آلوک ورمامعاملے  پر فیصلے کے لئے سلیکشن کمیٹی میں چیف جسٹس نہیں، اے کے سیکری ہوں گے ممبر

گزشتہ منگل کو سپریم کورٹ نے سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک کمار ورما کو ان کے اختیارات سے محروم کر کے چھٹی پر بھیجنے کے حکومت کے فیصلے کو خارج کر دیا اور ورما پر لگے الزامات کو لےکر سلیکشن کمیٹی کے ذریعے ایک ہفتے کے اندر فیصلہ لینے کو کہا تھا۔ The post آلوک ورمامعاملے  پر فیصلے کے لئے سلیکشن کمیٹی میں چیف جسٹس نہیں، اے کے سیکری ہوں گے ممبر appeared first on The Wire - Urdu.

گزشتہ منگل کو سپریم کورٹ نے سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک کمار ورما کو ان کے اختیارات سے محروم کر کے چھٹی پر بھیجنے کے حکومت کے فیصلے کو خارج کر دیا اور ورما پر لگے الزامات کو لےکر سلیکشن  کمیٹی کے ذریعے ایک ہفتے کے اندر فیصلہ لینے کو کہا تھا۔

آلوک ورما/فوٹو : پی ٹی آئی

آلوک ورما/فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: چیف جسٹس رنجن گگوئی نے آلوک ورما پر لگے الزامات کا معاملہ دیکھنے کے لئے سپریم کورٹ کے سینئر جج اے کے سیکری کو سلیکشن  کمیٹی کا ممبر بنایا ہے۔ لائیو لاء کی خبر کے مطابق چیف جسٹس نے ایسا اس لئے کیا تاکہ ‘ مفادات کے ٹکراؤ ‘ سے بچا جا سکے۔ چونکہ جسٹس رنجن گگوئی نے آلوک ورما کو سی بی آئی چیف کے طور پر  بحال کرنے کا حکم دیا تھا اس لئے انہوں نے ورما پر لگے الزامات کا معاملہ دیکھنے کے لئے دیگر جج کو مقرر کیا ہے۔

سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری / ٹرانسفر والی سلیکشن  کمیٹی میں ہندوستان کے وزیر اعظم، چیف جسٹس یا چیف جسٹس کے ذریعے نامزد سپریم کورٹ کے جج اور لوک سبھا میں حزب مخالف کے رہنما ہوتے ہیں۔ معلوم ہو کہ گزشتہ  منگل کو سپریم کورٹ نے سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک کمار ورما کو ان کے اختیارات سے محروم کرکے چھٹی پر بھیجنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کو خارج کر دیاتھا ۔

حالانکہ سپریم کورٹ  نے سی وی سی کی تفتیش پوری ہونے تک ورما پر کوئی بھی بڑا فیصلہ لینے پر روک لگا دی ہے۔ عدالت نے ڈی ایس پی ای ایکٹ کے تحت اعلیٰ اختیارات  والی کمیٹی (سلیکشن  کمیٹی یا ہائی پاورڈ کمیٹی) سے اس معاملے میں ایک ہفتے کے اندر فیصلہ لینے کو کہا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اب آلوک ورما سی بی آئی دفتر جا سکتے ہیں، لیکن کمیٹی کے آخری فیصلہ دینے تک وہ کوئی بڑا پالیسی سے متعلق  حکم نہیں دے سکتے۔ حالانکہ وہ روز مرہ کے کام کاج میں ایڈمنسٹریٹیو فیصلے لیں‌گے۔

آلوک ورما پر لگے الزامات پر فیصلہ کرنے کے لئے حکومت جلد سے جلد سلیکشن  کمیٹی کی میٹنگ بلانا چاہ رہی ہے۔ حالانکہ کمیٹی کے ممبر ملکارجن کھڑگے نے کہا ہے کہ میٹنگ میں شامل ہونے کے لئے ان کو تھوڑا وقت چاہیے۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق ذرائع نے کہا کہ حکومت نے سلیکشن  کمیٹی کے ممبروں سے جلد سے جلد ملنے کا وقت مانگا ہے۔ سی بی آئی ڈائریکٹر کو منتخب کرنے  اور تقرری  کرنے والی کمیٹی کی میٹنگ  میں حصہ لینے کے لئے منگل کی شام کو کانگریس رہنما ملکارجن کھڑگے سے رابطہ کیا تھا۔

حالانکہ کھڑگے نے کہا ہے کہ وہ ابھی فیصلہ پڑھ رہے ہیں اور میٹنگ کے لئے اضافی وقت کی مانگ کی ہے۔ معلوم ہو کہ سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما اور اسپیشل  ڈائریکٹر راکیش استھانا کے درمیان چھڑی جنگ عام ہونے کے بعد حکومت نے گزشتہ سال 23 اکتوبر کو دونوں افسروں کو ان کے حقوق سے محروم کرکے چھٹی پر بھیج دیا تھا۔ دونوں افسروں نے ایک دوسرے پر بد عنوانی کے الزام لگائے تھے۔ مرکز نے اس کے ساتھ ہی ایم ناگیشور راؤ کو جانچ ایجنسی کا عبوری ڈائریکٹر بنا دیا تھا۔

The post آلوک ورمامعاملے  پر فیصلے کے لئے سلیکشن کمیٹی میں چیف جسٹس نہیں، اے کے سیکری ہوں گے ممبر appeared first on The Wire - Urdu.

Next Article

پہلگام حملے کے بعد ہندوستان کے فیصلوں پر پاکستان کا انتباہ – اسے جنگی اقدام تصور کیا جائے گا

پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ وہ سندھ طاس آبی معاہدے کے تحت پانی کی سپلائی روکنے کی کسی بھی کوشش کو ‘جنگی اقدام’ تصور کرے گا اور پوری طاقت سے اس کا جواب دے گا۔ یہ بیان پہلگام حملے کے بعد ہندوستان  کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے اعلان کے ردعمل میں آیا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے۔

پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے۔

نئی دہلی: پاکستان کی حکومت نے جمعرات  (24 اپریل) کو کہا کہ اگر سندھ آبی معاہدے کے تحت انہیں  ملنے والے پانی کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوئی کوشش کی گئی تو اسے’ایکٹ آف وار’  یعنی جنگی اقدام تصور کیاجائے گا اور ‘پوری طاقت’ کے ساتھ اس کا جواب دیا جائے گا۔ یہ کہتے ہوئے  پاکستان کا اشارہ  ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے امکان کی جانب  بھی تھا۔

یہ انتباہ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کی  دو گھنٹے کی میٹنگ کے بعد سامنے آیا، جو پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے جواب کی تیاری کے لیے بلائی گئی تھی ۔

منگل (22 اپریل) کو 26 ہندوستانی اور ایک نیپالی شہری، جن میں زیادہ تر سیاح تھے، پہلگام کے ایک بھیڑ بھاڑ والے  گھاس کے میدان میں چار دہشت گردوں کی اندھا دھند فائرنگ میں مارے گئے۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد ہندوستان میں دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی یہ سب سے بڑی تعداد تھی۔

ایک دن بعد ہندوستان نے اعلان کیا کہ وہ سندھ طاس معاہدہ معطل کر رہا ہے، ہندوستان میں موجود تمام پاکستانی شہریوں کے ویزے رد کر رہا ہے، پاکستانی فوجی حکام کو ملک سے نکال رہا ہے اور سفارتی مشنوں کی تعداد کم کر رہا ہے۔

سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان پریشان!

پاکستان نےکئی منفی اقدامات کیے، لیکن اس کی بنیادی پریشانی واضح طور پر پانی تھی۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان میں پاکستان کی قومی سلامتی کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے نے کہا کہ وہ’انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل کرنے کے ہندوستان کے اعلان کی سخت لفظوں میں مخالفت کرتا ہے۔’

اس معاہدے کو ایک’بائنڈنگ بین الاقوامی معاہدہ’ قرار دیتے ہوئے پاکستان نے کہا ہے کہ اس میں یکطرفہ طور پر معطلی کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔

بیان میں پانی کو ‘پاکستان کے اہم قومی مفاد اور 24 کروڑ لوگوں کے لیے لائف لائن’ قرار دیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ اس کی دستیابی کو ‘ہر قیمت پر محفوظ رکھا جائے گا۔’

مزید یہ کہ، ‘سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو ملنے والے پانی کے بہاؤ کو روکنےیا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اسے جنگی اقدام تصور کیا جائے گا اور اس کا جواب ‘قوم کی پوری طاقت’ کے ساتھ دیا جائے گا۔ یہ کہتے ہوئے دراصل  پاکستان اپنی ایٹمی طاقت کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔

کیا پاکستان ایٹمی طاقت کا استعمال کر سکتا ہے؟

سال 2002 میں پاکستانی فوج کے اسٹریٹجک پلانز ڈویژن کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل خالد قدوائی نے چار ریڈ لائن کی نشاندہی کی تھی،  جو ہندوستان کے خلاف ایٹمی  ردعمل کو ٹریگرکر سکتی تھیں۔ ان کے بیان کاحوالہ  پگواش کانفرنس کی ایک رپورٹ میں دیا گیا تھا ، جس میں پاکستان کے سینئر حکام کے ساتھ  بات چیت کے لیے وفد گیا تھا۔

قدوائی کی طرف سے جن چار ریڈ لائن کی نشاندہی کی گئی تھی، اس میں سے تیسری ریڈ لائن میں کہا گیا ہے کہ اگر ہندوستان پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگاتا ہے تو یہ جوہری ردعمل کو متحرک کر سکتا ہے۔

اس ریڈ لائن سے منسلک ایک فوٹ نوٹ میں لکھا تھا، ‘پاکستان کو معاشی طور پرجکڑنے کی مثالوں میں سمندری ناکہ بندی اور دریائے سندھ کے پانی کو روکنا شامل تھا۔’

ہندوستانی حکومت نے جمعرات کو پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کو ‘فوری اثر سے معطل’ کرنے کے اپنے فیصلے سے باضابطہ طور پر آگاہ کیا ۔

آبی وسائل کی سکریٹری دیباشری مکھرجی نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو لکھے ایک خط میں کہا کہ،’سرحد پار دہشت گردی’ نے’سیکورٹی کی غیریقینی صورتحال’ کو جنم دیا ہے جس نے ‘معاہدے کے تحت ہندوستان کے حقوق کے مکمل استعمال میں براہ راست رکاوٹ ڈالی ہے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘دیگر خلاف ورزیوں کے علاوہ پاکستان نے معاہدے کے تحت مذاکرات شروع کرنے کی ہندوستان کی درخواست کا جواب دینے سے انکار کر دیا ہے اور اس طرح یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔’

پاکستان نے تمام دوطرفہ معاہدوں کو معطل کیا

پاکستان نے جمعرات (24 اپریل) کو تمام دو طرفہ معاہدوں، جن میں 1972 کا شملہ معاہدہ بھی شامل ہے، کو معطل کر دیا۔ اس معاہدے پر ہندوستان اور پاکستان نے 1971 کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش کے قیام کے نتیجے میں دستخط کیے تھے، جس میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے اور دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کے پابند تھے۔

پاکستان نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بنیاد پر حل کیا جانا چاہیے، لیکن ہندوستان کا موقف ہے کہ 1972 کا شملہ معاہدہ بنیادی ہے اور اس کے تحت کشمیر دو طرفہ مسئلہ ہے، اسے کسی تیسرے فریق کی ضرورت نہیں ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے میں واضح طور پر اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ 1971 کی جنگ بندی کے بعد قائم ہونے والی لائن آف کنٹرول کا احترام کیا جانا چاہیے اور کوئی بھی فریق اسے یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔

ہندوستانی حکومت نے پاکستان کے اعلانات کا براہ راست جواب دیے بغیر اس بات پر توجہ مرکوز کی کہ پاکستان نے شملہ معاہدہ رد کردیا ہے جس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ  ہندوستان اب لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو عبور بھی کرسکتا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

پہلگام حملہ: آل پارٹی میٹنگ میں حکومت نے تسلیم کیا چوک ہوئی، اپوزیشن نے پی ایم کی غیر حاضری پر اٹھایا سوال

مرکزی حکومت نے 24 اپریل کو بلائی گئی آل پارٹی میٹنگ میں کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں کاروبار کی ترقی اور سیاحت کی واپسی سمیت سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود پہلگام دہشت گردانہ حملہ ایک ‘چوک’ تھی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے میٹنگ میں پی ایم مودی کی غیر حاضری اور حملے کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر شروع کی گئی نفرت انگیز مہم پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

مرکزی وزیر کرن رجیجو۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

مرکزی وزیر کرن رجیجو۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے جمعرات (24 اپریل) کو بلائی گئی آل پارٹی میٹنگ میں کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں کاروبارکی ترقی اور سیاحت کی واپسی سمیت ‘سب کچھ ٹھیک چلنے کے باوجود پہلگام دہشت گردانہ حملہ ایک’چوک’تھی جس میں 26  شہریوں کی جان چلی گئی۔

دی وائر کو پتہ چلا ہے کہ اجلاس کے دوران اپوزیشن ارکان نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی  کرنے میں حکومت کی حمایت کا وعدہ کیا،اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم مودی کی اجلاس سے غیر حاضری اور حملے کی وجہ بننے والی کوتاہیوں پر بھی سوال اٹھائے، ساتھ ہی حملے کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر شروع کی گئی نفرت انگیز مہم پر تشویش کا اظہار کیا۔

مودی،جنہوں نے جمعرات کو بہار کے مدھوبنی میں پنچایتی راج کے قومی دن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘جن لوگوں نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی ہے، انہیں ان کی سوچ سے بھی بڑی سزا ملے گی’ کی قسم کھائی تھی، میٹنگ میں موجود نہیں تھے اور انتخابی  ریاست میں اپنے پہلے سے طے شدہ پروگراموں میں شرکت کرتے رہے۔

مرکزی حکومت اور بہار میں بی جے پی کی اہم اتحادی جماعت جنتا دل (یونائیٹڈ) کے نمائندے بھی ریاست میں وزیر اعظم کی موجودگی کی وجہ سےآل پارٹی میٹنگ میں موجود نہیں تھے۔

قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر میں برسراقتدار نیشنل کانفرنس بھی میٹنگ میں موجود نہیں تھی اور حکومت نے اس سلسلے میں پارٹی کو کوئی پیغام بھی ارسال نہیں کیا۔

‘کوتاہی’

میٹنگ کے بعد رجیجو نے کہا کہ وزیر دفاع نے سیکورٹی معاملوں کی کابینہ کمیٹی (سی سی ایس) کی طرف سے کی گئی کارروائی کے بارے میں لیڈروں کو جانکاری دی، جبکہ انٹلی جنس بیورو (آئی بی) اور وزارت داخلہ کے حکام نے لیڈروں کو بتایا کہ حالیہ برسوں میں’سب کچھ ٹھیک ہونے’ کے باوجود یہ واقعہ ایک’چوک’ تھی۔

میٹنگ کے بعد انہوں نےصحافیوں کو بتایا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اور حکومت نے سخت سے سخت کارروائی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘پچھلے کچھ سالوں سے کاروبار اچھا چل رہا تھا،  سیاح آ رہے تھے، اس واقعے نے اس  ماحول کو خراب کر دیا ہے اور سب نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ ملک کو دہشت گردی کے خلاف ایک ساتھ کھڑا ہونا چاہیے  اور ایک آواز میں بولنا چاہیے۔’

رجیجو نے کہا کہ آئی بی اور وزارت داخلہ کے عہدیداروں نے پارٹی لیڈروں کو اس بارے میں بھی مطلع کیا کہ ‘کہاں کوتاہیاں ہوئیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ آئی بی اور وزارت داخلہ نے سمیت ہمارے حکام نے بھی اس بارے میں جانکاری  دی کہ یہ واقعہ کیسے ہوا اور کہاں چوک ہوئی’۔

حکام نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ،’جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مرکزی سڑک پر نہیں ہے، آپ کو پیدل یا گھوڑے سے جانا ہوگا، (اور مرکزی سڑک) گھاس کے میدان سے تقریباً 2-2.5 گھنٹے کی دوری پر ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔ تمام فریقین کو بتایا گیا کہ سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود یہ واقعہ ایک چوک  ہے اور اس سے سب کو دکھ ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘تمام جماعتوں نے کہا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف حکومت کے ساتھ ہیں اور پورا ملک حکومت کے ساتھ ہے۔’

دی وائر کو موصولہ جانکاری کے مطابق حزب اختلاف کے ارکان نے سکیورٹی لیپس اور انٹلی جنس کی ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ میٹنگ کے دوران پارٹی لیڈروں کو بتایا گیا کہ جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے – پہلگام کی وادی بیسرن- عام طور پر جون کے آس پاس سیاحوں کے لیے کھول دیا جاتا ہے اور جب سیاحوں کو وہاں لے جایا جاتا ہے تو مقامی حکام کو مطلع کرنا ضروری ہوتا ہے – جو نہیں کیا گیا اور مقامی حکام کو مطلع کیے بغیر20 اپریل سےسیاحوں کے چھوٹے-چھوٹے گروپوں کو علاقے میں بھیج دیا گیا۔

عام آدمی پارٹی (عآپ) کے ایم پی سنجے سنگھ نے میٹنگ کے بعد دی وائر کو بتایا،’آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک حساس جگہ ہے اور اسے صرف امرناتھ یاترا کے دوران ہی کھولا جاتا ہے جب وہاں سخت سیکورٹی ہوتی ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘تو 20 اپریل کو بغیر کسی کو پتہ چلے کیسے کھول دیا گیا؟ کیا یہ مذاق ہے؟بنا کسی جانکاری کے500-1000 لوگ وہاں کیسے پہنچ گئے؟ اگردہشت گردوں کو معلوم تھا کہ یہ 20 تاریخ کو کھولا گیا تو ہماری حکومت کو کیسے پتہ نہیں چلا؟ انہوں نے اس پر صرف گول مول جواب دیا۔’

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیامنٹ اسد الدین اویسی، جنہوں نے جمعرات کو سوال اٹھایا تھا کہ صرف پانچ یا اس سے زیادہ ممبران پارلیامنٹ والی جماعتوں کو ہی کیوں مدعو کیا جا رہا ہے، شاہ کی طرف سے دعوت نامہ جاری کرنے کے بعد میٹنگ میں شرکت کی۔

میٹنگ کے دوران اٹھائے گئےسوالات کا جواب دیتے ہوئے اویسی نے نامہ نگاروں سے کہا،’سی آر پی ایف (سینٹرل ریزرو پولیس فورس) کو میدان میں کیوں تعینات نہیں کیا گیا؟ جنوری میں سی آر پی ایف کے دستوں کو کیوں ہٹایا گیا؟’

انھوں نے کہا، ‘کوئیک ری ایکشن ٹیم کو وہاں پہنچنے میں ایک گھنٹہ کیوں لگا – اور انھوں نے لوگوں سے ان کا مذہب پوچھ کر انھیں گولی مار دی۔ 2000 میں پہلگام میں 30 افراد مارے گئے تھے۔ میں نے پوچھا کہ اس واقعے کے بعد رپورٹ کا کیا ہوا؟’

سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم

دی وائر کو یہ بھی معلوم ہوا  کہ اویسی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد چندر پوار) کی سپریا سولے ، عآپ کے سنجے سنگھ اور انڈین یونین مسلم لیگ کے حارث بیرن سمیت اپوزیشن ارکان نے بھی مرکزی دھارے کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلائی جا رہی نفرت انگیز مہم پر تشویش کا اظہار کیا ہے،جس میں  بی جے پی کے اپنے ہینڈل بھی شامل ہیں۔

منگل کو بی جے پی کے چھتیس گڑھ ایکس  ہینڈل نے حملے کے متاثرین کی ایک اے آئی جنریٹیڈا سٹوڈیو گھبلی تصویر پوسٹ کی، جس کا کیپشن تھا-‘مذہب پوچھا، ذات نہیں۔’

اس پوسٹ پر حزب اختلاف کے رہنماؤں نے تنقید کی،اور  بی جے پی پر حملے میں جان گنوانے والوں کے تئیں ‘بے حسی’ کا الزام لگایا۔ سنگھ نے کہا،’ہم نے سوشل میڈیا پر خود ان کی جانب سے پوسٹ کیے جا رہے  کارٹونوں کے ساتھ نفرت انگیز مہم کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔’

اویسی نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے کشمیریوں اور کشمیری طلباء کے خلاف چلائے جارہے ‘جھوٹے پروپیگنڈے’ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیریوں اور کشمیری طلباء کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ بند ہونا چاہیے۔ اگر سوشل میڈیا اور ٹی وی چینل کے اینکر اس کو ہندومسلم ایشو بناتے رہیں گے تو لشکر طیبہ مسکرائے گا، پاکستان مسکرائے گا۔ میں اس بات کی مذمت کرتا ہوں کہ دہشت گردوں نے لوگوں کو ان کا مذہب پوچھ کرکیسےقتل کیا۔ لیکن اگر آپ جواب میں ایسا کرتے ہیں تو آپ ان کی مدد کر رہے ہیں۔’

وزیر اعظم کی عدم موجودگی

دی وائر کو موصولہ معلومات کے مطابق، کم از کم چار اپوزیشن ارکان نے بھی اجلاس میں وزیراعظم کی عدم موجودگی کا معاملہ اٹھایا۔ میٹنگ کے بعد کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے کہا کہ میٹنگ میں وزیر اعظم کی موجودگی ضروری تھی، لیکن وہ غیر حاضر رہے۔

کھڑگے نے کہا، ‘ہم نے یہ سوال پہلے بھی اٹھایا ہے۔ ایسے اہم اجلاس میں وزیراعظم کی موجودگی ضروری ہے، کیونکہ ان کا فیصلہ حتمی  ہوتاہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہم انہیں سب کچھ بتا دیں گے’۔ لیکن ہم نے کہا کہ سمجھانا ایک چیز ہے اور وزیر اعظم کا خود سننا اور بات ہے۔’

عآپ  کے سنجے سنگھ نے کہا،’وہ بہار میں انگریزی اور ہندی میں تقریر کر رہے ہیں،لیکن یہاں نہیں آئے۔’انہوں نے کہا، ‘لیکن حکومت نے جواب دیا کہ ہم پہلے بھی ایسے اجلاسوں کی صدارت کر چکے ہیں اور آپ کے تحفظات ان تک پہنچائیں گے۔’

میٹنگ کے بعد رجیجو نے کہا کہ پارٹی کے سبھی لیڈروں نے ایک آواز میں بات کی۔

انہوں نے کہا، ‘کچھ مسائل اٹھائے گئے اور وضاحت کی گئی۔ ملاقات مثبت انداز میں اختتام پذیر ہوئی۔ مجھے یقین ہے کہ ہم نے اس اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کا جو جذبہ اپنایا ہے وہ بہت اہم ہے اور ہم نے اپیل کی ہے کہ ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے اور ملک کو متحد ہونا چاہیے۔ سب نے یہ پیغام دیا۔ ہم متحد ہو کر پاکستان اور اس کے حامیوں سے اس واقعے کا بدلہ لیں گے۔’

کھڑگے، سنگھ، اویسی اور سولے کے علاوہ اس میٹنگ میں لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی، پرفل پٹیل (این سی پی)، سسمیت پاترا (بیجو جنتا دل)، لوو سری کرشن دیورائیلو (تیلگو دیشم پارٹی)، سری کانت شندے (شیو سینا)، سدیپ بندوپادھیا (ترنمول کانگریس)،پرین چند گپتا(راشٹریہ جنتادل)، تھروچی شیوا (دراویڑا منیترا کزگم)، رام گوپال یادو (سماجوادی پارٹی) اور وکاس رنجن بھٹاچاریہ (سی پی آئی (ایم)شامل ہوئے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

پہلگام حملہ: سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا

پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے۔ یہ قدم پاکستان پر دباؤ بنانے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ہندوستان  کنٹرولڈ واٹر فلو  کو روک سکتا ہے، لیکن قدرتی بہاؤ پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اثرات محدود ہوں گے،لیکن پیغام واضح ہے۔

علامتی تصویر۔ (فوٹو: محمد عثمان غنی/IWMI فلکر فوٹوز/فلکر (CC BY-NC-ND 2.0)

علامتی تصویر۔ (فوٹو: محمد عثمان غنی/IWMI فلکر فوٹوز/فلکر (CC BY-NC-ND 2.0)

نئی دہلی: پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا ہے۔ بدھ (23 اپریل) کی شام سکریٹری خارجہ وکرم مصری نے کہا ، ‘1960 کا سندھ طاس معاہدہ اس وقت تک فوری اثر سے معطل کیا جا رہا ہے جب تک کہ پاکستان دہشت گردی کی حمایت سے بالکلیہ اور قابل اعتبار طور پرباز نہیں آجاتا۔ ‘

گزشتہ22 اپریل کے دہشت گردانہ حملے میں 26 سیاحوں  کی ہلاکت کے بعدیہ ہندوستان  کی جانب سے پاکستان کے خلاف اٹھائے گئے سفارتی اقدامات میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان  نے اٹاری بارڈر پوسٹ کو بند کرنے ، ویزا رد کرنے اور کئی پاکستانی اہلکاروں کو ہندوستان سے نکالنے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔

ہندوستان  سندھ طاس آبی معاہدے  کی معطلی کو کیسے لاگو کرے گا ؟

ہندوستان دو کام کر سکتا ہے ۔

سب سے پہلے ، ہندوستانی  حکومت مغربی ندیوں (سندھ ، جہلم اور چناب ) کے کنٹرول شدہ پانی کے بہاؤ کو روک سکتی ہے ، یعنی ان ندیوں  پر بنائے گئے ڈیموں اور پن بجلی کے منصوبوں سے پانی چھوڑنا بند کر سکتی ہے۔ اگرچہ ان ندیوں  کا قدرتی بہاؤ جاری رہے گا ، لیکن کنٹرول شدہ بہاؤ (جو پاکستان کی آبپاشی اور پینے کے پانی کے لیے ضروری ہے ) کو  روکا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر ، چناب پربنا  بگلیہار ڈیم پانی کو روک سکتا ہے ، جس سے پاکستان کی طرف بہاؤ کم ہو سکتا ہے۔

دوم ، ہندوستان  مغربی ندیوں پر پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبوں جیسے چناب پر پکل ڈل (1000 میگاواٹ) اور ساولکوٹ (1856 میگاواٹ) کو تیزی سے مکمل کرنے کی سمت کام کر سکتا ہے ۔ اس سے ہندوستان مستقبل میں چناب کے پانی کے بہاؤ پر مزید کنٹرول حاصل کر سکے گا۔

اس کے علاوہ انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت تکنیکی اجلاسوں ، ڈیٹا شیئرنگ اور تنازعات کے حل کے عمل کو بھی ملتوی کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان  کو اب پاکستان کو پانی کے بہاؤ یا منصوبوں کے ڈیزائن میں تبدیلی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

قدرتی بہاؤ اور کنٹرول شدہ بہاؤ میں کیا فرق ہے ؟

انڈس واٹر ٹریٹی کے تناظر میں، قدرتی بہاؤ اور کنٹرول شدہ بہاؤ میں فرق یہ ہے کہ پانی کا بہاؤ قدرتی طور پر بہہ رہا ہے یا اسے انسانی مداخلت سے کنٹرول کیاگیا ہے ؟

قدرتی بہاؤ پانی کی وہ مقدار ہے جو ایک مقررہ وقت میں کسی دریا سے گزرے گی اگر انسان کے بنائے ہوئے ڈیم ، ذخائر یا رکاوٹیں نہ ہوں ۔ اس میں بارش سے آنے والا پانی ، گلیشیئر پگھلنے اور زیر زمین پانی کے ذرائع  سے حاصل ہونے والا اپانی شامل ہوتا ہے۔

کنٹرول شدہ بہاؤ کا مطلب ہے انسان کے بنائے ہوئے ڈیموں،ذخائر، ،  دروازوں وغیرہ سے پانی کے بہاؤ کوکنٹرول کرنا۔اس میں پانی کو روکنا، وقت پر چھوڑنا ، یا اسے بڑھانا یا کم کرنا شامل ہے۔ انڈس واٹر ٹریٹی ہندوستان  کو مغربی ندیوں  پر ‘رن آف دی ریور’ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس بنانے کی اجازت دیتا ہے – یعنی وہ پانی کو عارضی طور پر موڑ سکتا ہے ، لیکن اس کی مجموعی مقدار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کر سکتا ۔

سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو کتنا پانی ملتا ہے؟

سندھ،جہلم اور چناب سے ہر سال اوسطاً 135ایم اے ایف (اوسط سالانہ بہاؤ یا سالانہ اوسط پانی کا بہاؤ ) پانی پاکستان  کو ملتا ہے۔ ہندوستان ان ندیوں  پر جتنے چاہے رن آف دی ریور پروجیکٹ بنا سکتا ہے ، جیسے بگلیہار ڈیم ، 7.01 لاکھ ایکڑ رقبہ کی سینچائی  کرسکتا ہے ، اور زیادہ سے زیادہ 3.6 ایم اے یف پانی ذخیرہ کرسکتا ہے ۔

معاہدے کے تحت ہندوستان  کو جموں و کشمیر اور لداخ میں 13.4 لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے کی اجازت ہے لیکن اب تک صرف 6.42 لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کیا جا رہا ہے۔ مزید برآں، ہندوستان  مشرقی ندیوں  سے 33 ایم اے ایف پانی حاصل کرتا ہے ، جس میں سے صرف 90 فیصد استعمال ہو رہا ہے۔ راوی سے 2 ایم اے ایف  پانی اور ستلج/بیاس سے 5.5 ایم اے ایف  پانی پاکستان کی طرف جاتا ہے کیونکہ ہندوستان  میں اس لیے  کے لیے بنیادی ڈھانچےمکمل نہیں ہیں۔

معاہدہ معطل کرنے سے کیا اثر پڑے گا ؟

ان ندیوں کا اوسطاً 135 ایم اے ایف گلیشیئرزکے پگھلنےاور مونسون سے آتا ہے ، جو معاہدے کی معطلی سے متاثر نہیں ہو گا۔ لیکن ہندوستان  کے زیر کنٹرول بہاؤ – جو کہ تقریباً 3.6 ایم اے ایف کے ذخائر سے ہوتا ہے – کو روکا جا سکتا ہے۔

فی الحال ہندوستان  کے پاس جموں و کشمیر میں ذخیرہ کرنے کی گنجائش بہت کم ہے ، اس لیے زیادہ پانی ذخیرہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ بگلیہار ڈیم میں صرف 1.5 ایم اے ایف تک ذخیرہ ممکن ہے۔ ہندوستان  صرف اتنا ہی پانی روک  سکتا ہے جتنا اس کے پاس ترقی یافتہ ڈھانچے میں ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ اس کے بعد اس  پانی  کوچھوڑنا  ہی پڑے گا۔

اگر ہندوستان  3.6 ایم اے ایف کی مکمل صلاحیت پیدا کرتا ہے تو وہ پاکستان کو پانی کی فراہمی کو عارضی طور پر کنٹرول کر سکتا ہے ، خاص طور پر کھیتی کے سیزن میں۔ لیکن وہ اس پانی کو مستقل طور پر ذخیرہ یا خود استعمال نہیں کر سکتا۔

پاکستان کو نقصان ہو سکتا ہے ؟

مغربی ندیوں کا 60-70 فیصد پانی گلیشیئرز سے آتا ہے اور 30-40 فیصد مونسون سے آتا ہے ، جس پر ہندوستان  کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس لیے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے باوجود پاکستان کو ہر سال انڈس واٹر ٹریٹی کا 131.4فیصد پانی ملتا رہے گا ۔

مونسون کے دوران (جولائی تا ستمبر )ان ندیوں میں پانی کا بہاؤ 5800 کیوبک میٹر فی سیکنڈ سے زیادہ ہوتا ہے ، جو ہندوستان کی مصنوعی رکاوٹ کو ناکام بنا سکتا ہے۔ اس لیے اس کا فوری اثر واضح نہیں ہے۔ لیکن 2025 کے موسم گرما میں، جب فصلیں بوئی جاتی ہیں ، اس کے اثرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں ۔

طویل مدت میں اگر ہندوستان بڑے منصوبے مکمل کرتا ہے اور پاکستان لچک دکھانے سے قاصر رہتا ہے ، تو اس سے پاکستان میں پانی کا بحران  گہرا ہو سکتا ہے۔

تو ان سب کا کیا مطلب ہے ؟

قدرتی جغرافیہ ، نامکمل ڈھانچے اور معاہدوں کی شرائط کی وجہ سے ہندوستان  کے لیے پاکستان کو پانی سے محروم کرنا مشکل ہے۔ انڈس سسٹم  کا زیادہ تر پانی پاکستان کو ملتا رہے گا۔

ہندوستان کسی حد تک کنٹرول شدہ بہاؤ (3.6 ایم اے ایف) کو کنٹرول کر سکتا ہے ، لیکن 131.4ایم اے ایف قدرتی بہاؤ ہندوستان کے کنٹرول سے باہر ہے۔ ہندوستان کے لیے اس وقت تک پانی کے اس بہاؤ کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں جب تک وہ بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر نہیں بنالیتا۔

Next Article

پہلگام واقعہ کے بعد کشمیری طلبہ پر حملے، مل رہی ہیں دھمکیاں: جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن

پہلگام حملے کے بعد شمالی ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے وہاں زیر تعلیم کشمیری طلبہ پر حملے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ اتراکھنڈ میں ہندو رکشا دل نامی ایک تنظیم نے تمام کشمیری طالبعلموں کو جمعرات تک ریاست چھوڑنے کا ‘الٹی میٹم’ دیا تھا۔

نئی دہلی: پہلگام حملے کے بعد شمالی ہندوستان میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ پر حملے اور دھمکیوں کی خبروں کے درمیان جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ ان کی حکومت ان ریاستوں کی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں ہے، جہاں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں۔

عبداللہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس  پر لکھا، ‘میں ان ریاستوں کے اپنے ہم منصب وزرائے اعلیٰ سے مسلسل رابطے میں ہوں اور ان سے خصوصی احتیاط برتنے کی گزارش  کی ہے۔’

ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا،  جب جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے اتر پردیش، پنجاب، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں کشمیری طلبہ کو نشانہ بنائے جانے کی  جانکاری دی۔

بدھ (23 اپریل) کی رات چندی گڑھ کے ڈیراباسی میں یونیورسل گروپ آف انسٹی ٹیوشن میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ پر ہاسٹل کے اندر حملہ کیا گیا۔ ایک وائرل ویڈیو میں کچھ طلبہ کو یہ کہتے ہوئے سنا جا رہا ہے کہ مقامی لوگ اور دیگر ریاستوں کے طلبہ ہتھیاروں کے ساتھ ہاسٹل میں داخل ہوئے اور ان پر حملہ کیا۔ ایک طالبعلم نے ویڈیو میں کہا،’وہ چاقو لے کر آئے تھے۔ ہم یہاں محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ ہم پر دوبارہ حملہ ہو سکتا ہے۔ ‘

ویڈیو میں ایک طالبعلم کے بازو پر چوٹ نظر آئی، جبکہ کئی طالبعلموں کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں 100 کے قریب کشمیری طلبہ پڑھائی  کررہے ہیں۔

جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے قومی کنوینر ناصر کہویہامی نے الزام لگایا کہ حملے کے دوران کالج کا سیکورٹی سسٹم غیر فعال رہا اور طلبہ کو کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ‘اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پنجاب پولیس نے نہ تو سکیورٹی فراہم کی اور نہ ہی بروقت کوئی مدد کی، جس کی وجہ سے حملہ آوروں کے حوصلے بلند ہوئے اور طلبہ غیر محفوظ  ہوگئے اور ذہنی طور پر صدمے میں چلے گئے۔’

پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس گورو یادو نے کہا کہ انہیں سوشل میڈیا کےتوسط سے اس واقعہ کے بارے میں معلوم ہوا اور انہوں نے مقامی پولیس کو مناسب قانونی کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ،’نفرت پھیلانے یا فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تمام شہریوں سے اپیل ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ کسی بھی ایسے مواد کو شیئر کرنے یا پھیلانے سے گریز کریں جو گمراہ کن معلومات فراہم کرے یا سماجی کشیدگی کو فروغ دے۔’

ناصر نےیہ بھی کہا کہ اتر پردیش  کے الہ آبادمیں مکان مالک کشمیری طلبہ پر’سکیورٹی وجوہات’ کا حوالہ دیتے ہوئے  مکان خالی کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ناصر نے کہا، ‘کچھ طلبہ پہلے ہی شہر چھوڑ چکے ہیں۔ یہ تشویشناک ہے۔ الہ آباد ایک حساس علاقہ ہے اور یہاں طلبہ کو ہراساں کرنے اور پروفائلنگ کا خوف بڑھتا جا رہا ہے۔’

انہوں نے بتایا کہ ایسوسی ایشن کو ہماچل پردیش کے کانگڑا سے بھی مدد کی اپیلیں موصول ہوئی ہیں۔ ناصر کے مطابق، یہاں کشمیری طلبہ کو ہندوتوا اور بنیاد پرست عناصر ہراساں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہاسٹل کے دروازے توڑے جا رہے ہیں، طلبہ کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے اور زبردستی کمرے خالی کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔’

مقامی انتظامیہ کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘یہ صرف سکیورٹی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ نفرت اور ہراساں کرنے کی ایک منظم مہم ہے جو ایک کمیونٹی کو نشانہ بنا رہی ہے۔’نوجوان کارکن نے الزام لگایا کہ مقامی انتظامیہ کی’خاموشی”دہشت کے اس ماحول کو فروغ دے رہی ہے۔’

ناصر کے مطابق، اتراکھنڈ میں ہندو رکشا دل نامی بنیاد پرست تنظیم نے ریاست میں زیر تعلیم مسلمان کشمیری طلبہ کو کھلی دھمکیاں دی ہیں۔

ناصر کے مطابق،تنظیم نے تمام کشمیری طلبہ کو جمعرات کی صبح 10 بجے تک ریاست چھوڑنے کا  ‘الٹی میٹم’ دیا تھا۔ اس کے بعد بی ایف آئی ٹی کالج، دہرادون کے تقریباً 20 کشمیری طلبہ اپنی جان بچانے کے لیے جالی گرانٹ ایئرپورٹ کی طرف بھاگے۔

جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے مطابق، نوئیڈا میں زیر تعلیم ایک کشمیری طالب علم کو بھی زدوکوب کیا گیا۔

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے بات کی ہے اور مداخلت کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں کشمیری طلبہ  اور تاجروں کو کھلی دھمکیاں مل رہی ہیں اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

ناصر نے بتایا کہ الہ آباد کا معاملہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے دفتر تک پہنچایا گیا، جہاں سے انہیں یقین دلایا گیا کہ ‘کسی کو بھی کشمیری طالبعلم کو ڈرانے یا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔’

ناصر نے کہا کہ انہوں نے الہ آباد کا مسئلہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے دفتر میں اٹھایاتھا اور انہیں وہاں سے ‘مضبوط یقین دہانی’ کرائی گئی کہ اس معاملے کو فوری طور پر حل کیا جا رہا ہے اور’کسی کو بھی کسی بھی بہانے کشمیری طلبہ کو ہراساں کرنے، ڈرانے یا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔’

انہوں نے کہا، ‘یوپی حکومت نے یقین دہانی کرائی  ہے کہ ماحول کو خراب کرنے یا کشمیری شہریوں میں خوف پیدا کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

پہلگام: کانگریس نے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا، بی جے پی پر سانحہ کے بہانے تفرقہ پیدا کرنے کا الزام

کانگریس ورکنگ کمیٹی نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے مدنظرمنظور کی گئی ایک قرارداد میں پاکستان کو ‘جان بوجھ کر ہندوؤں کو نشانہ بناتے ہوئےمنصوبہ بند  دہشت گردانہ کارروائی’ کا ماسٹر مائنڈ قرار  دیا۔ پارٹی نے بی جے پی پراس سانحہ کے بہانے پولرائزیشن اور تفرقہ کو بڑھاوا دینے کا الزام بھی لگایا۔

کانگریس لیڈر راہل گاندھی جمعرات 24 اپریل 2025 کو نئی دہلی میں پارٹی دفتر میں کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کی میٹنگ کے بعدنکلتے ہوئے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

کانگریس لیڈر راہل گاندھی جمعرات 24 اپریل 2025 کو نئی دہلی میں پارٹی دفتر میں کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کی میٹنگ کے بعدنکلتے ہوئے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) نے جمعرات  (24 اپریل) کو پہلگام میں ہوئے  دہشت گردانہ حملے کے مدنظر ایک قرارداد منظور کی اور کہا کہ انٹلی جنس کی ناکامیوں اور سیکورٹی کی خامیوں پرسوال اٹھایا جانا چاہیے۔

قرارداد میں پاکستان کو’جان بوجھ کر ہندوؤں کو نشانہ بناتے ہوئےبزدلانہ اورمنصوبہ بند دہشت گردانہ کارروائی’ کاماسٹر مائنڈ بتایا گیا، جس کے بارے میں پارٹی نے کہا کہ یہ ‘ملک بھر میں جذبات  کوبھڑکانے’کے لیے کیا گیا۔ پارٹی نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر ‘باضابطہ اور پراکسی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے اس سنگین سانحہ کا فائدہ اٹھانے اورتفرقہ  پیدا کرنے ‘ کا بھی سوال اٹھایا۔

منگل کو پہلگام میں ہوئے حملے کے بعد جمعرات کو سی ڈبلیو سی کی میٹنگ بلائی گئی تھی۔ یہ میٹنگ  حکومت کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹی میٹنگ  سے چند گھنٹے قبل ہوئی۔

قرارداد میں کہا گیا کہ ‘پاکستان کی جانب سے کی جانے والی یہ بزدلانہ اورمنصوبہ بند دہشت گردانہ  کارروائی ہماری جمہوری اقدار پر براہ راست حملہ ہے۔ ملک بھر میں جذبات بھڑکانے کے لیے جان بوجھ کر ہندوؤں کو نشانہ بنایا گیا۔’

پارٹی نے قرارداد میں کہا کہ پارٹی  نےسخت سکیورٹی والے پہلگام میں سیکورٹی کی خامیوں اور انٹلی جنس کی ناکامیوں کے بارے میں بھی سوال اٹھائے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے، ‘پہلگام کو ایک سخت سکیورٹی والا علاقہ تصور کیا جاتا ہے اور اسے تین درجے کے حفاظتی نظام سے محفوظ کیا جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ انٹلی جنس کی ناکامیوں اور سیکورٹی کی خامیوں کا ایک جامع تجزیہ کیا جائے جس کی وجہ سے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ایسا حملہ ہوا – جو براہ راست مرکزی وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔’

اس میں کہا گیا، ‘یہ سوالات وسیع تر عوامی مفاد میں اٹھائے جانے چاہیے۔ ان خاندانوں کو حقیقی انصاف فراہم کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے جن کی زندگیاں اتنی بے دردی سے تباہ ہو چکی ہیں۔’

بی جے پی پر ‘اختلاف اور تفرقہ’ کو فروغ دینے کا الزام

قرارداد میں بی جے پی پر ‘آفیشل اور پراکسی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعےاس سانحے کافائدہ اٹھاکر، تنازعہ، عدم اعتماد، پولرائزیشن اور تفرقہ کو  بڑھاوا دینے کا بھی الزام لگایا گیا۔

سی ڈبلیو سی  کی قرارداد میں کہا گیا ہے، ‘اس قتل عام کی جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں اور شہریوں کے ایک بڑے طبقے نے مذمت کی ہے۔ تاہم، یہ چونکا نے والی بات ہے کہ بی جے پی، بضابطہ  اور پراکسی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے اس سنگین سانحے کا فائدہ اٹھاکرایسے وقت میں مزید اختلاف، عدم اعتماد اورپولرائزیشن کوبڑھاوا دینے کے لیےاستعمال کر رہی ہے جب اتحاد اور یکجہتی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔’

معلوم ہوکہ منگل کو بی جے پی کی چھتیس گڑھ اکائی نے اپنے سوشل میڈیا ہینڈل پر پہلگام دہشت گردانہ حملے کے متاثرین کا ایک اے آئی  جنریٹڈ اسٹوڈیوگھبلی  پوسٹر شیئر کیا ، جس کا کیپشن تھا – ‘دھرم پوچھا، ذات نہیں’۔یاد رکھیں گے۔’

اس پوسٹ پر حزب اختلاف کے رہنماؤں نے تنقید کی اور  بی جے پی پر حملے میں جان گنوانے والوں کے تئیں ‘بے حسی’ کا الزام لگایا۔

کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے، کانگریس پارلیامانی کمیٹی کی چیئرپرسن سونیا گاندھی، لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی اور پارٹی کے دیگر اعلیٰ لیڈروں نے سی ڈبلیو سی میٹنگ میں شرکت کی۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)