
مرکزی حکومت نے 24 اپریل کو بلائی گئی آل پارٹی میٹنگ میں کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں کاروبار کی ترقی اور سیاحت کی واپسی سمیت سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود پہلگام دہشت گردانہ حملہ ایک ‘چوک’ تھی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے میٹنگ میں پی ایم مودی کی غیر حاضری اور حملے کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر شروع کی گئی نفرت انگیز مہم پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

مرکزی وزیر کرن رجیجو۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: مرکزی حکومت نے جمعرات (24 اپریل) کو بلائی گئی آل پارٹی میٹنگ میں کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں کاروبارکی ترقی اور سیاحت کی واپسی سمیت ‘سب کچھ ٹھیک چلنے کے باوجود پہلگام دہشت گردانہ حملہ ایک’چوک’تھی جس میں 26 شہریوں کی جان چلی گئی۔
دی وائر کو پتہ چلا ہے کہ اجلاس کے دوران اپوزیشن ارکان نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے میں حکومت کی حمایت کا وعدہ کیا،اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم مودی کی اجلاس سے غیر حاضری اور حملے کی وجہ بننے والی کوتاہیوں پر بھی سوال اٹھائے، ساتھ ہی حملے کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر شروع کی گئی نفرت انگیز مہم پر تشویش کا اظہار کیا۔
مودی،جنہوں نے جمعرات کو بہار کے مدھوبنی میں پنچایتی راج کے قومی دن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘جن لوگوں نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی ہے، انہیں ان کی سوچ سے بھی بڑی سزا ملے گی’ کی قسم کھائی تھی، میٹنگ میں موجود نہیں تھے اور انتخابی ریاست میں اپنے پہلے سے طے شدہ پروگراموں میں شرکت کرتے رہے۔
مرکزی حکومت اور بہار میں بی جے پی کی اہم اتحادی جماعت جنتا دل (یونائیٹڈ) کے نمائندے بھی ریاست میں وزیر اعظم کی موجودگی کی وجہ سےآل پارٹی میٹنگ میں موجود نہیں تھے۔
قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر میں برسراقتدار نیشنل کانفرنس بھی میٹنگ میں موجود نہیں تھی اور حکومت نے اس سلسلے میں پارٹی کو کوئی پیغام بھی ارسال نہیں کیا۔
‘کوتاہی’
میٹنگ کے بعد رجیجو نے کہا کہ وزیر دفاع نے سیکورٹی معاملوں کی کابینہ کمیٹی (سی سی ایس) کی طرف سے کی گئی کارروائی کے بارے میں لیڈروں کو جانکاری دی، جبکہ انٹلی جنس بیورو (آئی بی) اور وزارت داخلہ کے حکام نے لیڈروں کو بتایا کہ حالیہ برسوں میں’سب کچھ ٹھیک ہونے’ کے باوجود یہ واقعہ ایک’چوک’ تھی۔
میٹنگ کے بعد انہوں نےصحافیوں کو بتایا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اور حکومت نے سخت سے سخت کارروائی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘پچھلے کچھ سالوں سے کاروبار اچھا چل رہا تھا، سیاح آ رہے تھے، اس واقعے نے اس ماحول کو خراب کر دیا ہے اور سب نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ ملک کو دہشت گردی کے خلاف ایک ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور ایک آواز میں بولنا چاہیے۔’
رجیجو نے کہا کہ آئی بی اور وزارت داخلہ کے عہدیداروں نے پارٹی لیڈروں کو اس بارے میں بھی مطلع کیا کہ ‘کہاں کوتاہیاں ہوئیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ آئی بی اور وزارت داخلہ نے سمیت ہمارے حکام نے بھی اس بارے میں جانکاری دی کہ یہ واقعہ کیسے ہوا اور کہاں چوک ہوئی’۔
حکام نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ،’جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مرکزی سڑک پر نہیں ہے، آپ کو پیدل یا گھوڑے سے جانا ہوگا، (اور مرکزی سڑک) گھاس کے میدان سے تقریباً 2-2.5 گھنٹے کی دوری پر ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔ تمام فریقین کو بتایا گیا کہ سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود یہ واقعہ ایک چوک ہے اور اس سے سب کو دکھ ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘تمام جماعتوں نے کہا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف حکومت کے ساتھ ہیں اور پورا ملک حکومت کے ساتھ ہے۔’
دی وائر کو موصولہ جانکاری کے مطابق حزب اختلاف کے ارکان نے سکیورٹی لیپس اور انٹلی جنس کی ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا۔
ذرائع نے بتایا کہ میٹنگ کے دوران پارٹی لیڈروں کو بتایا گیا کہ جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے – پہلگام کی وادی بیسرن- عام طور پر جون کے آس پاس سیاحوں کے لیے کھول دیا جاتا ہے اور جب سیاحوں کو وہاں لے جایا جاتا ہے تو مقامی حکام کو مطلع کرنا ضروری ہوتا ہے – جو نہیں کیا گیا اور مقامی حکام کو مطلع کیے بغیر20 اپریل سےسیاحوں کے چھوٹے-چھوٹے گروپوں کو علاقے میں بھیج دیا گیا۔
عام آدمی پارٹی (عآپ) کے ایم پی سنجے سنگھ نے میٹنگ کے بعد دی وائر کو بتایا،’آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک حساس جگہ ہے اور اسے صرف امرناتھ یاترا کے دوران ہی کھولا جاتا ہے جب وہاں سخت سیکورٹی ہوتی ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘تو 20 اپریل کو بغیر کسی کو پتہ چلے کیسے کھول دیا گیا؟ کیا یہ مذاق ہے؟بنا کسی جانکاری کے500-1000 لوگ وہاں کیسے پہنچ گئے؟ اگردہشت گردوں کو معلوم تھا کہ یہ 20 تاریخ کو کھولا گیا تو ہماری حکومت کو کیسے پتہ نہیں چلا؟ انہوں نے اس پر صرف گول مول جواب دیا۔’
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیامنٹ اسد الدین اویسی، جنہوں نے جمعرات کو سوال اٹھایا تھا کہ صرف پانچ یا اس سے زیادہ ممبران پارلیامنٹ والی جماعتوں کو ہی کیوں مدعو کیا جا رہا ہے، شاہ کی طرف سے دعوت نامہ جاری کرنے کے بعد میٹنگ میں شرکت کی۔
میٹنگ کے دوران اٹھائے گئےسوالات کا جواب دیتے ہوئے اویسی نے نامہ نگاروں سے کہا،’سی آر پی ایف (سینٹرل ریزرو پولیس فورس) کو میدان میں کیوں تعینات نہیں کیا گیا؟ جنوری میں سی آر پی ایف کے دستوں کو کیوں ہٹایا گیا؟’
انھوں نے کہا، ‘کوئیک ری ایکشن ٹیم کو وہاں پہنچنے میں ایک گھنٹہ کیوں لگا – اور انھوں نے لوگوں سے ان کا مذہب پوچھ کر انھیں گولی مار دی۔ 2000 میں پہلگام میں 30 افراد مارے گئے تھے۔ میں نے پوچھا کہ اس واقعے کے بعد رپورٹ کا کیا ہوا؟’
سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم
دی وائر کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اویسی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد چندر پوار) کی سپریا سولے ، عآپ کے سنجے سنگھ اور انڈین یونین مسلم لیگ کے حارث بیرن سمیت اپوزیشن ارکان نے بھی مرکزی دھارے کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلائی جا رہی نفرت انگیز مہم پر تشویش کا اظہار کیا ہے،جس میں بی جے پی کے اپنے ہینڈل بھی شامل ہیں۔
منگل کو بی جے پی کے چھتیس گڑھ ایکس ہینڈل نے حملے کے متاثرین کی ایک اے آئی جنریٹیڈا سٹوڈیو گھبلی تصویر پوسٹ کی، جس کا کیپشن تھا-‘مذہب پوچھا، ذات نہیں۔’
اس پوسٹ پر حزب اختلاف کے رہنماؤں نے تنقید کی،اور بی جے پی پر حملے میں جان گنوانے والوں کے تئیں ‘بے حسی’ کا الزام لگایا۔ سنگھ نے کہا،’ہم نے سوشل میڈیا پر خود ان کی جانب سے پوسٹ کیے جا رہے کارٹونوں کے ساتھ نفرت انگیز مہم کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔’
اویسی نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے کشمیریوں اور کشمیری طلباء کے خلاف چلائے جارہے ‘جھوٹے پروپیگنڈے’ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیریوں اور کشمیری طلباء کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ بند ہونا چاہیے۔ اگر سوشل میڈیا اور ٹی وی چینل کے اینکر اس کو ہندومسلم ایشو بناتے رہیں گے تو لشکر طیبہ مسکرائے گا، پاکستان مسکرائے گا۔ میں اس بات کی مذمت کرتا ہوں کہ دہشت گردوں نے لوگوں کو ان کا مذہب پوچھ کرکیسےقتل کیا۔ لیکن اگر آپ جواب میں ایسا کرتے ہیں تو آپ ان کی مدد کر رہے ہیں۔’
وزیر اعظم کی عدم موجودگی
دی وائر کو موصولہ معلومات کے مطابق، کم از کم چار اپوزیشن ارکان نے بھی اجلاس میں وزیراعظم کی عدم موجودگی کا معاملہ اٹھایا۔ میٹنگ کے بعد کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے کہا کہ میٹنگ میں وزیر اعظم کی موجودگی ضروری تھی، لیکن وہ غیر حاضر رہے۔
کھڑگے نے کہا، ‘ہم نے یہ سوال پہلے بھی اٹھایا ہے۔ ایسے اہم اجلاس میں وزیراعظم کی موجودگی ضروری ہے، کیونکہ ان کا فیصلہ حتمی ہوتاہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہم انہیں سب کچھ بتا دیں گے’۔ لیکن ہم نے کہا کہ سمجھانا ایک چیز ہے اور وزیر اعظم کا خود سننا اور بات ہے۔’
عآپ کے سنجے سنگھ نے کہا،’وہ بہار میں انگریزی اور ہندی میں تقریر کر رہے ہیں،لیکن یہاں نہیں آئے۔’انہوں نے کہا، ‘لیکن حکومت نے جواب دیا کہ ہم پہلے بھی ایسے اجلاسوں کی صدارت کر چکے ہیں اور آپ کے تحفظات ان تک پہنچائیں گے۔’
میٹنگ کے بعد رجیجو نے کہا کہ پارٹی کے سبھی لیڈروں نے ایک آواز میں بات کی۔
انہوں نے کہا، ‘کچھ مسائل اٹھائے گئے اور وضاحت کی گئی۔ ملاقات مثبت انداز میں اختتام پذیر ہوئی۔ مجھے یقین ہے کہ ہم نے اس اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کا جو جذبہ اپنایا ہے وہ بہت اہم ہے اور ہم نے اپیل کی ہے کہ ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے اور ملک کو متحد ہونا چاہیے۔ سب نے یہ پیغام دیا۔ ہم متحد ہو کر پاکستان اور اس کے حامیوں سے اس واقعے کا بدلہ لیں گے۔’
کھڑگے، سنگھ، اویسی اور سولے کے علاوہ اس میٹنگ میں لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی، پرفل پٹیل (این سی پی)، سسمیت پاترا (بیجو جنتا دل)، لوو سری کرشن دیورائیلو (تیلگو دیشم پارٹی)، سری کانت شندے (شیو سینا)، سدیپ بندوپادھیا (ترنمول کانگریس)،پرین چند گپتا(راشٹریہ جنتادل)، تھروچی شیوا (دراویڑا منیترا کزگم)، رام گوپال یادو (سماجوادی پارٹی) اور وکاس رنجن بھٹاچاریہ (سی پی آئی (ایم)شامل ہوئے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)