
پہلگام حملے میں ہلاک ہونے والوں میں سید عادل حسین واحد کشمیری شہری تھے۔ وہ بیسرن اور ہیلتھ ریزورٹ کے آس پاس سیاحوں کو گھڑ سواری کرواتے تھے۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ جب تک مجرموں کو سزا نہیں ملتی حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے۔
(جموں و کشمیر): 55 سالہ بے بی جان، ایک مدھم روشنی والے کمرے کے ایک کونے میں بیٹھیں اپنے بڑے بیٹے سید عادل حسین کی لاش کا انتظار کرتے ہوئے آنسو بہا رہی ہیں۔ سید پہلگام دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے 26 افراد میں سے ایک ہیں۔
عادل، جن کی اکلوتی نوزائیدہ بیٹی حال ہی میں فوت ہوئی تھی، منگل (22 اپریل) کو جنوبی کشمیر کے ریزورٹ پر حملے میں مارے گئے واحد کشمیری شہری تھے۔ جن حالات میں انہیں قتل کیا گیا وہ شاید حملہ آوروں کے عزائم کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں عادل کی چچی خالدہ پروین نے دی وائر کو بتایا، ‘ہم صرف عادل کی موت پر سوگوار نہیں ہیں، ہم پہلگام میں مرنے والے تمام سیاحوں کے لیے رو رہے ہیں۔ پورا کشمیر سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ حکومت تب تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے جب تک کہ مجرموں کو سزا نہیں مل جاتی۔’
عادل کی والدہ بے بی جان، جو صرف گوجری زبان بولتی ہیں، نے بتایا کہ ان کا بیٹا منگل کی صبح گھر سے نکلا تھا – اننت ناگ ضلع کے ہاپت نار گاؤں سے- پہلگام کے لیے، جہاں وہ یومیہ اجرت پر کام کرتا تھا۔ عادل جنوبی کشمیر کے ہیلتھ ریزورٹ میں بیسرن اور دیگر مقامات پر سیاحوں کو گھڑ سواری کرواتاتھا۔
جان نے کہا، ‘گھوڑے کا مالک اسے روزانہ 300-400 روپے دیتا تھا۔ سردیوں میں وہ کام کے لیے جموں جایا کرتا تھا۔ اس طرح وہ ہمارا خاندان چلا رہا تھا۔ میں نہیں جانتی کہ ہم اس کے بغیر کیسے زندہ رہیں گے۔ ہماری دنیا ہی الٹ گئی ہے۔’
عادل کے والد سید حیدر حسین شاہ نے بتایا کہ ان کے دوسرے بیٹے سید نوشاد حسین نے جو پہلگام میں پرائیویٹ ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں، منگل کی شام تقریباً چار بجے انہیں فون کیا اور پوچھا کہ کیا عادل کام پر گیا ہے۔ اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے، عادل ہر شام اپنے گھر ہپتنار لوٹ جاتا تھا، جبکہ ان کے بھائی نوشاد اکثر ریزورٹ میں ٹھہر جاتے تھے کیونکہ سیاح اپنے ہوٹلوں میں دیر سے لوٹتے تھے۔
شاہ نے کہا، ‘مجھے لگا کہ کچھ گڑبڑ ہے اور میں نے عادل کو فون کیا، لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا۔ اس کے بعد، میرے ایک بھتیجے نے جو پہلگام میں کام کرتا ہے نے فون کیا اور مجھے بتایا کہ عادل حملے میں زخمی ہوگیا ہے۔ رات دس بجے کے قریب پتہ چلا کہ عادل اب نہیں رہا۔’
پہلگام میں ٹٹو والا ایسوسی ایشن کے صدر عبدالواحد وانی نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ واقعہ کے تقریباً 45 منٹ بعد بیسرن میں موقع پر پہنچے۔
معلوم ہو کہ مرکزی پہلگام سے سات کلومیٹر کے کچے پگڈنڈی کے آخر میں واقع مشہور آف بیٹ گھاس کا میدان، سڑک کے راستے نہیں جایا جاسکتا، وہاں تک پہنچنے کا واحد راستہ پیدل، گھوڑے پر یا ہیلی کاپٹر سے ہے۔
وانی نے کہا، ‘میں نے مقامی پولیس سے سیاحوں کو بیسرن بھیجنے سےروکنے کے لیے کہا، پورے میدان میں لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ ہم نے زخمیوں کو گھوڑوں پر پہلگام بھیجا، جہاں سے انہیں مختلف اسپتالوں میں بھیجا گیا۔ جب حملہ ہوا، اس وقت علاقے میں تقریباً 1000-1500 لوگ موجود تھے۔’
وانی نے کہا،’یہ کھلتے ہوئے باغیچہ پر اولے گرنے کی طرح ہے۔ پہلگام میں سینکڑوں لوگ سیاحت کے شعبے میں کام کر کے اپنی روزی روٹی کماتے تھے۔ یہ حملہ ہماری روزی روٹی کو تباہ کرنے والا ہے۔’
رپورٹ کے مطابق، حملے میں ہلاک ہونے والے 26 افراد میں ایک نیپالی شہری بھی شامل ہے۔ سترہ دیگر زخمی ہیں، جن میں سے دو کی حالت نازک ہے۔ ایک ٹٹو سوار جو حملے کے وقت بیسرن میں تھا نے بتایا کہ فائرنگ پانچ سے سات منٹ تک جاری رہی اور حملہ آوروں نے سیاحوں کو بے ترتیبی سے نشانہ بنایا۔
حملہ آوروں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں قائم لشکر طیبہ گروپ کی شاخ دی ریزیسٹنس فرنٹ کے رکن ہیں۔
انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ’میں چیخیں سن سکتا تھا اور میں چھپ کر بھاگا۔ میں نے حملہ آوروں کو نہیں دیکھا، لیکن ہر طرف سیاح بھاگ رہے تھے۔ بہت سے سیاح گر گئے اور زخمی ہو گئے کیونکہ وہ بھاگتے ہوئے ہجوم کے ساتھ تال میل برقرار نہیں رکھ پائے۔’
بدھ (23 اپریل) کو جب عادل کے گھر والے اس کی لاش گھر واپس آنے کا انتظار کر رہے تھے، گاؤں میں ایک خوفناک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سوگوار خاندان کے خستہ حال، یک منزلہ مکان کے لان میں سینکڑوں نوجوان اور بزرگ بوڑھے والد، والدہ اور بہنوں کو تسلی دینے کے لیے جمع تھے جبکہ پڑوسی اور رشتہ دار جنازے کی تیاری کر رہے تھے۔
گھر کے ایک طرف مرد گروپوں میں گھوم رہے تھے اور دھیمی آواز میں آپس میں باتیں کر رہے تھے تو دوسری طرف گھر کے لان میں بچھی ہوئی چٹائیوں پر عورتیں بیٹھی خاموشی سے آنسو بہا رہی تھیں۔
خستہ حال عمارت سوگواروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور لوگ گھر کی طرف جانے والی ٹوٹی ہوئی سیڑھیوں پر بھی بیٹھے تھے۔ گھر کی لکڑی کی اٹاری کی کھڑکی سے ایک نوجوان لڑکی نے اپنی گردن باہر نکالی اور اپنے سر کے دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھے۔ عادل کی خالہ پروین نے عادل کی حال ہی میں ہوئی شادی کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ‘یہ لڑکی حال ہی میں اپنے دولہا کے ساتھ اس گھر آئی تھی۔ اب وہ اس کی لاش کا انتظار کر رہی ہے۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )