ٹرول کی منظم مہم میں ہمانشی کی فطری انسانی اخلاقیات کا سامنا کرنے کی قوت نہیں ہے

ہمانشی نروال کے بیان میں انسانیت کو بیدار کرنے کی جو طاقت تھی، اس  سے خوفزدہ ہندوتوا  گروہ کی جانب سے ان  کی ساکھ کو ختم کرنے کے لیےمذمتی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ ایک عام ہندو کے لیے آزمائش کا وقت ہے؛  وہ ہمانشی کے ساتھ کھڑا ہوگا یا ان پر حملہ آور اس گروہ کے ساتھ؟

ہمانشی نروال کے بیان میں انسانیت کو بیدار کرنے کی جو طاقت تھی، اس  سے خوفزدہ ہندوتوا  گروہ کی جانب سے ان  کی ساکھ کو ختم کرنے کے لیےمذمتی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ ایک عام ہندو کے لیے آزمائش کا وقت ہے؛  وہ ہمانشی کے ساتھ کھڑا ہوگا یا ان پر حملہ آور اس گروہ کے ساتھ؟

پہلگام حملے میں مارے گئے بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں ان کی اہلیہ ہمانشی نروال۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

پہلگام حملے میں مارے گئے بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں ان کی اہلیہ ہمانشی نروال۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

پہلگام جیسے تشدد کے واقعات پر ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ خصوصی طور پر جب وہ اجتماعی ہو؟ فوری اور طویل مدتی ردعمل؟

پہلگام میں تشدد کرنے والوں نےسوچا ہوگاکہ ہندوستان میں اس پر دو طرح کے ردعمل ہوں گے۔ ایک ہندو ردعمل اور دوسرا مسلمان ردعمل۔ انہوں نے ہندوؤں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ یہ تشدد مسلمانوں اور کشمیریوں کی طرف سے کر رہے ہیں۔ جسے مارنا ہے وہ ہندو ہی ہے، یہ انہوں نے ٹھنڈے طریقے سےطے کیا۔ فطری طور پر (اور یہی وہ چاہتے تھے) یہ بڑے پیمانے پر نشر بھی ہوا۔

مسلمان قاتلوں نے کشمیر میں باہر سے آئے ہندوستانی ہندوؤں کو قتل کیا؛ کشمیری مسلمانوں کی طرف سے، ہندوؤں کے خلاف، ہندوستانیوں کے خلاف؛ اس تشدد کا یہی مطلب نکالا جائے، یہ  قاتلوں کا مقصد تھا۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ اس تشدد کی اس تشریح کا ہندوستان میں کیا اثر ہوگا۔

لیکن جو ابتدائی رد عمل سامنے آئے، ان سے قاتلوں کے اس مقصد کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹیں پیداہو گئیں۔ ایک ساتھ دو خبریں آئیں؛ ہندو مرد سیاحوں پر تشددان کا مذہب پوچھ کر کیا گیا۔ اسی وقت مسلمانوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر کئی ہندو مردوں، عورتوں اور بچوں کو بچایا۔ تشدد اور تشددکے درمیان مقامی کشمیریوں کی بے ساختہ جرٲت مندانہ انسانیت کی تصویریں ساتھ ساتھ لوگوں تک پہنچیں۔

اس کے ساتھ سوشل میڈیا کی وجہ سے ایک اور بات ہوئی۔ جن خواتین کے باپ، شوہر اور رشتہ دار مارے گئے، ان کا پہلا ردعمل بھی فوراً دنیا تک پہنچا۔ اپنے غم اور صدمے کے لمحات میں بھی ان متاثرہ خواتین نے اس قتل عام کی وجہ سےکشمیریوں کے خلاف بولنے سے انکار کر دیا۔ بلکہ ان کی تعریف کی اور ان  کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں نے انہیں بچایا، ان کی حفاظت کی اور ان کا خیال رکھا۔ انہوں نے کشمیریوں کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کی۔ ان پرکوئی  شک نہیں کیا۔ انہوں نے واضح طور پر دہشت گردوں اور کشمیریوں میں فرق کیا۔

اس سے باہر کے،تشدد سےبراہ راست متاثر نہ ہونے والے ہندوؤں کو تعجب ہوا۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو یہ ردعمل فطری  نہیں لگے۔ لیکن ان کا انسانی اثر بھی ہوا؛ قاتل مسلمان رہے ہوں گے، لیکن تمام کشمیری مسلمانوں کو ان ہلاکتوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اگر مارےجانےوالےشخص کی بیوی اور بیٹی یہ کہہ رہی ہیں تو اس پر غور کرنا ہی پڑے گا۔

یہی نہیں بلکہ پورا کشمیر اس تشدد کے خلاف بے ساختہ سڑکوں پر نکل آیا۔ یہ دیکھنا مشکل نہیں تھا کہ اس تشدد نے کشمیریوں اور مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور وہ اپنے غم اور غصے کا اظہار بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کر رہے تھے۔ فوراً ہندوستان بھر کے مسلم مذہبی رہنماؤں اور تنظیموں نے اس تشدد کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ کشمیر میں سری نگر کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران تشدد کی مذمت کی گئی، اور ان ہلاکتوں کے خلاف ہندوستان بھر میں نماز جمعہ کے دوران خطبہ پڑھا گیا۔

کشمیری اور مسلمان دونوں کہہ رہے تھے؛ یہ تشدد ہمارے نام پر نہیں کیا جا سکتا، ہم اسے نا منظور کرتے ہیں۔ اسے نہ سننا مشکل تھا۔

محسوس ہوا کہ دہشت گردوں کے منصوبے ناکام ہو گئے۔ وہ ہندوستان کی انسانیت کو تقسیم کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن ہم یہ بھول گئے کہ جس قسم کا ردعمل وہ پیدا کرنا چاہتے تھے اس طرح کے ردعمل کی توقع ایک سیاسی جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی تھی۔ دہلی اور کئی ریاستوں میں ان کی حکومت ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے جموں و کشمیر پر بھی ان کا کنٹرول ہے۔


بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی اسی ردعمل  کی امید تھی جو دہشت گرد چاہتے تھے۔ بلکہ اس طرح کے ردعمل کو بھڑکانے کے لیے انہوں نے اپنی طرف سے پہل کی۔ جلد ہی اس کا پہلا پوسٹر جاری ہوا؛ ‘دھرم پوچھا ، ذات نہیں۔ یاد رکھیں گے۔’ یہ ان ہندوؤں سے بالکل مختلف ردعمل تھا جو براہ راست متاثر ہوئے تھے۔ وہ اس حقیقت کو جانتے تھے لیکن وہ کشمیریوں اور مسلمانوں کے دکھ، خیر سگالی، ہمدردی اور انسانیت کو یاد رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے لیے یہ یاد رکھنا زیادہ ضروری تھا۔


لیکن بی جے پی انہیں کچھ اور یاد رکھنے کو کہہ رہی تھی۔

بی جے پی ہندوؤں سے کہہ رہی تھی کہ جو یاد رکھنے کی ضرورت ہے  وہ یہ کہ ‘دھرم  پوچھ کر مارا۔’ یہ ایک اجتماعی ہندوستانی ردعمل کے بجائے ایک علیحدہ ہندو ردعمل کو منظم کرنے اور پروپیگنڈہ کرنےکی ہوشیاری تھی۔ ہندوستان کے بڑے میڈیا نے بھی بی جے پی کی طرح ردعمل کو اکسانے کے لیے اسی طرح کی مہم چلائی۔

اس کا اثر ہوا۔ ہندوستان میں پہلے سے موجود مسلم دشمنی اور کشمیر مخالف نفرت اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بی جے پی تنظیموں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے کشمیریوں پر حملے شروع ہوگئے۔ ان کے خلاف نفرت پر مبنی پروپیگنڈہ تیز ہو گیا۔ گجرات حکومت نے ‘بنگلہ دیشیوں’ کے نام پر مسلمانوں کو سرعام ہراساں کرنا شروع کر دیا۔ کشمیر میں مشتبہ افراد کے مکانات مسمار کرنے کا عمل شروع ہوا اور کشمیریوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع کر دی گئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت اور بی جے پی مشینری دونوں نے اس تشدد کی فوری سزا کشمیریوں اور مسلمانوں کو دینا شروع کردی۔

جودہشت گرد چاہتے تھے اور جو ان کے پہلے سےبی جے پی پچھلی کئی دہائیوں سے اپنی سیاست کے ذریعے کرتی آ رہی ہے، اس کا مشاہدہ کیا جانے لگا۔ کشمیری کچھ بھی کرلیں، مسلمان کچھ بھی کرلیں، ان کے خلاف تشدد کیا جائے گا۔ وہ بدستور شک کی زد میں رہیں گے۔ دو چیزیں بیک وقت ہو رہی تھیں۔ ہندوؤں اور ان میں بھی تشدد کے شکار ہندوؤں کے بیانات بی جے پی کے نفرت انگیز پروپیگنڈے اور پہلگام کے بعد کےتشدد کے درمیان بھی نشر ہو رہے تھے۔

بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کو ان کی بیوی ہمانشی نروال کے سامنے قتل کیا گیا۔ اپنے شوہر کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب سے نکلتے ہوئے ہمانشی نے کہا کہ وہ یقینی طور پر اپنے شوہر اور ہلاک ہونے والے دیگر لوگوں کے لیے انصاف چاہتی ہیں۔ اس کے ذمہ داروں کو ضرور سزا ملنی چاہیے۔ لیکن وہ نہیں چاہتی ہیں کہ اس کے بہانے کشمیریوں اور مسلمانوں کے خلاف تشدد ہو۔

ہمانشی کا یہ بیان آج کےمسلم دشمنی کے زہر آلود ماحول میں غیر متوقع تھا۔ تشدد اور نفرت کا وارجھیل  رہے کشمیریوں اور مسلمانوں کے لیے ایک مرہم کی طرح تھا۔ لیکن اس بیان سے ہندوتوا کے حامی بوکھلا گئے۔


اپنےشدید رنج وغم کی گھڑی میں بھی ایک اکیلی عورت کے اس معتدل  بیان میں طاقت ہے کہ وہ  ہندوؤں کے اندر سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کردے۔ وہ سوچنے کو مجبور ہو جائیں کہ ان کی نفرت کتنی بے معنی ہے۔ یہ کہ اگر وہ اس قتل عام کے بعد مسلمانوں، کشمیریوں پر حملہ کر رہے ہیں تو ان میں اور دہشت گردوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ بھی مذہب کی بنیاد پرہی قتل کر رہے ہیں۔


ہمانشی کے بیان  میں انسانیت کو بیدار کرنے کی جو طاقت تھی اس سے خوفزدہ ہندوتوگروہ نے ان پر زبردست حملہ بول دیا ہے۔ اس لیے ان کی ساکھ کو ختم کرنے کے لیے ہر طرف سے ان کے خلاف ہتک آمیزاور مذمتی مہم چلائی جا رہی ہے۔ انہیں بد کردار ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یعنی  ہندوؤں کو یہ سمجھانے کی سازش کی جا رہی ہے کہ ہمانشی کی بات نہ سنیں کیونکہ وہ اچھے کردار کی نہیں ہے۔

لیکن اس منظم مہم میں ہمانشی کی فطری انسانی اخلاقیات کا سامنا کرنے کی قوت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ عام ہندو، جو عام طور پر مسلم مخالف نفرت انگیز پروپیگنڈے سے متاثر ہوجاتا ہے، ہمانشی نروال پر ہونے والے اس حملے سے ذرا حیرت میں ہے۔

یہ وہ لمحہ ہے جس میں وہ ہندوتوا کی غیر انسانی اور تشدد کو اس کے ننگے پن کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ یہ ایک عام ہندو کے لیے آزمائش کا وقت ہے؛ وہ ہمانشی کے ساتھ کھڑا ہوگا یا اس پر حملہ آور ہندوتوادیوں کے ساتھ ؟

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)