وزیر اعظم کے خلاف نازبیا الفاظ استعمال کرنا توہین آمیز ہے، سیڈیشن نہیں: کرناٹک ہائی کورٹ

سیڈیشن کا معاملہ رد کرتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ بچوں کو حکومت کی پالیسیوں کی تنقید کرنا نہ سکھائیں۔ معاملہ کرناٹک کے بیدر میں واقع شاہین اسکول سے متعلق ہے۔ سال 2020 میں یہاں طالبعلموں کی طرف سےسی اے اے اور این آر سی کے خلاف ڈرامہ اسٹیج کرنے پر تنازعہ ہوگیا تھا۔

سیڈیشن کا معاملہ رد کرتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا  کہ بچوں کو حکومت کی پالیسیوں کی تنقید کرنا نہ سکھائیں۔ معاملہ کرناٹک کے بیدر میں واقع شاہین اسکول سے متعلق ہے۔ سال 2020 میں یہاں طالبعلموں  کی طرف سےسی اے اے اور این آر سی کے خلاف ڈرامہ اسٹیج کرنے  پر تنازعہ ہوگیا تھا۔

کرناٹک کے بیدر میں شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشن۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

کرناٹک کے بیدر میں شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشن۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک اسکول انتظامیہ کے خلاف سیڈیشن کے معاملے کو رد کرتے ہوئےکہا کہ وزیر اعظم کے خلاف استعمال کیے گئےنازیبا الفاظ توہین آمیز اور غیر ذمہ دارانہ تھے، لیکن یہ سیڈیشن نہیں ہیں۔

ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہائی کورٹ کی کلبرگی بنچ کے جسٹس ہیمنت چندن گودر نے بیدر کے شاہین اسکول کی انتظامیہ میں شامل تمام افراد علاؤ الدین، عبدالخالق، محمد بلال انعامدار اور محمد مہتاب کے خلاف ایف آئی آر کو رد کر دیا۔

عدالت نے کہا کہ اس کیس میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 153 اے (مذہبی گروہوں کے درمیان دشمنی کے فروغ دینے) کے عناصر نہیں پائے گئے ۔

جسٹس چندن گودر نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ‘توہین آمیز الفاظ کہ وزیراعظم کو جوتے سے مارا جانا چاہیے، نہ صرف توہین آمیز ہے بلکہ غیر ذمہ دارانہ بھی ہے۔ حکومتی پالیسی کی تعمیری تنقید کی اجازت ہے، لیکن پالیسی فیصلے لینےکے لیے آئینی عہدیداروں  کی توہین نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس سے عوام کے بعض  طبقے کو اعتراض ہو سکتا ہے۔

حالاں کہ یہ الزام لگایا گیا تھا کہ بچوں کی جانب سے پیش کیے گئے ڈرامے میں حکومت کے مختلف قوانین کی تنقید کی گئی تھی اور یہ دکھایا گیا تھا کہ اگر ایسے قوانین لاگو کیے جاتے  ہیں تو مسلمانوں کو ملک چھوڑنا پڑ سکتا ہے، ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ ڈرامہ اسکول کے احاطے میں اسٹیج کیا گیا تھا۔ بچوں کی طرف سے لوگوں کو اکسانے یا عوامی انتشار پیدا کرنے کے لیے کوئی لفظ نہیں بولے گئے تھے۔

ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ ڈرامہ اس وقت منظر عام پر آیا، جب ایک ملزم نے اسے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کیا۔

عدالت نے کہا، اس لیےیہ کسی بھی طو رپر نہیں کہا جا سکتا کہ عرضی گزاروں نے لوگوں کو حکومت کے خلاف تشدد پر اکسانے یا عوامی انتشار پیدا کرنے کے ارادے سے ڈرامہ اسٹیج کیا تھا۔

عدالت نے کہا،اس لیے،ضروری عناصر کی عدم موجودگی میں دفعہ 124اے (سیڈیشن) اور دفعہ 505 (2) کے تحت جرم کے لیے ایف آئی آر درج کرنا ناقابل قبول ہے۔

رپورٹ کے مطابق،21 جنوری 2020 کو کلاس 4، 5 اور 6 کے طالبعلموں کی جانب سے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی)کے خلاف ایک ڈرامہ پیش کرنے کے بعدبیدر واقع  شاہین اسکول کے عہدیداروں کے خلاف سیڈیشن کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے کارکن نیلیش رکشیال کی شکایت کے بعد چاروں  لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 504 (جان بوجھ کر کسی کی توہین کرنا)، 505(2)، 124اے (سیڈیشن)، 153اےکے ساتھ ساتھ 34اے کے تحت الزام لگائے گئے تھے۔

ہائی کورٹ کا یہ مکمل فیصلہ حال ہی میں اپ لوڈ کیا گیا ہے ،جبکہ لائیولاء کے مطابق، فیصلہ 14 جون کو سنایا گیا تھا۔

ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اسکولوں کو یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ بچوں کو حکومتوں کی تنقید سے دور رکھیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے؛

بچوں کی پڑھائی میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے ان مضامین کو ڈرامائی شکل دینا بہتر ہے، جو دلکش اور تخلیقی ہوں۔ موجودہ سیاسی مسائل پر توجہ کرنا نوجوان ذہنوں پرنقش چھوڑتا ہے یا انہیں خراب کرتا ہے۔ انہیں (بچوں) علم، ٹکنالوجی وغیرہ فراہم کی جانی چاہیے، جس سے انہیں تعلیمی مدت کے آنے والے کورس میں فائدہ ہو۔

لہٰذا اسکول کو چاہیے کہ وہ علم کے دریا کو بچوں کی طرف ان کی فلاح و بہبود اور معاشرے کی بہتری کے لیے بہائے اور بچوں کو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کی تعلیم دینے میں شامل  نہ ہوں  اور کوئی خاص پالیسی فیصلہ لینے کی وجہ سے آئینی عہدیداروں  کی توہین میں ملوث نہ ہوں۔ جو کہ تعلیم کی فراہمی کے فریم ورک میں شامل نہیں ہے۔

واضح ہو کہ سال 2020 میں ایف آئی آر درج ہونے کے بعد پولیس نے مبینہ طور پر ڈرامے کے بارے میں 85 سے زائد طالبعلموں سےپوچھ گچھ کی تھی، جو بابالغ تھے۔تب  پولیس کے رویے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھاکہ،’پولیس طالبعلموں  کے لیےایک انتہائی مخالف ماحول پیدا کر رہی ہے جس سے ان کی تعلیم اور ذہنی حالت متاثر ہوگی۔’

کرناٹک اسٹیٹ کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کی طرف سے پولیس کی سرزنش کے بعد ہی طالبعلموں  سے پوچھ گچھ بند ہوئی تھی۔

ڈرامے میں وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں ڈائیلاگ بولنے والے ایک طالبعلم کی والدہ نجب النساء اور اسکول کی پرنسپل فریدہ بیگم کو  پولیس نے30 جنوری 2020 کوگرفتار کیاتھا۔انہیں تقریباً دو ہفتوں کے بعد ضمانت مل پائی تھی۔ اس دوران نجب النسا کی بیٹی کو رشتہ داروں کے یہاں رہنا پڑا، کیونکہ وہ  سنگل مدر ہیں۔

بیدر کی ضلع اور سیشن عدالت نے مارچ 2020 میں اسکول کی انتظامیہ کا حصہ رہے پانچ لوگوں کو پیشگی ضمانت دیتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ ڈرامے کا مواد سیڈیشن کے زمرے میں  نہیں آتا۔

جج نے کہا تھا، میرے خیال سے یہ ڈائیلاگ نفرت، بے عزتی اور حکومت کے متعلق کوئی عدم اتفاق ظاہر نہیں کرتا۔ ‘ انہوں نے آگے کہا کہ ملک بھر میں سی اے اے-این آر سی کے خلاف اور حمایت میں ریلی اور مظاہرے ہو رہے ہیں اور ہر شہری کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حکومت کے طریقوں پر عدم اتفاق ظاہر کرنے کا حق ہے۔ یہ ڈائیلاگ ا سکول میں ایک ڈرامے کے اسٹیج کے دوران بولے گئے تھے۔

واضح ہو کہ عدالت عظمیٰ نے 11 مئی 2022 کو اپنے ایک غیر معمولی فیصلے  میں ملک بھر میں سیڈیشن کے تمام معاملوں میں سبھی کارروائیوں پر تب تک لے لیے روک لگا دی تھی، جب تک کہ کوئی’مناسب’ حکومتی فورم اس قانون کا جائزہ نہیں لے لیتی۔

عدالت عظمیٰ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ وہ آزادی سے پہلے کے اس قانون کے تحت کوئی نئی ایف آئی آر درج نہ کریں۔

مرکزی حکومت نے اس وقت سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ قانون موجودہ سماجی ماحول کے مطابق نہیں ہے۔ لاء کمیشن نے حال ہی میں تجویز دی ہے کہ قانون کو برقرار رکھا جانا چاہیے اور اسے مزید سخت بنایا جانا چاہیے۔