
گزشتہ دنوں ہریانہ کے پانی پت میں بہار کے کشن گنج سے تعلق رکھنے والے مزدورفردوس عالم کی مذہبی ٹوپی کو لے کر ہوئے تنازعہ کے دوران حملے کے بعد موت ہو گئی۔ اہل خانہ نے اس کی وجہ ان کی مذہبی پہچان بتائی ہے، جبکہ پولیس نے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویے سے انکار کیا ہے۔

فردوس عالم (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)
نئی دہلی: ہریانہ کے پانی پت میں 24 مئی کو ایک 24 سالہ مزدور فردوس عالم عرف اسجد بابو کی جان لیوا حملے میں موت ہوگئی۔ یہ واقعہ مذہبی ٹوپی کے حوالے سےہوئے جھگڑے کے بعد پیش آیا، جو بعد میں پرتشدد ہو گیا۔
تاہم، پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں ہے۔
فردوس بہار کے کشن گنج ضلع کا رہنے والا تھا اور پانی پت کی ایک فیکٹری میں درزی کا کام کرتا تھا۔ فردوس کے بھائی اسد نے بتایا کہ فردوس حال ہی میں شادی کرکے اپنی سسرال سے اپنے دوست شاہنواز کے ساتھ واپس لوٹ رہے تھے۔ رات 8 بجے کے قریب، سیکٹر 29 کے فلورا چوک کے پاس ان کی ملاقات ایک دکاندار شیشو لال عرف نریندر سے ہوئی، جو وہاں کریانہ کی دکان چلاتا ہے۔
اسد نے کہا، ‘اس نے میرے بھائی کی ٹوپی چھین کر پہن لی اور مذاق اڑانے لگا۔ جب میرے بھائی نے اسے ٹوپی واپس کرنے کو کہا تو اس نے ٹوپی زمین پر پھینک دی۔’
اسد کے مطابق، فردوس نے لڑائی نہیں کی۔ اسد نے بتایا، ‘اس نے صرف غصے سے دیکھا اور پوچھا کہ ٹوپی کیوں پھینکی؟ اس پر نریندر غصے میں آگیا اور بولا، تو مجھ سے اس طرح بات کیسے کر سکتا ہے؟’ اس کے بعد جب فردوس اپنی ٹوپی لینے کے لیے نیچے جھکے تو نریندر نے اس کے سر پر ڈنڈے سے وار کیا اور پوچھا کہ کیسا لگا۔ حملے کے بعد فردوس بے ہوش ہو گئے۔
شاہنواز نے بتایا کہ انہوں نے گھبراکر اسد کو فون کیا۔ اسد موقع پر پہنچے اور انہیں مقامی سرکاری ہسپتال لے گئے، جہاں سے انہیں پی جی آئی روہتک ریفر کر دیا گیا۔ فردوس کی روہتک میں علاج کے دوران موت ہو گئی۔
اسد نے بتایا،’ میں 9 سال سے درزی کا کام کر رہا ہوں، فردوس دو سال پہلے ہی آیاتھا۔ میں یہاں بہت زیادہ لوگوں کو نہیں جانتا ہوں ، تو فردوس اس دکاندار کو کیسے جانتا ہوگا۔’
اسد کا مانناہے کہ اس کے بھائی کو اس کی مذہبی پہچان کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ انہوں نے کہا، ‘ان دنوں حالات ہی ایسے ہیں۔’
ملزم نریندر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این سی) کی کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے،جس میں دفعہ 103(1) (جان بوجھ کر کیا گیا قتل) بھی شامل ہے۔
پولیس کا فرقہ وارانہ زاویہ سے انکار
تاہم، انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ، پانی پت پولیس نے اس واقعے کے پیچھے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویہ سے انکار کیا ہے۔ رپورٹ میں انڈسٹریل سیکٹر 29 تھانے کے تھانہ انچارج (ایس ایچ او) سبھاش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے،’بالکل نہیں (جب فرقہ وارانہ زاویہ کے بارے میں پوچھا گیا))۔ ملزم نے صرف ٹوپی پہن کر دیکھنا چاہا تھا، اسے شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ مذہبی ٹوپی ہے۔ اس نے ٹوپی پہن کر پوچھا کہ یہ کیسی لگ رہی ہے، جس پر متوفی نے اسے لوٹانے کے لیے کہا۔اس کے بعد جھگڑا ہو گیا،معاملہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ تفتیش جاری ہے۔’
وہیں،کشن گنج کے کانگریس ایم پی محمد جاوید نے اس واقعہ کے بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ یہ صرف ہیٹ کرائم نہیں ہے، بلکہ ‘ریاستی سرپرستی ‘ میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ ہے۔
The brutal lynching of Asjad Babu from Kochadaman, Kishanganj in Haryana—for the ‘crime’ of wearing a skull cap—is not just a hate crime, it’s state-enabled terror. The Haryana govt must be held accountable for this targeted killing. We demand swift action against all culprits…
— Dr Md Jawaid (@DrMdJawaid1) May 27, 2025
انہوں نے لکھا، ‘ہریانہ میں کشن گنج کے کوچادھامن کے اسجد بابو کو صرف اس لیے بے دردی سے قتل کر دیا گیا کیونکہ اس نے ٹوپی پہن رکھی تھی۔ یہ صرف ہیٹ کرائم نہیں، بلکہ ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی ہے۔ اس ٹارگٹ کلنگ کے لیے ہریانہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔ ہم تمام مجرموں کے خلاف سخت کارروائی اور متاثرہ خاندان کو 50 لاکھ روپے کے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی مہذب معاشرے میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)