کو رونا وائرس: مودی حکومت کی ترجیحات میں وینٹی لیٹر کا انتظام نہیں مشین گن کی خریداری ہے؟

جس وقت حکومت کی ترجیحات میں اسپتالوں کے نظام کو بہتر بنانا اور لاک ڈاؤن کے درمیان عوام کے لیےراشن پانی کا خیال رکھنا تھا، اس وقت مشین گن خریدنے اور دارالحکومت کے ماسٹر پلان پر خرچ کرنے کا کام نیرو جیسا حکمراں ہی کر سکتا ہے۔ پورے ہندوستان میں 1.3بلین آبادی کے لیے صرف 40ہزار وینٹی لیٹرز ہیں۔ اسرائیلی مشین گن کی قیمت تقریباً پانچ لاکھ روپے ہے۔ ایک وینٹی لیٹر کی قیمت بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ کچھ نہیں تو اس رقم سے 17ہزار وینٹی لیٹرز ہی خریدے جاسکتے تھے۔

جس وقت حکومت کی ترجیحات میں اسپتالوں کے نظام کو بہتر بنانا اور لاک ڈاؤن کے درمیان عوام کے لیےراشن پانی کا خیال رکھنا تھا، اس وقت مشین گن خریدنے اور دارالحکومت کے ماسٹر پلان پر خرچ کرنے کا کام نیرو جیسا حکمراں  ہی کر سکتا ہے۔ پورے ہندوستان میں 1.3بلین آبادی کے لیے صرف 40ہزار وینٹی لیٹرز ہیں۔ اسرائیلی مشین گن کی قیمت تقریباً پانچ لاکھ روپے ہے۔ ایک وینٹی لیٹر کی قیمت بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ کچھ نہیں تو اس رقم سے 17ہزار وینٹی لیٹرز ہی خریدے جاسکتے تھے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

کہتے ہیں کہ شہنشاہ نیرو کے زمانے میں سلطنت روم میں سخت قحط آن پڑا۔ نیرو کا 13سالہ دور حکومت)54سے 68عیسوی(اس کی اپنی والدہ و اہلیہ کے قتل، بے جا اصراف، شہر روم کی آگ زنی کے لیے تاریخ میں خاصا بدنام ہے۔ قحط کا مقابلہ کرنے کے لیے عمائدین نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ بحری جہازوں کو مصر اور دیگر ممالک میں بھیج کر گندم منگوائی جائے، تاکہ فاقہ زدہ عوام کو راحت مل سکے۔ جہاز روم سے روانہ تو  ہوئے، مگر واپسی پر ان پر گندم کے بجائے، مصر کے ریگستانوں کی باریک ریت لدی ہوئی تھی او راسی کے ساتھ شہنشاہ نے روم میں عظیم الشان میلہ کے انعقاد کا اعلان کر کے عوام میں جوش بھر دیا۔

نیرو نے عمائدین کو بتایا کہ گندم کے  چند ایک بحری جہاز کہاں تک لاکھوں فاقہ زدہ عوام کی بھوک مٹا سکتے تھے، وہ جلد ہی بغاوت پر اتر آتے۔ مصری ریت بچھا کر شہر کی عالیشان بیضوی تماشاہ گاہوں یعنی کلوسیم کو میلہ کے لیے تیار کیا گیا۔ ان کلوسیم کے کھنڈرات ابھی بھی فلسطین، ترکی، اور یورپ میں معتدد جگہوں پر موجود ہیں۔ بھوک سے بے حال لڑکھڑاتی  پبلک میلہ اور خونی کھیل تماشے دیکھنے کےلیے کلوسیم پہنچنے میں سبقت لینے کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ کھیل کیا تھے، غلاموں کو آپس میں یا بھوکے درندوں سے لڑوایا جاتا۔

جب و ہ ان کو چیر پھارڑ کررہے ہوتے تو عوام کا جوش دیدنی ہوتا تھا۔ غلام عورتوں کو ایک بڑے سے لوہے کے توے کے اوپر برہنہ رکھا جاتا اور اس کے نیچے ہلکی آنچ پر آگ جلائی جاتی۔ جوں جوں تپش ان عورتوں کے تلوو ں کو چھوتی، وہ غیر اختیاری طور پر اچھل کود کرتی۔ بریکنگ ڈانس کا یہ نظارہ تب تک تماشائیوں کو محفوظ کرتا تھا، جب تک آگ ان غلام عورتوں کے گوشت اور ہڈیوں کو چاٹ نہیں جاتی۔ نیرو آج بھی زندہ ہیں۔ جہاں اس وقت پوری دنیا کو کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور معاشی بحران عوام کو بے حال کرنے کے لیے دستک دے رہا ہے، بس اسی دوران نریندی مودی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ 870کروڑ روپے کے عوض16489لائٹ مشین گنیں خریدنے کا ایک دفاعی سودا کیا۔

جس دن پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا،  اسی روز لگ بھگ 20 ہزار کروڑ یعنی دوسو بلین روپے کی لاگت سے دارالحکومت نئی دہلی کے لیے ایک نئے ماسٹر پلان کا اعلان کیا گیا۔ جس کے تحت پارلیامنٹ ہاؤس وزیر اعظم کی رہائش گاہ اور سینٹرل سیکریٹریٹ کے لیے نئی عمارتیں تعمیر ہوں گی۔ کیونکہ بتایا گیا کہ برطانوی دور اقتدار کے دوران بنائی گئی یہ مشہور عمارتیں نارتھ بلاک، ساؤتھ بلاک و پارلیامنٹ ہاؤس اب سو سال پرانی ہو چکی ہیں۔

جس وقت حکومت کی ترجیحات اسپتالوں کا نظام بہتر بنانا اور لاک ڈاؤن کے درمیان عوام کے لیےراشن پانی کا خیال رکھنا تھا، اس وقت خزانہ عامرہ کی رقوم مشین گن خریدنے اور دارالحکومت کے ماسٹر پلان پر خرچ کرنے کا کام نیرو جیسا حکمراں  ہی کر سکتا ہے۔ پورے ہندوستان میں 1.3بلین آبادی کے لیے صرف 40ہزار وینٹی لیٹرز ہیں۔ اسرائیلی مشین گن کی قیمت تقریباً پانچ لاکھ روپے ہے۔ ایک وینٹی لیٹر کی قیمت بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ کچھ نہیں تو اس رقم سے 17ہزار وینٹی لیٹرز ہی خریدے جاسکتے تھے۔

ہندوستان  میں ہیلتھ ورکرز چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ ان کو اس وقت 7لاکھ25ہزار حفاظتی سوٹ اور 6لاکھ N-95ماسکز کی ضرورت ہے۔ اس کے علاہ ایک کروڑ تھری پلائی ماسکز کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یکم فروری سے تین مارچ تک وزات صحت اور وزارت ٹیکسٹائل یہ طے نہیں کر پار ہے تھے کہ ان ماسکز اور سوٹ کی کیا تصریحات ہونی چاہئے۔ 19مارچ تک تو وینٹی لیٹرز کی ایکسپورٹ بھی بغیر روک ٹوک جاری تھی۔ شاید یہی حال جنوبی ایشیاء کے د یگر ممالک کا بھی ہوگا۔ وزیر اعظم مود ی نے اپنی عادت کے مطابق جس طرح اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کیا اس نے ڈیمانڈ-سپلائی چین کو بری طرح بکھیر کر رکھ دیا ہے۔

(فوٹو : رائٹرس)

(فوٹو : رائٹرس)

ہزاروں، لاکھوں  مزدو ر ، کاریگر  اپنے کنبے ، چھوٹے بچوں اور خواتین سمیت،شہروں سے نکل کر  اپنے اپنے گاؤں جانے کے لیے پیدل مارچ کر رہے ہیں۔ حکومت کی بے حسی، پولیس کی بربریت، ملک میں اشیائے خورد و نوش کی کمی نے ان مزدوروں کو شاید کورونا سے بھی بڑے انسانی المیے میں دھکیل دیا ہے۔ شہروں میں ان کے لئے ملازمت یا روزگار کے مواقع ختم ہوچکے ہیں۔ صرف چار گھنٹے کا نوٹس  دےکر لاک ڈاؤن لاگو کرنے سے  غریب افراد سب سے زیادہ متاثر  ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل جنوبی افریقہ نے بھی اسی طرح 21 دن کا لاک آؤٹ نافذ کیا، لیکن انہوں نے تین دن کا نوٹس دے دیا تاکہ عوام ضروریات زندگی سے محروم نہ ہوں اوروہ اپنے گھروں تک پہنچیں۔

جب حکومت بیرون ملک سے لوگوں کو لانے کے لئے ہوائی جہاز بھیج سکتی تھی، تو پھر ان غریب بے سہارا مزدوروں کے لیے بھی  انتظامات ہوسکتے تھے۔اس سے بھی بڑا المیہ جو منتظر ہے وہ یہ ہے کہ شمالی ہندوستان کے کئی صوبوں میں گندم کی 328لاکھ ہیکٹر فصل کاشت کے لیے تیار ہے۔ جس میں صرف پنجاب میں 130لاکھ ہیکٹر فصل تیار کھڑی ہے۔ سپلائی چین اور ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی سے اس فصل کا منڈیوں تک پہنچانے کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا ہے۔ ہندوستان کی ہیلتھ منسٹری کے ہیڈکوارٹر نرمان بھون میں وبائی امراض کی پیشگی اطلاع دینے کے لیے سینٹرل بیورو آف ہیلتھ انٹلی جنس کا محکمہ کام کرتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس محکمہ نے جنوری میں ہی  ہندوستان میں اس مرض کے پھوٹنے کی اطلاع دی تھی۔

ملک کے معروف وائرالوجسٹ ڈاکٹر ٹی جیکب جان کے مطابق لاک ڈاؤن کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں تاخیر تو کرسکتا ہے، مگر اس کا شرطیہ علاج نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن پر ہی تکیہ کرنا ایک دیوانے کے خواب کی طرح ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک نے قدرت کی طرف سے ان کو عطا کیا گیا وقت اور مہلت گنوادی۔ڈاکٹر جان کے مطابق اس وقت اس وائرس کو پھیلنے سے کوئی روک نہیں سکتا، ہاں اس کی شدت میں کمی آسکتی ہے۔

یاد رہے دنیا کے چند خطوں میں تباہی پھیلانے کے بعد دیگر وائرس یعنی H1NI  اور سارس ابھی بھی موجود ہیں، مگر ان کی شدت میں کمی آگئی ہے۔ اگر ہندوستان میں آدھی فیصد آبادی بھی اس کی زد میں آتی ہے، تو اس سے تین ملین اموات کا خدشہ ہے۔ ہندوستان اور جنوبی ایشیا ء کے دیگر ممالک میں صحت عامہ کے تئیں وار روم حکمت عملی نہیں بنتی ہے۔ جس طرح دفاعی معاملات کے تئیں حساس ادارے آئے دن سیمولیشن اور مشقیں کرتے رہتے ہیں، اس طرح کی ایکسرزائز صحت و وبا کے تعلق سے نہیں کی جاتی ہیں۔ جبکہ اب دنیا ایک حیاتیاتی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے اس شعبہ کو نظر انداز کرنا اور اس کو نیشنل سکیورٹی  اپیریٹس میں شامل نہ کرنا بس ایک حماقت ہی ہے۔

اتر پردیش کے بریلی میں گھر واپس لوٹے مزدوروں کو سینٹا ئزر سے نہلایا جا رہا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر/ویڈیو گریب)

اتر پردیش کے بریلی میں گھر واپس لوٹے مزدوروں کو سینٹا ئزر سے نہلایا جا رہا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر/ویڈیو گریب)

ڈاکٹرجان کا کہنا ہے گو کہ چین نے بڑی حد تک کورونا وائرس کے چیلنج کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے، مگر اس وقت دنیا کو جرمنی اور جنوبی کوریا کے اقدامات سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ کوریا نے تو جنوری کی ابتدا ہی میں بچاؤ  تدبیریں اختیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان دونوں ممالک میں سرکاری اور نجی اداروں کا اشتراک قابل رشک ہے۔ دونوں اداروں نے ٹیسٹنگ سینٹروں کا جال بچھایا ہوا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں تو ابھی تک بس تھوڑی سی ہی آبادی کی ٹسٹنگ ہوئی ہے اور بیشتر ان افراد کی جو باہر سے آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے میں نے پوچھا کہ کیا وائرس سے جلدی چھٹکارا پانے کی کوئی ترکیب ہے تو ان کا کہنا تھا کہ موسم گرما کی  آمد کے ساتھ اس کے پھیلنے کی رفتار رک سکتی ہے، مگر خزاں اور پھر سردیوں میں یہ پھر سر اٹھا سکتا ہے۔

اس کے ویکسین پر کام جار ی ہے، مگر ٹیسٹنگ وغیرہ کے مراحل سے نکل کر مارکیٹ میں آنے میں ایک سال کا وقت لگ سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جنوبی ایشائی ممالک میں پرائمری ہیلتھ کی سہولیات ضلع سطح تک اب خاصی بہتر ہیں، مگر ثلاثی کیر، جو وبائی امراض کے وقت کارگر ہوتی ہے کا فقدان ہے۔ وائرس کا جنوم تسلسل  چینی ڈاکٹروں نے حاصل کرکے اس کو میڈیکل دنیا کی آگاہی کے لیے ویب سائٹ پر جنوری میں ہی اپ لوڈ کیا تھا۔ مگر یہ چونکہ سنگل اسٹرینڈ کا وائرس ہے، مختلف علاقوں میں یہ افزائش کے دوران اپنے آپ کو تبدیل کردیتا ہے۔ ڈاکٹرصاحب کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وائرس کے خلاف جنگ طوالت کھینچ سکتی ہے۔

چند سال قبل جب ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ملک میں اسپتالوں کا جال بچھانے کا کام شروع کیا اور غیر ملکوں میں بھی اسپتالوں کو امداد دینے کا سلسلہ شروع کیا، تو ملک میں اپوزیشن نے ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس وقت ترکی میں 50ہزار نفوس پر ایک اسپتال ہے اور پوری آبادی ہیلتھ انشورنس کے دائرہ میں آتی ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک کے سربراہان کے لیے بھی لازم ہے کہ ترکی کی اس سعی سے سبق حاصل کرکے صحت عامہ کو ترجیحات میں شامل کرکے اس کو بھی قومی سلامتی کا ایک حصہ  بنالیں۔

Next Article

ڈی جی پب نے دی وائر کی ویب سائٹ کو بلاک کرنے پر تنقید کی، سی پی آئی لیڈر نے اشونی ویشنو کو لکھا

سی پی آئی لیڈر ڈی راجہ نے وزیر اطلاعات و نشریات کو لکھے خط میں کہا ہے کہ دی وائر جیسی ذمہ دار ویب سائٹ کو بلاک کرنا غلط ہے۔ ڈیجیٹل نیوز آرگنائزیشنز  کی تنظیم ڈی جی پب نے بھی اس قدم کی مذمت کی ہے۔

نئی دہلی: حکومت کی جانب سے دی وائر کی ویب سائٹ کو  بلاک کیے جانے کے بعد  کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ نے وزیر اطلاعات و نشریات کو خط لکھا ہے۔ وہیں، ڈیجیٹل نیوز آرگنائزیشنز کی تنظیم ڈی جی پب  نےدی وائر کو بلاک کرنے کی مذمت کی ہے ۔

دی وائر کو معلوم ہوا ہے کہ اس کی ویب سائٹ کو بلاک کرنے کا آرڈر وزارت اطلاعات و نشریات  کی جانب سے آیا ہے۔ مختلف انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے اس بارے میں مختلف باتیں کہہ رہے ہیں۔

ڈی راجہ کا خط

وزیر اشونی ویشنو کو اپنے خط میں ڈی راجہ نے بتایا ہے کہ کس طرح’آپریشن سیندور’ کے دوران میڈیا میں گمراہ کن اور اشتعال انگیز معلومات کھلے عام پھیلائی گئیں۔

‘کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی جانب سے، میں ‘آپریشن سیندور’ کے بعد کئی ٹیلی ویژن چینلوں کے ذریعے نشر کیے گئے اشتعال انگیز اور گمراہ کن مواد پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہوں۔ جب پورا ملک  دہشت گردی کے خلاف متحد ہے، ہم ایک خطرناک رجحان کا مشاہدہ کر رہے ہیں جہاں کچھ چینل اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے  رہے ہیں، بغیر کسی سرکاری تصدیق کے جھوٹے بیانیے پھیلا رہے ہیں، اور جنگی جنون کو ہوا دے رہے ہیں – حالانکہ حکومت یا فوج کی طرف سے ایسی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔’

راجہ نے لکھا کہ اس طرح کی رپورٹنگ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلاتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس کے برعکس دی وائر جیسی ذمہ دار نیوز ویب سائٹ کو بلاک کر دیا گیا ہے۔

‘اس طرح کی کوریج نہ صرف ذمہ دارانہ صحافت کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ قومی یکجہتی کو بھی براہ راست نقصان پہنچاتی ہے۔ جنگی موقف اور برادریوں کو نشانہ بنانا شہریوں کے درمیان اعتماد کو ختم کرتا ہے، خوف پیدا کرتا ہے، اور ان قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلتا ہے جو ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔’

‘عوامی خدشات کو دور کرنے کے بجائے انہیں مزید بھڑکایا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ سرکاری نشریاتی ادارے بھی اس غیر ذمہ دارانہ لہجے کی نقل کر رہے ہیں اور لوگوں کو درست معلومات فراہم کرنے میں اپنے بنیادی فرض میں ناکام رہے ہیں۔’

کئی مواقع پر خود فوج کو آگے آنا پڑا اور ان چینلوں کی جھوٹی خبروں کی تردید کرنی پڑی۔ وہیں دوسری جانب دی وائر ڈاٹ اِن جیسی ذمہ دار ویب سائٹس کو بلاک کر دیا گیا ہے۔’

راجہ نے کہا کہ سی پی آئی اس بات کو یکسر مسترد کرتی ہے کہ پہلگام  کے واقعہ کو نفرت اور تفرقہ پیدا کرنےکے تماشے میں تبدیل کیا جائے۔

‘ہم وزارت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسے چینلوں اور پلیٹ فارمز کے خلاف سخت کارروائی کرے جو فرقہ وارانہ منافرت پھیلاتے ہیں اور غلط معلومات پھیلاتے ہیں۔’

‘ساتھ ہی، ان پلیٹ فارمز تک رسائی بحال کی جائے جو ذمہ داری سے کام کرتے ہیں اور قومی اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’

‘ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وزارت اطلاعات کے ساتھ ساتھ دفاع، داخلہ اور خارجہ امور کی وزارتیں باقاعدہ اور حقائق پر مبنی بریفنگ دیں تاکہ عوام کو قابل اعتماد معلومات مل سکیں اور غلط معلومات کو روکا جا سکے۔’

راجہ نے آخر میں لکھا؛


‘کہا جاتا ہے کہ جنگ میں سب سے پہلے سچائی  کی موت ہوتی ہے، لیکن آج سچ کی قربانی اس وقت دی جا رہی ہے جب جنگ جیسی کوئی صورتحال بھی نہیں ہے۔ سچ کو شور، تعصب اور سنسنی خیزی کے نیچے دفن کیا جا رہا ہے۔’


ڈی جی پب کا بیان

ڈی جی پب  نے دی وائر کی ویب سائٹ کو بلاک کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔

ڈی جی پب نے کہاہے؛


‘ ڈی جی پب کے بانی رکن دی وائر نے جمعہ، 9 مئی کو ایک بیان جاری کیا ہےکہ ان کی ویب سائٹ تک رسائی کو کچھ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کے سرکاری حکم  کے بعد بلاک کر دیا ہے۔ ایک انٹرنیٹ سروس فراہم کنندہ نے کہا کہ یہ بلاک وزارت اطلاعات و نشریات نے آئی ٹی ایکٹ 2000 کے تحت کیا ہے۔’

‘اگر ہندوستانی حکومت نے واقعی دی وائر تک رسائی روک دی ہے تو یہ پریس کی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔ آزاد میڈیا کو خاموش کرنا جمہوریت کی حفاظت نہیں بلکہ اسے کمزور کرتا ہے۔’


بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ ملک کے لیے انتہائی حساس وقت ہے اور ایسے اقدامات تعقل پسند سوچ کو متاثر کرتے ہیں۔


‘ جنگ کےاندیشے یا اس کی ہولناکیوں کو بہانہ بنا کر آزاد صحافت کوخاموش نہیں کیا جا سکتا۔’


بیان میں مزید کہا گیا ہے؛

‘فیک نیوز اور گمراہ کن معلومات کے خلاف سب سے مؤثر تدبیر آزاد میڈیا ہے۔’

‘ہم ایسی سینسر شپ کو فوراً ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہیں، جس کے احکامات  کو ابھی تک عام نہیں کیا گیا  ہے۔ ہندوستانی حکومت کو آزادی اظہار اور آئینی اقدار کا تحفظ کرنا چاہیے اور آزاد میڈیا تک بلا روک ٹوک رسائی بحال کرنی چاہیے کیونکہ جمہوریت خاموشی سے پروان نہیں چڑھتی۔’

Next Article

حکومت کی جانب سے دی وائر کی ویب سائٹ کو بلاک اور پھر اَن بلاک کرنے پر ادارے کا بیان

دی وائر ہندوستان اور دنیا بھر میں اپنے قارئین کو صحیح، واضح اور ضروری خبریں، معلومات اور تجزیہ فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔

 (تصویر: دی وائر)

(تصویر: دی وائر)

دی وائر کے مدیران  کا بیان

جمعہ کی رات، جب ہندوستان میں سرکار کےحکم پر دی وائر کی انگریزی ویب سائٹ کو بلاک کیےہوئے 12-15 گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا- اور جب ہم نے وزارت اطلاعات و نشریات اور وزارت الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کو اس کی وجوہات کے بارے میں جاننے کے لیے باضابطہ طور پر خط لکھا تو – ہمیں وزارت سے ایک تحریری ‘وضاحت’ موصول ہوئی۔

ہمیں یہ ای میل 9 مئی کو رات 9:41 پر موصول ہوا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ دی وائر ڈاٹ اِن کو اس یو آر ایل سےمتعلق موصولہ بلاکنگ ریکویسٹ کی بنیاد پر بلاک کیا گیا، جو اس سے شائع کی گئی تھی؛

https://m.thewire.in/article/security/सीएनएन-french-official-iaf-rafale-downed-by-pakistan

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایچ ٹی ٹی پی ایس ویب سائٹس کے معاملے میں صرف پورے ڈومین کو ہی تکنیکی طور پر بلاک کیا جا سکتا ہے، کسی ایک ذیلی صفحہ کو نہیں۔ اس لیے دی وائر سے   درخواست کی گئی کہ وہ اس خبر کے حوالے سے مناسب قدم اٹھائے  اور وزارت کو مطلع کرے تاکہ ویب سائٹ کو اَن بلاک کیا جا سکے۔

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دی وائر کو اپنا’تبصرہ/ وضاحت’ پیش کرنے کا موقع اس انٹر ڈپارٹمنٹل کمیٹی کے سامنے دیا جائے گا، جو ویب سائٹ کو بلاک کرنے کی درخواست پر غور کرنے کے لیے انفارمیشن ٹکنالوجی (انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز اینڈ ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ) رولز، 2021 کے تحت تشکیل دی گئی ہے۔

دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن نے 9 مئی کو رات 10:40 بجے وزارت اطلاعات و نشریات کو مطلع کیا کہ ویب سائٹ کو پھر سے چالو کرنے کی ترجیحات کے تحت انہوں نے اس خبر/ویب پیج کو پبلک ڈومین سے ہٹا دیا ہے۔

انہوں نے وزارت کو ایک ای میل بھیجا ہے، جو اس طرح ہے؛


جناب،

ہم نے اپنی ویب سائٹ بلاک کیے جانے کے بارے میں جانکاری مانگی تھیں، ہمیں آپ کا جواب مل گیاہے۔

مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آئی ٹی قانون کے تحت، آپ کی وزارت کو پہلے اس خبرکے حوالے سے نوٹس بھیجنا چاہیے تھا، پھر دی وائر کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دینا چاہیے تھا، اور اگر انٹر ڈپارٹمنٹل کمیٹی اس خبر کو ہٹانے کی سفارش کرتی- تو آپ ویب سائٹ بلاک کرنے کا حتمی قدم اٹھا سکتے تھے، وہ بھی اس وقت، جب  ہم تعاون نہ کرتے۔

حتیٰ کہ ہنگامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے بھی پہلا قدم متعلقہ فریق کو ہدایات دینا ہوتا ہے۔ وزارت نے سات گھنٹے تک ہمارے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔

جس خبر کو لے کر تنازعہ ہے وہ 8 مئی کو صبح 3:47 پر شائع ہوئی تھی، اور اس میں دی گئی جانکاری کم از کم 12 گھنٹے پہلے سی این این نے شائع کی تھی۔ سی این این  کی خبر اب بھی ہندوستان میں دستیاب ہیں۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ حکومت کیوں ہماری خبر کو ہٹانا چاہتی ہے اور اس کو شائع ہونے کے 24 گھنٹے بعداس قدر ہنگامی صورتحال کے طور پر کیوں لیا گیا، ہمیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا اور ہماری پوری ویب سائٹ کو بلاک کر دیا گیا۔

چونکہ ہماری ترجیح دی وائر   کو اَن بلاک کرانا ہے، اس لیے ہمارے پاس اس غیر معقول مطالبے کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا – حالانکہ ہم ہندوستانی آئین کے تحت اپنے حقوق محفوظ رکھتے ہیں اور مناسب قانونی راستہ اختیار کریں گے۔

آپ اس ای میل کو اس خبر کو ہٹائے جانے کے حوالے سے ایک باضابطہ اطلاع مان سکتے ہیں۔

آج سپریم کورٹ نے بھی پریس اور عوامی بحث کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ عدلیہ اور میڈیا جمہوریت کے بنیادی ستون ہیں۔

میں کل انٹر ڈپارٹمنٹل کمیٹی کے سامنے دی وائر کا موقف پیش کرنے کی امید کرتا ہوں ۔


ہمارے جواب کے کچھ ہی دیر بعد وزارت اطلاعات و نشریات کے حکام نے ہمیں بتایا کہ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو ویب سائٹ کو ان بلاک کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ لیکن حکم نامہ جاری ہونے کے 12 گھنٹے سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی دی وائر  کی ویب سائٹ ملک کے کئی حصوں میں مختلف نیٹ ورک پر نہیں کھل رہی تھی۔

حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت نے کسی خبر پرخصوصی طور پرہم سے کارروائی کرنے کے لیے کہنے سے پہلے ہی دی وائر کی ویب سائٹ  کو بلاک کرنے کو فوری حل مانتے ہوئےاسے بلاک کرنے کا فیصلہ لے لیا۔

ہم اس خبر کو ہٹانے کے حکم اور پوری ویب سائٹ کو ایک دن تک  بلاک کرنے کے فیصلے کے حوالے سے انٹر ڈپارٹمنٹل کمیٹی کی بیٹھک میں اپنی  بات رکھیں گے۔ یہ خبر سی این این کی ایک رپورٹ پر مبنی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان نے ایک ہندوستانی رافیل طیارے کو مار گرایا ہے۔

غورطلب ہے کہ سی این این کی اصل رپورٹ اور دیگر بین الاقوامی میڈیا کی وہی خبریں اب بھی ہندوستان میں پوری طرح دستیاب ہیں، اور ان کی ویب سائٹس کو دی وائر   کی طرح بلاک نہیں کیا گیا ہے۔

دی وائر   ہندوستان اور دنیا بھر میں اپنے قارئین کوصحیح، واضح اور ضروری خبریں، معلومات اور تجزیہ فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔

Next Article

ہندوستان اور پاکستان جنگ بندی کے لیے تیار، فوجی کارروائی پر روک مؤثر: سکریٹری خارجہ

ہندوستان اور پاکستان نے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے بتایا کہ یہ فیصلہ دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوکے درمیان بات چیت کے بعد کیا گیا ہے۔ یہ جنگ بندی سنیچر کی شام 5 بجے سے مؤثر ہو گئی ہے۔ 12 مئی کو پھر سے بات چیت ہوگی۔

(علامتی تصویر: رائٹرز)

(علامتی تصویر: رائٹرز)

نئی دہلی: ہندوستان اور پاکستان جنگ بندی کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ ہندوستانی سکریٹری خارجہ وکرم مصری نے سنیچر (10 مئی) کی شام کو تصدیق کی کہ ہندوستان نے امریکہ کی ثالثی میں جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی آج شام 5 بجے سے مؤثر ہو گئی ہے۔

سکریٹری خارجہ کے مطابق پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) نےہندوستانی ڈی جی ایم او کودوپہر پہر 3 بجکر 35 منٹ پر کال کیا اور اس دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ شام 5 بجے کے بعد ہر طرح کی فائرنگ اور فوجی کارروائی روک دی جائے گی۔

سکریٹری خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے ڈی جی ایم او 12 مئی کوپھر سے بات چیت کریں گے۔

اس سے قبل امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ نئی دہلی اور اسلام آباد نے ‘مکمل اور فوری’ جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔

ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر لکھا، ‘امریکہ کی ثالثی میں طویل مذاکرات کے بعد مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان نے مکمل اور فوری جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔’ ٹرمپ نے اس فیصلے کو دانشمندانہ قرار دیا اور اس کے لیے ہندوستان اور پاکستان کو مبارکباد دی۔

ٹرمپ کی پوسٹ کے چند منٹ بعد پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا، ‘پاکستان اور ہندوستان نے فوری اثر سے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر سمجھوتہ کیے بغیر خطے میں امن و سلامتی کے لیے کوششیں کی ہیں۔

Next Article

ہندوستان پاکستان کشیدگی کے درمیان میڈیا کا تماشہ

ہندوستانی  فوج کے آپریشن سیندور کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بے انتہاکشیدگی کا مشاہدہ کیا گیا۔ تاہم،اس دوران جنگی جنون میں ہندوستانی ٹی وی میڈیا کی جانب سے بہت سی غلط معلومات اور فیک نیوز کو خبر کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس موضوع پر دی ہندو کے سینئر صحافی کلول بھٹاچاریہ اور دی وائر کے پالیٹکل ایڈیٹر اجئے آشیرواد سے تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔

Next Article

وزارت دفاع کی میڈیا کو ہدایت – دفاعی کارروائیوں، سیکورٹی فورسز کی نقل و حرکت کی لائیو کوریج نہ کریں

وزارت دفاع نے تمام میڈیا چینلوں، ڈیجیٹل پلیٹ فارم اور لوگوں کوسخت ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دفاعی آپریشنز اور سیکورٹی فورسز کی نقل و حرکت کی لائیو کوریج یا ریئل ٹائم رپورٹنگ سے گریز کریں۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: وزارت دفاع نے تمام میڈیا چینلوں، ڈیجیٹل پلیٹ فارم اور لوگوں کو ایک سخت ایڈوائزری جاری کی ہے، جس میں ان سے دفاعی کارروائیوں اور سیکورٹی فورسز کی نقل و حرکت کی لائیو کوریج یا ریئل ٹائم رپورٹنگ سے گریز کرنے کو کہا گیا ہے۔

ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ ایسی حساس یا ذرائع پر مبنی معلومات کے انکشاف سے آپریشن پر اثر پڑتا ہے اور جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

وزارت نے کارگل جنگ، 26/11 ممبئی حملے اور قندھار ہائی جیکنگ جیسے ماضی کے واقعات  کوقبل از وقت یا بے قابو رپورٹنگ سے لاحق خطرات کی مثالوں کے طور پر حوالہ دیا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ‘کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک (ترمیمی) رولز 2021 کے سیکشن 6(1)(پی) کے مطابق، انسداد دہشت گردی آپریشنز کے دوران صرف نامزد افسران کی وقتاً فوقتاً بریفنگ کی اجازت ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرسے اپیل  ہے کہ وہ ملک کی خدمت میں اعلیٰ معیار کو برقرار رکھتے ہوئے کوریج میں احتیاط، حساسیت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔’

وزارت نے میڈیا تنظیموں اور لوگوں سے مکمل تعاون کی اپیل کی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کو کہا ہے کہ آپریشن کی تفصیلات کو سرکاری طور پر جاری ہونے تک خفیہ رکھا جائے۔

معلوم ہو کہ ‘آپریشن سیندور’ کے تحت ہندوستانی فوج نےپاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں 9 دہشت گرد کیمپوں پر کیے گئے حملوں کے بعد بدھ (8 مئی) کو جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی فائرنگ میں13 شہری کی جان چلی گئی اور 59 لوگ  زخمی ہوگئے تھے۔

جمعرات (9 مئی) کو، پاکستان نے ادھم پور، جموں اور پٹھان کوٹ میں ہندوستانی  فوجی ٹھکانوں کو ڈرون اور میزائلوں سے نشانہ بنایا ۔ ہندوستان کی وزارت دفاع نے کہا کہ ان حملوں کو ناکام بنا دیا گیا اور کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔