انٹرویو: محسن شیخ کے بھائی مبین شیخ نے کہا-محسن کا قتل کوئی عام معاملہ نہیں تھا۔ ملزم پکڑے گئے تھے۔ گواہ موجود ہیں۔ اس کے باوجود انصاف کے لئے وقت لگایا گیا۔ میرے والد جس سماج پر اور اس کے عدلیہ پر اعتماد کے ساتھ جی رہے تھے، اس نے ان کے اعتماد کو توڑ دیا۔ میرے بھائی کے ساتھ ہوئی ناانصافی کا درد لےکرمیرے والد چل بسے۔ اب انصاف ہوتا بھی ہے تو، میرے لئے وہ عدالت کا فیصلہ محض ہوگا۔
پانچ سال قبل پونے کےمحسن شیخ نامی ایک سافٹ ویئر انجینئر کو صرف اس کی مذہبی شناخت کی وجہ سے بھیڑ نے نشانہ بنایا تھا۔ اس کوپیٹ پیٹ کر اور سر میں پتھر مارکر قتل کر دیا گیا۔ قتل کے بعد اس کے والد انصاف کا مطالبہ کرتے رہے۔ ریاستی سرکارنے شروع میں اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کا ڈھونگ رچایا۔ مگر ان کے چہرے کا یہ نقاب اس وقت اترا جب محسن قتل معاملے سے اسپیشل سرکاری وکیل اڈ اجول نکم نے خودکو الگ کر لیا۔ اس کے بعد اب تک اس معاملے میں حکومت کی طرف سے کوئی وکیل نہیں دیا گیا۔
محسن کی فیملی کو مدد کے طور پر 50 لاکھ اور اس کے چھوٹے بھائی کو سرکاری نوکری دینے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ محسن کے والد اپنے بیٹے کو انصاف، فیملی کو مدد اور چھوٹے بیٹے کی نوکری کے لئے تمام عمر لڑتے رہے۔ آخرکار انصاف ملے بغیر ہی وہ چل بسے۔ بیٹے کی موت کے صدمے میں وہ اپنی بیماری کا صحیح سے علاج بھی نہیں کر پائے۔ بیماری بڑھتی گئی اور ایک دن دل کا دورہ پڑنےکی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا۔
اب محسن کی فیملی میں بس ان کے بھائی اور ماں رہ گئے ہیں۔ انصاف کو لے کر ان کا بھروسہ ٹوٹ چکاہے۔وہ خود کوبےسہاراور پریشان اور اکیلا محسوسکر رہے ہیں۔ اسی دوران مہاراشٹر کے کچھ نوجوان اس فیملی کے لئے انصاف کی مانگکر رہے ہیں۔ انہوں نے’جسٹس فار محسن مہم‘شروع کی ہے۔گزشتہ دنوں دی وائر سے محسن کے بھائی مبین شیخ نے بات کی ۔ ان سے بات چیت کے اہم قتباسات یہاں پیش کیے جارہےہیں۔
محسن قتل کے ملزم دھننجئے دیسائی کو ضمانت مل چکی ہےاور اس کے بعد انصاف کے لئے لڑ رہے آپ کے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان واقعات نے آپ کی زندگی پر کیا اثر ڈالا ہے؟
مبین شیخ : میری فیملی بہت ہی معمولی ہے۔ والد کا پرانا کاروبار بند ہونے کے بعد ہم لوگ بہت زیادہ پریشان تھے۔ بڑے بھائی محسن پڑھنا چاہتے تھے۔ گریجویشن کے بعد سافٹ ویئر کے کچھ کورس کر رہے تھے۔ مگر فیملی کی حالت دن بہ دن خراب ہو رہی تھی۔ تو بھائی محسن نے نوکری کرنے کا فیصلہ لیا۔ وہ جاب ڈھنڈنے میں لگ گئے۔ مگر شولاپور میں روزگار کی کمی تھی۔ تو ان کو پونے جانا پڑا۔ وہاں پڑھائی کے ساتھ جاب کرنے لگ گئے۔ مگر ان کی تنخواہ سے فیملی کی ضرورت پوری نہیں ہو سکی۔ تو میں نے بھی پونے جاکر نوکری کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں پونے میں ان کے ساتھ رہنے لگا۔ ہم دونوں جاب کرنے لگ گئے تب فیملی کا اقتصادی مسئلہ سلجھ رہا تھا۔ ایک بھائی کی تنخواہ سے ہمارا خرچ چلتاتھااور دوسرے کی تنخواہ سے گھر چل رہا تھا۔ مگر 2 جون 2014 میں میرے بھائی کے قتل کے بعد میری فیملی پر ایک بار پھر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
والدین کو اس کا بہت گہرا صدمہ پہنچا۔ دن رات میرے والد محسن بھائی کو یاد کیا کرتے۔ اس کے انصاف کی بات کرتے۔ شولاپور سے پونے کورٹ کے چکر لگاتے۔ میں بھی ان کے ساتھ جایا کرتا تھا۔ اپنے بیٹے کو انصاف ملنے کی امید لئے وہ جی رہے تھے۔ مگر انتظامیہ انصاف نہیں دلانا چاہتا۔ حکومت کی طرف سے کورٹ میں پوری لاپروائی برتی گئی۔ سرکاری وکیل اجول نکم نے مقدمہ سے اپنا وکالت نامہ واپس لے لیا۔ حکومت نے لاپروائی کی ساری حدیں پارکر دی۔ اسی وجہ سے دھننجئے دیسائی اور ان کے ساتھیوں کو ضمانت ملی۔ جیل سے باہر آتے ہی ملزم دھننجئے دیسائی نے ریلی نکالی۔ وہ صرف ایک ریلی نہیں تھی، بلکہ میرے والد کاانصاف پر جو بھروسہ تھا،وہ اس کا جنازہ تھا۔
اجول نکم نے مقدمہ کیوں چھوڑ دیا؟
مبین شیخ : ان کے مقدمہ چھوڑنے کے بعد میرے والد نے ان کو فون کیا۔ میسیج بھی کیا، کافی پوچھنے کے بعد انہوں نے کہا-‘آپ مقدمہ لڑیئے اور جیتیے’۔ اس کے بعد میرے والد کافی مایوس ہوگئے۔ ان کو امید تھی کے ان کے بعد کوئی نیا وکیل آئےگا اور مقدمہ اچھے سے چلائےگا۔ مگر ویسا نہیں ہوا۔ میرے والد انصاف کی درخواست کرتے ہوئے دنیا سے چل بسے مگر حکومت کا نظریہ نہیں بدلا۔
والد کے انتقال کے بعد اور پہلے حکومت کا کیا کردار رہا؟
مبین شیخ : شروعات میں اس قتل کی گہرائی کو کوئی سمجھ نہیں سکا۔ سب کے لئے یہ ایک معمولی سا قتل کا واقعہ تھا۔ مگر جب این ڈی ٹی وی نے خبر چلائی تو اس نئے سسٹم کی پہچان ہوئی۔ پھر سیاستداں آکر ہمیں ملنے لگے۔ پھر اس وقت کے وزیراعلیٰ پرتھوی راج چوہان سے ہماری ملاقات کرائی گئی۔ 50 لاکھ روپے مدد دینے کا وعدہ کیا گیا۔ اور مجھے سرکاری نوکری کی بھی یقین دہانی کرائی گئی۔ شروعات میں مرکز کی طرف سے 5 لاکھ اور ریاست کی طرف سے 5 لاکھ روپے دئے گئے۔ باقی کی مدد کے لئے میرے والد کو کورٹ جانا پڑا۔ نوکری کا وعدہ بھی نہیں نبھایا گیا۔ مہاراشٹر میں نئی حکومت آنے کے بعد، ‘اس کی کوئی جی آر نہیں ہے، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔’ کہہکر ٹال دیا گیا۔
کیا آپ کو اب بھی لگتا ہے کہ انصاف ملےگا؟
مبین شیخ: محسن کا قتل کوئی عام معاملہ نہیں تھا۔ ملزم پکڑے گئے تھے۔ گواہ موجود ہیں۔ اس کے باوجود انصاف کے لئے وقت لگایا گیا۔ میرے والد جس سماج پر اور اس کے عدلیہ پر اعتماد کے ساتھ جی رہے تھے، اس نے ان کے اعتماد کو توڑ دیا۔ میرے بھائی کے ساتھ ہوئی ناانصافی کا درد لےکرمیرے والد چل بسے۔ اب انصاف ہوتا بھی ہے تو، میرے لئے وہ عدالت کا فیصلہ محض ہوگا۔ اگر یہی فیصلہ میرے والد کے سامنے کیا جاتا تو ہم اس سماج کا عدلیہ کاشکریہ اداکرتے۔ اب میری فیملی پوری طرح سے تباہ ہو چکی ہے۔ اور دن بہ دن کمزور ہو رہی ہے۔ کچھ سماجی کارکن ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، جو اس سماج کے تئیں ہماری وفاداری کو کمزور ہونے نہیں دے رہے ۔