یہ شکایت آسام پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر بھوپین بورا اور آسام جاتیہ پریشد کے لورین جیوتی گگوئی نے متحدہ اپوزیشن فورم کی جانب سے درج کرائی ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ میاں مسلمانوں کو آسام پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔
نئی دہلی: کئی اپوزیشن لیڈروں نے آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی ہے۔ یہ شکایت شرما کے اس بیان کے بعد درج کرائی گئی ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ‘ایک اسٹینڈ لیں گے’ اور ‘میاں مسلمانوں کو پورے آسام پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے’۔ شکایت میں ان پر ‘مذہب اور نسل کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان نفرت پھیلانے’ کی کوشش کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق ، گوہاٹی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ڈی سی پی) مرنال ڈیکا نے تصدیق کی کہ دسپور پولیس اسٹیشن میں شکایت موصول ہوئی ہے، لیکن بدھ کی شام تک ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔
یہ شکایت آسام پردیش کانگریس کمیٹی (اے پی سی سی) کے صدر بھوپین بورا اور آسام جاتیہ پریشد کے لورین جیوتی گگوئی نے متحدہ اپوزیشن فورم (یو او ایف) کی جانب سے دائر کرائی ہے۔
راجیہ سبھا کے آزادایم پی اجیت بھوئیاں آسام اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر دیب برت سیکیہ اور کانگریس کے دھبری ایم پی رقیب الحسین بھی ان لیڈروں میں شامل تھے جو اپنی شکایت درج کرانے گئے تھے۔
اس میں لیڈروں نے شرما پر ریاست میں بدامنی پھیلانے کی ‘مجرمانہ سازش’ کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ اگر انہیں ‘روکا یا گرفتار نہیں کیا گیا’ تو ریاست میں ‘دنگے جیسےحالات’ بن سکتے ہیں۔
انہوں نے درخواست کی ہے کہ ان کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعات کے تحت مجرمانہ سازش اور مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی پھیلانے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی جائے۔
یہ واقعہ آسام کے کئی حصوں میں بین کمیونٹی کشیدگی کے درمیان سامنے آیا ہے، جو 22 اگست کو ضلع نگاؤں میں ایک 14 سالہ لڑکی کے ساتھ مبینہ گینگ ریپ کے بعداور بڑھ گیا۔ شرما اور ان کے کئی وزراء نے اس واقعہ کو، جس میں ملزم بنگالی-مسلمان ہیں، ’سودیشی لوگوں پر حملہ‘ قرار دیا ہے۔ شکایت میں واقعہ کے ساتھ ہی شیو ساگر ضلع میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
شکایت میں کہا گیا ہے، ‘آپ کو پتہ ہوگا کہ ڈھنگ (نگاؤں) کی ایک لڑکی کے ساتھ ریپ کے گھناؤنے واقعہ کے خلاف پورے آسام میں غصہ ہے۔ اس گھناؤنے واقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملزم شخص (شرما) ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنا کر فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے شیو ساگر (ضلع) میں بی جے پی کارکنوں اور لیڈروں نے مذہبی اقلیتی طبقہ کے کچھ لوگوں پر حملہ کیا ہے۔‘
اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘یہ ریاست میں فساد جیسی صورتحال پیدا کرنے کی سازش کے حصے کے طور پر کیا گیا ہے اور ملزم ہمنتا بسوا شرما اور دیگر بی جے پی لیڈر اس طرح کی بدامنی پیدا کرنے کی مجرمانہ سازش کا حصہ ہیں۔’
معاملے میں شکایت کرنے والوں کے مطابق، شرما کی ‘ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہوئے اشتعال انگیز بیانات دینے کی تاریخ ہے’، گزشتہ سال چیف منسٹر کے اس ریمارکس کا حوالہ بھ دیا گیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ گوہاٹی کے فٹ پاتھوں کو ‘میاں’ سبزی فروشوں سے ‘پاک’ کردیں گے۔
‘میاں’ ایک توہین آمیز اصطلاح ہے جو بنگالی مسلمانوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
شکایت میں گزشتہ ہفتے کے ایک واقعہ کا بھی ذکر ہے جس میں وزیر اعلیٰ نے ایک رپورٹر کی مذہبی شناخت کو تنقید کا نشانہ بنایاتھا۔
شکایت میں کہا گیا ہے، ‘ایک سال پہلے، انہوں نے لوگوں سے ایک مذہبی کمیونٹی (جنہیں انہوں نے ‘میاں’ کہا تھا) سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو گوہاٹی سے نکالنے کی اپیل کی تھی۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف اپنے حملے کو جاری رکھتے ہوئے، ملزم نے 4 اگست 2024 کو واضح طور پرفرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کے ساتھ شاہ عالم نام کے ایک صحافی کو نشانہ بنایا۔‘
اس میں وزیر اعلیٰ کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نگاؤں واقعہ ‘زمین پر قبضہ کرنے اور آسامی لوگوں کی شناخت کو خطرے میں ڈالنے کے بڑے ارادے’ کا حصہ تھا۔
شکایت میں کہا گیا ہے،’عوامی طور پر میں اس طرح کے مسلسل تبصروں سے مختلف برادریوں کے درمیان دشمنی پیدا ہونے کا خدشہ ہے… اگر ایسے شخص کو فوراً گرفتار نہیں کیا گیا اور اس پر لگام نہیں لگائی گئی تو وہ سیاسی فائدے کے لیے ریاست میں دنگے جیسےحالات پیدا کر سکتا ہے۔‘
بتادیں کہ وزیر اعلیٰ شرما مسلمانوں کے خلاف مسلسل فرقہ وارانہ بیان بازی کرتے آ رہے ہیں اور حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے وہ ایک خاص برادری کے خلاف فیصلے لیتے رہے ہیں۔
حال ہی میں لوک سبھا انتخابات کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ بنگلہ دیشی نژاد اقلیتوں نے بی جے پی کے خلاف ووٹ دیا تھا ۔
اس سے قبل انہوں نے چائلڈ میرج، تعدد ازدواج اور تعلیم کے حوالے سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا تھا ۔ وہ ریاست میں مدارس کے خلاف بھی مسلسل آواز اٹھاتے رہے تھے۔ سال 2022 میں فرقہ وارانہ ریمارکس کے ایک معاملے میں عدالت ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے تک کو کہہ چکی ہے ۔ انہوں نے ریاست میں اماموں کے رجسٹریشن سے لے کر میاں میوزیم کو سیل کرنے تک کے فیصلے کیے ہیں۔ حتیٰ کہ آسام میں مہنگائی کے لیے میاں مسلمانوں کو ذمہ دارٹھہرا چکے ہیں ۔ ساتھ ہی، گزشتہ سال انہوں نے کہا تھا کہ انہیں اگلے 10 سال تک میاں ووٹوں کی ضرورت نہیں ہوگی ۔