
مشتبہ حالات میں پورٹ بلیئر لے جائےجانے کے بعد، روہنگیا پناہ گزینوں کوہندوستانی بحریہ کے ایک جہاز پر چڑھایا گیا اور پھر انہیں میانمار کے قریب سمندر میں پھینک دیا گیا۔

روہنگیا مہاجرین کشتیوں سے اترتے ہوئے۔ (تصویر: فلکر/پراچتائی، CC BY-NC-ND 2.0 DEED)
نئی دہلی: میرے بھائی (میانمار میں) ہمارے گاؤں کوجلائے جانے کے بعد ہندوستان آئے تھے۔ پاؤں میں گھاؤ ہونے کے باوجود انہوں نے ہندوستان پہنچنے کے لیے کئی دنوں تک پیدل سفر کیا تھا۔ اس دوران ہمارے والدین کا انتقال ہو گیا تو انہیں راستے میں ہی دفن کیا گیا۔ یہاں آنے کے بعد وہ بس زندگی کوکسی طرح جی رہے تھے۔ پچھلے دنوں جب (دہلی) پولیس آئی اور کہا کہ بایو میٹرک کے لیےچلنا ہے، تو انہوں نے بھروسہ کر لیا اور چلے گئے۔ یہ آخری بار تھا جب ہم نے انہیں دیکھا تھا۔ *امینہ، نے کہا،جن کے بھائی ان 38 روہنگیا پناہ گزینوں کے گروپ میں شامل تھے جنہیں مبینہ طور پر ہندوستانی حکام نے بین الاقوامی سمندری علاقے میں پھینک دیا۔
اب، سپریم کورٹ میں دو پناہ گزینوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ نابالغ – جن میں 15-16 سال کی بچیاں بھی شامل تھیں- 66 سال تک کے بزرگ، اور کینسر، ٹی بی، دل کی بیماری اور ذیابیطس جیسی سنگین بیماریوں میں مبتلا افراداس ملک بدری کا شکار ہوئے، جس میں انہیں سمندر میں پھینک دیاگیا۔ یہ روہنگیا پناہ گزین ہندوستان میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ساتھ رجسٹرڈ تھے۔
میڈیا رپورٹس اور پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ 43 روہنگیا پناہ گزینوں کو بین الاقوامی سمندری علاقے میں پھینک دیا گیا، لیکن یو این ایچ سی آر کے سوشل لیگل انفارمیشن سینٹر میں اس معاملے پر کام کرنے والے لیگل آفیسر دلاور حسین نے دی وائر کو بتایا کہ صحیح تعداد 38 ہے، اور درخواست میں اسے ٹھیک کیا جائے گا۔
‘کسی قانونی عمل کی پیروی نہیں کی گئی، ہم اتنی اذیت برداشت کرچکے ہیں کہ ہمیں اب پتہ ہےکہ ‘عدالتی عمل’ کیا ہوتا ہے۔ کوئی وارنٹ نہیں تھا، کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی اور ن ہی ان کی بات نہیں سنی گئی۔ ان تمام کو بغیر کسی عدالت میں پیش کیے 24 گھنٹے سے زائد وقت تک مختلف تھانوں میں رکھا گیا۔’ امینہ نے مزید کہا۔
روہنگیا درخواست گزاروں کے وکلاء نے زور دے کر کہا کہ پولیس کی یہ کارروائی نے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 22 اور بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہے، جو 24 گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیشی اور من مانی حراست کی ممانعت کی بات کرتا ہے۔
ان پناہ گزینوں کو مبینہ طور پر ہندوستانی حکومت کے اہلکاروں نے میانمار کے قریب سمندر میں پھینک دیا، اور وہ بہہ کر تیرتے ہوئے اسی ملک واپس پہنچ گئے جہاں سے وہ اپنی جان بچاکر بھاگے تھے۔
انہیں دھوکہ دیا گیا، دہلی پولیس نے ان سے جھوٹ بولا: دلاور حسین
چھ مئی کی شام کو دہلی کے اتم نگر، وکاس پوری اور ہستسل کے 38 روہنگیا پناہ گزینوں کو ‘بایو میٹرک لینے کے نام پر’ پولیس اسٹیشن بلایا گیا اور حراست میں لیا گیا۔ درخواست میں کہا گیا کہ 7 مئی کو انہیں اندرلوک حراستی مرکز بھیجا گیا اور بایو میٹرک عمل مکمل ہونے کے بعد رہائی کا یقین دلایا گیا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
حسین نے کہا کہ پوری طرح سےقواعد کی خلاف ورزی کی گئی۔ انہوں نے پولیس کی اس کارروائی پر سوال اٹھایا جس میں اسپیشل جوینائل پولیس یونٹ کو شامل کیے بغیر ایک خاتون اور ایک نابالغ کو تھانے میں ہی رکھا گیا۔ ‘اگر پولیس نے ایسا کیا تو ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے تھی، لیکن انہوں نے کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی۔ پھر انہوں نے اسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیے بغیر رات بھر تھانے میں رکھا اور اسے سیدھے حراستی مرکز بھیج دیا، جو کہ آرٹیکل 22 کی خلاف ورزی ہے۔’
بایو میٹرک لینے کے بعدان کے ‘ہاتھ پیرباندھ کر، آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اورانڈمان کے پورٹ بلیئر لے جا کر ڈی پورٹ کر دیا گیا۔’
ضابطے کی پیروی نہیں کی گئی؟
فارنرز ریجنل رجسٹریشن آفس (ایف آر آر او) کی جانب سے ملک بدری کا کوئی مستقل حکم (اسٹینڈنگ آرڈر)نہیں تھا اور نہ ہی ملک بدری کے حکم کی کوئی نوٹس یا کاپی – جو صرف ایف آر آر او جاری کر سکتا ہے – دیا گیا تھا، تو ان لوگوں کو کیسے ڈی پورٹ کیا جا سکتا تھا؟
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے جسٹس سوریہ کانت، دیپانکر دتا اور این کوٹیشور سنگھ کی بنچ کو یقین دلایا تھا کہ بغیر دستاویزوالے روہنگیا مہاجرین کی ملک بدری موجودہ قوانین کے تحت مناسب عدالتی عمل کے بعد کی جائے گی اور یہ بھی کہا کہ ہندوستان انہیں پناہ گزینوں کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔
روہنگیا پناہ گزینوں کی ملک بدری پر بات کرتے وقت، دو باتوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے؛ پہلی بات یہ ہے کہ ظلم و ستم سے بھاگنے والے پناہ گزینوں- جیسے روہنگیا – کی ملک بدری خود ہندوستانی آئین کے خلاف ہے۔ این ایچ آر سی بنام ریاست اروناچل پردیش میں سپریم کورٹ نے کہا تھاکہ یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ تمام افراد کی زندگی اور آزادی کا تحفظ کرے – چاہے وہ شہری ہوں یا غیر شہری – جیسا کہ آرٹیکل 21 کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔حالاں کہ اس فیصلے میں ملک بدری پر مکمل پابندی نہیں ہے، لیکن یہ واضح کرتا ہے کہ کسی بھی فرد کو، خاص طور پر ایک پناہ گزین کو اس طریقے سے نہیں ہٹایا جا سکتا جس سے اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی کو ملک بدر بھی کرنا پڑے تو اس کے لیے ایک عمل ہوتا ہے یعنی اس شخص کے آبائی ملک کے سفارت خانے سے رابطہ کرنا پڑتا ہے جو اس شخص کی شناخت کی تصدیق کرتا ہے۔ اگر وہ ملک اس شخص کو اپنا شہری سمجھتا ہے، تو وہ سفری دستاویز جاری کرتا ہے۔ تب ہی اس شخص کو ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
حسین نے سوال اٹھایا،’ہندوستانی حکومت نے ان مہاجرین کو زبردستی اٹھا لیا۔ اگر میانمار کا سفارت خانہ انہیں قبول نہیں کر رہا ہے اور یہ ماننے سے انکار کر رہا ہے کہ یہ لوگ میانمار کے شہری ہیں تو پھر ہندوستانی حکومت ان کو ملک بدر کرنے کے قابل کیسے ہے؟
‘سوچی سمجھی سفاکیت’
پراسرار حالات میں پورٹ بلیئر لائے جانے کے بعد، روہنگیا پناہ گزینوں کے اس گروپ کو 8 مئی کو ایک بحری جہاز پر سوار کیا گیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستانی بحریہ کا جہاز تھا۔
‘اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دانستہ طور پر سفاکیت تھی۔’ روہنگیا پناہ گزینوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے سینئر وکیل کولن گونسالویس نے دی وائر کو بتایا۔
حسین کے مطابق،اس جہاز میں سوار عملے نے بغیر کوئی وجہ بتائے حراست میں لیے گئے افراد کو بے دردی سے زدوکوب کیا۔ ایک جلاوطن خاتون، جو میانمار میں اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کرنے میں کامیاب رہی، نے کہا کہ جہاز پر کوئی خاتون اہلکار موجود نہیں تھی اور الزام لگایا کہ اسے ہندوستانی اہلکاروں نے جنسی طور پر ہراساں کیا اور چھیڑ چھاڑ کی۔
جب جہاز میانمار کے ساحلوں کے قریب پہنچا تو مہاجرین کے ہاتھ پاؤں میں بندھی رسیاں ڈھیلی کر دی گئیں تاکہ وہ تیر سکیں۔
انہیں لائف جیکٹ دی گئیں اور پھر پوچھا، ‘ آپ سب انڈونیشیا جانا چاہتے ہیں یا میانمار؟’
ایک پناہ گزین کو کیسے واپس اس ملک میں بھیجا جا سکتا ہے جہاں سےوہ تشدد کے خوف سے بھاگا ہو؟
جہاز پر کئی لوگوں نے افسروں سے منت کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ میانمار واپس نہیں جانا چاہتے، وہ انڈونیشیا جانا چاہتے ہیں- اس ملک میں نہیں جہاں انہیں موت، ریپ، تشدد اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
‘انہوں نے حکام سے کہا کہ اگر انہیں واپس میانمار بھیجا گیا تو انہیں مار دیا جائے گا۔’ حسین نے بتایا۔ لیکن ان کی باتوں کو نظر انداز کر دیا گیا اور گروپ کو بتایا گیا کہ ‘کوئی آئے گا اور آپ کو انڈونیشیا لے جائے گا۔’
‘ایک ایک کرکے پانی میں دھکیلا گیا’
پناہ گزینوں کو ایک ایک کرکے پانی میں دھکیل دیا گیا، یہ کہہ کر کہ کوئی انہیں بچانے آئے گا۔ لیکن کوئی نہیں آیا۔ نہ کوئی نگرانی تھی اور نہ ہی انڈونیشیا کی طرف سے کسی ریسکیو آپریشن کا کوئی اشارہ – انہیں سمندری لہروں میں اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا۔
تھکان اور کنفیوژن کی حالت میں، پناہ گزینوں نے پاس میں نظر آ رہی زمین کی طرف تیرنا شروع کیا۔ جب وہ مقامی ماہی گیروں سے ملے اور ان سے بات کی، تو انہیں احساس ہوا کہ وہ اصل میں میانمار میں – تنینتھاری کے علاقے میں واپس آ گئے ہیں۔
ہندوستانی حکومت نے بارہا عدالت میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ چونکہ ہندوستان 1951 کے پناہ گزینوں کے کنونشن یا 1967 کے پروٹوکول کا دستخط کنندہ نہیں ہے، اس لیے روہنگیا ‘حق سے محروم غیر ملکی’ ہیں۔
لیکن حسین نے نشاندہی کی کہ ہندوستان کنونشن اگینسٹ ٹارچر کا دستخط کنندہ ہے، جس کا آرٹیکل 3 واضح طور پر کہتا ہے کہ کسی شخص کو ایسے ملک میں واپس نہیں کیا جا سکتا جہاں اسے تشدد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
‘کیا ہم نے کسی بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے؟ یقینی طور پر’- حسین نے کہا۔
یو این ایچ سی آر انڈیا نے میانمار میں اقوام متحدہ کے دفتر سے رابطہ کیا ہے، جو اب ان 38 افراد کو تلاش کرنے اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن وکلاء ان سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں کر سکے ہیں۔
وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے دی وائر کو بتایا،’معاملہ زیر سماعت ہے۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔’
*رازداری برقرار رکھنے کے لیے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔
پرنئے رائے ایک صحافی اور پروڈیوسر ہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)