پہلگام حملہ: کم از کم دو حملہ آوروں نے غیر مسلموں کو چن کر گولی ماری تھی

پہلگام کی بیسرن وادی میں 22 اپریل کو ہوئے دہشت گردانہ حملے میں کم از کم 26 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی  ہے۔عینی شاہدین کے مطابق، کم از کم دو حملہ آوروں نے غیر مسلموں کو چن کر نشانہ بنایا۔ دہشت گردوں نے لوگوں کی مذہبی شناخت کی تصدیق کی اورنزدیک  سے گولی مار ی۔

پہلگام کی بیسرن وادی میں 22 اپریل کو ہوئے دہشت گردانہ حملے میں کم از کم 26 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی  ہے۔عینی شاہدین کے مطابق، کم از کم دو حملہ آوروں نے غیر مسلموں کو چن کر نشانہ بنایا۔ دہشت گردوں نے لوگوں کی مذہبی شناخت کی تصدیق کی اورنزدیک  سے گولی مار ی۔

پہلگام کا سینٹرل مارکیٹ، جو اس وقت عام طور پر سیاحوں کی آمد سے گلزار رہتا ہے، بدھ (23 اپریل) کو خالی -خالی نظر آیا۔ (تصویر: جہانگیر علی)

پہلگام کا سینٹرل مارکیٹ، جو اس وقت عام طور پر سیاحوں کی آمد سے گلزار رہتا ہے، بدھ (23 اپریل) کو خالی -خالی نظر آیا۔ (تصویر: جہانگیر علی)

پہلگام: وادی بیسرن میں منگل (22 اپریل) کی دوپہر کو ہوئے حملے میں کم از کم دو بندوق بردار ایسے تھے جو چن -چن کر غیرمسلموں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ دہشت گردوں کی تعداد چار/پانچ بتائی جا رہی ہے۔ اس حملے میں کم از کم 26 شہری مارے گئے ہیں۔

دی وائر کو موصولہ باوثوق  ذرائع اور عینی شاہدین کے بیانات- جن میں سے کچھ کی حکام نے تصدیق  بھی کی ہے- اس واردات کی بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔ کئی لوگوں کو ان کی غیرمسلم شناخت کی تصدیق کرنےکے بعد قریب سے گولی ماری گئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور اس حملے کو باڈی کیمروں سے ریکارڈ بھی کر رہے تھے۔

ایک سرکاری ذرائع کے مطابق، حملہ دوپہرتقریباً 2:50 بجے شروع ہوا۔

جس میدان میں حملہ ہوا وہ پہلگام کے مرکزی علاقے سے تقریباً سات کلومیٹر دور ہے اور ایک طرف گھنے جنگل سے گھرا ہوا ہے۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ حملے کے وقت جائے وقوع پر تقریباً 1500 سے 2500  لوگ موجود تھے، جن میں سیاح، گھوڑا چلانے والے، فوٹوگرافر، شال بیچنے والے، چائے بیچنے والے اور بھیل پوری بیچنے والے شامل تھے۔

‘منی سوئٹزرلینڈ’ کے نام سے مشہور اس گراؤنڈ میں داخل ہونے کے لیے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔ زوربنگ اور زپ لائن جیسی سرگرمیاں وہاں جاری تھیں اور کچھ بچے ٹرمپولین پر کود رہے تھے، تبھی یہ حملہ ہوا ۔ کچھ سیاح روایتی لباس میں اپنی تصویریں بھی بنوا رہے تھے۔

گزشتہ 23 اپریل 2025 کو اس مقام پر تعینات ہندوستانی فوج کے سپاہی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

گزشتہ 23 اپریل 2025 کو اس مقام پر تعینات ہندوستانی فوج کے سپاہی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

ایک عینی شاہد کے مطابق، حملہ آور جیسے ہی جنگل سے نکل کر میدان میں آئے، انہوں نے چاروں طرف  پھیل کرحملہ کیا اور کئی سمتوں سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ایک ذرائع نے بتایا کہ حملہ تقریباً 30 سے ​​40 منٹ تک جاری رہا۔

ایک نوجوان نے کہا،’ایک شخص کو کلمہ پڑھنے کو کہا گیا۔ جب وہ ایسا کرنے میں ناکام رہا تو اسے سر میں گولی مار دی گئی۔ جو لوگ کلمہ پڑھ پائے، انہیں بخش دیا گیا۔’

نوجوان نے یہ بات اپنے بھائی کے حوالے سے بتائی، جو حملے کے وقت بیسرن میں موجود تھا اور اس نے کم از کم ایک حملہ آور کو دیکھا۔ نوجوان کا بھائی، جس کا نام سیکورٹی وجوہات کی بناء پر ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے، ان بہت سے دہاڑی مزدوروں میں سے ایک ہے جو اپنی روزی کمانے کے لیے بیسرن میں کام کرتے ہیں۔

ایک اعلیٰ ذرائع نے بتایا کہ حملہ آور صرف انہی لوگوں کو نشانہ نہیں بنا رہے تھے جو مسلمان ہونے کا ثبوت نہیں دے سکے۔

‘کچھ لوگوں کو ان کے لباس کی وجہ سے بھی نشانہ بنایا گیا۔ ایک عورت نے سیندور اور بندی لگا رکھی تھی۔ ایک حملہ آور نے بغیر کوئی سوال کیے اس کے شوہر کو قریب سے گولی مار دی۔’ذرائع نے کہا۔

حکام کے مطابق، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی حملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور کچھ کارکنوں سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ یہ حملہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں کشمیر میں مسلح شورش کے بعد سے سیاحوں پر سب سے مہلک حملہ مانا جا رہاہے۔

ایک اور عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی وائر سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب حملہ ہوا تو وہ بیسرن میں چائے کے اسٹال پر چائے پی رہا تھا۔

‘سب سےپہلے میں نے چیخیں سنی کہ دہشت گردوں نے سیاحوں پر گولیاں چلائی ہیں۔ تھوڑی دور سے میں نے دیکھا کہ سب اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے اور گولیوں کی آواز وقفے وقفے سے فضا میں گونج رہی تھی۔ میں ٹی اسٹال سے اس وقت باہر نکلا جب فائرنگ بند ہوگئی۔’

ایک اور عینی شاہد نے بتایا کہ حملہ آورنے  خواتین اور بچوں کو نقصان نہ پہنچانے کا خیال رکھا۔ اس دعوے کی تصدیق حکام نے بھی کی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ،’حملہ آوروں نے میدان میں کافی وقت گزارا اور اپنے شکار کا انتخاب بہت احتیاط سے کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے پہلے  سے ریکی  کی تھی، ٹریننگ لی تھی اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ آئے تھے۔’

حملے میں ہلاک ہونے والے واحد کشمیری مسلمان سید عادل حسین کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ حملہ آوروں سے کچھ سیاحوں کو بچانے کی کوشش کررہے تھے، تبھی انہیں گولیاں لگیں۔

پہلگام دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے سید عادل حسین کے جنازے میں شریک لوگ۔ (تصویر: پی ٹی آئی/ایس عرفان)

پہلگام دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے سید عادل حسین کے جنازے میں شریک لوگ۔ (تصویر: پی ٹی آئی/ایس عرفان)

حملے کے دوران شوٹ کیے گئے ایک ویڈیو میں میدان میں دو مختلف گولیوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔ تاہم، پولیس نے کہا ہے کہ حملہ آوروں کے پاس اے کے -47 رائفلیں تھیں۔

جموں و کشمیر پولیس نے کم از کم تین مشتبہ پاکستانی حملہ آوروں کے اسکیچ جاری کیے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس حملے میں ملوث تھے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس حملے کو پاکستان کے لشکر طیبہ سے منسلک ٹی آر ایف  نے انجام دیاہے۔

ایسا مانا جا رہا ہے کہ یہ تین مشتبہ افراد حال ہی میں جنوبی کشمیر کے اننت ناگ اور پلوامہ اضلاع سے دو مقامی دہشت گردوں کے ساتھ کشمیر میں داخل ہوئے تھے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)