پہلگام حملہ: سری نگر میں احتجاج، ملک بھر میں کشمیری طلبہ پر ہو رہے تشدد کو روکنے کا مطالبہ

تصویروں کی زبانی: پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں کشمیری طلبہ کے ساتھ تشدد اور بدسلوکی کے خلاف بدھ کو سری نگر میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ کانگریس کے طلبہ ونگ، نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا (این ایس یو آئی) نے بھی اس احتجاج میں حصہ لیا۔

تصویروں کی زبانی: پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں کشمیری طلبہ کے ساتھ تشدد اور بدسلوکی کے خلاف بدھ کو سری نگر میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ کانگریس کے طلبہ ونگ، نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا (این ایس یو آئی) نے بھی اس احتجاج میں حصہ لیا۔

سری نگر میں مظاہرہ کے دوران کشمیری طلبہ کے ساتھ ہو رہےناروا سلوک کے خلاف پوسٹر کے ساتھ ایک طالبعلم ۔ تصویر: عبید مختار

سری نگر میں مظاہرہ کے دوران کشمیری طلبہ کے ساتھ ہو رہےناروا سلوک کے خلاف پوسٹر کے ساتھ ایک طالبعلم ۔ تصویر: عبید مختار

نئی دہلی: سری نگر میں بدھ (30 اپریل) کو ملک کے مختلف حصوں میں پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد کشمیری طلبہ کے ساتھ ہورہے تشدد اور بدسلوکی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔

اس احتجاج کی حمایت کانگریس کے طلبہ ونگ نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا (این ایس یو آئی) نے بھی کی۔

گزشتہ 22 اپریل کو پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں 26 افراد کی ہلاکت  کے بعد ملک کی مختلف ریاستوں سے کشمیری طلبہ  پر حملے اور بدسلوکی کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

پہلگام حملے کے بعد پہلے چھ دنوں کے اندر ملک بھر سے کم از کم 17 ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں کشمیری طلبہ کو مارا پیٹا گیا ہے۔

سری نگر میں مظاہرین نے کشمیری طلبہ کے ساتھ ہو رہے ناروا سلوک کی مذمت کرتے ہوئے پلے کارڈ اٹھائے۔ تصویر: عبید مختار

سری نگر میں مظاہرین نے کشمیری طلبہ کے ساتھ ہو رہے ناروا سلوک کی مذمت کرتے ہوئے پلے کارڈ اٹھائے۔ تصویر: عبید مختار

قبل ازیں جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا تھا کہ ان کی حکومت ان ریاستوں کی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں ہے ،جہاں سے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا، ‘میں ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے بھی رابطے میں ہوں اور ان سے خصوصی احتیاط برتنے کی درخواست کی ہے۔’عبداللہ نے یہ بیان اس وقت دیا تھا،  جب جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے اتر پردیش، پنجاب، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں ہونے والے واقعات کو اجاگر کیا تھا۔

بدھ (30 اپریل 2025) کو سری نگر میں ایک احتجاج کے دوران این ایس یو آئی کے اراکین کشمیری طلبہ کی حمایت میں پوسٹر اٹھائے ہوئے ۔ تصویر: عبید مختار

بدھ (30 اپریل 2025) کو سری نگر میں ایک احتجاج کے دوران این ایس یو آئی کے اراکین کشمیری طلبہ کی حمایت میں پوسٹر اٹھائے ہوئے ۔ تصویر: عبید مختار

Next Article

بہار: ووٹر لسٹ رویژن کے خلاف عرضیوں پر 10 جولائی کو شنوائی کرے گا سپریم کورٹ

بہار میں الیکشن کمیشن کی جانب سے شروع کی گئی  اسپیشل انٹینسو ریویژن  کے عمل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ 2003 کی ووٹر لسٹ کو بنیاد بناکر دستاویز مانگنا کروڑوں ووٹروں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کرسکتا ہے۔ کیس کی سماعت 10 جولائی کو ہوگی۔

سپریم کورٹ (تصویر: پی ٹی آئی/ کمل کشور)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (7 جولائی) کو بہار میں ووٹر لسٹ پر  اسپیشل انٹینسو ریویژن  کرنے کے الیکشن کمیشن (ای سی آئی) کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو فوری طور پر لسٹ کرنے پر رضامندی دے دی ہے۔

یہ عرضی سینئر وکیل کپل سبل، ابھیشیک منو سنگھوی، گوپال شنکر نارائنن اور شادان فراست نے دائر کی تھی۔

یہ عرضیاں راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے ایم پی منوج جھا، ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر)، پی یو سی ایل، سماجی کارکن یوگیندر یادو اور لوک سبھا ایم پی مہوا موئترا نے دائر کی ہیں۔

لائیو لا کے مطابق، جسٹس سدھانشو دھولیا اور جوائےمالیہ باگچی کی بنچ نے درخواست گزاروں کی اس دلیل کو سنا کہ جو ووٹر مقررہ دستاویزوں کے ساتھ فارم جمع نہیں کر پائیں گے، ان کے نام ووٹر لسٹ سے ہٹا دیے جائیں گے، خواہ  وہ پچھلے 20 سالوں سے مسلسل ووٹ دیتے آ رہے ہوں۔ انہوں نےکہا آٹھ کروڑ میں سے چار کروڑ لوگ اس کارروائی  سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

وکیلوں نے یہ بھی بتایا کہ الیکشن کمیشن نے آدھار یا ووٹر شناختی کارڈ کو درست دستاویز کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، جس کی وجہ سے اتنے کم وقت میں اس عمل کو مکمل کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں سے کہا کہ وہ اپنی درخواستوں کی کاپیاں مرکزی حکومت، الیکشن کمیشن آف انڈیا اور دیگر متعلقہ فریقوں کو پیشگی جمع کرائیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ درخواستوں کی کاپیاں اٹارنی جنرل آف انڈیا کو بھی دی کی جائیں۔

سماعت کے دوران سینئر ایڈوکیٹ سنگھوی نے کہا کہ 24 جون کے اسپیشل انٹینسو ریویژن  نوٹیفکیشن میں بہار کے کروڑوں غریب اور پسماندہ ووٹروں پر سخت ڈیڈ لائن لگائی گئی ہے۔ ان لوگوں سے ایسے دستاویزمانگے جا رہے ہیں جن میں آدھار اور راشن کارڈ شامل نہیں ہیں، جبکہ یہی وہ دستاویز ہیں جو عام لوگوں کے پاس ہوتے ہیں۔

کپل سبل نے عدالت سے گزارش کی کہ وہ الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کمیشن اس  اسپیشل انٹینسو ریویژن  کے عمل کو جلدبازی میں لاگو کرنے کی وجہ بتائے، کیونکہ اس عمل سے بہار کے کروڑوں ووٹروں کو ان کے ووٹ ڈالنےکے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ اس نے پورے ملک میں  اسپیشل انٹینسو ریویژن  کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کی شروعات بہار سے کی جارہی ہے۔ دیگر ریاستوں کے لیے الگ الگ پروگرام کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

بنچ ان درخواستوں کی سماعت 10 جولائی کو کرے گا۔

ایک دن پہلے سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسا نے ایک اخباری کالم میں لکھا تھا کہ اس اعلان کا وقت مشکوک تھا، خاص طور پر جب کچھ ریاستوں میں شہریت کی جانچ کو لے کر جنون  کا ماحول بنا ہوا تھا، اور جہاں مقامی سطح پر ‘ پیوریفیکیشن ‘ کے نام پر ووٹروں کے نام ہٹائے گئے ہیں۔

لواسا پوچھتے ہیں، ‘بہار میں 2003 کی ووٹر لسٹ کو ہی بنیاد کیوں بنایا گیا، حالانکہ اس کے بعد بھی ووٹر لسٹوں پر نظر ثانی کی گئی ہے؟’

انہوں نے الیکشن کمیشن کی ہدایات کے پیرا 11 کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ 2003 کی ووٹر لسٹ کو ‘شہریت کے قیاس سمیت اہلیت کا مستند ثبوت مانا جائے۔’ اس بنیاد پر انہوں نے سوال اٹھایا کہ 2003 تک رکے جسٹرڈ ناموں کو ہی ثبوت کیوں مانا جا رہا ہے؟

سب سے اہم بات ، لواسا نے یہ بھی پوچھا کہ جب  ہندوستان میں حکومت کی جانب سے شہریت کے حوالے سے کوئی سرکاری دستاویز جاری نہیں کیا جاتا، تو کیا الیکشن کمیشن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شہریت ثابت کرنے کے لیے ٹیسٹ کرائے ؟

انہوں نے لکھا؛

اب تک الیکشن کمیشن دستاویزی شواہد اور جسمانی تصدیق کی بنیاد پر ناموں کو شامل کرتا رہا ہے اور شہریت قانون کے مطابق شہریت کا کوئی ثبوت نہیں مانگتا رہا ہے۔ ایسے میں یہ بحث طلب ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کو اب ایسا عمل اختیار کرنا چاہیے جس سے لوگوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم ہونے کا خطرہ ہو، یا اسے اپنے آزمودہ عمل پر قائم رہنا چاہیے۔

لواسا مزید لکھتے ہیں، ‘ایسے رائے دہندگان کا کیا ہوگا جن کے نام پہلے فہرست میں تھے، انہیں ووٹر کارڈ بھی جاری کیے گئے تھے، لیکن اب تسلیم شدہ دستاویزنہ ہونے  کی وجہ سے باہر کردیے گئے ہیں؟ کیااب ان کی ذمہ داری حکومت لے گی یا پھر  عدلیہ؟’

بتادیں کہ اشوک لواسا کو 2018 میں الیکشن کمشنر بنایا گیا تھا، انہوں نے 2019 کے انتخابات میں نریندر مودی اور امت شاہ کی جانب سے انتخابی مہم کے قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر کئی بار اختلاف رائے  ظاہر کیا تھا۔

Next Article

نیویارک سٹی کے میئر  کے عہدے کے امیدوار ظہران ممدانی نے ٹرمپ کی دھمکی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا

نیویارک سٹی کے میئر کے عہدےکے ڈیموکریٹک امیدوار ظہران ممدانی نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے گرفتاری اور ملک بدری کی دھمکی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ممدانی نے کہا کہ وہ امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ کو خوف و ہراس پھیلانے سے روکیں گے اور ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ظہران ممدانی اور ڈونالڈ ٹرمپ (فوٹو: سوشل میڈیا)

نئی دہلی: نیویارک سٹی کے میئر کے عہدے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار ظہران ممدانی نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو کرارا جواب دیا ہے۔ ٹرمپ نے انہیں گرفتار کرنے اور ملک سے ڈی پورٹ کرنے کی دھمکی دی تھی۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے بعد ممدانی نے کہا  کہ اگر وہ میئر منتخب ہوئے توآئی سی ای (امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ) کو غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرنے سے روکیں گے۔

اس کے جواب میں ٹرمپ نے ممدانی کی شہریت پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ وہ انہیں گرفتار کروا  دیں گے۔

ظہران ممدانی مشہور ہندوستانی فلمساز میرا نائر کے بیٹے ہیں۔ وہ 1998 میں سات سال کی عمر میں یوگانڈا سے امریکہ آئے تھے۔

ٹرمپ کی دھمکی کا جواب دیتے ہوئےممدانی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ​​ٹوئٹر) پر لکھا؛

ریاستہائے متحدہ کے صدر نے مجھے گرفتار کرنے، میری شہریت چھیننے، مجھے حراستی مرکز میں ڈالنے اور ملک بدر کرنے کی دھمکی دی ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ میں نے کوئی قانون توڑا ہے، بلکہ اس لیے کہ میں آئی سی ای کو ہمارے شہر میں ڈرپھیلانے کی اجازت نہیں دوں گا۔

انہوں نے مزید کہا؛

ان کے بیانات صرف ہماری جمہوریت پر حملہ نہیں ہیں، بلکہ نیویارک کے ہر شہری کو یہ پیغام دینے کی کوشش ہے جو ڈر کر چھپنا نہیں چاہتے: اگر آپ بولیں گے تو وہ آپ کے پیچھے آئیں گے۔ ہم ڈرانے کی اس کوشش کو قبول نہیں کریں گے۔

ممدانی نے نیویارک کے موجودہ میئر ایرک ایڈمز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، ان پر الزام لگایا کہ وہ ٹرمپ جیسی ‘تفرقہ، گمراہ کن اور نفرت انگیز سیاست’ پر عمل پیرا ہیں۔

ممدانی نے لکھا، ‘نیویارک کے ووٹرز نومبر میں اس کا زوردار جواب دیں گے۔’

ایرک ایڈمز نومبر میں آزاد امیدوار کے طور پر دوبارہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب ممدانی نے ڈیموکریٹک پارٹی کے باضابطہ امیدوار کے طور پر نامزدگی حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کوومو کو شکست دی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ٹرمپ نے ممدانی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس سے قبل بھی صدر ٹرمپ نے انہیں ‘کمیونسٹ’ اور ‘پاگل’ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر ممدانی میئر بنے تو انہیں ‘صحیح طریقے سے کام’ کرنا پڑے گا، ورنہ نیویارک کو ملنے والی وفاقی فنڈنگ ​​روک دی جائے گی۔

Next Article

سروجنی نائیڈو کے امام حسین

ہماری بد نصیبی کہ ہم عظیم  روحوں سے نصیحت لینے کے بجائے ان کو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی میں بانٹ لیتے ہیں۔

سروجنی نائیڈو اور علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس اور سوشل میڈیا

آج ہم جس ہندوستان میں جی رہے ہیں،وہاں ہندوؤں کے ذریعے مسلمانوں کاتہوارمنایا جانا اور مسلمانوں کے ذریعے ہندوؤں کے مہاتماؤں/بھگوانوں کی عزت کرنا بھی ایک خبرہے۔

ہمارے سیاستدانوں کی کارستانیوں کے چلتے ہم آہستہ آہستہ یہ مان بیٹھے ہیں کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف سماج میں جیتے ہیں جن کا ایک دوسرے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہماری بد نصیبی ہی ہے کی یہ سوچ جس نے ملک کو تین حصوں میں بانٹ دیا آج بھی ہمارے ذہنوں میں کائی کی طرح جمی ہوئی ہے اور غلاظت پھیلا رہی ہے۔

بنگال حکومت نے کچھ دن پہلے یہ کہا  تھا کہ محرم کے دن وسرجن کی رسم نہ نبھائی جائے۔ اس سے کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔اس ملک کی تہذیب کسی ایک مذہب سے نہیں بنی بلکہ یہ مختلف مذہب اور کلچر کے امتزاج کا نمونہ ہے۔

میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ کیسے شری کرشن اور شری رام کو مسلمان بھی ہندوستانی تہذیب اور ثقافت کا لازمی حصہ مانتے آئے ہیں،اوران کا احترام کرتے ہیں۔آج میں ایک بنگالی برہمن کی مثال دینا چاہتاہوں کہ  ہندوستان کے ہندو بھی اسلام کی عزت کرنے میں پیچھے نہیں ہیں اورامام حسین کو ہندو بھی سچائی کی علامت مانتے ہیں۔

سروجنی نائڈو حیدر آباد میں بنگالی برہمن فیملی میں پیدا ہوئی تھیں۔ ہم میں سے زیادہ تر ان کو آزادی کی لڑائی کے باب میں ایک اہم خاتون  رہنما کے طور پر پہچانتے ہیں۔انگریزی ادب میں جن کی زیادہ دلچسپی نہیں ہےوہ شاید یہ  نہیں جانتے ہوں کہ سروجنی ایک بہت اچھی شاعرہ بھی تھیں۔

 محرم  کے موقع پر ان کی ایک نظم ‘امام باڑا ‘ کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ امام باڑہ  ان کی  کتاب ‘ دی بروکن ونگس ‘(1917) میں شامل تھی۔ اس نظم سے امام حسین کے لیے ان کی محبت اور عقیدت کا ثبوت ملتا ہے۔سروجنی لکھتی ہیں ؛


Out of the sombre shadows
Over the sunlit grass
Slow in a sad procession
The shadowy pageants pass


 

یہ محرم  کے دن لکھنؤ کے امام باڑے میں ہونے والے ماتم کی جگر سوز مثال ہے۔ بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ وہ کالے کپڑے میں ملبوس ماتم کرنے والوں کا موازنہ  کالے سایوں سے کرتی ہیں،اور بتاتی ہیں کہ کیسے یہ کالا رنگ رنج و غم کی علامت ہے۔ان کے مطابق ؛


Mournful, majestic, and solemn

Stricken and pale and dumb

Crowned in their peerless anguish

The sacred martyrs come


 

یہ کالے کپڑے میں ماتم کرنے والے سائے 1400سال پہلے شہید ہوئے امام حسین اور ان کے 71جاں نثاروں کو زندہ کر دیتے ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ غمگین ہیں وہی دوسری طرف یہ ماتم کرنے والے سنجیدہ بھی نظر آتے ہیں۔ بھلےہی یہ لوگ آج زخمی ہیں، ان کے جسم سوکھے پتوں کی طرح پھیکے ہیں اور زبان چپ ہے پر یہ بےجوڑ نظر آتے ہیں اپنے اس دکھ میں بھی۔ کیونکہ یہ جو لوگ چلے آ رہے ہیں یہ کوئی اور نہیں یہ تو وہی لائق پرستش اور مقدس شہید ہیں۔

سوچیےآج کے یہ رہنما کیا اپنے مذہب سے اوپر اٹھ‌کر سچائی کے لئے جان دینے والے امام حسین کو لائق عبادت شہید بول پائیں‌گے۔ کاش یہ بول پاتے۔


Hark, from the brooding silence
Breaks the wild cry of pain
Wrung from the heart of the ages
Ali! Hassan! Hussain!


 

وہ آگے لکھتی ہیں، کی یہ جو شام کا سناٹا ہے اس میں غور سے سنو۔ درد بھری وہ چیخ سنائی دے‌گی جو صدیوں سے وقت کے سینے کو دہلا رہی ہے۔ یہ چیخ جو علی، حسن اور حسین کا نام لے رہی ہے۔

 


Come from this tomb of shadows
Come from this tragic shrine
That throbs with the deathless sorrow
Of a long-dead martyr line


اس اندھیرے مقبرے سے، اس منحوس عمارت سے یہ جو کالے سائے آتے دکھتے ہیں یہ ان شہیدوں کی قطاریں ہیں جو بہت پہلے ہمیں چھوڑ‌کر جا چکے ہیں لیکن ان کا دکھ اورغم آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ رہے‌گا۔

آگے اس نظم کے اختتامیہ میں سروجنی یہ واضح  کرتی ہیں کہ کیوں وہ یہ مانتی ہیں کی امام حسین کی شہادت کا غم لافانی ہے اور وقت کی بندشوں سے آزاد ہے۔وہ لکھتی ہیں ؛


Kindle your splendid eyes
Ablaze with the steadfast triumph
Of the spirit that never dies
So may the hope of new ages
Comfort the mystic pain
That cries from the ancient silence
Ali! Hassan! Hussain!


اپنی آنکھوں کو روشن کر لو اس شعلہ سے جو کہ سچائی کی علامت ہے، یہ وہ سچائی ہے جو مستحکم ہے۔ یہ سچ لافانی ہے کبھی نہیں مرتا۔ اور آنے والے وقت کی امید بھی اس روحانی رنج میں چھپی ہے جو کہ تاریخ کے کسی کونے سے چیخ چیخ کر گریہ کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے : ‘ علی! حسن! حسین! ‘۔

سروجنی کی یہ نظم ان کے یقین اور عقیدت کی مظہر ہے کہ امام حسین مسلمان تھے یا نہیں اس سے پہلے یہ حقیقت اہم ہے کہ وہ سچائی کے لئے اپنے 71جاں نثاروں کے ساتھ اپنے سے کہیں زیادہ ‘طاقتور’بادشاہ ‘یزید ‘ کی فوج کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔ ان کی ہمت،ان کا جذبہ کہ سچ کے لئے جان کی پرواہ نہیں کی جاتی صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں پوری انسانیت کے لئے سبق ہے۔

ہائے ہماری بد نصیبی کہ ہم عظیم  روحوں سے نصیحت لینے کے بجائے ان کو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی میں بانٹ لیتے ہیں۔

یہ مضمون 1 اکتوبر 2017 کو شائع کیا گیا تھا، نظم بہ شکریہ: پوئٹری نوک ڈاٹ کام

Next Article

بہار ووٹر لسٹ ریویژن معاملہ: الیکشن کمیشن کے ساتھ میٹنگ کے بعد ’انڈیا‘ الائنس کے رہنما ’مایوس‘

بہار میں ووٹر لسٹ کے اسپیشل انٹینسو ریویژن کے خلاف ‘انڈیا’ الائنس کے وفد نے بدھ کی شام الیکشن کمیشن سے ملاقات کی۔ وفد میں شامل اکثر رہنماؤں نےاس میٹنگ کو  ‘مایوس کن’ اور ‘ناخوشگوار’ قرار دیا۔

کانگریس لیڈر ابھیشیک منو سنگھوی پریس سے خطاب کرتے ہوئے۔ (تصویر: اسکرین گریب)

نئی دہلی: بہار میں ووٹر لسٹ کے ‘اسپیشل انٹینسو ریویژن'(ایس آئی آر)کے خلاف اپنے احتجاج میں ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے، ‘انڈیا’ الائنس کے وفد نے بدھ (2 جولائی) کی شام کو الیکشن کمیشن سے ملاقات کی۔

زیادہ تر رہنماؤں نے اس ملاقات کو ‘مایوس کن’ اور ‘ناخوشگوار’ قرار دیا ۔

رپورٹ کے مطابق، ‘انڈیا’ الائنس نے بہار میں اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل ایس آئی آر شروع کرنے کے الیکشن کمیشن کے اقدام کی مخالفت کی ہے۔

اپوزیشن اتحاد نے اس کی ٹائمنگ اور اس نوع کےمشق کی فزیبلٹی پر سوال اٹھایا ہے، جس کے تحت کمیشن کو بہار میں 7.75 کروڑ اہل ووٹروں کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہوگی، ساتھ ہی  اس کی صلاحیت پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔

کچھ رہنماؤں نے یہ بھی الزام لگایا کہ یہ عمل، جو لوگوں پر خود کو اہل ووٹر ثابت کرنے کی ذمہ داری ڈالتا ہے، ‘بڑے پیمانے پر حق رائے دہی سے محرومی’ کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر پسماندہ طبقوں کے لیے، جنہیں بہار جیسی پسماندہ ریاست میں اپنے اور والدین کے پیدائشی سرٹیفکیٹ بنانے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ایس آئی آر میں آدھار یا راشن کارڈ جیسے عام شناختی کارڈ کافی نہیں ہوں گے، اور لوگوں کو اپنی ‘جائے پیدائش’ ثابت کرنے کے لیے اپنے والدین کا پیدائشی سرٹیفکیٹ بھی دکھانا ہوگا۔

اپوزیشن لیڈروں نے یہ بھی بتایا کہ ریاست سے باہر رہنے والے لوگوں  کی ایک بڑی تعداد کو بھی اس مشق سے باہر رکھا جا سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے اعلان میں جلد بازی پر تشویش کا اظہار

بدھ کی شام میٹنگ کے فوراً بعد پریس کو بریفنگ دیتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ وفد نے الیکشن کمیشن کو تین نکات پیش کیے۔ اس میں 2003 کے بعد، جس کے بعد بہار میں ‘چار یا پانچ’ انتخابات ہوئے ہیں، پہلی ایس آئی آر رکھنے کے پیچھے کی منطق پر سوال اٹھایا گیا۔

انہوں نے پوچھا، ‘کیا وہ اصولوں کے خلاف تھے؟’ دوسرا، انہوں نے کہا کہ وفد نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے اعلان میں جلد بازی پر تشویش کا اظہار کیا۔

سنگھوی نے کہا، ‘یہ فیصلہ کیوں لیا گیا؟ اگر ایس آئی ارکی ضرورت ہے، تو یہ جنوری فروری میں کیا جا سکتا تھا۔ آپ نے اس کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا ہے۔ 7.75 کروڑ ووٹروں کی تصدیق کے لیے ایک ماہ کا وقت ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘جب آپ نے 2003 میں ایسا کیا تھا تو اس کے ایک سال بعد عام انتخابات تھے۔ جب آپ نے یہ کام 2003 میں کیا تھا تو دو سال بعد اسمبلی انتخابات تھے۔ اب آپ کے پاس صرف ایک ماہ کا وقت ہے۔ یہ کافی نہیں ہے۔’

سنگھوی نے کہا کہ وفد نے دیہی علاقوں میں بہت سے لوگوں کے پاس پیدائشی سرٹیفکیٹ نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور پوچھا کہ آدھار یا راشن کارڈ کیوں قبول نہیں کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘پہلی بار آپ کہہ رہے ہیں کہ اگر کسی شخص کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے تو اس کے نام پر غور نہیں کیا جائے گا۔ ایک زمرے میں، اگر آپ 1987 اور 2012 کے درمیان پیدا ہوئے ہیں تو آپ کو والدین کے پیدائشی سرٹیفکیٹ کی بھی ضرورت ہوگی۔ ہم نے کہا کہ بہار میں بہت سارے (غریب لوگ اور اقلیتی اور پسماندہ طبقے کے لوگ) ہیں۔ کیا وہ کاغذات کے لیے ادھر ادھر بھاگتے رہیں گے؟ یہ جمہوریت میں مساوی مواقع کے خلاف ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ اس میٹنگ میں 11 پارٹیوں کے 20 لیڈروں نے شرکت کی، جبکہ ترنمول کانگریس کا کوئی لیڈر اس میٹنگ کے لیے دستیاب نہیں تھا۔

سنگھوی نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن نے کمیشن کے دفتر آنے والے تمام لیڈروں کو میٹنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن نے پہلے صرف پارٹی سربراہوں سے ملاقات کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، لیکن دباؤ کے بعد اس نے ہر پارٹی کے دو لیڈروں کو اپنے دفتر کے اندر جانے کی اجازت دی۔

سنگھوی نے کہا، ‘کچھ لوگوں کو باہر انتظار کرنا پڑا۔ ہم نے اس معاملے پر شکایت کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ یہ جمہوریت کے خلاف ہے۔’

ایس آئی آر آرٹیکل 326 اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کی دفعات کے مطابق: الیکشن کمیشن

قابل ذکر ہے کہ یہ میٹنگ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی، جس میں مبینہ طور پر لیڈروں نے چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار اور الیکشن کمشنر سکھبیر سنگھ سندھو اور وویک جوشی سے ملاقات کی۔

وفد میں کانگریس کے رہنما جئے رام رمیش، ابھیشیک منو سنگھوی، پون کھیڑا اور پارٹی کے بہار کے سربراہ راجیش رام، بہار کے رہنما اکھلیش پرساد سنگھ، راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیامنٹ منوج کمار جھا ، سماج وادی پارٹی کے ہریندر ملک ، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد چندر پوار) کی فوزیہ خان، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جان برٹاس، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لیننسٹ) لبریشن کے دیپانکر بھٹاچاریہ اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ڈی راجہ شامل تھے۔

اس سے پہلے دن میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ بہار میں ایس آئی آرمنصوبہ کے مطابق اور 24 جون 2025 کو جاری کردہ احکامات کے مطابق’ بہتر ڈھنگ سے جاری ہے، اور لوگوں سے ‘کسی بھی غلط معلومات پھیلانے’ پر توجہ نہ دینے کی اپیل کی۔

کمیشن نے یہ بھی کہا کہ 243 الیکٹورل رجسٹریشن افسران، 38 ڈسٹرکٹ الیکشن افسران، نو ڈویژنل کمشنروں اور بہار کے چیف الیکٹورل افسر کی جانب سے تقریباً ایک لاکھ بوتھ سطح کے افسران اور ایک لاکھ رضاکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔

‘انڈیا’ الائنس کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد ای ٹی وی سے بات کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ایک اہلکار نے کہا کہ وفد میں شامل کئی رہنماؤں کو ‘بغیر وقت لیے’ میٹنگ میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی، کیونکہ کمیشن نے آخر کار ہر پارٹی کے دو نمائندوں سے ملنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

اہلکار نے کہا کہ ایس آئی آر آرٹیکل 326 اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کی دفعات کے مطابق ہے۔

تاہم، جئے رام رمیش نے بعد میں ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ‘(الیکشن کمیشن) نے خود کو اس طرح سے کنڈکٹ کیا ہے جو ہمارے جمہوری نظام کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے’۔

انہوں نے کہا، ‘الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔ یہ اپوزیشن کی طرف سے سماعت کی درخواستوں کو باقاعدگی سے مسترد نہیں کر سکتا۔ اسے آئین کے اصولوں اور دفعات پر عمل کرنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے صوابدیدی اصول نہیں بنا سکتا، جیسے کہ شرکت کرنے والے افرادکے عہدے طے کرنایا کتنے لوگ شرکت کر سکتے ہیں یاکون  مجاز ہے کون نہیں۔’

نئے اصول الجھن پیدا کرنے والے: جئے رام رمیش

کانگریس لیڈر رمیش نے مزید کہا، ‘جب وفد نے ان نئے قواعد کو من مانی اور الجھن پیدا کرنے والا قرار دے کر مسترد کر دیا، تو الیکشن کمیشن نے ہمیں بتایا کہ یہ ‘نیا’ کمیشن ہے۔ ہم یہ سوچ کر کانپ اٹھتے ہیں کہ اس ‘نئے’ کمیشن کی حکمت عملی کیا ہے؟ ہم کتنے اور ماسٹر اسٹروک کی توقع کر سکتے ہیں؟ نومبر 2016 میں وزیر اعظم کی نوٹ بندی نے ہماری معیشت کو تباہ کر دیا۔ اب، جیسا کہ ایس آئی آر میں دکھایا گیا ہے، بہار اور دیگر ریاستوں میں الیکشن کمیشن کی ‘ووٹ بندی’ ہماری جمہوریت کو تباہ کر دے گی۔’

میٹنگ کے بعد سوالات کا جواب دیتے ہوئے منوج کمارجھا نے کہا، ‘ہم سب نے بہار کے بارے میں اپنی تشویش ان کے سامنے رکھی ہے… میں نے انہیں آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو کا ایک خط سونپا ہے۔ یہ عوام کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی سازش ہے…’

انہوں نے کہا، ‘اگر کسی مشق کا مقصد شمولیت کے بجائے اخراج ہے، تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں… جب ہم نے پوچھا کہ جو مشق (ایس آئی آر) 22 سالوں میں نہیں ہوئی… وہ اب کیوں ہو رہی ہے؟… زیادہ تر لوگوں کے پاس اہلیت ثابت کرنے کے لیے درکار دستاویز نہیں ہیں…’

ڈی راجہ، بھٹاچاریہ اور خان  جیسے دیگر لیڈروں نے بھی کہا کہ یہ عمل بہت سے غریب لوگوں کو بغیر کسی غلطی کے بھی حق رائے دہی سے محروم کر سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس پیدائشی سرٹیفکیٹ یا میٹرک سرٹیفکیٹ نہیں ہوسکتے ہیں، جو ان کی تاریخ پیدائش ثابت کرنے کے لیے قابل قبول ہیں۔

زیادہ تر لیڈروں نے یہ بھی محسوس کیا کہ الیکشن کمشنروں نے ان کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات کے بارے میں معاندانہ رویہ اپنایا اور ایس آئی آرمشق کے بارے میں پوری طرح سے  مثبت  بنے رہے۔

Next Article

جموں و کشمیر: پاکستان ڈی پورٹ کی گئی خاتون کو واپس لانے کے عدالتی حکم کے خلاف وزارت داخلہ کی اپیل

مرکزی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے، جس میں 62 سالہ خاتون کی واپسی کا حکم دیا گیا تھا۔خاتون کو  پہلگام حملے کے بعد پاکستان بھیج دیا گیا تھا، جبکہ وہ تقریباً چار دہائیوں سے لانگ-ٹرم ویزا پر ہندوستان میں رہ رہی تھیں۔

علامتی تصویر، بہ شکریہ: ایکس / کشمیر پولیس

نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ (ایم ایچ اے) نے جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف اپیل کی ہے، جس میں 62 سالہ رخشندہ راشد کی واپسی کا حکم دیا گیا تھا ۔ رخشندہ کو پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستان بھیج دیا گیا تھا، جبکہ وہ تقریباً چار دہائیوں سے لانگ-ٹرم ویزا(ایم ٹی وی)پر ہندوستان میں رہ رہی تھیں۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، وزارت داخلہ نے جسٹس راہل بھارتی کے 6 جون کے حکم کے خلاف ہائی کورٹ بنچ کے سامنے لیٹرز پیٹنٹ اپیل دائر کی، جس میں مرکزی ہوم سکریٹری کو راشد کو دس دنوں کے اندر ہندوستان  واپس لانے کی ہدایت کی گئی  تھی۔

منگل کو جج نے وزارت داخلہ سے تعمیلی رپورٹ  طلب کی اور وزارت کو اس معاملے پر اپنا جواب داخل کرنے کے لیے دس دن کا اضافی وقت دیا۔

خاتون کے وکیل انکور شرما نے اخبار کو بتایا کہ جج نے وزارت داخلہ سے تعمیل پر اصرار کیا، انہوں نے مزید کہا کہ اپیل دائر ہونے کے باوجود ابھی تک حکم پر کوئی روک نہیں ہے۔ اپیل کی سماعت بدھ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ کرے گا۔

وزارت داخلہ نے کہا کہ 29 اپریل کو ملک بدری کے وقت ایل ٹی وی موجود نہیں تھا۔دوسری جانب راشد نے اپنی درخواست میں کہا تھاکہ انہوں نے جنوری میں ایل ٹی وی کی تجدید کے لیے درخواست دی تھی اور درخواست کبھی مسترد نہیں کی گئی۔

لانگ-ٹرم ویزا ہولڈر

گزشتہ 22اپریل کو پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد – جس میں 26 لوگ مارے گئے تھے، وزارت داخلہ نے تمام پاکستانی شہریوں کے ویزے رد کر دیے اور انہیں 29 اپریل تک ملک چھوڑنے کو کہا۔

اس فیصلےمیں طویل مدتی ویزا رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی شہریوں سے شادی شدہ پاکستانی خواتین کو بھی استثنیٰ دیا گیا تھا ۔

راشد دونوں زمروں میں آتی ہیں، پاکستانی شہری ہونے کے ناطے، ایک ہندوستانی سے شادی شدہ، لانگ-ٹرم ویزا پر جموں میں گزشتہ 38 سالوں سے مقیم ہیں، جس کی ہر سال تجدید کی جاتی ہے۔

انہوں نے 1996 میں ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دی تھی، لیکن اس درخواست پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔

حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا

راشد کی بیٹی فاطمہ شیخ نے کہا کہ ان کی والدہ کو 29 اپریل کو پولیس نے حقائق کو توڑ مروڑ کرہندوستان سے باہر نکال دیا۔

شیخ نے کہا، ‘ہمیں پہلگام دہشت گردانہ حملے سے دکھ ہوا ہے، لیکن میری والدہ کو کس بنیاد پر ہندوستان سے ڈی پورٹ کیا گیا؟ ہم نے جنوری میں طویل مدتی ویزا میں توسیع کے لیے درخواست دی تھی، پھر بھی پولیس کی جانب سے ‘ہندوستان چھوڑو’ نوٹس میں کہا گیا کہ ہم نے 8 مارچ کو درخواست دی تھی۔ 26 اپریل کو مجھے ایف آر آر او سے ای میل موصول ہوا کہ درخواست پر کارروائی کی جا رہی ہے،پھر بھی انہیں  29 اپریل کو ڈی پورٹ کیا گیا۔’

انہوں نےبتایا، ‘پھر 9 مئی کو مجھے دوبارہ ایک ای میل موصول ہوا کہ درخواست کو منظوری کے لیے اعلیٰ حکام کو بھیج دیا گیا ہے۔’

جلدبازی میں کارروائی

ان کی بیٹی نے بتایا کہ پولیس اہلکار صبح 7 بجے ان کے گھر کے باہر آئے اور راشد کو پنجاب کے اٹاری سرحدی چوکی پر لے گئے، جہاں سے انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا، ‘انہوں نے ہمیں اپنے وکیلوں سے بات بھی نہیں کرنے دی۔ وہ انہیں ملک بدر کرنے کی اتنی جلدی میں تھے۔ وہ ساری زندگی جموں میں رہی ہیں۔ وہ پاکستان میں کیسے زندہ رہے گی؟ وہاں مہنگائی بہت ہے، وہاں اس کا کوئی نہیں ہے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی والدہ کا پاکستان میں کوئی رشتہ دار نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے تین ماہ سے وہ ایک چھوٹے سے ہوٹل میں اکیلی رہ رہی ہے اور ان کے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ 6 جون کو جسٹس راہل بھارتی نے مرکزی ہوم سکریٹری کو کیس کے حقائق اور حالات کی غیر معمولی نوعیت کو دیکھتے ہوئے درخواست گزار کو پاکستان سے واپس لانے کا حکم دیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘انسانی حقوق انسانی زندگی کا سب سے مقدس حصہ ہیں اور اس لیے ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب آئینی عدالت کو کسی کیس کی میرٹ سے قطع نظر ایس او ایس جیسی رعایت دینا پڑتی ہے، جس پر وقت رہتے فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔’