منی پور تشدد کے دو سال: ’حکومت واقعی امن چاہتی ہے تو ہمیں کتابیں دے، بندوق نہیں‘

تشدد سے متاثرہ منی پور میں ریلیف کیمپوں کی صورتحال اس قدر دلدوز ہے کہ کئی لوگ خودکشی کر چکے ہیں یا میڈیکل ایمرجنسی میں اپنی جان گنوا چکے ہیں ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف دو وقت کا کھانا فراہم کرنا کافی نہیں ہے، انہیں تشدد سے پہلے جیسی معمول کی زندگی واپس چاہیے۔

تشدد سے متاثرہ منی پور میں ریلیف کیمپوں کی صورتحال اس قدر دلدوز ہے کہ کئی لوگ خودکشی کر چکے ہیں یا میڈیکل ایمرجنسی میں اپنی جان گنوا چکے ہیں ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف دو وقت کا کھانا فراہم کرنا کافی نہیں ہے، انہیں تشدد سے پہلے جیسی معمول کی زندگی واپس چاہیے۔

منی پور میں ریلیف کیمپ میں رہنے والے لوگ معمول کی زندگی کے منتظر ہیں۔ (تصویر: یاقوت علی)

منی پور میں ریلیف کیمپ میں رہنے والے لوگ معمول کی زندگی کے منتظر ہیں۔ (تصویر: یاقوت علی)

بشنو پور (منی پور): ایک بڑے ہال کو پتلے، بوسیدہ پردوں سے کئی چھوٹے کمروں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ہوا میں بدبو پھیلی ہوئی ہے۔ بہت بھیڑ ہے، اگر کہیں کہ سانس لینے کی بھی جگہ نہیں ہے، تو غلط نہ ہوگا ۔ اپنے گھروں سے نکالے گئےمیتیئی خاندان اب بشنو پور کے موئرانگ شہر کے موئرانگ کالج کے اس ہال میں رہنے کو مجبور ہیں، جہاں بڑی گہما گہمی ہے۔

اس کالج میں527 بے گھر لوگ تنگ حالات میں رہ رہے ہیں – جہاں صرف 15 بیت الخلاء ہیں۔ بنیادی سہولیات کی کمی نے صحت کے مسائل پیدا کر دیے ہیں اور آمدنی کا کوئی مستحکم ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ  پوری طرح سے سرکاری  امداد پر منحصر ہیں۔ ریلیف کیمپوں کی صورتحال اس قدر دلدوز ہے کہ کئی لوگ خودکشی یا میڈیکل ایمرجنسی میں اپنی جان گنوا چکے ہیں –  حالانکہ حکومت نے ابھی تک ان پر کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں۔

دی وائر نے ایسے ہی ایک سروائیور، 29 سالہ لوئیٹونگ بام ناناؤ سے بات کی، جو موئرانگ کے علاقے میں ایک ریلیف کیمپ میں رہتے ہیں۔ ناناؤ نے گزشتہ سال اپنے خاندان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کے بعد خودکشی کی کوشش کی تھی۔

انہوں نے دی وائر کو بتایا،’میرے بچوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ میں کما نہیں سکتا تھا اور میں اس بات  سے صدمے میں  تھا کہ ہماری زندگی پوری طرح سے کیسے بدل گئی ہے۔ مجھے لگا کہ میرے پاس اپنی جان لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔’

لوئیٹونگ بام ناناؤ منی پور کے ایک ریلیف کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ (تصویر: یاقوت علی)

لوئیٹونگ بام ناناؤ منی پور کے ایک ریلیف کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ (تصویر: یاقوت علی)

ناناؤ کو کیمپ کے نگراں نے بچایا، جس نے بعد میں اس طرح کی مزید کوششوں کو روکنے کے لیے اس کے کمرے سے پنکھا ہٹوا دیا۔ آج، ناناؤ اپنے خاندان کو زندہ رہنے میں مدد کرنے کے لیے اندرونی طور پر بے گھر افراد کے ساتھ کام کرنے والی این جی اوز کو کریڈٹ دیتے ہیں۔

موئرانگ شہر میں کئی امدادی کیمپ ہیں کیونکہ یہ کُکی اکثریتی چوڑا چاند پور کے قریب ترین علاقوں میں سے ایک ہے جہاں یہ میتیئی خاندان کبھی رہتے تھے اور تشدد کے بعد انہیں وہاں سےبھاگنا پڑا تھا۔

اعلیٰ قیادت کی یقین دہانیوں کے باوجود تشدد سے تباہ حال ریاست میں کوئی تبدیلی نہیں آئی

جب یہ رپورٹر 27 مارچ کی شام کو موئرانگ کالج پہنچا تو ریلیف کیمپ میں موجود ہر شخص اپنے اہل خانہ کے لیے رات کا کھانا لینےموئرانگ کالج کے مین گیٹ کی طرف دوڑ رہا تھا۔ کیمپ میں دال اور چاول ہی روزانہ کی خوراک ہیں۔ ہال میں داخل ہوتے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ کسی کو بھی کسی قسم کی سہولت نہیں مل رہی۔

یہ صرف ایک ریلیف کیمپ یا ایک شخص کی کہانی نہیں ہے۔ منی پور میں بے گھر ہونے والے ہر شخص کے پاس کچھ کھونے کی ایک کہانی اور ایک موہوم سی امید ہے  –  زندہ رہنے کی، اپنے گاؤں واپس لوٹنے کی اور حالات کے معمول پر آنے کی۔ پھر بھی،یہ امیدیں آنسوؤں میں بدل رہی ہیں کیونکہ اعلیٰ قیادت کی یقین دہانیوں کے باوجود تشدد سے تباہ حال ریاست میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ لوگ صرف سانس لے رہے ہیں، اصل میں جی  نہیں رہے ہیں۔

منی پور کے ایک ریلیف کیمپ میں بے گھر خاندانوں کو روزگار شروع کرنے میں مدد کرنے کے لیےایک این جی او کی طرف سے فراہم کردہ ہتھ کرگھا۔ (تصویر: یاقوت علی)

منی پور کے ایک ریلیف کیمپ میں بے گھر خاندانوں کو روزگار شروع کرنے میں مدد کرنے کے لیےایک این جی او کی طرف سے فراہم کردہ ہتھ کرگھا۔ (تصویر: یاقوت علی)

کاجل اور ان  کی فیملی کھانا کھا رہے ہیں۔ کاجل اپنے خاندان کے حالات کے بارے میں غصے اور اداسی کے ساتھ بولتی ہیں۔ ایک ہی جدوجہد کو بار بار دہرانے سے اس کے دکھ میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہیں اب یقین نہیں ہے کہ مدد کبھی ان  تک پہنچ پائے گی۔

کاجل کہتی ہیں،’میں نے ملک کے سب سے طاقتور لیڈروں میں سے ایک راہل گاندھی سے ملاقات کی، انہوں نے مجھے بتایا کہ حالات جلد بہتر ہو جائیں گے۔ میرے خاندان کے لیے کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔’

غور طلب ہے کہ 3 مئی 2023 سے پہلے کاجل کُکی اکثریتی چوڑا چاند پور میں رہتی تھیں۔ کُکی اب وادی امپھال تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے اور میتیئی پہاڑیوں پر نہیں جا سکتے، جس کی وجہ سے کاجل اپنے گھر سے پوری طرح سے کٹ گئی ہے۔

کاجل کہتی ہیں،’میری ملاقات راہل گاندھی سے 2023 میں ہوئی، جب میں بی اے کے پہلے سمسٹر میں تھی۔ میں نے انہیں اپنی جدوجہد کے بارے میں بتایا – اور صرف اپنی جدوجہد کے بارے میں نہیں، میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ چوڑا چاند پور کے حالات پر بھی توجہ دیں، کیونکہ میں جانتی تھی کہ وہاں بھی لوگوں کی تکالیف اتنی ہی شدید ہیں۔’

کاجل 2023 میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کے ساتھ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

کاجل 2023 میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کے ساتھ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

کاجل نے جس درد کا اظہار کیا ہے وہ صرف ان کاذاتی  دردنہیں ہے، یہ منی پور میں ہونے والے بڑے سانحے کی عکاسی کرتا ہے۔ آج ریاست نہ صرف جغرافیہ کے لحاظ سے بلکہ شدید طورپر فرقہ وارانہ خطوط پر بھی منقسم ہے۔ اب غیر مرئی سرحدیں میتیئی کےاکثریتی وادی کوکُکی آباد پہاڑیوں سے الگ کرتی ہیں۔ جبکہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے عوامی طور پر ریاست بھر میں آزادانہ نقل و حرکت کی اپیل کی ہے، لیکن زمینی حقیقت اب بھی سنگین ہے۔ ایک دوسرے کے علاقے میں داخل ہونا اب بھی خطرناک ہے، یہاں تک کہ جان لیوا بھی ہے۔

کاجل منی پور کے ایک ریلیف کیمپ میں رہ رہی ہیں۔ (تصویر: یاقوت علی)

کاجل منی پور کے ایک ریلیف کیمپ میں رہ رہی ہیں۔ (تصویر: یاقوت علی)

تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور انتظامیہ جیسی ضروری خدمات امپھال میں مرکوز ہیں، جو اب کُکی آبادی سے خالی شہر ہے۔ جس کی وجہ سے پہاڑی اضلاع کے ہزاروں لوگوں کا رابطہ منقطع ہے۔ طلبہ  پڑھائی چھوڑ چکے ہیں، وہ اپنے اداروں تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ مناسب طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے کئی لوگ ریلیف کیمپوں میں اپنی جان گنوا چکے ہیں۔

یہ وہ درد ہے جس کے بارے میں کاجل بات بتاتی ہیں – ایک ایسا درد جو منی پور کی پہاڑیوں میں گونج رہا ہے۔

انہوں نے دی وائر کو بتایا کہ راہل گاندھی نے انہیں پرسکون رہنے کو کہا اور انہیں یقین دلایا کہ منی پور میں حالات معمول پر آجائیں گے، جیسا کہ تشدد سے پہلے تھا۔ انھوں نے کہا، ‘ہمارے لیے کچھ بھی نہیں بدلا ہے اور ہم اب بھی ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔’

وزیر اعظم نریندر مودی کے برعکس، گاندھی – جو کہ رائے بریلی سے رکن پارلیامنٹ اور لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر ہیں، کئی بار متاثرہ ریاست کا دورہ کر چکے ہیں۔ کاجل اور ریلیف کیمپوں کے دیگر لوگ  جانتے ہیں کہ کانگریس کے پاس اقتدار نہیں ہے – نہ مرکز میں اور نہ ہی ریاست میں۔

سپریم کورٹ کے ججوں کے دورے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا

حال کے مہینوں میں سپریم کورٹ کے ججوں کے دورے کے بعد مدد نہ ملنے کا احساس اور شدید ہوگیا ہے۔ 22 مارچ، 2025 کو جسٹس بی آر گوئی کی قیادت میں سپریم کورٹ کے چھ ججوں کے وفد نے تشدد سے متاثرہ منی پور میں ریلیف کیمپوں کا دورہ کیا،جہاں ریاست میں طویل عرصے سے جاری نسلی تنازعے سے بے گھر ہونے والی کمیونٹی کے لیے قانونی اور انسانی امداد کی منصوبہ بندی کی گئی۔

کاجل کہتی ہیں،’عدلیہ بھی آئی اور چلی گئی، اور ہم ابھی تک یہیں ہیں اور ہمارے لیے کچھ بھی نہیں بدلا۔’

جون 2023 میں منی پور کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے بے گھر ہونے والوں کے لیے عارضی مکانات کی تعمیر کا وعدہ کیا تھااور امن بحال ہونے پر انہیں ان کے آبائی گاؤں میں دوبارہ آباد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تقریباً دو سال گزرنے کے بعد بھی یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ ہزاروں لوگ اب بھی عارضی ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں – تنگ، غلیظ اور معمول  کی زندگی سے کٹے ہوئے ۔


کاجل نے التجا کی،’براہ کرم ہمیں اپنے گھر واپس جانے دیں۔ یہ وہ زندگی نہیں ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ اگر حکومت واقعی منی پور میں امن چاہتی ہے تو ہمیں اپنے ہاتھوں میں کتابیں لینی چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کو مارنے کے لیے بندوق۔ یہاں سب کچھ خون، گولیوں  اور بموں کے بارے میں  ہو گیا ہے۔’


وہ مزید کہتی ہیں،’ہم بہتر مستقبل کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے، ہر روز کچھ نہ کچھ خوفناک ہوتا ہے۔ حکومت فوری ایکشن لے۔ مائیں سکون سے سونا چاہتی ہیں۔ ہم سڑکوں پر سونا نہیں چاہتے۔ ہمیں آرام کے لیے، کم از کم ایک سال تک کا آرام، کرنے کے لیے ہم ایک محفوظ جگہ چاہتے ہیں۔’

وہ مایوسی کے ساتھ کہتی ہیں،’ہم ہندوستان کے وزیر اعظم سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ منی پور آئیں تاکہ وہ خود زمینی صورتحال کو دیکھ سکیں۔ یہاں صرف ایک منٹ گزاریں، آپ ہمارے درد کو سمجھ جائیں گے۔ ان کے غیر ملکی دوروں کے بارے میں پورا ملک جانتا ہے – براہ کرم ہمیں بھی ہندوستانی ہونے کا احساس کرائیے۔’

ریلیف کیمپ۔ (تصویر: یاقوت علی)

ریلیف کیمپ۔ (تصویر: یاقوت علی)

نقل مکانی سے شدید معاشی نقصان بھی ہوا

کاجل کنڈرگارٹن کے طالبعلموں کو پڑھا کر تقریباً 2000 روپے ماہانہ کماتی ہیں۔ یہ ان کے چار افراد کے خاندان کی کفالت کے لیے کافی نہیں ہے۔ ان  کا ایک چھوٹا بھائی ہے جو اسکول جاتا ہے۔ منی پور حکومت ریلیف کیمپوں میں رہنے والوں کے لیے مفت کلاسز کی پیشکش کر رہی ہے، لیکن کاجل تعلیم کے معیار سے مطمئن نہیں ہیں۔


انہوں نے کہا، ‘میں کالج کی طالبہ ہوں، میں اپنا بجٹ اکٹھا کر رہی ہوں، میرا بھائی 9ویں کلاس میں پڑھ رہا ہے۔ حکومت کو واقعی ہمارے لیے کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔ صرف دو وقت کا کھانا فراہم کرنا کافی نہیں ہے۔’


طویل مدتی نقل مکانی نے بھی شدیدمعاشی نقصان پہنچایا ہے۔ کاجل کا کہنا ہے کہ تشدد سے پہلے وہ پڑھائی سے تقریباً 8500 روپے ماہانہ کماتی تھیں۔ ان جیسے بہت سے لوگوں کے لیے، آمدنی میں کمی نہ صرف ذاتی جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے، بلکہ تنازعات سے متاثرہ منی پور میں روزی روٹی کے وسیع تر اختیارات کے خاتمے کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، وہ خواتین جو کبھی کسانوں کے طور پر کام کرتی تھیں، اب سڑک کے کنارے موم بتیاں بیچ رہی ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ منی پور میں زندگی بڑی حد تک بدستور برقرار ہے، یہاں تک کہ صدر راج کے تحت بھی۔ فروری میں اس اقدام کے اعلان کے بعد سے اموات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

ریلیف کیمپ کے رہائشیوں کے لیے افسوسناک بات یہ ہے کہ 3 مئی 2023 کو نسلی تشدد شروع ہونے کے بعد سے مودی نے ایک بار بھی ریاست کا دورہ نہیں کیا۔ 60000 سے زیادہ لوگ ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں، جن کے بہت سے گاؤں راکھ ہو چکے ہیں یا ان کے اصل گھروں پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ حکام امن و امان کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

جب ریاست میں این  بیرین سنگھ کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی تو مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے بار بار اس بات پر زور دیا تھا کہ ‘ڈبل انجن والی حکومت’ کامیاب رہی ہے۔

اس کے باوجود، زمینی سطح پر، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی طرف سے کئے گئے اہم وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے۔ واحد وعدہ جو پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے وہ ہے ریلیف کیمپوں میں چاول کی باقاعدہ فراہمی۔

گزشتہ 9 فروری تک وزیر اعلیٰ رہنے والے بیرین سنگھ نے بھی لوگوں کو ان کے گاؤں میں آباد کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ اس کے بجائے، پورے گاؤں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔

صدر راج میں خوف

منی پور میں صدر راج کے تحت زمینی سطح پر ایک نمایاں تبدیلی یہ ہے کہ لوگ میڈیا کے سامنے کھل کر بات کرنے سے ڈر رہے ہیں۔ عوام خاموش ہیں – یا تو وہ اپنی طرف سے بولنے کے لیے خصوصی نمائندے مقرر کرتے ہیں یا پھر وہ بولنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہے تو وہ عموماً دو وجوہات بتاتے ہیں؛

میڈیا سے بات کرنے سے کچھ نہیں بدلے گا کیونکہ حکومت کو منی پور کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

ہم حکومت سے ڈرتے ہیں۔ کھل کر بات کرنا ہمیں مشکل میں ڈال سکتا ہے۔

منی پور میں جاری تشدد میں اب تک 250 سے زیادہ لوگوں کی جان جا چکی ہے اور 60000 سے زیادہ لوگ ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ تنازعات کے علاوہ، ناقص طبی سہولیات بھی لوگوں کی جانیں لے رہی ہیں – اور  بحران کے اس وقت میں میں خاموشی میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایسی موتیں  ہو رہی ہیں جنہیں روکا جا سکتا تھا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

(پلتجر سینٹر آن کرائسس رپورٹنگ کے ساتھ شراکت میں)