کسی نابالغ کو جیل میں یا پولیس حراست میں نہیں رکھا جا سکتا: سپریم کورٹ

اتر پردیش اور دہلی میں نابالغ کو حراست میں لینے سے جڑے الزامات پر سپریم کورٹ نے کہا کہ جووینائل جسٹس بورڈ خاموش تماشائی بنے رہنے اور معاملہ ان کے پاس آنے پر ہی حکم دینے کے لئے نہیں بنائے گئے ہیں۔ اگر ان کے علم میں کسی بچے کو جیل یا پولیس حراست میں بند کرنے کی بات آتی ہے، تو وہ اس پر قدم اٹھا سکتا ہے۔

اتر پردیش اور دہلی میں نابالغ کو حراست میں لینے سے جڑے الزامات پر سپریم کورٹ نے کہا کہ جووینائل جسٹس بورڈ خاموش تماشائی بنے رہنے اور معاملہ ان کے پاس آنے پر ہی حکم دینے کے لئے نہیں بنائے گئے ہیں۔ اگر ان کے علم میں کسی بچے کو جیل یا پولیس حراست میں بند کرنے کی بات آتی ہے، تو وہ اس پر قدم اٹھا سکتا ہے۔

Supreme-Court_PTI

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کسی نابالغ کو جیل میں یا پولیس حراست میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے صاف کیا کہ جووینائل جسٹس بورڈ ‘خاموش تماشائی’ بن‌کر نہیں رہ سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ملک میں سبھی جووینائل جسٹس بورڈ (جے جے بی) کو جووینائل جسٹس(بچوں کی دیکھ بھال اور تحفظ) قانون، 2015 پر عمل کرنا ہی چاہیے اور بچوں کے تحفظ کے لئے بنے قانون کا ‘ کسی کے ذریعے نظرانداز نہیں ‘ کیا جا سکتا، کم سے کم پولیس کے ذریعے تو بالکل بھی نہیں۔

جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس انیرودھ بوس کی عدالتی بنچ نے یہ بات تب کہی، جب ان کی توجہ دو واقعات اور میڈیا میں آئے اتر پردیش اور دہلی میں شہریت قانون کےخلاف ہوئے مظاہرے سے متعلق کچھ الزامات کی طرف دلائی گئی، جو بچوں کو مبینہ طور پر پولیس حراست میں رکھ‌کر ‘ٹارچر’ کرنے سے متعلق تھے۔

اکانومکس ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق ،سپریم کورٹ نے اتر پردیش اور دہلی کے چائلڈ رائٹس پروٹیکشن کمیشن کو ان الزامات کی جانچ کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ دو پینل کو اس بارے میں تین ہفتوں کے اندر جواب دینے کو کہا گیا ہے۔

بنچ نے مرکزی حکومت اور نیشنل کمیشن فارپروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس سے بھی ان الزامات پر دھیان دینے اور تین ہفتے کے اندر جواب دینے کے لئے کہا ہے۔ عدالت میں یہ معاملہ تب سامنے آیا جب تمل ناڈو کے ایک یتیم خانہ میں بچوں کے جنسی استحصال کے معاملے سے جڑے ایمیکس کیوری نے بچوں کو حراست میں رکھنے اور ان پر ظلم کرنے کو لےکر اخبار کی رپورٹس کے بارے میں بتایا۔

وکیل اپرنا بھٹ کے زور دینے پر بنچ نے ان دفعات کے بارے میں واضح کیا کہ جس کی وجہ سے بچوں کو پولیس حراست میں نہیں لیا جا سکتا۔ بنچ نے جووینائل جسٹس (بچوں کی دیکھ بھال اور تحفظ) قانون، 2015 کی دفعہ 10 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کے ذریعے پکڑے گئے بچے کو اسپیشل جووینائل پولیس یونٹ یا کسی نامزد افسر کی نگرانی میں رکھا جانا چاہیے اور یہ ذمہ داری سنبھالنے والے لوگوں کو پکڑے گئے بچے کو  زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے کے اندر جے جے بی کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔

بنچ نے کہا، ‘ دفعہ (ایکٹ کی) کے اہتماموں میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر قانون کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے والے کسی بچے کو پولیس حراست میں یا جیل میں نہیں رکھا جائے‌گا۔ ایک بچے کو جیسے ہی جے جے بی کے سامنے پیش کیا جائے‌گا، اس کو ضمانت دینے کا اصول ہے۔ ‘ عدالت نے اپنے 10 فروری کے حکم میں کہا، ‘ اگر ضمانت نہیں دی جاتی ہے، توبھی بچے کو جیل یا پولیس حراست میں نہیں رکھا جا سکتا اور اس کو انسپیکشن ہاؤس  یا کسی محفوظ مقام پر رکھنا ہوگا۔ ‘

بنچ نے آگے کہا، ‘ تمام جے جے بی کو قانون کے اہتماموں پر عمل کرنا چاہیے۔ ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ جے جے بی خاموش تماشائی بنے رہنے، اور معاملہ ان کے پاس آنے پر ہی حکم دینے کے لئے نہیں بنائے گئے ہیں۔ ‘ بنچ نے آگے کہا کہ جے جے بی کے علم میں اگر کسی بچے کو جیل یا پولیس حراست میں بند کرنے کی بات آتی ہے، تو وہ اس پر قدم اٹھا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ یقینی بنانا جے جے بی کی ذمہ داری ہے کہ بچے کو فوراً ضمانت دی جائے یا انسپیکشن ہاؤس  یا محفوظ مقام پر بھیجا جائے۔ بنچ نےسپریم کورت  کے دفتر کو ہدایت دی کہ وہ اس حکم کی ایک کاپی سبھی ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو بھیجیں، تاکہ ہرایک ہائی کورٹ میں جووینائل جسٹس کمیٹیوں کو حکم مل سکے اور وہ یہ یقینی کیا جا سکے  کہ حکم کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے اس کی ایک کاپی ہرایک جے جے بی کو بھیجی جائے۔