
نیوز لانڈری کی خاتون صحافیوں نے ابھیجیت ایر مترا کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مترا نے ان کے خلاف توہین آمیز تبصرے کیے ہیں، جوجنسی بدسلوکی کے زمرے میں آتے ہیں۔ عدالت نے مترا کو اسے فوراً ہٹانے کو کہا۔

نیوز لانڈری کا لوگو اور ابھیجیت ایر مترا۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس / @newslaundryاور @Iyervval)
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے بدھ (21 مئی) کو ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم نیوز لانڈری کی نو خواتین صحافیوں کی طرف سے دائر ہتک عزت کے مقدمے میں تبصرہ نگار ابھیجیت ایر مترا کو اس وقت تک سننے سے انکار کر دیا جب تک کہ وہ اپنی مبینہ توہین آمیز پوسٹ کو ہٹا نہیں لیتے۔
لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق،جسٹس پرشیندرکمار کورو نے ان کے وکیل جئے اننت دیہادرائی کو زبانی طور پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا، ‘کیا آپ ان ٹوئٹس کا دفاع کر سکتے ہیں؟ اس طرح کی زبان، خواہ اس کا پس منظر کچھ بھی ہو، کیا خواتین کے خلاف اس طرح کی زبان معاشرے میں قابل قبول ہے؟ …آپ کو اسے ہٹانا ہوگا۔ تبھی ہم آپ کی بات سنیں گے۔’
ایر کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ جئے اننت دیہادرائی نے فوری اثر کے ساتھ پوسٹ کو ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی۔
عدالت نے کہا کہ ‘پوسٹ میں استعمال کی گئی زبان کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے عدالت کا اولین نظریہ ہے کہ یہ کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے…’
معلوم ہو کہ نیوز لانڈری کی خاتون صحافیوں نے ابھیجیت ایر مترا کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مترا نے ان کے خلاف قابل اعتراض اور توہین آمیز تبصرے کیے ہیں، جو جنسی بدسلوکی کے زمرے میں آتے ہیں۔
ان صحافیوں کی طرف سے دائر مقدمہ میں مترا سے عوامی طور پرمعافی اور مبینہ ہتک عزت کے لیے 2 کروڑ روپے ہرجانے اور معاوضے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جن خواتین صحافیوں نے مقدمہ درج کرایا ہے ان میں منیشا پانڈے، اشیتا پردیپ، سہاسنی بسواس، سمیدھا متل، تیستا رائے چودھری، تسنیم فاطمہ، پریہ جین، جئے شری اروناچلم اور پریالی ڈھینگرا شامل ہیں۔ نیوز لانڈری بھی اس مقدمے میں مدعیوں میں سے ایک ہے۔
عبوری راحت کے طور پر مترا کے ایکس ہینڈل سے متنازعہ پوسٹ ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ مترا کی جانب سے ایکس پر کی گئی مبینہ توہین آمیز پوسٹس ہتک آمیز، بے بنیاد اور غلط ہیں اور ان کا مقصد جان بوجھ کر خواتین صحافیوں کے وقار اور ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔
مترا پر نیوز لانڈری کی خواتین ملازمین کو ‘غلط اور بدنیتی سے’ لیبل کرنے اور انہیں ‘طوائف’ اور ان کے کام کی جگہ کو ‘کوٹھا’ کہنے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔
اس میں مترا پر ایکس پر اپنی پوسٹس کی سیریز کے ذریعے مبینہ طور پر نازیبا کلمات اور گالی گلوچ کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔
اپنی درخواست میں صحافیوں نے کہا کہ نیوز لانڈری کے سبھی صارفین کو ہندی میں’ویشیا’ کہا گیا ہے، جبکہ انہیں ( مترا) نہیں معلوم کہ وہ ڈاکٹر، وکیل، جج، اساتذہ، سائنسدان، آرکیٹیکٹس، انجینئر وغیرہ ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے، ‘کسی بھی عورت/شخص کو غیرانسانی نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ کسی بھی پیشے کو توہین کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ تبصرے خواتین کو – چاہے وہ صحافی ہوں یا سیکس ورکر – ان کی شناخت اور وقار سے محروم کرتے ہیں۔’
شکایت میں کہا گیا ہے، ‘یہ جنسی بدسلوکی ہے، جس کا مقصد ادارے میں کام کرنے والی خواتین پیشہ ور افراد کی تذلیل کرنا ہے، اور یہ ادارے پر براہ راست حملہ کے ساتھ ساتھ ان کے وقار اور بغیر کسی خوف یا جنسی ہراسانی کے کام کرنے کے حق پر بھی حملہ ہے۔’
عدالت آئندہ ہفتے کیس کی دوبارہ سماعت کرے گی۔
عدالت کے ریمارکس کے بعد مترا نے ایکس پر لکھا کہ انہیں عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے اور وہ ان پوسٹ کو ہٹا دیں گے۔ اس پوسٹ میں ایر نے ادارے کی فنڈنگ پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔
دریں اثنا، نیوز لانڈری کی مینیجنگ ایڈیٹر منیشا پانڈے، جو مترا کے خلاف ہتک عزت کے مقدمے میں کلیدی درخواست گزار ہیں، نے ایکس پر ایک مضمون شیئر کیا ہے ، جس میں ویب سائٹ کی فنڈنگ اور ملکیت کی تفصیلات دی گئی ہیں۔