خواتین کے تحفظ کی فکر اور ان کو تشدد، ریپ وغیرہ سے بچانے کو لےکر سخت قانون بنانے کےرہنماؤں کی یقین دہانی ان کے خاتون-مخالف بیانات کے برعکس بونا نظر آتاہے۔
حیدر آباد میں 27سالہ ڈاکٹر کوچار نوجوانوں نے بےرحمی سےگینگ ریپ کر کے مارکرجلا دیا۔ واقعہ کے گھناؤنے پن نے 2012 کی دہلی کا ‘نربھیا معاملے’ کی یاد کو تازہ کرا دیا۔ بہر حال، جتناگھناؤنا حیدر آباد کا معاملہ رہا، اتنا ہی زیادہ شرمناک تلنگانہ کے وزیر داخلہ محمد محمود علی کا بیان مانا گیا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نےکہا، ‘افسوس کی بات ہے کہ وہ ڈاکٹر پڑھی-لکھی ہونے کے بعد بھی اپنی بہن کو فون کیا، اگر وہ 100 نمبر پر کال کرتی تو بچ جاتی۔’
کہیں نہ کہیں متاثرہ ڈاکٹر کو پڑھی-لکھی ناسمجھ ٹھہراتے ہوئے وزیر داخلہ کے ان الفاظ پر ان کی چو طرفہ تنقید ہوئی، تو وہ صفائی دیتے بھی نظر آئے۔ لیکن یہ پہلی بار نہیں تھا کہ جب ہمارےسیاستداں ریپ جیسے بےحد نازک مسئلے پر بھی غیرحساس ہونے کا تعارف دیتے نظر آئےہوں۔محمود علی کےبیان پر تنازعہ ضرور ہوا لیکن تاریخ کھنگالیں تو ہماری سیاسی جماعت ریپ کےواقعات پر محمود علی کے بیان سے بھی کئی گنا زیادہ شرمناک اور بےحس بیان دے چکی ہے۔ بتا دوں کہ یہاں سیاستدانوں کی غیرحساسیت کا ذکر کرنا اس لئے ضروری ہو جاتا ہےکیونکہ وہ ہمارے عوامی نمائندہ ہیں، وہی ہمارے لئے پالیسی بنانے کا کام کرتےہیں، قانون بناتے ہیں۔
اگر ریپ جیسے گھناؤنے جرم پر ان کی ہی سوچ گندی ہوگی، تو سماج کس سے حفاظت اور انصاف کی آس لگائےگا؟2012 میں جب نربھیا معاملہ ہوا تھا تو سارا ملک خاتون کے تحفظ کے مدعے پر سڑکوں پراتر آیا تھا۔ حکومت سے ریپ کے خلاف سخت سے سخت قوانین کی مانگ کی جا رہی تھی۔عوامی مہم نے اثر بھی دکھایا اور حکومت قانون بھی لےکر آئی۔ لیکن، حقیقت یہ ہے کہ تب سے اب تک ریپ کے معاملوں میں کمی تو نہیں آئی، الٹا اضافہ ہی ہوا ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی)کے اعداد و شمار کے مطابق، نربھیا معاملے کے وقت ملک میں ہر دن 69 ریپ ہوتے تھے۔ حال میں جاری این سی آر بی کے تازہ اعداد و شمار(سال 2017) میں ہر دن 90 ریپ ہو رہے ہیں۔ آج 2019 کی حالت تو اور بھی زیادہ خوفناک ہوگی۔ لیکن، بدقسمتی ہےکہ جس رفتار سے ریپ کے واقعات کا گراف اوپر چڑھتا جا رہا ہے، اسی رفتار سےریپ کے واقعات اور خواتین کو لےکر ہماری سیاسی قیادت کے بےحس رویے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جو کہیں نہ کہیں خواتین کے خلاف گندی ذہنیت کو بڑھاوا دے رہاہے، بلکہ ریپ کی بدتہذیبی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔
ساتھ ہی یہ ماننےکو مجبور کر رہا ہے کہ ہمیں سیاسی قیادت سے خاتون مخالف جرائم اور ریپ کے واقعات پرلگام لگانے سے متعلق امید چھوڑ دینی چاہیے۔ چونکہ، نربھیا کے وقت مانا گیاتھا کہ خواتین کے خلاف جرم اور ان کے تحفظ کو لےکر اب سماج بیدار ہوا ہے تو تبدیلی دکھےگی۔ لیکن اسی سماج سے نکلے رہنماؤں کی سوچ بالکل نہیں بدلی۔ نربھیا معاملے سےہی شروع کریں تو جب نربھیا ہاسپٹل میں زندگی اور موت کے درمیان جنگ لڑ رہی تھی، تب بی جے پی کے موجودہ جنرل سکریٹری کیلاش وجئے ورگیہ اس کو ہی اس حادثہ کا ذمہ دار ٹھہراتےہوئے کہہ رہے تھے، ‘ سیتا لکشمن ریکھا لانگھےگی تو راون اس کا اغواکرےگا ہی۔ ‘
وجئےورگیہ کا مطلب تھا کہ لڑکیوں کو رات کو گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ حالانکہ،جس وقت نربھیا کے ساتھ واقعہ رونما ہوا، وہ رات کے ساڑھے آٹھ-نو بجے کے قریب کا وقت تھا۔ کیا ایک خاتون سورج غروب ہوتے ہی گھر میں قید ہو جائے؟ اس طرح وجئے ورگیہ نےنظم ونسق اور خواتین کے تحفظ پر سوال اٹھانے کے بجائے نربھیا کی آزادی کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا۔
اس حمام میں کیابی جے پی، کیا کانگریس سبھی پارٹیاں ننگے ہیں۔ جب نربھیا کے انصاف کے لئے مظاہرے ہورہے تھے تب مرکز کی اس وقت کے کانگریس حکومت کے رکن پارلیامان ابھجیت مکھرجی (سابق صدر پرنب مکھرجی کے بیٹے)مظاہرہ کرنے والی خواتین پر یہ تبصرہ کر رہے تھے، ‘ ہاتھ میں موم بتی جلاکر سڑکوں پر آنا فیشن ہو گیا ہے۔ یہ سجی-سنوری خواتین پہلے ڈسکوتھیک میں گئیں اور پھر اس گینگ ریپ کے خلاف احتجاج دکھانے انڈیا گیٹ پر پہنچیں۔’نربھیا پر بات ہوئی ہے تو سابق سماجوادی پارٹی صدر، اتر پردیش کے سابق وزیراعلیٰ اور رکن پارلیامان ملائم سنگھ یادو کا بھی ذکر ضروری ہو جاتا ہے۔
ممبئی کی شکتی ملس ریپ مقدمہ کے فیصلے پر بھرے منچ سے کہتے نظر آئے، ‘بچے ہیں، غلطی ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب کیا پھانسی چڑھا دوگے؟ ان تین بیچارے لڑکوں کو پھانسی دے دی گئی۔بتائیے ریپ کے لئے بھی پھانسی ہوگی کیا؟ ہم ایسا قانون بدلنے کی کوشش کریںگے۔ ‘ملائم سنگھ ریپ کو لےکر کتنی گھناؤنی سوچ رکھتے ہیں، اس کا نمونہ ایک بار پھر سال بھربعد دیکھنے تب ملا جب وہ گینگ ریپ کے بچاؤ میں دلیل دیتے نظر آئے، ‘ چار لوگ ایک خاتون کے ساتھ ریپ کر ہی نہیں سکتے۔ ایک آدمی ریپ کرتا ہے، چار لوگوں کےخلاف شکایت درج کرا دی جاتی ہے۔ ‘
تب اتر پردیش میں ان کے بیٹے اکھلیش یادو وزیراعلیٰ تھے۔ حکومت کے بچاؤ میں ملائم یہاں تک کہہ گئے، ‘ سیاسی دشمنی کی وجہ سے حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ ریاست میں کرائم ریٹ بہت کم ہے۔ ‘ملائم سنگھ کی بات چلی تو ان کی ہی پارٹی کے رکن پارلیامان اعظم خان کا ذکر بھی یہاں ضروری ہوجاتا ہے۔ 2016 کے مشہور بلندشہر گینگ ریپ کے وقت اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی کی حکومت تھی اور اعظم خان وزیر تھے۔ گینگ ریپ کے اس واقعہ کو انہوں نے حکومت کوبدنام کرنے کی اپوزیشن کی سازش ٹھہرا دیا تھا۔
انہوں نے کہاتھا، ‘ ہمیں یہ تفتیش کرنی چاہیے کہ کہیں یہ معاملہ سیاست سے ترغیب پاکر حکومت کوبدنام کرنے کی سازش تو نہیں۔ حکومت کو حزب مخالف پارٹیوں کے نظریہ کی جانکاری لینی چاہیے جو اقتدار میں آنے کے لئے ایسی بدکاری تو نہیں کرا رہے ہیں۔ انتخاب قریب ہونے کی وجہ سے سماجوادی پارٹی کو بدنام کرنے کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہو سکتا۔ ‘ویسے اتر پردیش میں حکومت تو بدل گئی لیکن ریپ کو اپوزیشن کی سازش بتانا اب بھی جاری ہے۔اسی سال جون میں ریاست میں ریپ کے واقعات پر حکومت کے بچاؤ میں بی جے پی رکن پارلیامان پروین نشاد کہتے نظر آئے، ‘ ریپ کا واقعہ اپوزیشن اورمہاگٹھ بندھن کےذریعے ہماری حکومت کو بدنام کروانے کے لئے کروائی جا رہی ہیں۔ ‘
ملائم کےسماجوادی کنبے کی بدکاری کے معاملوں پر خراب سوچ کی وراثت ان کے بیٹے اکھلیش یادو نے بھی آگے بڑھائی۔ بدایوں حادثہ پر جب ایک خاتون صحافی نے ان سے ریاست میں خاتون کے تحفظ سے متعلق سوال کیا تو وزیراعلیٰ اکھلیش نے جواب دیا،’آپ کو توخطرہ نہیں ہوا۔ ‘انہی کی پارٹی کےاس وقت کے راجیہ سبھا رکن پارلیامان نریش اگروال (فی الحال بی جے پی میں ہیں) نےریپ کے ایک واقعہ کو ایک طرح سے خارج کرتے ہوئے کہا تھا، ‘ آپ ایک باچھی کو بھی گھسیٹکر نہیں لے جا سکتے …’
ویسے ملائم سنگھ خواتین کو لےکر کیسی سوچ رکھتے ہیں یہ کئی بار دیکھا جا چکا ہے۔ 2010 میں خاتون ریزرویشن بل پر کہتے نظر آئے تھے، ‘اگر موجودہ شکل میں خاتون ریزرویشن بل پاس ہواتو قانون پارلیامنٹ میں صنعت کاروں اور افسروں کی ایسی-ایسی لڑکیاں آ جائیںگی جن کودیکھکر لڑکے پیچھے سے سیٹی بجائیںگے۔ ‘
اسی بل کے بارےمیں انہوں نے ایک دوسرے موقع پر کہا تھا، ‘ بل آنے پر بڑے گھر کی خواتین اوپر جاسکتی ہیں کیونکہ ان میں کشش ہوتی ہے۔ گاؤں کی خواتین دلکش نہیں ہوتیں۔ ‘پارلیامنٹ میں بیٹھکر ریپ کے خلاف قانون بنانے والے ہی جب ریپ کرنے والوں کے تئیں ہمدردی اور خواتین کے تئیں خراب سوچ رکھیں تو خواتین کے خلاف جرم کے اعداد و شمارکے اضافے پر تعجب کیوں!
ملائم سنگھ کی طرح ہی چھتیس گڑھ کی بی جے پی حکومت کے سابق وزیر داخلہ رام سیوک پیکرا بھی 2014میں ریپ کرنے والوں کی پیروی کرتے دکھے تھے۔ ریاست میں لگاتار گھٹتی بدکاری کے واقعات پر انہوں نے کہا تھا، ‘ ریپ کوئی جان بوجھ کر نہیں کرتا، بلکہ دھوکے سے ہو جاتا ہے۔ ‘تو اس وقت کےکانگریس ایم ایل اے اور فی الحال بی جے پی رہنما رام دیال ا وئیکے کا ماننا تھا، ‘بدکاری تبھی ہوتی ہے، جب محبت کا معاملہ بگڑ جاتا ہے۔ جب محبت رہتی ہے، تب تک ٹھیک ہے اور جب بگڑ جاتی ہے، تب ریپ ہوتا ہے’
رام دیال جیسی سوچ اور بھی رہنماؤں کی ہے۔ ملائم کے سماجوادی کنبے کے ہی ان کے بھائی رکن پارلیامان رام گوپال یادو بھی ان میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا رہا تھا، ‘ جب لڑکے-لڑکیوں کا عشق و محبت کھلکر سامنے آ جاتا ہے تو اس کو ریپ کہہ دیا جاتا ہے۔ ‘بدایوں گینگ ریپ پر ہوئی حکومت کی شرمندگی پر ناراض رام گوپال یادو نے ایک چینل کی خاتون صحافی سے یہ کہا، ‘ آپ ہی جاکر وہاں کا ماحول ٹھیک کر دو۔ یوپی میں ہو رہے ریپ کے معاملوں سےہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ میڈیا ہی ہمارے ساتھ جانبداری کرتا ہے۔ دوسری ریاستوں میں بھی ریپ کے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن میڈیا صرف یوپی کی ہی خبر دکھاتا ہے۔ ‘
ایسے بیانات کےتعلق سے ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر بھی متنازعہ رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت کے بچاؤ میں کہا تھا، ‘ریپ اور چھیڑچھاڑ کے80-90 فیصدی واقعات جانکاروں کےبیچ میں ہوتے ہیں۔ کافی وقت تک اکٹھے گھومتے ہیں، ایک دن ان بن ہو گئی تو ایف آئی آر کرا دیتے ہیں کہ میرا ریپ کیا۔ ‘
یہ صحیح ہے کہ کئی معاملوں میں ایسا بھی ہوا ہے، لیکن اس طرح کے غیرذمہ دارانہ بیان ریپ اور ریپ کرنے والوں کی حمایت میں نظر آتے ہیں۔ اور وزیراعلیٰ کھٹر ایک دوسرے موقع پر ریپ کو لڑکیوں کے پہناوے سے جوڑتے ہوئے کہتے ہیں،’اگر کوئی لڑکی مہذب دکھنے والے کپڑے پہنتی ہے، تو کوئی لڑکا اس کو غلط طریقے سے نہیں دیکھےگا۔ ‘ریپ کو لےکرجوابدہی مردوں کی طے ہونی چاہیے لیکن خواتین کے کپڑوں کو ہی ریپ کی وجہ ٹھہرانے والے کھٹر جیسی سوچکے رہنما اور بھی ہیں۔
سماجواد ی کنبے کے مہاراشٹر سے ایم ایل اے اور مہاراشٹر ریاستی صدر ابو اعظمی کی بھی یہی سوچ رہی ہے۔ نربھیا کےقصورواروں کو پھانسی کی بات پر ان کا کہنا تھا، ‘ ننگے پن کو روکنے کے لئے قانون ہونا چاہیے۔ کم کپڑے پہننے پر پابندی لگانی چاہیے۔ میں دہلی گینگ ریپ کے ملزمین کو پھانسی دینے کی حمایت میں ہوں، پر ایک قانون ایسا بھی ہونا چاہیے جو خواتین کےچھوٹے کپڑوں پر بھی پابندی لگائے۔ ‘
سال 2017 میں بنگلور کے ایک کلب میں نئے سال کے جشن کے وقت لڑکیوں کے ساتھ ایک شرمناک واقعہ سامنے آیا تھا۔ تب اعظمی نے کہا تھا کہ اگر میری بہن-بیٹی سورج ڈوبنے کے بعد غیرمردکے ساتھ 31 دسمبر منائے اور اس کا بھائی یا شوہر ساتھ نہیں ہے تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ جہاں پیٹرول ہوگا، وہیں آگ لگےگی۔ شکر گرےگی تو چیونٹی ضرور آئےگی۔ اس سےبہت لوگ مجھ سے ناراض ہوںگے، لیکن چلےگا کیونکہ یہ سچائی ہے۔
وہ یہیں نہیں رکے،انہوں نے آگے کہا، ‘ آج ماڈرن زمانے میں جتنی عورت ننگی نظر آتی ہے اتنا اس کوفیشن ایبل کہا جاتا ہے۔ ‘ایک بار تومعاملے میں سزا کو لے کر انھوں نے یہاں تک کہا کہ اسلام کے مطابق ریپ کےقصوروار کو پھانسی کی سزا دی جانی چاہیے لیکن اس کے لیے خواتین کو کچھ نہیں ہوتا،صرف مردوں کو سزا دی جاتی ہے۔ خواتین بھی قصوروار ہیں۔
اسی طرح 2013 میں ممبئی میں ہوئے ایک گینگ ریپ کے بعد نریش اگروال نے صلاح دی تھی،’سماجی سوچ کوبدلنا ہوگا۔ ٹی وی کی فحاشی، رہن سہن اور کپڑے پہننے کے طورطریقوں پر دھیان دیناہوگا۔ ‘اینٹی ریپ بل کی مخالفت میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ افسر، خاتون پی اے رکھنے سے گھبراتے ہیں۔
خواتین کے ساتھ ہوئے جرم کے لئے خواتین کو ہی ذمہ دار بتانا پدری سوچ کا نتیجہ ہے اور ملک کےرہنماؤں کی یہ سوچ مختلف مواقع پر دکھتی رہی ہے۔ان کے مطابق موبائل فون کے استعمال سے لےکر چاؤمین کھانا بھی ریپ کی وجہ ہو سکتی ہے۔
2018 میں جب جموں و کشمیر میں آٹھ سال کی معصوم کے ساتھ گینگ ریپ اورقتل کو لےکر ملک میں ہنگامہ مچا ہوا تھا، تب بلیا کے بی جے پی ایم ایل اے سریندرسنگھ نے کہا تھا، ‘ نابالغ لڑکیوں کا کھلےعام گھومنا ٹھیک نہیں۔ ان کو موبائل فون کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اسی وجہ ریپ جیسے واقعات ہوتے ہیں۔ ‘حیدر آباد معاملہ کے دو ہی دن بعد 30 نومبر کو راجستھان کے ٹونک ضلع کے کھیڑلی گاؤں میں ایک چھ سالہ معصوم سے ریپ کرکے اس کا گلا اس وحشیانہ طریقے سے دبایا گیا کہ اس کی آنکھیں ہی باہر نکل آئیں۔
ابو اعظمی،منوہرلال کھٹر، نریش اگروال جیسے رہنماؤں کو بتانا چاہیے کہ کیا ٹونک ضلع کی اس معصوم یا ایسی کئی بچیوں کے ساتھ ہو رہے تشدد اور ریپ کے لئے بھی چھوٹےکپڑوں کو وجہ مانا جائے؟ سریندر سنگھ بتائیں کہ اس معصوم کے پاس کیا موبائل فون تھا، کیا وہ کھلےعام گھوم رہی تھی؟ جب دیہی علاقوں میں ریپ کی بات کر رہے ہیں تو آرایس ایس کے سربراہ ان موہن بھاگوت کا بھی ذکر ضروری ہو جاتا ہے جو حیدر آباد معاملہ پر قصورواروں کو سخت سزادینے کی مانگکر رہے ہیں۔
ایک وقت یہی بھاگوت کہتے نظر آئے تھے، ‘ریپ’ انڈیا ‘ میں ہوتے ہیں،’بھارت’میں نہیں۔ ‘کچھ سالوں پہلے دئے اس بیان میں انہوں نے سمجھایا تھا کہ شہروں کی مغربی تہذیب کی وجہ سےریپ انڈیا میں ہوتے ہیں، بھارت(گاؤں)میں نہیں۔ ‘
مدھیہ پردیش کےسابق وزیراعلیٰ بابولال گور بھی بھاگوت اور اعظمی جیسی ہی سوچ رکھتے تھے۔ ان کابیان تھا، ‘ دوسرے ملکوں میں خواتین جینس-ٹی شرٹ پہنتی ہیں، غیر مردوں کے ساتھ ڈانس کرتی ہیں، شراب بھی پیتی ہیں۔ پر یہ ان کی تہذیب ہے۔ یہ ان کے لئے ٹھیک ہے،ہندوستان کے لئے نہیں۔ ‘یہاں بتا دیں کہ یہ بات گور نے ریاست کے وزیر داخلہ رہتے کہی تھی، جس پر کہ سیدھے طور پر ریپ اور خاتون مخالف جرم کو روکنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ انہوں نے اور بھی کئی مواقع پر خواتین کے خلاف زہر اگلا تھا۔
بی جے پی رکن پارلیامان ستیہ پال سنگھ جب ممبئی کی پولیس کمشنر رہتے ہوئے کہا تھا، ‘ سیکس ایجوکیشن جن ممالک میں ہے، وہاں خواتین کے خلاف جرم بڑھے ہیں۔ سیکس ایجوکیشن کو لےکے ہمیں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کے نصاب میں بس میں سیکس ایجوکیشن شامل ہے، پراسٹوڈینٹس کو صرف جنسی رشتہ بنانا سکھایا جا رہا ہے۔’آج وہ رکن پارلیامان ہیں اور ملک کے پارلیامنٹ میں بیٹھکر خواتین کی حفاظت کے لئے قانون بنانے کے عمل میں شامل ہیں۔
ریپ کو غلط نہ بتاکر اخلاقیات کی دہائی دینے والے بھی خواتین کی حفاظت کے لئے خطرہ ہیں۔ بی جےپی رکن پارلیامان ساکشی مہاراج ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں۔جنسی استحصال اورریپ کے قصوروار سنت رام رحیم کے بچاؤ میں انھوں نے کہا تھا،’ ایک شخص نے رام رحیم پر ریپ کا الزام لگاتے ہوئے شکایت کی، وہیں، کروڑوں لوگ انھیں بھگوان مانتے ہیں، ایسے میں آپ کسے صحیح سمجھتے ہیں؟ یہ ہندوستانی تہذیب کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔’
ایسے رہنما بھی ہیں، جنہوں نے اپنی سوچکے مطابق ریپ کے پیمانے اور تعریفیں بھی گڑھ رکھی ہیں۔ تریپورہ کے گورنر رمیش بیس جب چھتیس گڑھ کے رائے پور لوک سبھا سیٹ سے بی جےپی رکن پارلیامان تھے، تب ریپ کے معاملے میں ان کی سوچ یہ تھی،’بڑی لڑکیوں اور خواتین سے ریپ تو سمجھ آتا ہے لیکن اگر کوئی بچی کے ساتھ ریپ کرے تو یہ گھناؤنا جرم ہے۔ ‘
وہیں بی جے پی کےہی ایک دیگر رہنما اور یوپی حکومت میں وزیر اپیندر تیواری کا کہنا تھا، ‘ اگر کسی بچی سے ریپ کیا جاتا ہے تو وہ گھناؤنا جرم ہے۔ جبکہ کسی شادی شدہ خاتون سے ریپ کیا جاتا ہے تو وہ الگ بات ہے۔ ‘
ایسے رہنماؤں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ کیرانا سے بی جے پی رکن پارلیامان رہے حکم سنگھ مانتے تھے، ‘ریپ مسلم لڑکے کرتے ہیں۔ آج تک کسی ہندو نے لڑکی کے ساتھ ریپ نہیں کیا۔ ‘ریپ کےمعاملے میں متاثرہ خواتین کے کردار پر سوال اٹھانا بےحد عام ہے اور ملک کے رہنما اس سے اچھوتے نہیں ہیں۔
2018 کے جالندھر کے نن ریپ معاملے، جہاں ایک کے بعد ایک کئی ننوں نے بشپ پر ریپ کے الزام لگائے، میں کیرل کے آزاد ایم ایل اے پی سی جارج نے اس بارے میں انکشاف کرنے والی نن کو ہی طوائف بتا دیا تھا۔بشپ کی حمایت میں انہوں نے کہا تھا، ‘اس بات میں کسی کو شک نہیں ہے کہ نن فاحشہ ہے۔ 12بار اس نےانجوائے کیا تو 13ویں بار یہ ریپ کیسے ہو گیا؟ اس نے پہلی بار ہی شکایت کیوں نہیں کی؟
ریپ : ایک’چھوٹی-سی’بات
خواتین کے جسم کےساتھ دل پر گہرا زخم دینے والی کئی غارت گر رہنماؤں کو اکثر ‘ چھوٹی-سی بات ‘نظر آئی ہے۔2014 میں اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے نربھیا معاملے کے تناظر میں کہاتھا، ‘دہلی میں ایک چھوٹی سی بدکاری کے واقعہ کو دنیا بھر میں اتنا مشتہر کیا گیاکہ عالمی سیاحت کے شعبے میں ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ‘
جموں و کشمیر کےکٹھوعہ گینگ ریپ اور قتل معاملے پر ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ رہے کوندر گپتانے واقعہ پر رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ یہ ایک چھوٹی سے بات ہے ہمیں اس کواتنا زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ ‘
2018 میں ہی مرکزی وزیر سنتوش گنگوار نے کہا تھا، ‘اتنے بڑے ملک میں ایک-دوواقعات ہو جائیں تو بات کا بتنگڑ نہیں بنانا چاہیے۔’ایک دیگر مرکزی وزیر اشونی چوبے نے صحافیوں سے ریپ پر بات کرتے ہوئے کہا تھا، ‘ ایک-دو واقعات ہوئے ہوںگے۔ ان پر کارروائی ہو رہی ہے، اس میں کون-سی بڑی بات ہے۔ ‘
ریپ کو لےکرایسی ہی بےتکی سوچ کی مثال سال 2015 میں تب ملی تھی، جب کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ رہے کے ایس ایشورپّا سے اپوزیش رہنما ہونے کے ناطے ایک پریس کانفرنس کے دوران خاتون صحافی نے ان سے ریپ پر سوال کیا، جس پر انہوں نے جواب دیا تھا، ‘ آپ ایک خاتون ہیں اور اس وقت یہاں موجود ہیں۔ کوئی کھینچکر آپ کا ریپ کر دے تو اس میں اپوزیشن کیا کرےگا؟ ‘
اس طرح کی بےتکی بیان بازی کے درمیان ہریانہ کے سابق وزیراعلیٰ اوم پرکاش چوٹالا نے ریپ کےمسئلہ کا حل کم عمر میں شادی کرنے کو بتایا تھا۔
خاتون رہنما بھی پیچھے نہیں
اس بارے میں صرف مرد رہنما ہی نہیں، خاتون رہنماؤں کے بیان بھی غیر سنجیدہ اور متنازعہ نظر آئے ہیں۔کٹھوعہ معاملہ پربی جے پی رکن پارلیامان اور پارٹی ترجمان میناکشی لیکھی یہ کہتی نظر آئیں،’مرکزپر الزام لگانے کا یہ کانگریس کا منصوبہ ہے۔ پہلے اقلیت، پھر دلت-دلت اور اب خاتون-خاتون چلا رہے ہیں۔’
اسی واقعہ کوموجودہ بی جے پی رکن پارلیامان پرگیہ ٹھاکر نے ریپ ماننے سے ہی انکار کر دیاتھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی سازش ہے۔ بچی کا قتل ہوا ہے لیکن ریپ نہیں ہوا ہے۔ہریانہ کی بی جےپی رہنما اور خاتون مورچے کی ریاستی صدر نرمل ویراگی نے ریاست میں بڑھتے ریپ کے واقعات پر انہوں نے کہا تھا، ‘کائنات کی تخلیق کے وقت سے ہی ریپ ہوتے ہیں۔ ‘
بی ایس پی سپریمومایاوتی کے اس خاموشی کا ذکر بھی یہاں ضروری ہو جاتا ہے جب یوپی بی جے پی نائب صدردیاشنکر سنگھ نے ان پر متنازعہ تبصرہ کیا اور اس کے بدلے میں بی ایس پی کارکن ان کی بہن اور بیٹی کو سامنے پیش کرنے کا چیلنج دیتے نظر آئے۔مایاوتی بس یہ کہہکر رہ گئیں کہ ان کے خلاف ہوئے تبصرہ سے غصہ کر بی ایس پی کارکنان نے ماں-بیٹی کےخلاف ناشائستہ زبان کا استعمال کیا۔
بدقسمتی ہے کہ اس سب کے بعد بھی ایسے رہنما دن بہ دن کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے جاتے ہیں۔ نہ تو ان کی پارٹی اور نہ ہی عوام انھیں سبق سکھاتی ہے۔
کیا سماج اورسیاست کو ریپ کے واقعات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا؟ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر)کے اعداد و شمار تو یہی اشارہ کرتے ہیں۔اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق موجودہ لوک سبھا میں 19 رکن پارلیامان پر خواتین پر ظلم و استحصال سے جڑے، تو تین رکن پارلیامان پر ریپ سے جڑے معاملے درج ہیں۔ غور طلب ہے کہ حیدر آباد کے واقعہ پر جب پارلیامنٹ میں چرچہ ہو رہا تھا، تب اسی پارلیامنٹ میں خود ایسے الزامات کا سامنا کر رہے 22 رکن پارلیامان ہیں، تب کیا ان باتوں کے نتائج مثبت اور خوش کن نکلیںگے؟
ہماری سیاسی جماعتوں نے ہی ان کو پارلیامنٹ میں بھیجا ہے۔ اس کے پیچھے دلیل ہو سکتی ہے کہ ان پر الزام ثابت نہیں ہوئے ہیں۔لیکن، آج جب وہ رکن پارلیامان ہیں تو کیا اپنےاثرو رسوخ کا استعمال کرکے الزام ثابت ہونے دیںگے؟اناؤ گینگ ریپ میں کلدیپ سینگر معاملے دکھ ہی چکا ہے کہ کس طرح اس ‘ اثر و رسوخ کا استعمال ‘ کیا جاتاہے۔ اس لئے اگر سیاست خواتین کی حفاظت کو لےکر اصل میں سنجیدہ ہوتی تو ریپ کرنے والے انتخاب لڑ ہی نہیں پاتے۔
اس مدعے پر سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی ریاکاری کوسمجھنا ہے تو ایک معقول مثال راجستھان اسمبلی انتخابات کا بھی ہے۔تب ایک طرف اس وقت کے کانگریس صدر راہل گاندھی ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے خاتون تحفظ کی بات کر رہے تھے، اسی دوران بھنوری دیوی معاملے کے ملزمین مہیپال سنگھ مدیرنا اور ملکھان وشنوئی کے رشتہ داروں کو پارٹی انتخاب لڑا رہی تھی۔
بی جے پی ایک وقت نابالغ سے ریپ کے ملزم اپنے ایم ایل اے کلدیپ سینگر کے بچاؤ میں اتر آئی تھی۔سینگر کی پارٹی سے نکالا جانا بھی ہوا تو لمبے میڈیا ٹرائل کے بعد۔ بہار میں لالویادو کی پارٹی آرجے ڈی سے ایم ایل اے راج ولبھ بدکاری میں قصوروار ثابت ہوئے، پھربھی پارٹی نے ان کی بیوی کو لوک سبھا انتخاب لڑا دیا۔ہر پارٹی کا یہی حال ہے۔ خود غور کیجئے کہ کیا ایسے سیاستداں ریپ روک تھام پر کوئی سخت فیصلہ لے سکتے ہیں؟ خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے کوئی قانون بنا سکتے ہیں؟
نربھیا سے لےکرحیدر آباد تک تصویر نہ بدلنے کی وجہ صرف سیاست کا یہ شرمناک چہرہ ہی ہے۔جہاں انتخاب میں اپنی مخالف خاتون امیدوار پر غیرمہذب تبصرہ کرنے والے اعظم خان موجود ہیں۔ جہاں ایک ایسا رہنما بہترین رکن پارلیامان کا خطاب پا لیتا ہے جو خواتین کو پرکٹی بتاکرریزرویشن نہ دئے جانے کی وکالت کرتا ہو، ایک ریاست کی وزیراعلیٰ کو موٹی کہہ دیتاہو، ووٹ کی عزت کو بیٹی کی عزت سے بڑھکر بتاتا ہو اور خواتین کا پیچھا کرنے اورگھورنے کو جرم کے زمرہ میں رکھنے کے اہتمام کی مخالفت کرتا ہو۔ بات شرد یادو کی ہورہی ہے۔
جب پارلیامنٹ میں شرد یادو جنوبی ہندوستان خواتین کی جسمانی بناوٹ ہاتھوں کے اشاروں سے سمجھاتےہوئے کہتے ہوں، ‘جنوبی ہندوستان کی خاتون جتنی خوبصورت ہوتی ہے جتنا اس کی باڈی دیکھنے میں’اور اس پر پارلیامنٹ کے دیگر ممبر قہقہہ لگاتے ہوں، تب آپ تصور بھی کیسے کر سکتے ہیں کہ اس ملک میں خواتین کی عزت اور وقار کو اس ملک کی سیاست بچا سکتی ہے!
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)