یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن پلس اور آل انڈیا سروے آف ہائر ایجوکیشن کے اعداد و شمار پر مبنی ‘اسٹیٹس آف مسلم ایجوکیشن ان انڈیا’ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2019-20 میں 21 لاکھ مسلم طلباء نے اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لیا تھا، 2020-21 میں یہ تعداد 19.21 لاکھ رہ گئی۔
نئی دہلی: ‘اسٹیٹ آف مسلم ایجوکیشن ان انڈیا’ کے عنوان سے ایک نئی رپورٹ کے مطابق، اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لینے والے مسلم طلباء (18-23 سال) کی تعداد میں 8.5 فیصد سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔ یہ رپورٹ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن کے سابق پروفیسر ارون سی مہتہ نے تیار کی ہے۔
یہ رپورٹ یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن پلس (یو ڈٖی آئی ایس ای +) اور آل انڈیا سروے آف ہائر ایجوکیشن (اے آئی ایس ایچ ای) کے ڈیٹا پر مبنی ہے۔
جہاں 2019-20 میں 21 لاکھ مسلم طلباء نے اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لیا تھا، وہیں 2020-21 میں یہ تعداد گھٹ کر 19.21 لاکھ رہ گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا، ‘2016-17 میں اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لینے والے مسلمانوں کی تعداد 1739218 تھی جو 2020-21 میں بڑھ کر 1921713 ہوگئی۔ تاہم، 2019-20 کے مقابلے 2020-21 میں اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کے اندراج میں کمی آئی ہے۔ 20-2019 میں یہ تعداد 2100860 تھی۔ اس طرح 2020-21 میں 179147 طلباء کی کمی دیکھی گئی۔’
ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 11 ویں اور 12 ویں جماعت میں مسلم طلباء کے داخلے کے فیصد میں بھی کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق،چھٹی جماعت کے بعد مسلم طلباء کی نمائندگی کم ہو جاتی ہے اور 11ویں اور 12ویں جماعت میں یہ سب سے کم ہوتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے،’جہاں اپر پرائمری سطح (کلاس 6-8) میں 6.67 کروڑ (طلباء) کے کل اندراج کا تقریباً 14.42 فیصد مسلمان ہیں، وہیں ثانوی سطح (کلاس 9-10) میں یہ تعداد قدرے کم ہو کر 12.62 فیصد ہو جاتی ہے اور اعلیٰ ثانوی سطح (کلاس 11-12) میں گر کر 10.76 فیصد تک ہوجاتی ہے ۔‘
ریاست کے لحاظ سے رجحانات کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آسام (29.52فیصد) اور مغربی بنگال (23.22فیصد) میں مسلم طلباء میں سب سے زیادہ تعلیم چھوڑنے کی شرح ریکارڈ کی گئی، جبکہ جموں و کشمیر میں یہ شرح 5.1 فیصد اور کیرالہ میں 5.1 فیصد 11.91 فیصددرج کی گئی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بہار اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں میں بہت سے مسلم بچے ابھی بھی تعلیمی نظام سے باہر ہیں اور ان کی شناخت کر کے انہیں عمر کے لحاظ سے موزوں کلاسوں میں ڈالنا ترجیح ہونی چاہیے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ‘بہت سے مسلمان طلباء کم آمدنی والے خاندانوں سے آتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مالی مشکلات کا سامنا کرنے والے مستحق طلبہ کو مالی امداد فراہم کی جائے۔’
اے آئی ایس ایچ ای سروے 2020-21 نے بھی اعلیٰ تعلیم میں مسلم طلباء کی نمائندگی میں کمی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ رپورٹ میں پتہ چلا کہ مسلم طلباء کا داخلہ دیگر پسماندہ طبقے، درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے طلباء سے کم تھا۔