پہلگام حملہ: ’بلڈوزر جسٹس‘، مصنوعی حب الوطنی کے سہارے مودی حکومت اپنی ناکامی پر پردہ نہیں ڈال سکتی

جب کوئی معاشرہ انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے بجائے، نمائشی  اور کھوکھلے 'انصاف' کا انتخاب کرتا ہے تو اس کا فائدہ دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کو ہوتا ہے۔

جب کوئی معاشرہ انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے بجائے، نمائشی  اور کھوکھلے ‘انصاف’ کا انتخاب کرتا ہے تو اس کا فائدہ دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کو ہوتا ہے۔

سری نگر کے لال چوک پر تعینات سیکورٹی اہلکار۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

سری نگر کے لال چوک پر تعینات سیکورٹی اہلکار۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

پہلگام میں وحشیانہ دہشت گردانہ حملے کے ملزمین کوقانون کی رو سے مالیگاؤں دہشت گردانہ بم بلاسٹ کے ملزمین کی طرح دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن دونوں معاملوں میں حکومت کا رویہ بالکل مختلف ہے۔

کشمیر میں، پچھلے تین چار دنوں میں، انتظامیہ نے نو افراد (جن میں سے صرف دو کو پولیس نے پہلگام حملے کے معاملے میں نامزد کیا ہے) کے گھروں کو مسمار کر دیا۔

کیا آپ کو یاد ہے کہ مالیگاؤں معاملے کی کلیدی ملزم پرگیہ ٹھاکر کے گھر کو مسمار کیا گیا تھا یا دیگر چھ ملزمین – لیفٹیننٹ کرنل شری کانت پرساد پروہت، میجر رمیش اپادھیائے (ریٹائرڈ)، اجئے راہیرکر، سدھاکر دویدی، سدھاکر چترویدی اور سمیر کلکرنی کے گھروں پر کوئی کارروائی کی گئی تھی؟

میں یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کے ملزمین کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جانی چاہیے۔ جرم کی تحقیقات کریں، شواہد اکٹھا کریں اور ان پر مقدمہ چلائیں۔ اگر مقدمہ ٹھوس ہے تو ان کوقصوروار ٹھہرائیں اور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

کسی بھی مہذب ملک میں دہشت گردی سے اسی طرح نمٹا جاتا ہے۔ ہم نے کشمیر میں جس طرح مکانات کی مسماری دیکھی ہے، اس سے خطرہ یہ ہے کہ وہ ہندوستانی عوام کو گمراہ کر رہے ہیں کہ انصاف مل رہا ہے –  وہ بھی ایسے وقت میں جب معاملے کی تفتیش کرنے والے حکام درحقیقت اس جرم کو حل کرنے یا دہشت گردوں کو پکڑنے اور ان پر کسی قسم کامقدمہ چلانے سے کوسوں  دور ہیں۔

یاد کیجیے کہ 2000 میں جموں و کشمیر کے چھتی سنگھ پورہ میں تین درجن سکھوں کو ہلاک کرنے والے لشکر کے دہشت گردکبھی نہیں پکڑے گئے۔ دو پاکستانی شہریوں – سہیل ملک اور وسیم احمد کو گرفتار کیا گیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا، لیکن ‘ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں بری کر دیا گیا۔’ سال 2012 میں دہلی ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا ۔

آپ جاننا چاہتے ہیں کہ چھتی سنگھ پورہ قتل عام کے لیے کسی کو کیوں نہیں پکڑا گیا اور اسے سزا  کیوں نہیں دی گئی؟

کیونکہ فوج اور پولیس نے اس قتل عام کے فوراً بعد اننت ناگ اور آس پاس کے علاقوں سے پانچ شہریوں کو اٹھا یا اور انہیں قتل کر دیا، انہیں وردی پہنائی  اور پتھری بل میں ان کی لاشوں کو جلا دیا۔ پھر دنیا سے کہا کہ سکھ شہریوں کو ہلاک کرنے والے خونخوار دہشت گردوں کو گھیرے میں لے کر انکاؤنٹر میں مار دیا گیا ہے۔

میں اس بھیانک معاملے کی گہرائی میں نہیں جاؤں گا، لیکن جب سی بی آئی کو پتھری بل کیس کی تحقیقات سونپی گئی اور اس نے ملوث افسران اور سپاہیوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تو ثابت ہوا کہ مارے گئے لوگ بے قصور تھے۔ لیکن پھر بھی ملزم فوجیوں پرکبھی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، چھتی سنگھ پورہ دہشت گردانہ حملے کی فائل کبھی دوبارہ نہیں کھولی گئی اور نہ ہی اس پر کوئی کارروائی کی گئی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ پہلگام میں ہندو سیاحوں پر فائرنگ کرنے والے شرپسندوں میں کچھ ایسے دہشت گرد بھی شامل تھے جنہوں نے 25 سال قبل چھتی سنگھ پورہ میں سکھوں کو قتل کیا تھا۔

یہاں یہ بات بھی کہنی چاہیے کہ سپریم کورٹ پہلے ہی حکومت کی بلڈوزر کارروائی کے حوالے سے ایک قانون بنا چکی ہے، لیکن اس کے باوجود حکومت کو لگتا ہے کہ وہ اس قانون کو نظر انداز کر سکتی ہے۔

درحقیقت، آج سب سے بڑا مسئلہ قومی سلامتی کی پالیسی کا ہے۔ جب کوئی معاشرہ انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے بجائے،نمائشی اور کھوکھلے ‘انصاف’ کا انتخاب کرتا ہے تواس کا فائدہ  دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کو ہوتا ہے۔

ایسا ہمیشہ اور ہر بار ہواہے۔

Next Article

آپریشن سیندور پر آل پارٹی وفد میں ایم جے اکبر کی شمولیت کے خلاف خاتون صحافیوں کا احتجاج

جنسی ہراسانی کے سنگین الزامات کا سامنا  کر رہےسابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر آپریشن سیندور پر ہندوستان کا موقف پیش کرنے کے لیے بیرون ملک بھیجے جانے والے آل پارٹی وفد کا حصہ ہیں۔ خواتین صحافیوں کے ایک گروپ – نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا، انڈیا نے اس کی مخالفت کی ہے۔

ایم جے اکبر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

ایم جے اکبر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سابق مرکزی وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور صحافی ایم جے اکبر پر 2018 میں می ٹو تحریک کے دوران متعدد خواتین نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اس کی وجہ سے انہیں حکومت میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

اس سلسلے میں،2021 میں وہ ایک خاتون صحافی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ ہار گئے تھے ، جنہوں نے ان پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اسے اس تحریک میں خواتین کی جدوجہد کی فتح کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

اب ایم جے اکبر ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں، انہیں حال ہی میں آپریشن سیندور کے بعد ہندوستان کی بین الاقوامی شرکت کے لیے آل پارٹی وفد میں شامل کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا، انڈیا نے حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے اور اس معاملے میں ایک بیان جاری کیا ہے، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔


نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا، انڈیا (این ڈبلیو ایم آئی) 7 مئی 2025 کو شروع کیے گئے آپریشن سیندور کے بعد بین الاقوامی رابطےکے لیے آل پارٹی وفد میں ایم جے اکبر کی شمولیت پر سخت اعتراض کرتا ہے ۔ ایم جے اکبر پر کئی خواتین نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا، جن میں سے زیادہ تر صحافی ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ وفد میں ان کی موجودگی ان اقدار کو مجروح کرتی ہے جو ہندوستان بیرون ملک پیش  کرنا چاہتا ہے۔

آپریشن سیندور کو ہندوستانی خواتین کی عزت اور وقار کے تحفظ کے مشن کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ 22 اپریل 2025 کو پہلگام دہشت گردانہ حملے کے جواب میں شروع کیا گیا تھا، جس میں کئی خواتین نے اپنے شریک حیات کو کھو دیا تھا۔ اس آپریشن کو نہ صرف فوجی ردعمل کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ ہندوستانی خواتین کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔

ان تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے، ایم جے اکبر جیسے شخص کو، جن پر جنسی ہراسانی کے سنگین الزامات کی تاریخ ہے، کو ایسے وفد میں شامل کرنا جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والوں کو غلط اشارہ دیتا ہے اور جینڈر جسٹس کے مسائل پر ہندوستان کی ساکھ کو مجروح کرتا ہے۔

کئی خواتین صحافیوں نے کہا ہے کہ وہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران ایم جے اکبر کی طرف سے پرتشدد سلوک، جنسی ہراسانی اور/یا حملے کا شکار رہی ہیں، انہوں نے 2018 کے آس پاس  ہندوستان کی می ٹو تحریک کے دوران کم از کم 20 خواتین ان کے خلاف گواہی دینے کو تیار تھیں ۔ یہ الزامات تفصیلی ہیں، اور بڑے پیمانے پر رپورٹ اور تسلیم کیے گئے ہیں، جس میں اکبر اپنے ایک الزام لگانے والے کے خلاف دائر ہتک عزت کا مقدمہ ہار گئے۔ فروری 2021 میں اس معاملے میں عدالت کے فیصلے کو ہندوستان میں خواتین کے حقوق اور کام کی جگہ کی حفاظت کے لیے ایک سنگ میل سمجھا گیا۔

ہم اس وفد سے ایم جے اکبر کو ہٹانے کی اپیل کرتے  ہیں، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہندوستان کے نمائندے خواتین کے لیے احترام اور انصاف کی اقدار کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتے ہیں۔

نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا، انڈیا

اٹھارہ مئی دوہزار پچیس


Next Article

اسکالر کا دعویٰ، مودی حکومت نے ’ملک مخالف‘ سرگرمیوں کا حوالہ دیتے ہوئے او سی آئی اسٹیٹس رد کیا

لندن میں مقیم کشمیری اسکالر نتاشا کول نے اتوار کو بتایا کہ مودی حکومت نے ان کا او سی آئی اسٹیٹس رد کر دیا ہے۔ انہوں نے اسے بدنیتی پر مبنی ارادے اور انتقام کے جذبے سے کیے جانے والے بین الاقوامی جبر کی وحشیانہ مثال قرار دیا۔

نتاشا کول۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس)

نتاشا کول۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس)

نئی دہلی: لندن میں مقیم کشمیری ماہر تعلیم اور مصنف نتاشا کول، جو مودی حکومت کی ناقد رہی ہیں، نے اتوار (18 مئی) کو بتایا کہ مرکزی حکومت نے ان کے اوورسیز سٹیزن آف انڈیا (او سی آئی) کا درجہ ردکر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، نتاشا نے اسے بدنیتی کے ارادے اور انتقام کے جذبے سے کیے جانے والے بین الاقوامی جبر کی وحشیانہ مثال قرار دیا ہے۔

معلوم ہو کہ ہندوستانی نژاد برطانوی شہری کول لندن کی یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر میں سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیموکریسی کی سربراہ ہیں۔ پچھلے سال فروری میں بنگلورو کے کیمپے گوڑا انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچنے پر امیگریشن حکام نے انہیں  ہندوستان میں داخلے سے منع کر دیا تھا اور ‘ہولڈنگ سیل’ میں 24 گھنٹے گزارنے کے اذیت ناک تجربے کے بعد کارروائی کے لیے بغیر کوئی وجہ بتائے لندن بھیج دیا گیا تھا۔

تازہ ترین پیش رفت میں، اتوار کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں نتاشا کول نے ایک تصویر شیئر کی ہے، جو مرکزی حکومت کی طرف سے ان کے او سی آئی اسٹیٹس کی منسوخی کے حوالے سے جاری کردہ پریس ریلیز معلوم ہوتی  ہے۔ اس میں ان پر ‘ہندوستان مخالف سرگرمیوں’ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔

نوٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے ‘بد نیتی سے اور حقائق یا تاریخ کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے’ ان سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘مختلف بین الاقوامی فورمز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے متعدد ہندوستان مخالف مضامین، تقاریر اور صحافتی سرگرمیوں کے ذریعےسے آپ ہندوستان کی خودمختاری سے متعلق معاملات پر ہندوستان اور اس کے اداروں کو باقاعدگی سے نشانہ بناتی ہیں۔’

کول نے اپنی پوسٹ میں کہا، ‘آج (19 مئی) جیسے ہی میں گھر پہنچی، مجھے اطلاع ملی کہ میرا او سی آئی کارڈ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ یہ بدنیتی کے ارادے اور انتقام کے جذبے سے کیے جانے والے بین الاقوامی جبر کی ایک وحشیانہ مثال ہے۔ مجھے مودی حکومت کی اقلیت مخالف اور جمہوریت مخالف پالیسیوں پر کام کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔’

کول نے مودی حکومت کے ایک طرف دہشت گردی پر اپنے موقف کی وضاحت کے لیے کثیر الجماعتی وفد کو بیرون ملک بھیجنے کے فیصلے اور دوسری طرف وزیر اعظم مودی کے ہندوستان کو مدر آف ڈیموکریسی کہنے کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھائے۔

انہوں نے پوچھا، ‘کیا حکومت ہند کا خارجہ تعلقات عامہ کا وفد بتائے گا کہ ‘مدر آف ڈیموکریسی’ نے مجھے میری  ماں سے ملنے سے کیوں روکا؟’

انہوں نے گزشتہ سال دی وائر کو بتایا تھا کہ ان کی بیمار والدہ ہندوستان میں رہتی ہیں۔

کول نے اتوار کو کہا،’یہ عدم تحفظ  کا احساس ہے، جس میں نیک ارادے والے اختلاف کے لیے احترام کا کوئی جذبہ نہیں، جو ہندوستان میں شہریوں کو گرفتار اور جیل رسید کرتا ہے، اور بیرون ملک ہندوستانی شہریوں کو ان کے اہل خانہ تک پہنچنے سے روکتا ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ نتاشا کی پوسٹ اس دن سامنے آئی،  جب ہریانہ پولیس نے اشوکا یونیورسٹی کےسیاسیات کے سربراہ علی خان محمود آباد کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف سیڈیشن کے ساتھ ساتھ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کے الزامات عائد کیے۔

معلوم ہو کہ محمود آباد کے خلاف دو ایف آئی آر میں سے ایک ہریانہ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیہ کی شکایت پر درج کی گئی ہے، کمیشن نے حال ہی میں انہیں  طلب بھی کیا تھا۔

غور طلب ہے کہ او سی آئی اسٹیٹس ہندوستانی نژاد غیر ملکی شہریوں کو کچھ فوائد فراہم کرتا ہے، جس میں ہندوستان کا دورہ کرنے کے لیے ملٹی انٹری، کثیر مقصدی لائف ٹائم ویزا شامل ہے۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ مودی حکومت نے پچھلے کچھ سالوں میں مختلف ناقدین کے او سی آئی سٹیٹس کو رد کیا ہے۔ پچھلے سال کرناٹک کے سماجی بہبود کے وزیر ایچ سی مہادیوپا نے کول کو بنگلورو میں ‘ہندوستان میں آئین اور اتحاد’ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے لیے مدعو کیا تھا۔

تاہم، شہر کے ہوائی اڈے پر پہنچنے پر کول کو ہندوستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی اور 24 گھنٹے کے تشدد کے بعد انہیں  برطانیہ بھیج  دیا گیا۔

اس وقت لندن سے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کول نے کہا تھا کہ آر ایس ایس اور اس کے لیڈروں پر تنقید کرنے پر امیگریشن حکام نے انہیں’طعنہ مارا’ اور انہیں واپس بھیجنے  کی کوئی تحریری وجہ نہیں بتائی۔

اتوار کو انہوں نے ہندوستان میں داخل ہونے سے روکے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ مودی حکومت نے ‘خود کو ذلیل کیا ہے اور غیر بی جے پی کرناٹک ریاستی حکومت کی توہین کی ہے، جس نے مجھے پچھلے سال مدعو کیا تھا۔’ اینٹی انڈیا’ کے  مضحکہ خیز معاملے پر میرے 20000 الفاظ کے جواب کے باوجود میرے ساتھ برا سلوک کیا گیا۔’

کول، جو ایک کشمیری پنڈت پس منظر سے آتی ہیں، نے دوسری باتوں کے علاوہ مودی حکومت کی طرف سے 2019 میں آرٹیکل 370 کو ہٹانے پر تنقید کی تھی۔

اس وقت انہوں نے لکھا تھا کہ یہ اقدام ‘ مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاوہ ہندوستانیوں، کشمیری پنڈتوں یا کسی اور کے لیے اچھا نہیں ہے… مودی حکومت کو دائیں بازو کی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ… نیم فوجی دستوں اور ان کے حامیوں اور صنعت کاروں کی حمایت حاصل ہے۔ اس سے ہندوستانی کم محفوظ اور پنڈتوں کا مستقبل مزید غیر یقینی اور حالات کے ہاتھوں یرغمال ہو جاتا ہے۔’

Next Article

کرنل قریشی پر تبصرہ: عدالت نے بی جے پی وزیر کی معافی خارج کی، کہا – پورا ملک آپ پر شرمندہ ہے

سپریم کورٹ نے ہندوستانی فوج کی کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف متنازعہ ریمارکس پر مدھیہ پردیش کے وزیر کنور وجئے شاہ کی معافی کو مسترد کرتے ہوئے مدھیہ پردیش کے ڈی جی پی کو ہدایت دی ہے کہ وہ ان کے خلاف درج ایف آئی آر کی تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دیں۔

پس منظر میں سپریم کورٹ اور مدھیہ پردیش کے وزیر وجئے شاہ۔ (تصاویر: پی ٹی آئی، سوشل میڈیا)

پس منظر میں سپریم کورٹ اور مدھیہ پردیش کے وزیر وجئے شاہ۔ (تصاویر: پی ٹی آئی، سوشل میڈیا)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (19 مئی) کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وزیر کنور وجئے شاہ کی کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف ریمارکس کے لیے معافی کو خارج کر دیا اور مدھیہ پردیش کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) کو ہدایت دی کہ وہ ان کے خلاف ایف آئی آر کی جانچ کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دیں۔

جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس این کوٹیشور سنگھ پر مشتمل بنچ نے شاہ کی معافی پر تنقید کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا وہ قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے’مگرمچھ کے آنسو’ بہا رہے ہیں۔

بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے کہا، ‘پورا ملک آپ پر شرمندہ ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنی اصلاح  کس طرح کرتے ہیں۔’ عدالت نے مزید کہا کہ ‘آپ نے جو فحش تبصرے کیے ہیں وہ بغیر سوچے سمجھے کیے گئے ہیں… ہمیں اس معافی کی ضرورت نہیں ہے۔’

مدھیہ پردیش کے کابینہ وزیر شاہ نے کرنل قریشی کے خلاف توہین آمیز، فرقہ وارانہ تبصرے کیے تھے، جو ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کے ساتھ آپریشن سیندور کی پریس بریفنگ کا ایک چہرہ تھیں۔

مدھیہ پردیش حکومت کے وزیر  کنور وجئے شاہ نے  کرنل صوفیہ قریشی کو ان کی مسلم شناخت کا حوالہ دیتے ہوئے ‘دہشت گردوں کی بہن’ کہا تھا۔

ایک پروگرام میں انھوں نے کہا تھا ،’جن لوگوں نے ہماری بیٹیوں کے سیندور اجاڑے، انہی کٹے پٹے لوگوں کو ان کی بہن بھیج کر ان کی ایسی تیسی کروائی۔ انہوں نے کپڑے اتار-اتار کر ہندوؤں کو مارا اور مودی جی نے ان کی بہن کو ان کی ایسی تیسی کرنے کے لیے ہمارے جہاز سے ان کے گھر بھیجا۔’

مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے 14 مئی کو وزیر کے خلاف ازخود نوٹس لیتے ہوئے کیس شروع کیا تھا۔ عدالت نے کرنل قریشی کے تضحیک آمیز ریمارکس پر ان کے خلاف فوری طور پر فوجداری مقدمہ درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے ریمارکس ‘نہ صرف متعلقہ افسر بلکہ مسلح افواج کے لیے بھی توہین آمیز اور خطرناک ہیں۔’

اس کے بعد شاہ نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔

سوموارکو سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ہم نے آپ کے ویڈیو دیکھے ہیں، آپ گندی زبان کا استعمال  کرنے کے دہانے پر تھے۔’

عدالت نے کہا، ‘ہم تین آئی پی ایس افسران پر مشتمل ایس آئی ٹی تشکیل دے رہے ہیں اور ان میں سے ایک آئی جی یا ڈی جی پی رینک کا ہونا چاہیے۔ یہ سب ریاست سے باہر کے ہونے چاہیے۔ یہ ایک لٹمس ٹیسٹ ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ریاستی ایس آئی ٹی ہمیں رپورٹ سونپے۔ ہم اس پر کڑی نگرانی رکھنا چاہیں گے۔’

ایس آئی ٹی کو 28 مئی تک رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس دوران سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری پر روک لگاتے ہوئے انہیں تحقیقات میں شامل ہونے کو کہا ہے۔

Next Article

کبھی اینٹی نیشنل، کبھی دہشت گرد اور کبھی ماؤ نواز تنظیموں سے تعلقات: کیسے بدلتی رہی صحافی کی حراست کی بنیاد

سات مئی کو ناگپور پولیس نے کیرالہ سےتعلق رکھنے والے 26 سالہ صحافی رجاز ایم شیبا صدیق کو آپریشن سیندور کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا۔ تین بار پولیس ریمانڈ میں  لیے جانے کے بعد، ان کی حراست کی وجوہات مسلسل بدلتی رہی ہیں۔ان پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ)، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین سمیت متعدد کالعدم تنظیموں کے ساتھ مبینہ روابط کا الزام  عائد کیا گیاہے۔

کیرالہ کے صحافی رجاز ایم شیباصدیقی کو ناگپور پولیس نے جمعرات 8 مئی کو گرفتار کیا تھا۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

کیرالہ کے صحافی رجاز ایم شیباصدیقی کو ناگپور پولیس نے جمعرات 8 مئی کو گرفتار کیا تھا۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: 7 مئی کو ناگپور پولیس نے کیرالہ سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ صحافی رجاز ایم شیبا صدیق کو آپریشن سیندور (پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے پر ہندوستان کی فوجی کارروائی) کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا تھا۔ ان کی گرفتاری اور تین بارپولیس ریمانڈ  میں لیے جانےکے بعد،  ان کی حراست کی وجوہات مسلسل بدلتی رہی ہیں۔

پولیس نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ ان کی گرفتاری ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ‘اینٹی انڈین آرمی’ اور ‘اینٹی انڈیا’ پوسٹ کرنے اور ‘دو پستول’ لہراتے ہوئے اپنی ایک انسٹاگرام فوٹو شیئر کرنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ان پر جلد ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ)، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین سمیت متعدد کالعدم تنظیموں کے ساتھ مبینہ روابط کا الزام لگایا گیا۔

پولیس نے اب الزام لگایا ہے کہ ان کا تعلق پونے میں واقع کلچرل گروپ کبیر کلا منچ (کے کے ایم) سے ہے، جو دلت اور بہوجن نوجوانوں کی تنظیم ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں، کے کے ایم اپنے تنقیدی خیالات کی وجہ سے جانچ  ایجنسیوں کی  نگرانی میں رہی ہے اور آخر کار اس پر ممنوعہ ماؤنواز تنظیم کا ‘فرنٹل’ ہونے کا الزام لگایا گیا۔

گزشتہ 15 مئی کو پولیس نے رجاز کو شام 7 بج کر 15 منٹ پر عدالت میں پیش کیا۔ جب تک ان کی حراست کا حکم جاری ہوا، تب تک رات کے تقریباً 10 بج چکے تھے۔ پولیس نے اضافی 10 دنوں کے لیے ان کی حراست کی درخواست کی، لیکن عدالت نے تین دن کی ہی اجازت دی۔

کیرالہ یونیورسٹی میں سوشل روک  کی پڑھائی کرنے والے رجاز  نیوز پلیٹ فارم مکتوب اور کاؤنٹر کرنٹ کے لیے لکھتے رہے ہیں۔ ان کےمضامین بنیادی طور پر دیگر مسائل کے علاوہ جیلوں میں پولیس کی زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مرکوز رہے ہیں۔ رجاز کے دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں کے مطابق، ایک نوجوان طالبعلم کے طور پر وہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) کا حصہ تھے۔ بعد میں وہ مایوس ہو گئے اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (ڈی ایس اے) میں شامل ہو گئے، ایک ایسی تنظیم جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شدت پسند  بائیں بازوکی طرف  جھکاؤ  رکھتی ہے۔

پونے کا دورہ

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ 2023 میں رجازنے پونے کا دورہ کیا تھااور کے کے ایم کے ارکان سے ملاقات کی تھی۔ کے کے ایم کے تین آرٹسٹ– جیوتی جگتاپ، ساگر گورکھے، رمیش گائچور – ایلگار پریشد کیس میں جیل میں بند ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرنا چاہتے ہیں کہ کیا رجاز دو دیگر لوگوں – سنتوش شیلار عرف ‘پینٹر’ اور پرشانت کامبلے عرف ‘لیپ ٹاپ’ سے ملنے پونے گئےتھے۔جہاں شیلار کو گزشتہ سال گرفتار کیا گیا تھا، وہیں کامبلے کو اس ماہ کے شروع میں گرفتار کیا گیا- دونوں کی گرفتاریاں 2011 کے کے ایم معاملے کے سلسلے میں ہوئی ہیں، جو ابھی زیر التواء ہے۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ شیلار اور کامبلے دونوں انڈر گراؤنڈ تھے۔ پولیس کے مطابق، شیلار کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ بیمار پڑگیا اور علاج کے لیے باہر آیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ کامبلے تھانے ضلع کے ایک دور دراز گاؤں میں کام کررہا تھا اور اسے وہیں سے گرفتار کیا گیا۔

پولیس کے مطابق، یہ دونوں پونے سے فرار ہوئے تھے، تاہم اب رجاز کی ریمانڈ کی درخواست میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس بات کی تفتیش کرنا چاہتے ہیں کہ کیا رجاز دونوں سے ملنے پونے گیا تھا۔

اپنی گرفتاری سے قبل، رجاز ‘ریاستی جبر کے خلاف مہم’ کے زیر اہتمام ایک پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی گئے تھے۔ پولیس نے اب اس پلیٹ فارم کو بھی ایک ‘فرنٹل آرگنائزیشن’ برانڈ کیا ہے، اس کے باوجود ان کے دعوؤں کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کانفرنس کے بعد رجاز ایک خاتون دوست سے ملنے ناگپور آئے اور دونوں کو شہر کے ایک ہوٹل سے اٹھایا گیا۔ رجاز کو گرفتار کر لیا گیا، جبکہ خاتون کو کئی گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ان کا بیان ریکارڈ کر لیا ہے۔

بندوقیں

ناگپور پولیس نے رجاز کو تین بار حراست میں لیا ہے۔ پہلے ریمانڈ اور ایف آئی آر میں صرف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعات شامل تھیں۔ ان پر بی این ایس کی دفعہ 149 کے تحت ‘حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنے کے ارادے سے اسلحہ یا دیگر مواد اکٹھا کرنے’ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ دیگر الزامات میں بی این ایس کی دفعہ 192، 353(1)(بی،353(2)اور 353(3) کے تحت’دنگا بھڑکانے کے ارادے سے اشتعال انگیزی’اور ‘عوامی شرپسندی کو بڑھاوا دینے والے بیان’ شامل تھے۔

ان میں سے دفعہ 149 سب سے سنگین تھی۔ یہ الزام ایک انسٹاگرام اسٹوری سے شروع ہوا جس میں رجاز کو دو پستول پکڑے ہوئے دیکھا گیا تھا، جس کا کیپشن تھا’اپنے دفاع کے لیے لائسنس یافتہ’۔ ایف آئی آر کے وقت پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ اسلحہ اصلی تھا یا نہیں۔

تاہم، آٹھ دن اور تین حراست کے بعد، پولیس نے ناگپور کے ایک مقامی دکان کے ملازمین سے پوچھ گچھ کی، جہاں رجاز مبینہ طور پر ایک خاتون دوست کے ساتھ گیا تھا اور پستول کے ساتھ تصویر کھنچوائی تھی۔ دکان کے عملے اور مالکان نے تصدیق کی کہ پستول ایئر گن تھے اور یہ دونوں وہاں گئے تھے، تصویر بنوائی اور چلے گئے۔ اس کے باوجود ان کے خلاف دفعہ 149 لاگو ہے۔

ٹیرر اور لٹریچر

تیسری حراست کے دوران پولیس نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعہ 38 اور 39 شامل کیں۔ دفعہ 38 ایک ‘دہشت گرد تنظیم’ کی رکنیت سے متعلق ہے، جبکہ دفعہ 39 ایک دہشت گرد تنظیم کی حمایت سے متعلق ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ رجاز مختلف نظریات کی حامل کئی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں، جو ان کی گرفتاری کے بعد کی گئی چھاپے ماری کے دوران ان کے فون اور ان کی کوچی کی رہائش گاہ سے برآمد ہونے والے مبینہ لٹریچر اورپرچے پرمبنی ہے۔

رجاز کے فون پر ملنے والے لٹریچر کے مواد کی ریمانڈ درخواست میں مکمل تفصیل نہیں ہے اور اسے ‘مشتبہ’ قرار دیا گیا ہے۔ پولیس نے رجاز کے گھر سے دو کتابیں برآمد کیں – ایک کارل مارکس کی اور دوسری کے مرلی کی کریٹکنگ برہمنواد۔ رجاز کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ یہ کتابیں ان کے والد کی ہیں، جو سوشل سائنس کے ایک ریٹائرڈ استاد ہیں، اور ان میں سے کسی پر بھی پابندی نہیں ہے۔

رجاز کے پاس موجود دیگر کتابوں میں جی این سائی بابا کی ہو ڈیفائیڈ ڈیتھ: لائف ایند ٹائمز، دی گریٹ لیگیسی  آف مارکسزم-لینن ازم: لینن آن دی سوشلسٹ اسٹیٹ  اینڈ اونلی پیپل میک دیئر اون ہسٹری اور مرحوم مارکسی دانشور اعجاز احمد کا لکھا ایک تعارف شامل ہیں ۔ یہ کتابیں بھی وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں۔

ریمانڈ کی درخواست میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ رجاز ممنوعہ ماؤنواز تنظیم کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں مدد کر رہا تھا۔ پولیس کا یہ دعویٰ رجازکی گرفتاری کے وقت ان کے پاس سے ملے نظریہ میگزین کے ایک پمفلٹ پر مبنی ہے ۔

سوشل میڈیا پر سرگرم نظریہ کو ماؤ نواز نظریات کی حمایت کے لیے جانا جاتا ہے اور اس نے حال ہی میں کالعدم پارٹی کے جنگ بندی اور امن مذاکرات کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔ تاہم،نظریہ نہ تو کالعدم تنظیم ہے اور نہ ہی حکومت نے اسے ‘فرنٹ’ تنظیم قرار دیا ہے۔ دی وائر نے پمفلٹ میں درج فون نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

ناگپور پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ رجاز کے مرلی کے قریبی رابطے میں رہا ہے، جنہیں پہلے ماؤنوازوں سے تعلقات کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن رہائی کے بعد سے وہ کوچی میں رہتے ہیں، جو رجاز کے گھر کے بہت قریب ہے۔ پولیس کا الزام ہے کہ مرلی ماؤنواز مرکزی کمیٹی کا رکن ہے، لیکن ریمانڈ کی درخواست میں کسی ثبوت کے ساتھ اس دعوے کی تائید نہیں کی گئی ہے۔ مرلی نے کالعدم تنظیم کے ساتھ کسی بھی موجودہ روابط سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ماضی میں اس تحریک میں شامل تھے۔

پولیس نے انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67 کو بھی لاگو کیا ہے، جو الکٹرانک شکل میں’فحش مواد’کی اشاعت یا ترسیل سے متعلق ہے۔ پولیس نے یہ واضح نہیں کیا کہ رجاز سے ضبط کیے گئے الکٹرانک آلات سے کون سا فحش مواد ملا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

کشمیر پولیس نے وی پی این صارفین کو حراست میں لیا، ماہرین نے کہا – شخصی آزادی پر حملہ

اظہار رائے کی آزادی کی مہم چلانے والوں اور قانونی ماہرین نے وی پی این پر پابندی لگانے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو من مانی طور پر حراست میں لینے کے لیے جموں و کشمیر انتظامیہ کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے اسے شخصی آزادی اور معلومات کے حق پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔

جموں و کشمیر پولیس کی علامتی  تصویر: پی ٹی آئی

جموں و کشمیر پولیس کی علامتی  تصویر: پی ٹی آئی

سری نگر: اظہار  رائے کی آزادی کی مہم چلانے والوں اور قانونی ماہرین نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) پر پابندی لگانے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو من مانی حراست میں لینے کے لیے جموں و کشمیر انتظامیہ کی مذمت کی ہے، اور  اسے شخصی  آزادی اور معلومات کے حق پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔

بتادیں کہ ایگزیکٹو حکام کی جانب سے ہنگامی اختیارات کےمن مانی استعمال کے الزامات اس وقت سامنے آئے، جب وادی چناب کے ضلع ڈوڈا میں انتظامیہ نے ‘تکنیکی نگرانی’ کے تحت غیر متعینہ تعداد میں رہائشیوں کو حراست میں لیا، جو وی پی این کا استعمال کرتے ہوئے پائے گئے۔

پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد 2 مئی کو جاری ایک حکم نامے میں ڈوڈا کے ڈپٹی کمشنر ہرویندر سنگھ نے ‘عوامی نظم، امن اور قومی سلامتی کو سنگین خطرہ’ کا حوالہ دیتے ہوئے وی پی این پر پابندی لگا دی۔

دو ماہ کی پابندی انڈین سول سیفٹی کوڈ، 2023 (بی این ایس ایس) کی دفعہ 163 کے تحت لگائی گئی تھی، جو ضابطہ فوجداری کی متنازعہ دفعہ 144 کا ایک نیا ورژن ہے، جو مجسٹریٹس کو مواصلات یا عوامی نقل و حرکت کو منظم کرنے کے لیے ہنگامی اختیارات دیتا ہے۔

‘بی این ایس ایس کی دفعہ 163غیر آئینی ہے’

قانونی ماہرین نے استدلال کیا کہ ملک میں وی پی این کا استعمال غیر قانونی نہیں ہے اور ہندوستان کے نوآبادیاتی حکمرانی کی علامت بی این ایس ایس کی دفعہ 163 کو لاگو کرکے معلومات کو منظم کرنا اور شخصی آزادی  پر پابندی لگان ملک کی جمہوری اسناد کو ایک اور دھچکا لگا سکتا ہے۔

گزشتہ 16 مئی کو ایک پریس بیان میں ڈوڈا ضلعی پولیس نے کہا کہ اس نےوی پی این  کا استعمال کرتے ہوئے ‘انٹرنیٹ کی پابندیوں کو ختم کرنے’ کے الزام میں’متعدد افراد’ کو حراست میں لیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ’حراست میں لیے گئے تمام افراد سے فی الحال پوچھ گچھ کی جا رہی ہے اور قانون کی متعلقہ دفعات کے مطابق مزید قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔’ بیان میں کہا گیا ہے کہ وی پی این  کا استعمال ‘ممنوع ہے… جب تک حکم نافذ رہے گا’ اور’کوئی بھی خلاف ورزی… سخت تعزیری نتائج کو اپنی طرف متوجہ کرے گی۔’

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل نتیہ رام کرشنن نے دی وائر کو بتایا کہ بی این ایس ایس کی دفعہ 163 ایگزیکٹو کو’وسیع اور اختیارات’ دیتا ہے اور یہ قانون بذات خود غیر آئینی ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘مواصلات کے خلاف دفعہ 163 کا استعمال شخصی آزادی کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ آج کی یہ بیان بازی کہ سیکورٹی کے نام پر سب کچھ ٹھیک ہے، خطرناک اور یہ کہنے کے مترادف ہے کہ کوئی بھی سیکورٹی ایجنسی راجہ ہے۔ خلاف ورزیوں کو بدتر بنانے کے لیے مبینہ مجرموں کو ان کی آزادی سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔’

‘قانون میں خامی’

کشمیر میں مقیم سینئر وکیل حبیل اقبال نے کہا کہ 2022 میں الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی مرکزی وزارت کے منظور کردہ قواعد کے تحت وی پی این کے استعمال پر پابندی نہیں لگایا گیا ہے ‘وی پی این فراہم کرنے والوں کو صرف پانچ سال تک ڈیٹا ذخیرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وی پی این استعمال کرنے والوں کو گرفتار کرنے کی کوئی شق نہیں ہے۔’

اقبال نے کہا کہدفعہ 163 کے تحت ڈوڈا میں حراست میں لینا، جس میں زیادہ سے زیادہ ایک سال کی سزا ہے، ‘قانون کے لحاظ سےغلط’ ہے، کیونکہ سپریم کورٹ نے 2023 میں فیصلہ دیا تھا کہ پولیس کو ایسے ملزمان کو گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں ہے جن کی زیادہ سے زیادہ سزا سات سال سے کم ہو۔

اقبال نے کہا،'(دفعہ 163 کے تحت وی پی این پر پابندی لگانے کا) حکم جاری کیا جا سکتا ہے یا نہیں، یہ بحث کا موضوع ہے۔ لیکن اگر کوئی حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو یہ قابل ضمانت جرم ہے۔ افسر کو حراست میں لیے گئے شخص کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے۔ اگر مشتبہ شخص کو اس کا علم نہیں ہے تو پولیس کو انہیں ان کے حقوق سے آگاہ کرنا ہوگا، انہیں بانڈ پر دستخط کرانا ہوگا اور انہیں رہا کرنا ہوگا۔’

‘احتیاطی تدابیر’

شہری حقوق کی کارکن اور اظہار رائے کی آزادی کی پیروکار گیتا شیشو نے کہا کہ دفعہ 163 ایک احتیاطی اقدام ہے، جسے ‘انتہائی ہنگامی حالات میں’ استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ تک رسائی آئین کے تحت ایک بنیادی حق ہے اور معلومات تک رسائی پر کوئی پابندی شہریوں کے جاننے کے حق کے لیے نقصان دہ ہے۔

اس ماہ کے شروع میں، مرکزی حکومت نے کچھ خبروں اور دیگر ویب سائٹس کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا، جن میں سے متعدد پاکستان میں واقع ہیں، ان پر ‘ہندوستان، اس کی فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کے خلاف اشتعال انگیز اور فرقہ وارانہ طور پر حساس مواد، جھوٹے اور گمراہ کن بیانات اور غلط معلومات شائع کرنے’ کا الزام لگایا۔

پاکستان کے معروف انگریزی روزنامہ ڈان کے یوٹیوب چینل سمیت پڑوسی ملک سے چلنے والے کم از کم 16 یوٹیوب چینل کو   ‘آپریشن سیندور’ کے بعد بلاک کر دیا گیا، جبکہ ہندوستام میں 8000 ایکس اکاؤنٹ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی، جن میں سے کچھ اب بھی صارفین کے لیے ناقابل رسائی ہیں۔

فری اسپیچ کلیکٹو کے شریک بانی شیشو نے کہا،’ایک ایسے وقت میں جب غلط معلومات پھیلی ہوئی ہیں، حکومت کو شفافیت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور پابندیوں اور سینسر شپ کے پیچھے چھپنے کی ضرورت نہیں ہے۔’

فری اسپیچ کلیکٹواظہار  رائے کی آزادی کے دفاع اور فروغ کے لیے وقف افراد کا ایک نیٹ ورک ہے۔

شیشو نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیا وی پی این  پابندی پاکستان اور پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر سے سرحد پار سے آنے والی معلومات تک لوگوں کی رسائی کو لے کر گھبراہٹ کی علامت ہے۔

انہوں نے کہا، ‘مجھے نہیں لگتا کہ یہ ہندوستان جیسی جمہوریت کے لیے بہت زیادہ یقین دہانی کا اشارہ ہے۔ درحقیقت یہ غلط معلومات کے پھیلاؤ کو اور بھی بدتر بناتا ہے۔ مزید برآں، بی این ایس ایس کا استعمال پریشان کن ہے کیونکہ یہ انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کے تحت مقرر کردہ انٹرنیٹ سروسز کو بلاک کرنے یا بند کرنے کی تفصیلی دفعات سے باہر ہے۔’

شیشو نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلے ہی انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے کے ایگزیکٹو کے اختیارات اور ان احکامات پر نظرثانی کے طریقہ کار پر رہنما خطوط جاری کر دیے ہیں۔ لیکن دفعہ 163 کے تحت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس کی طرف سے جاری کردہ احکامات پر نظرثانی کرنے بہت کمزور سسٹم ہے۔

دفاع

سری نگر میں مقیم وکیل عمیر رونگا نے انتظامیہ کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وی پی این پر پابندی جموں و کشمیر جیسے حساس خطے میں قومی سلامتی کے مفاد میں ایک ضروری اور مناسب اقدام ہے۔

انہوں نے کہا،’اگرچہ وی پی این کااستعمال جائز ہے، لیکن ان کا غلط استعمال تنازعات سے متاثرہ یا سکیورٹی سے متعلق حساس علاقوں میں اہم خطرات کا باعث بنتا ہے جو نگرانی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کمزور کر سکتا ہے، سائبر کرائم کو آسان بنا سکتا ہے، قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، اور حکومتی پابندیوں کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔

رونگا نے کہا، ‘وی پی این پر پابندی لگانا ایک معقول ردعمل ہے جب تک کہ سیکورٹی کی صورتحال (جموں و کشمیر میں) مستحکم نہیں ہو جاتی۔ یہ یقینی بناتا ہے کہ قومی مفادات، عوامی تحفظ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیتوں پر کسی بھی طرح سے سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)