار کر رہا تھا،  تیسرا قدم  اسی آپریشن کے دوران ڈرون اور میزائلوں کا استعمال، جو اب نہ صرف لائن آف کنٹرول بلکہ بین الاقوامی سرحد پر بھی داغے جاسکتے ہیں۔

 اس کے علاوہ، ہندوستانی وزیرِ اعظم کی سربراہی میں ہونے والی سکیورٹی میٹنگ کے بعد یہ اعلان ہوا کہ آئندہ کسی بھی دہشت گرد حملے کو ‘جنگ کا اعلان’ تصور کیا جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کشمیر یا کسی اور علاقے میں کوئی حملہ ہوتا ہے، تو براہِ راست جنگ ہوسکتی ہے یعنی جنگ کرنے کا تھرش ہولڈ مزید گر گیا ہے۔ یعنی ایک ایسی صورتحال  پیدا ہو گئی ہے جہاں جنگ بندی اور جنگ کرنے میں میں فرق مٹ چکا ہے۔

ہندوستانی فوج کو ہر وقت جنگی تیاری کی حالت میں رہنا ہوگا۔یعنی مودی حکومت کے دور میں ہندوستان کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔اب دشمن صرف پاکستان نہیں بلکہ چین اور پاکستان کی متحدہ فوجی قوت ہے۔جنگ کا دہانہ یعنی تھرش ہولڈ نیچے آ چکا ہے۔یعنی دو بلکہ چین سمیت تین جوہری طاقتوں کی حامل قوتوں کے درمیان جنگ آسانی سے چھڑ سکتی ہے۔

اب آپ فیصلہ کریں کہ کیا واقعی مودی کے اس قدم سے ہندوستان زیادہ محفوظ ہوگیا ہے اور مسلسل تیاری کی حالت میں رہنے سے فوج کی کیا حالت ہوسکتی ہے؟ کیا اس سے بہتر یہ نہ ہوتا کہ سیاسی مسائل کو باہمی طور پر حل کیاجاتا، تاکہ پوری توجہ معاشی ترقی اور عوام کی بہبودی کی طرف دی جاتی۔

Next Article

کرناٹک: بی جے پی ایم ایل اے کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد مندر ٹرسٹ نے مسلمانوں سے معافی مانگی

کرناٹک کے بی جے پی ایم ایل اے ہریش پونجا نے گوپال کرشن مندر ٹرسٹ کے ایک پروگرام کے دوران اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔ انہیں آرگنائزنگ کمیٹی کے ارکان سے یہ پوچھتے ہوئے سنا گیا کہ مسلم کمیونٹی کو اس تقریب میں کیوں مدعو کیا گیا۔ اب مندر ٹرسٹ نے مسلم کمیونٹی سے معافی مانگی ہے۔

کرناٹک کی بیلتھنگڈی اسمبلی سیٹ سے بی جے پی کے ایم ایل اے ہریش پونجا۔ (تصویر: انسٹاگرام/hpoonja)

کرناٹک کی بیلتھنگڈی اسمبلی سیٹ سے بی جے پی کے ایم ایل اے ہریش پونجا۔ (تصویر: انسٹاگرام/hpoonja)

نئی دہلی: کرناٹک کے جنوبی کنڑ ضلع کے بیلتھنگڈی تعلقہ کے ٹیکر گاؤں کے گوپال کرشن مندر ٹرسٹ نے مسلم کمیونٹی سے معافی مانگی ہے ۔

دی ہندو کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ،  بیلتھنگڈی کے ایم ایل اے ہریش پونجا کی جانب سے 3 مئی کو مندر کے ایک پروگرام کے دوران کی گئی مبینہ ہیٹ اسپیچ  کی وجہ سے یہ معافی مانگی گئی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم ایل اے ہریش پونجا نے مندر کے برہمکلاشوتسوا پروگرام کے دوران ایک اشتعال انگیز تقریر کی تھی جس میں انہوں نے مبینہ طور پر مسلم کمیونٹی کے ایک حصے پر آرگنائزنگ کمیٹی کے ذریعہ نصب ٹیوب لائٹس کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا تھا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک ویڈیو کلپ میں پونجا کو آرگنائزنگ کمیٹی کے ارکان سے پوچھتے ہوئے سنا گیا کہ مسلم کمیونٹی کو اس تقریب میں کیوں مدعو کیا گیا۔

تولو زبان میں بات کرتے ہوئے پونجا نے کہا تھا ، ‘ہمیں مسجد جا کر لوگوں کو مدعو کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہم ہندو ہیں اور ہمیں ویسے ہی رہنا چاہیے۔’

یہ ریمارکس ایک ایسے وقت میں آئے ہیں جب منگلورو میں دو قتل کے بعد ساحلی جنوبی کنڑ ضلع میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا مشاہدہ کیا جا رہا تھا۔

اس کے بعد بی جے پی ایم ایل اے کے خلاف کئی شکایتیں درج کرائی گئیں۔ مسلم اوکوٹا نامی تنظیم نے مندر انتظامیہ کو خط لکھ کر ناراضگی کا اظہار کیا۔

اپننگڈی پولیس نے پونجا کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا کی  دفعہ 353(2) کے تحت اشتعال انگیز تقریر کرنے پر مقدمہ درج کیا ہے۔

گزشتہ 7 مئی کو مسلم اوکوٹا کے اراکین نے مندر کے ٹرسٹ سے ملاقات کی، جس کے بعد ٹرسٹ نے اسی دن ایک خط جاری کیا جس میں مذہبی اجتماع کے دوران مسلم کمیونٹی کے خلاف کیے گئے قابل اعتراض ریمارکس پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔

دی ہندو کے مطابق، ٹرسٹ نے برہمکلاشوتسو میں فعال طور پر شرکت کرنے پر مسلم کمیونٹی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ مستقبل میں تمام برادریوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

وہیں، ایم ایل اے پونجا نے اپنی تقریر کو یہ کہہ کر درست ٹھہرایا کہ انہوں نے صرف ہندو سماج کوبیدار کیا ہے۔

Next Article

پاکستان اور ہندوستان کے مابین ٹریک ٹو سفارت کاری کا زوال

دونوں ممالک خاص طور پر ہندوستانی میڈیا کی موجودہ روش نے بھی ٹریک ٹو کو زوال کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔

(علامتی تصویر: رائٹرز)

(علامتی تصویر: رائٹرز)

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ ہندوستان اور پاکستان جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے۔ ماضی میں جب بھی ایسی کشیدگی پیدا ہوئی، تو اس میں کمی کے لیے امن دوست آوازوں نے اپنا کردار اد اکیا۔ اس بارلیکن امن کی حامی ایسی آوازیں کیوں خاموش رہیں؟

پاکستان اور ہندوستان کے ریٹائرڈ فوجی افسران، سفارتکاروں، انٹلی جنس اہلکاروں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل غیر سرکاری سطح پر کی جانے والی پس پردہ سفارت کاری یا ٹریک ٹو ڈپلومیسی دونوں پڑوسی ممالک کے مابین کشیدگی کم کرنے اور قیامِ امن کو برقرار رکھنے میں ایک خاموش لیکن بنیادی کردار ادا کرتی رہی ہے۔

ٹریک ٹو سے وابستہ کئی افراد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ  سول سوسائٹی اس ٹریک ٹو ڈپلومیسی  کا ایک اہم جزو رہی ہے اور اب اس کی عدم دلچسپی اور دونوں ممالک میں تقسیم ہند کے وقت کی نسل کے معدوم ہونے کے عمل نے پس پردوہ سفارت کاری کو بڑی حد تک غیر مقبول بنا دیا ہے۔

 اس سے بڑھ کر پاکستان اور ہندوستابن میں سرگرم ٹریک ٹو گروپس کو امن کےخواہاں کئی یورپی و دیگر ممالک کے غیر سرکاری گروپ فنڈ فراہم کرتے تھے تاہم اب ان گروپوں نے یہ فنڈنگ بند کردی ہے۔

اندازہ ہے کہ کبھی 15 سے زائد فعال گروپ پاک-ہندوستان مکالمے کو زندہ رکھنے کا کام کرتے تھے۔ اب یہ تقریباً غیر مؤثر ہو چکے ہیں- جن تنظیموں نے ٹریک ٹو میں کلیدی کردار ادا کیا ان میں میڈیا سے متعلق سافما یعنی ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن، اور پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی یعنی پی آئی پی ایف ڈی قابل ذکر ہیں۔ یہ تنظیمیں اعتماد سازی اور عوامی تعلقات کی بحالی میں ایک بڑا کردار ادا کرتی تھیں۔

ہندوستانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں ہندوستانی اراکین پارلیامان کا ایک وفد پاکستان کے دورے پر گیا تھا۔ پاکستانی صحافی امتیاز عالم، جنہوں نے سافما کے مقامی ذمہ دار ہونے کی وجہ سے اس گروپ کی میزبانی کی تھی، کا کہنا ہے کہ وفد میں تمام پارٹیوں کے نمائندے شامل تھے، جنھوں نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کا نفاز کروانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔

اس وفد میں بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو بھی شامل تھے، جہنوں نے پاکستانی سامعیں کو خوب لبھایا۔ وہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی سڑکوں پر دکانداروں اور ریڑھی والوں سے بات چیت کرتے ہوئے  بھی نظر آتے تھے۔ سال 2004 میں ہندوستانی صحافیوں کا ایک وفد پاکستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر گیا، جس کے نتیجے میں ایک بڑی پیش رفت ہوئی۔

ان کے مشورہ پر حکومت نے لائن آف کنٹرول پر سرحدی آمد و رفت کی اجازت دی اور دونوں ملکوں نے کشمیر میں چار مقامات پر سرحد کھول دی، جہاں عوامی رابطوں اور دوطرفہ تجارت کا آغاز ہوا۔ امتیاز عالم کہتے ہیں،’یہ سب اسی وفد کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔’

شائستگی کی موت

وزیر اعظم نریندر مودی کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد ٹریک ٹو کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔ دوسری طرف ٹی وی اسٹوڈیوز نے بھی اپنی ریٹنگزیا ٹی آرپی کی ریس میں جنگی جنون برپا کروانے کی ترجیح دی۔ حال ہی میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں  پہلگام میں سیاحوں پر کیے گئے حملے اور اس کے بعد کے واقعات نے صرف آن لائن جنون کو بڑھاوا دیا۔ اس قومی جنون نے امن کی آوازوں کو دبا دیا اور دونوں حکومتیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔

ہندوستانی تھنک ٹینک سینٹر فار پیس اینڈ پروگریس کے کنوینر او پی شاہ  کہتے ہیں،’اس وقت سے بہتر کوئی لمحہ نہیں ہو سکتا کہ سیاسی دانش مندی دکھائی جائے اور پرامن حل نکالا جائے۔’  پہلگام حملے کے دس دن گزرنے کے بعد دونوں ملکوں کے امن پسند کارکنوں نے بمشکل ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس کا اثر تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔

پاکستان اور ہندوستان کے مابین  ٹریک ٹو  سفارت کاری کے سلسلے میں کی گئی متعدد کوششوں کا حصہ رہنے والے سینئر ہندوستانی صحافی ونود شرما افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں،’نفرت نے امید کو شکست دے دی ہے۔ جو امن کی بات کرتا ہے اسے غدار کہا جاتا ہے۔‘

خوف کی فضا اور قوم پرستی کا غلبہ

پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی سے وابستہ ریتا منچندا کہتی ہیں،’ہندوستان میں امن کے لیے کام کرنے والے کارکنوں میں خوف کی فضا ہے۔ آج ٹریک ٹو دونوں ملکوں میں یتیم ہے۔ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا صرف دشمنی کو ہوا دے رہے ہیں۔‘

سال 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد سے ہی ٹریک ٹو نیٹ ورک زوال کا شکار ہو گیا تھا۔ اگرچہ اب سرکاری طور پر دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز ہر ہفتے رابطہ میں رہتے ہیں، مگر سول سوسائٹی کی سطح پر روابط نہ ہونے کےبرابر ہیں۔

ہندوستان کے وزیراعظم مودی نے ان  کاوشوں کو ہمیشہ ہی شک کی نگاہ سے دیکھا ہے اور ان کے لیے ‘خان مارکیٹ گینگ’الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ ان کی حکومت کی طرف سے فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ کو سخت کرنے سے امن کی خواہاں غیر ملکی اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے فنڈنگ کا حصول مشکل بنا دیا گیا۔

یورپی اداروں نے بھی ہندوستان پاکستان کی سول سوسائٹی سے منہ موڑ رکھا۔ افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد ان کی بھی ترجیحات بدل گئیں اور دوسری طرف یورپ میں کساد بازاری کی وجہ سے ان کی اپنی فنڈگ کے ذرائع خشک ہو گئے۔

کچھ عطیہ دہندگان نے تو افغانستان کا رُخ کیا اور کچھ نے دہلی و اسلام آباد کی غیر دلچسپی دیکھ کر امید ہی چھوڑ دی۔

ناقدین کہتے ہیں کہ ٹریک ٹو ہمیشہ اشرافیہ کے درمیان محدود رہا۔ ایسے افراد کے مابین جو تقسیمِ ہند کی یادیں یا سرحد پار رشتہ داریاں رکھتے تھے، مگر نئی نسل اس سے پوری طرح کٹی ہوئی تھی۔

’یہ ملاقاتیں محض جذباتی نقطہ نظر سے اہم تھیں، نوجوانوں کے لیے ان کے کوئی معنی نہیں۔ ‘ یہ بات ایک سابق ہندوستانی امن کارکن نے کہی، جو اب قوم پرست نظریہ کے ہراوال سپاہی بنے ہوئے ہیں اور اپنی تقریریوں میں پاکستان اور مسلمانوں پر تنقید کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے ہیں۔

ریتا منچندا بھی اس نکتے سے اتفاق کرتی ہیں،’ہم نے کہیں نہ کہیں نوجوان نسل کو کھو دیا ہے۔ آج کی نسل نفرت انگیز وائرل مواد سے متاثر ہے، مشترکہ ماضی کی یادوں سے نہیں۔ یہ خلا خطرناک ہے۔ تاہم کچھ نوجوانوں کے اقدامات آج بھی امید دلاتے ہیں۔’

میڈیا کا کردار

دونوں ممالک خاص طور پر ہندوستانی میڈیا کی موجودہ روش نے بھی ٹریک ٹو کو زوال کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔ کارگل جنگ کے بعد ٹی وی میڈیم نے کلیدی پوزیشن حاصل کی تھی اور اس میڈیم کو امن کا نقیب نہیں بنایا جاسکا۔ باقی رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کی۔

ساؤتھ ایشیا پیس ایکشن نیٹ ورک کی صدر اور پاکستان اور ہندوستان کے مابین دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کے ایک اقدام امن کی آشا کی ایک سرگرم کارکن رہنے والی بینا سرور شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سول سوسائٹی کو امن کی قیمت کا اندازہ ہو گا۔

اس موقع پر وہ ایک سوال پوچھتی ہیں،’اگر فرانس اور جرمنی جو ایک لمبےعرصے تک ایک دوسرے کے دشمن رہے اور خونریز جنگیں بھی لڑیں، یورپی یونین کے رکن بن کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں، تو ہندوستان اور پاکستان اچھے ہمسائے کیوں نہیں بن سکتے؟‘

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کایہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)