رہنماؤں کی ہیٹ اسپیچ، سوشل میڈیا اور نیوز چینلوں کے ذریعے سماج میں شدت پسندی اور نفرت انگیز خیالات کو بالکل نارمل انداز میں پیش کیا جا رہا ہے اور ایسا کرنے والوں میں سریش چوہانکے اکیلے نہیں ہیں۔
سال2014 میں وزیراعظم نریندر مودی کےاقتدار میں آنے کے بعد سے ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز حملے کھلے طور پرہو رہے ہیں۔ 2019 میں اس سے بھی بڑی اکثریت سے مرکز میں لوٹی بی جے پی کی دوسری مدت کار میں یہ حملے اور بھی شدید ہوگئے ہیں۔ان نفرت انگیزحملوں کی وجہ سے بعض وفعہ تشدد بھڑک جاتا ہے۔ گائے سےمتعلق معاملوں میں ماب لنچنگ کے واقعات اور فروری میں شمال -مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشددکے واقعات اس کی مثالیں ہیں۔
لیکن مسلمانوں پرحملوں کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ہتھیارزبانی ہے ہیٹ اسپیچ یعنی عوامی طور پر نفرت انگیز باتیں کہنا۔ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ کے ذریعے نفرت پھیلانے والوں کو تین خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے خانے کے تحت بی جے پی کے سینئررہنما اور سرکار اور پارٹی میں اعلیٰ عہدوں پرفائز لوگ آتے ہیں۔
مودی سرکار کی پہلی مدت کار کے چوتھے سال کے دوران این ڈی ٹی وی نے ایک جائزےمیں پایا کہ ہیٹ اسپیچ کے معاملوں میں 500 فیصدی کا اضافہ ہوا ہے۔جائزے کے مطابق یہ بیانات پارلیامنٹ اور اسمبلی کے منتخب نمائندوں ، وزرائے اعلیٰ ، اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں، پارٹی کے بڑے رہنماؤں اور گورنروں کی جانب سے دیے گئے۔
ان میں سے اکثر پر مجرمانہ قانون کے تحت سنگین جرم کا مقدمہ بننا چاہیے، لیکن نفرت پھیلانے والے یہ لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور انہیں پتہ ہے کہ اس کے ذریعے ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوگا۔ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوگی، اس کے برعکس ان کا پارٹی اور سرکار میں قد بھی بڑھتا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے بیانات کے لیے دوسرا ذریعہ سوشل میڈیا ہے، اس کے لیےاخلاقی طورپر دیوالیہ ہو چکی کمپنیوں جیسے فیس بک کا استعمال کیا جا رہا ہے۔اس کے بعد تیسرے خانے کے تحت مین اسٹریم کی میڈیا کو رکھا جا سکتا ہے، جس میں کئی ٹیلی ویژن چینل اور ہندی کےعلاوہ دوسری ہندوستانی زبانوں کے اخبار شامل ہیں۔
ان کے ذریعے بڑے پیمانے پر شدت پسندی اور فرقہ وارانہ جھوٹ کے ساتھ تشدد کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ ان رجحانات کو میڈیا کے ‘فرنز’عناصرکے کام کے طور پر بیان کرنا ایک غلطی ہوگی۔نفرت کی رپورٹنگ اب مرکزی دھارے میں شامل ہے۔ بہت عرصہ نہیں گزرا جب میڈیا نے کورونا پھیلانے والوں کے طور پر تبلیغی جماعت میں شامل مسلمانوں کو نشان زدکرتے ہوئے ان پرشدیدحملہ کیاتھا۔
اس میں ہندوستان کے سب سے زیادہ بکنے والے انگریزی اخبار دی ٹائمس آف انڈیا تک کی بڑی حصہ داری رہی۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی ہیٹ رپورٹنگ کوسرکاری اداروں سے کھلے طور پرتعاون، حمایت اورتحفظ حاصل ہے۔عصری ہندوستانی میڈیا میں پرسکون ،سنجیدہ، ذمہ دار اور ثبوت کی بنیادپرپورٹنگ جومین اسٹریم ہونا چاہیے، وہ اب بےحد کم رہ گیاہے۔ اس سے صحافت کے ساتھ ساتھ سماج کا بھی نقصان ہو رہا ہے۔
ہمیں نفرت کی رپورٹنگ کی تازہ مثالوں کےسیاسی اور سماجی مفادات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا، جس میں بھگوا رنگ کی جیکٹ میں ملبوس ایک شخص باغیچے میں چل رہا ہے اور اپنے ہاتھوں کو لہراتے ہوئے ‘نوکر شاہی جہاد’ کا ایک سنسنی خیز دعویٰ کرتا ہے۔
یہ شخص سریش چوہانکے ہیں، جو نوئیڈا میں سدرشن نیوز نام کے چینل کے بانی اور ایڈیٹر ان چیف بھی ہیں۔ انہوں نے پچھلے ہفتے سول سروسزمیں مسلمانوں کےانتخاب پر سوال اٹھانے والے ایک پروگرام کا ٹیلر جاری کیا، جسے اسی ہفتے 28 اگست کی رات نشرکیا جانا تھا، لیکن اس کے پہلے ہی دہلی ہائی کورٹ نے اس پر عارضی طور پر روک لگا دی۔
اس ٹیلر میں چوہانکے نے دعویٰ کیا کہ سول سوسز میں مسلمان خواتین اورمردوں کی تعدادبڑھنے کے پیچھے ایک گہری سازش ہے۔انہوں نے کہا، ‘حال ہی میں مسلم آئی پی ایس اور آئی اے ایس افسروں کی تعدادکیسے بڑھ گئی؟ سوچیے، جامعہ کے جہادی اگر آپ کے ضلع مجسٹریٹ اور ہر وزارت میں سکریٹری ہوں گے تو کیا ہوگا؟’
انہوں نے اسے ‘نوکر شاہی جہاد’ کا نام دیتے ہوئے ایک نئے طرح کے جہاد کے طور پر پیش کیا۔ سریش چوہانکے نے اپنے اس پروگرام کی جانکاری ٹوئٹر پر دی اور اس ٹوئٹ میں انہوں نے ملک میں اقتدار کے دومراکز یعنی وزیراعظم نریندر مودی اورآر ایس ایس کو ٹیگ کیا۔
اس طرح انہوں نے صاف بتایا کہ ان کی مہم میں وہ اقتدار کی طاقت کے دو سب سے بڑے ادارے کے تحفط میں ہیں۔وہ تین سال کی عمر سے آر ایس ایس کی شاکھا میں جانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی کہتے ہیں کہ انہوں نے آر ایس ایس پبلی کیشن کے لیے کام بھی کیا ہے۔
حالانکہ ان کا نیوز چینل باقاعدگی سے نفرت پھیلانے کا کام کرتا ہے، لیکن اس بار انہوں نے جو کیا ہے وہ کئی معنوں میں ان کے اب تک کی سطح سے بھی کافی نیچے ہے۔آئین کے حصہ 14 میں یونین اور ریاستوں کے تحت خدمات کاذکر ہے۔ اس کے تحت ہی یونین یوپی ایس سی کا قیام کیا گیا ہے جو سول سروس میں بھرتی کا کام کرتی ہے۔
ایسے وقت میں جب ملک کی تمام جمہوری اور آئینی اداروں پر جانبداری اوربدعنوانی کے الزام لگ رہے ہیں، یوپی ایس سی ان سب کے بیچ خود کو بچانے میں کامیاب رہا ہے۔یہ ملک کے تمام اداروں کے بیچ ایک مثال کی طرح ہے۔ اسے اسی طرح بےداغ بنائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی غیرجانبداری اورسالمیت کی حفاظت کی جائے۔
یوپی ایس سی کایہ اعتباراس لیےقائم ہے کیونکہ ہر سال یوپی ایس سی سول سروس کے اعلیٰ عہدوں پر بحالی کے لیے امتحانات منعقد کرتا ہے۔ہر سال لگ بھگ ایک ہزار سے بھی کم عہدوں پر بحالی کے لیے ملک کے دس لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں نوجوان درخواست دیتے ہیں۔ انہیں یقین دلایا جاتا ہے کہ ان کی مذہبی پہچان، ذات،جنس،زبان ، دولت، تعلیم یا ان کے والدین کے روزگارکی بنیاد پر ان کے ساتھ کسی بھی طرح کاامتیاز نہیں ہوگا۔
حالانکہ وقت وقت پر اس اگزام سسٹم کی تنقیدبھی ہوتی رہی ہے۔دیہی علاقوں کے نوجوانوں تک اس کی پہنچ کو لےکراور انگریزی زبان کی وجہ سے امیدواروں کو ہونے والی پریشانی کو لےکر بھی سوال اٹھتے رہے ہیں۔یوپی ایس سی نے ان سوالوں کوسنجیدگی سے لیااور کچھ حد تک ضروری اصلاحات بھی کیے گئے۔ لیکن اب تک کوئی بھی ایسا سنگین الزام نہیں لگا سکا ہے کہ یوپی ایس سی کسی خاص مذہب، ذات یا علاقے کے لوگوں کے ساتھ امتیاز کرتا ہے۔
یوپی ایس سی کے اس اعتبارکا ہی نتیجہ ہے کہ ملک میں ایک صفائی ملازم کی بیٹی، ایک دہاڑی مزدور کا بیٹا، رکشہ ڈرائیور اور سیکس ورکر کے بچہ بھی ایڈمنسٹریشن میں سب سے اونچے عہدوں پر پہنچنے کاخواب دیکھتے ہیں اور پہنچتے بھی ہیں۔اس اعتبار کو بنائے رکھنے کے لیے ہی سریش چوہانکے کی اس طرح کی رپورٹنگ کو روکا جانا ضروری ہے۔
میں نے سال 1980-82 کا عرصہ(اضلاع میں ٹریننگ کے ایک سال کے ساتھ ساتھ)مسوری کی پہاڑیوں میں واقع لال بہادر شاستری نیشنل اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن میں گزارا تھا۔اس وقت کی بہت سی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ ہم نے وہاں آنے والے وقت میں اضلاع میں،سکریٹریٹ میں اور اس کے بعد ریاستوں کی راجدھانیوں اور دہلی سکریٹریٹ میں ملنے والی ذمہ داریوں کے لیے خود کو تیار کیا۔
اس دوران ہم نے کئی طرح کے دوست بھی بنائے، جن میں سے کچھ سے آج بھی اچھی دوستی ہیں۔ اس وقت دوست بناتے وقت ہم نے کبھی اس بات کو توجہ نہیں دی کہ کوئی کس ذات یا مذہب سے ہے۔اس کے بعد سال 1993 میں اکادمی میں فیکلٹی کے ممبر کے طور پر میں واپس لوٹا۔ اس کے ٹھیک ایک سال پہلے یعنی سال 1992 میں فرقہ وارانہ ہجوم کے ذریعے بابری مسجدانہدام کے واقعہ کو انجام دیا گیا تھا۔
اس دوران اکادمی میں ہم نے سنا کہ آئی اے ایس 1992 بیچ کے ٹاپر نے بابری مسجد کے انہدام کا جشن منانے کے لیے ایک پارٹی کاانعقادکیا تھا۔ اس پارٹی میں اس بیچ کے کئی دوسرے افسر بھی شامل ہوئے تھے۔حیرانی کی بات یہ بھی تھی کہ سال 1992 کے اس بیچ میں کوئی بھی مسلم افسر نہیں چنا گیا تھا۔ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ٹاپر آئی اے ایس افسر اور پارٹی میں شامل ہونے والے دوسرے افسر کسی فرقہ وارانہ فساد کی حالت میں اپنے شعبہ میں کس طرح کارویہ اختیار کریں گے۔
میں نے اکادمی میں فیکلٹی ممبرکے طور پر تین سال کام کیا۔ ان تین سالوں میں میری اولین ترجیحات یہی رہی کہ تربیت لینے والوں کے بیچ غیرجانبداری اوربھائی چارگی کے جذبے کا فروغ ہو، تاکہ ہمارے آئین میں درج یکساں شہریت کی قدروں اوراعتماد کو مضبوط کیا جا سکے۔
مختلف کہانیوں اور ان کے تجزیے کے ذریعے میں نے تربیت پانے والوں کو ان کے مذہب، ذات، کمیونٹی اور جنس سے متعلق تعصبات سے لڑنے میں مدد کرنے کی کوشش کی۔اکادمی میں یہ وقت میرے لیے ایک سنہری دور تھا۔ ہمارے ڈائریکٹر این سی سکسینہ تھے۔ اکادمی میں میرے دیگر ساتھی بھی آئینی قدروں کو لےکر اتنے ہی حساس تھے اور ہماراعزم تھا کہ تربیت پانے والوں کو اس طرح کی تعلیم دینی ہے۔
ڈاکٹر سکسینہ اور میں کبھی کبھی آج کل بات کرتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ کیا ہماری ٹریننگ سے کوئی مثبت تبدیلی آئی ہے؟ہمارے ذریعہ تربیت پانے والے افسران کو دیکھ کر آج ہمیں فخر ہوتا ہے۔ آج وہ ملک کے الگ الگ حصوں میں بہترین کام کر رہے ہیں۔کلاس کے اندر اور باہر ہم جو بولتے اور چرچہ کرتے تھے، اس کی بنیاد پر مجھے یہ یقین ہوا کہ اکادمی اور شعبہ میں ملنے والے لوگوں میں تنوع ہونے سے ہم میں غیرجانبداری اور سب کو ساتھ لےکر چلنے والے جذبے کا فروغ ہوتا ہے۔
سال 1993 تک میں آئی اے ایس، ڈپلومیٹ اور پولیس سروسز میں مسلم نوجوانوں کی موجودگی دیکھ کر خوش تھا۔ ان میں سے کئی لوگوں نے کہا کہ انہیں دہلی میں ہمدردیونیورسٹی کی جانب سے شروع کیے گئے آئی اے ایس کوچنگ سینٹروں سے کافی فائدہ ہوا ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ بھی ایک ایسا سینٹر چلاتا ہے، جس کی وجہ سے حال کے سالوں میں اعلیٰ خدمات میں کچھ حد تک مسلم طلبا کی تعداد بڑھی ہے۔
میں نے ان تین سالوں کے دوران جن نوجوانوں کوٹریننگ دی ان سے آج بھی میرا شفقت اوردوستی کارشتہ ہے۔ میں پچھلے 18سالوں سےاس سے باہر ہوں، اور آج یہ سوچتا ہوں کہ میرے ٹریننگ دیے ہوئے طلباکیا کر رہے ہیں۔
کیا کر رہے ہیں کا مقصد انتظامیہ میں ان کے پرموشن سے نہیں ہے، بلکہ میرا مطلب ہے کہ کیا وہ لوگ آج مذہب، ذات اور جنس کی وجہ سے ہونے والے امتیاز کے خلاف کھڑے ہیں؟ کیا وہ محروم طبقے کے ساتھ کھڑے ہیں اور کیا وہ اپنےسینئر کے غیرقانونی احکامات کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟
میں ان مسلم افسروں کی جانب بھی دیکھتا ہوں جنہیں میں نے ٹریننگ دی اور مجھے یہ کہتے ہوئے فخر ہوتا ہے کہ انہوں نے مجھے مایوس نہیں کیا۔ مجھے کبھی کبھی جس بات کا فخر ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ میں ان کا ٹیچر رہا۔حالیہ سالوں میں اعلیٰ خدمات میں بحال ہونے والے افسروں میں تھوڑابہت تنوع میں اضافہ ہواہے، لیکن مسلمانوں کی تعدادابھی بھی آبادی میں ان کے حصہ سے کافی کم ہے۔
ملک کے 8417 آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسروں میں مسلمانوں کی حصہ داری 3.46 فیصدی ہے۔ یعنی ملک میں کل 292 مسلم افسر ہیں، جن میں سے 160 ان 5862 ورکنگ افسروں میں سے ہیں، جنہیں سول سروس میں ‘سیدھی بحالی’ یا یوپی ایس سی اگزام پاس کرنے کے بعد لیا گیا ہے۔
بچے ہوئے 132 مسلم افسر ان 2555 آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسروں کے تحت آتے ہیں جن کی اسٹیٹ سروس کمیشن سے سینئر ہونے اور مظاہرہ کی بنیاد پر پرموشن ہوئی ہے۔یوپی ایس سی کی جانب سے اعلیٰ سول خدمات میں کی جانے والی بحالیوں میں سیدھی بھرتی کی حصہ داری سال 2013-15 میں 3 فیصدی سےزیادہ تھی۔ یہ سال 2016 میں بڑھ کر 4.55 فیصد ہو گیا۔
اس کے بعد سال 2017 میں یہ 5.15 فیصد اور 2019 میں بڑھ کر 5.42 فیصدی کی سطح پر آ گیا۔ اس کے پیچھے کوچنگ سینٹرز کی خصوصی خدمات رہی۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک ٹیچربتاتے ہیں کہ ان کے کوچنگ سینٹر سے امتحان پاس کرنے والے لگ بھگ آدھےکامیاب طلبا ہندو تھے۔
سوال یہ بھی ہے کہ ملک کا شہری ، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہو، اپنی کڑی محنت کے دم پر اگر کامیاب ہوتا ہے تو اس پر کسی بھی شخص کواعتراض کیوں ہونا چاہیے؟اس کاجواب آر ایس ایس کے نظریے میں ہی پوشیدہ ہے۔ آر ایس ایس نے ہمیشہ ہندوستانی مسلمانوں کو ایک ایسےدشمن کےطورپر دیکھا ہے، جوملک کے لیے وفادار نہیں ہو سکتا۔
آر ایس ایس مرکز کی بی جے پی سرکار کی آئیڈیالوجیکل گرو ہے۔ سدرشن نیوز کی جانب سے مشتہرنظریہ کوئی پاگل پن نہیں ہے۔سریش چوہانکے اپنےپروگرام کے ذریعے جو دکھا رہے ہیں وہ آر ایس ایس کا ہی نظریہ ہے۔ سدرشن ٹی وی کے اس زہریلےپروپیگنڈےکی مذمت کرنا ہی کافی نہیں ہے۔
سماج میں شدت پسندی اورنفرت کو بالکل نارمل انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کام میں سریش چوہانکے بالکل اکیلے نہیں ہیں۔پچھلے ہفتے ایک اخبار میں میں نے خبر دیکھی کہ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ اپنی پولیس کو ان معاملوں پر کارروائی کرنے کی ہدایت دے رہے ہیں جسے آر ایس ایس اور دیگر ہندوتنظیم لو جہاد کہتے ہیں، جس کے تحت وہ مسلم مرداور ہندو عورت کے بیچ رشتے کوصحیح نہیں مانتے۔
یہ لڑائی آر ایس ایس اور آئین کے بیچ کی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ان دونوں میں سے کسی ایک کی حمایت کولے کر غیرجانبداری کی حالت سے باہر آنا ہوگا۔
(مضمون نگار سابق آئی اے ایس اورسماجی کارکن ہیں۔)