
آج وہی جماعت، جو کبھی انقلاب کا استعارہ سمجھی جاتی تھی، خود داستانِ عبرت بن چکی ہے۔

دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اور عآپ کے کنوینر اروند کیجریوال۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@AAPkaArvind)
تہلکہ ڈاٹ کام کے سیاسی بیورو میں غالباً 2011 میں کام کرتے ہوئے ایک بارایڈیٹر ان چیف ترون تیج پال نے اپنے دفتر بلاکر ایک شخص سے متعارف کراتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس انکم ٹیکس محکمہ کے حوالے سے کسی اسٹوری کا خاکہ ہے، ان سے بات کرکے دیکھوں کہ کس طرح اسٹوری کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ یہ شخص اروند کیجریوال تھے، جنہوں نے انکم ٹیکس محکمہ سے جوائنٹ کمشنر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر سول سوسائٹی میں شمولیت کرکے کرپشن کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہوا تھا۔
میں ان دنوں خود انکم ٹیکس کے گرداب میں پھنسا ہوا تھا، اس لیے شاید ایڈیٹر کو لگا ہوگاکہ میں اس اسٹوری کو زیادہ بہتر سمجھ پاؤں گا۔
میں کیجریوال کو اپنے چیمبر لے آیا، جو گریٹر کیلاش کے ایم بلاک میں ہی ذرا فاصلہ پر دوسری بلڈنگ میں تھا۔ خیر اسٹوری جو ان کے پاس تھی، اس پر مختلف وجوہات کی بنا پر کام نہیں ہوسکا۔ ملاقات کے بعد جب میں ان کو باہر چھوڑنے آیا، تو انہوں نے کناٹ پلیس تک جانے کے لیے بس کا روٹ نمبر جاننا چاہا۔ میں تو ان کو ان کی گاڑی تک چھوڑنے کی نیت سے نیچے ساتھ آیا تھا، مگر اب ان کو بس اسٹاپ تک چھوڑنا پڑا۔
میں حیران و پریشان تھا کہ اس قدر ملائی والے انکم ٹیکس محکمہ میں اتنے اونچے عہدے پر رہنے والا شخص، جس کی اہلیہ بھی سرکاری افسر ہے، وہ بسوں میں دھکے کھاتا پھرتا ہے۔ میں نے اب غور سے دیکھا تو وہ پاؤں میں نائلان کی ہوائی چپل پہنے ہوئے تھے۔
اس کے دو سال بعد وہ دسمبر 2013میں دارالحکومت دہلی کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوگئے اور اس سے قبل ان کی تنظیم انڈیا اگینسٹ کرپشن، جو بعد میں عام آدمی پارٹی یعنی عآ پ میں تبدیل ہوگئی، نے اپنی سیاست سے پورے ملک کو مسحور کر کے پیغام دے دیا تھا کہ ایک متبادل سیاست کا وقت آچکا ہے۔ کانگریس، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سمیت تمام روایتی پارٹیوں کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں۔
ان کی پہلی مدت حکومت، جو بس دو ماہ سے کچھ کم وقت تک ہی رہی، کے دوران مجھے ایک بار دہلی کے صوبائی سکریٹریٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ گیٹ کے باہر حسب توقع لمبی لائن دیکھ کر میں پریس کارڈ دکھا کر لائن کراس کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ قطار میں مجھے وزیر صحت ستندر جین اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے نظر آئے۔ اسی دوران پاس میں ہی ایک آٹو رکشہ ُرکا اور سماجی بہبود کی وزیر راکھی برلا اس میں سے برآمد ہوئی اور وہ بھی قطار میں شامل ہوگئی۔
ان کو قطار میں دیکھ کر مجھے پریس کے نام پر آگے جانے پر شرم محسوس ہوئی اور ان کے پیچھے ہی لائن میں لگ کر آگے جانے کے لیے باری کا انتظار کرنے لگا۔ نوزائیدہ عآپ اور وزیراعلیٰ کیجریوال نے سکریٹریٹ کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔ وی وی آئی پی کلچر قصہ پارینہ بن چکا تھا۔واقعی عام آدمی کی حکومت آچکی تھی۔
مگر ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک دہلی پر بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد ابھی حال ہی میں عوام نے اس پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ اس حد تک کہ کیجریوال سمیت کئی اعلیٰ لیڈران کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدائی چند دنوں کے بعد اس پارٹی نے متبادل سیاست کے بجائے روایتی سیاست کا اعادہ کرکے اپنے حامیوں خاص طور پر مڈل کلاس کو مایوس کردیا تھا۔ جس کا خمیازہ بھگتنا اس کو پڑا ہے۔
عآپ کا پہلا انتخابی امتحان 2013 کے دہلی اسمبلی انتخابات میں ہوا، جہاں اس نے حیران کن کامیابی حاصل کرتے ہوئے 70 میں سے 28 نشستیں جیت لیں۔ پندرہ سال سے مسلسل حکمران کانگریس کو محض چند سیٹوں تک محدود کر دیا گیا، جبکہ بی جے پی بھی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
ایسے میں عآپ نے کانگریس کی بیرونی حمایت سے حکومت بنا لی، مگر کیجریوال کی حکومت محض 49 دن ہی چل سکی۔ انہوں نے جن لوک پال یعنی محتسب بل کو اسمبلی کی منظوری نہ دینے کے سبب استعفیٰ دے دیا۔ مگر اس اچانک استعفے کے باوجود عآپ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ پارٹی نے خود کو روایتی سیاسی جماعتوں کے برعکس عام آدمی کی آواز کے طور پر پیش کیا اور گراس روٹس سطح پر متحرک کارکنوں، شفافیت اور سوشل میڈیا کے بہترین استعمال کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ 2015 کے دہلی انتخابات میں عآپ نے تاریخی کامیابی حاصل کی اور 70 میں سے 67 نشستیں جیت کر اپوزیشن کو تقریباً مٹا دیا۔
اسی طرح 2020میں ایک بار پھر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے 62سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، جو اب 2025 کے انتخابات میں سمٹ کر 22رہ گئی ہیں۔
عآپ کے ایک سابق سینئر رہنما مینک گاندھی کا کہنا ہے ہے کہ پے در پے تاریخی کامیابیاں ہی بعد میں غرور کا سبب بنی اور اسی نے پارٹی کے زوال کی بنیاد بھی رکھ دی۔ 2013 انتخابات کے موقع پر عام آدمی پارٹی نے سیاست کو بدعنوانی سے پاک کرنے نیز عام آدمی کو مہنگائی اور رشوت ستانی سے نجات دلانے کی غرض سے18 وعدے کیے تھے۔
ان کے مطابق کسی بھی ایم ایل اے اور وزیر کی کار پر لال بتی استعمال نہیں ہوگی، انہیں سرکاری رہائش گاہ نہیں دی جائے گی، اگر ان کے پاس ذاتی مکان ہے۔ حکومت بنانے کے بعد پندرہ دن کے اندر لوک پال یعنی احتساب بل پاس کیا جائے گا۔
محلہ کمیٹی کو فیصلہ سازی کااختیار دینے کے لیے سوراج ایکٹ وضع کیا جائے گا، سوشل سکیورٹی فنڈقائم کیا جائے گا، دہلی جل یعنی پانی بورڈ کی تشکیل نو کی جائے گی، کانٹریکٹ پر روزگار دینے کا سلسلہ ختم کیا جائے گا، دریائے یمنا کو صاف کیا جائے گا، ایسے کئی وعدے ہیں، جو پورے نہیں کیے گئے۔
ہاں یہ سچ ہے کہ عآپ کے اقتدار میں آتے ہی کیجریوال نے بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں پر شکنجہ کس کے بجلی کی بلوں کر کم کروایا۔ محلہ کلنک کھولے اور سرکاری اسکولوں کو قدرے بہتر کرادیا۔ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینا، غیر قانونی کالونیوں کو قانونی طور پرجائز اور قانونی بنانا، ان کا انہدام روکنا اور دیہی اراضیوں کی تحویل پر پابندی لگانا وغیرہ بھی کئی ایسے وعدے ہیں، جو ایفا نہیں ہوسکے، مرکزی حکومت کے ساتھ ہمہ وقت ٹکراؤکی وجہ سے بھی متعدد وعدوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔
کہاں یہ وعدہ کہ وزیروں کو سرکاری رہائش گاہ نہیں دی جائےگی، کہاں یہ کہ انتخابات میں تاریخی فتح کے فوراً بعد ہی کیجریوال نے دو جڑے ہوئے پانچ بیڈروم والے سرکاری ڈوپلیکس گھروں میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور پھر دوسری مدت کے دوران کورونا لاک ڈاؤن کے دوران وزیر اعلیٰ ہاوس پر کروڑوں روپے خرچ کیے۔
ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ صرف پردوں اور قالینوں پر پانچ کروڑ سے زائد کی رقم خرچ کی گئی۔ باتھ رومز میں سونے کی قلعی کیے ہوئے نل، جیکوزی وغیرہ لگائے گئے۔ ان اقدامات نے سادگی کے متعلق ان کے موقف کی نفی کی، جس سے پارٹی کے اندر اور باہر کئی لوگ حیران رہ گئے۔
بس میں دھکے کھانے والا اور نائلان کی ہوائی چپل پہننے والا کیجریوال پوری طرح روایتی سیاستدانوں کے رنگ میں رنگ گیا تھا۔ دہلی شہر کو کور کرنے والے صحافیوں کے لیے ایک بڑا شاک یہ تھا کہ اس سے قبل کانگریسی وزیر اعلیٰ شیلا دکشت تک ان کی رسائی نہایت ہی آسان ہوتی تھی۔ وہ اکثر خود ہی فون پر آتی تھی، تقریباً روز ہی انہیں سکریٹریٹ میں ملتی تھی۔ مگر کیجریوال تک رسائی نہایت ہی مشکل ہو گئی تھی۔ فون پر آناتو دور کی بات، سکریٹریٹ میں صحافیوں کی آمد پر پابندی لگا دی گئی۔
مڈل کلاس کے لیے عآپ کی کامیابی دراصل سیاسی، سماجی اور اقتصادی بیداری کی ایک علامت تھی۔ آزادی کے بعد فرسودہ اور ناقص انتخا بی نظام کے نتیجہ میں جمہوری لبادہ میں امراء کا جو طبقہ معرض وجود میں آیا وہ ملک کے وسائل اور دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا آرہا ہے۔
عام آدمی پارٹی نے امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کی سیاسی جماعتوں کی طرز پر اپنے اخراجات کے لیے عوام سے عطیات جمع کیے۔مگر سیاست کے ہوشربااخراجات کی وجہ سے یہ طریقہ زیادہ دیر تک کام نہیں کر سکا۔ ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں چند ہی تحریکیں ایسی ہیں جنہوں نے عوام کے تخیل کو اپنی گرفت میں لیا ہو، اور عآپ ان میں نمایاں رہی ہے۔ اس کا عروج برق رفتاری سے ہوا۔مگر تکبر، اندرونی اختلافات اوربنیادی اصولوں سے انحراف کی وجہ سے اس کا زوال بھی اتنا ہی ڈرامائی ثابت ہوا۔
عام آدمی پارٹی کی جڑیں اُس زبردست اینٹی کرپشن تحریک میں پیوستہ تھیں جسے انڈیا اگینسٹ کرپشن (آئی اے سی) نے منظم کیا تھا۔2008 سے 2014 کے درمیان کانگریس کی قیادت میں چلنے والی متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے 2) حکومت کے دور میں کئی بڑے کرپشن کیسز منظر عام پر آئے، جس سے عوامی غصہ انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر سرگرم کارکنوں نے تحریک میں شمولیت اختیار کی، اور سماجی کارکن انا ہزارے اس تحریک کے مرکزی چہرے کے طور پر ابھرے۔ جنتر منتر پر ہزارے کی بھوک ہڑتال نے ملک گیر حمایت حاصل کی، جس میں اروند کیجریوال، پرشانت بھوشن اور کرن بیدی جیسے نمایاں کارکن بھی شامل تھے۔
اس دور میں لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں اپوزیشن بی جے پی پے درپے انتخابات میں شکست سے دوچار ہو رہی تھی۔ اس لیے راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس نے اس تحریک کی اعانت کی۔ ان کا خیا ل تھا کہ اس تحریک سے کسی طرح سے کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرکے کمزور کیا جائے۔باقی بعد میں دیکھا جائےگا۔چونکہ اس تحریک میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا غلبہ تھا، اس لیے بھی آر ایس ایس کے لیےیہی ایک قابل قبول متبادل تھا۔
جب انا ہزارے نے 2011 میں بھوک ہڑتال کی، تو پس منظر میں بھارت ماتاکی وہی تصویر لگی تھی، جو آر ایس ایس کے دفاتر میں لٹکی ہوتی ہے۔ مینک گاندھی کے مطابق ناگپور میں آر ایس ایس ہیڈکوارٹر نے غیر رسمی طور پر اس تحریک کی حمایت کی منظوری دی تھی۔چنانچہ نومبر 2012 کوعام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔
مگر ستمبر 2013 کو جب بی جے پی نے گوا میں منعقد مجلس عاملہ کی میٹنگ میں اڈوانی کے بدلے نریندر مودی کو وزارت اعظمیٰ کا امیدوار بنانے کا اعلان کردیا، تو آر ایس ایس نے یکسوئی سے مودی کو جتانے کے لیے کمر کس لی اور انڈیا اگینسٹ کرپشن کی کوکھ سے جنمی عآپ سے قومی سطح پر کنارہ کشی اختیار کرلی۔
دہلی میں شاندار جیت کے بعد عآپ نے 2014 میں قومی سطح پر پھیلنے کا فیصلہ کیا، حتیٰ کہ کیجریوال نے خود نریندر مودی کے خلاف وارانسی سے الیکشن لڑا۔ مگر نتیجہ تباہ کن ثابت ہوا۔ عام آدمی پارٹی صرف پنجاب میں چار سیٹیں جیت سکی۔ قومی سطح پر مضبوط تنظیمی ڈھانچے کے بغیر اتنے بڑے انتخابی دائرے میں کود پڑنے سے اس کی کمزوریاں عیاں ہوگئی۔
ہندو قوم پرستوں نے جب ان سے کنارہ کشی اختیارکی تو مسلم طبقہ نے ان کا ہاتھ تھاما۔ مگر ان کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ انتہائی مایوس کن رہا۔ اس بار بھی جن 22سیٹوں پر عآپ نے کامیابی حاصل کی ان میں سے 8سیٹیں مسلمانوں کے ہی دم سے جیت پائے ہیں۔ انہوں نے دہلی اقلیتی کمیشن کی زمام معروف مصنف اور صحافی ظفر الاسلام خان کے سپرد تو کی، مگر ان کی رپورٹوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ 1984 کے سکھ مخالف فسادات میں زندہ بچ جانے والوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حیثیت، شمال-مشرقی دہلی میں مسلم خواتین کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حیثیت، اور مسلم قبرستانوں اور عیسائی قبرستانوں کے مسائل اور حیثیت کے بارے میں ان رپورٹوں کو اسمبلی میں رکھا گیا نہ کسی سفارش پر عمل کیا گیا۔
اردو اساتذہ کی خالی آسامیوں کو پُر کرنے کے لیے بار بار کی گئی درخواستوں پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
فروری 2020 میں شاہین باغ شہریت قانون کے خلاف ایجی ٹیشن اور اس کے بعد برپا ہوئے دہلی فسادات کے علاوہ یونیفارم سول کوڈ پر خاموشی نے اس دلیل کو تقویت بخشی کہ عآپ بی جے پی سے دو ہاتھ کرنے کے بجائے اس کی راہ پرنکل چکی ہے۔ دہلی فسادات کے دوران جب پولیس نے ان کے ایک کونسلر طاہر حسین کو ملزم بنا کر گرفتار کیا۔ تو اس کی حمایت کرنے کے بجائے اس سے کنارہ کشی اختیار کی۔کووڈ کے دوران ہندو قوم پرستوں نے تبلیغی جماعت اور بستی حضرت نظام الدین میں اس کے ہیڈ کوارٹر اور مسجد کو نشانہ بنایا، تو کیجریوال نے اس کی جانچ کرنے کے بجائے مفسدوں کا ساتھ دیا۔
جموں و کشمیر کے سلسلے میں تو اس پارٹی کا رویہ ہی ہتک آمیز رہا۔ اگست 2019 کو اس پارٹی نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے، ریاست کو دو لخت کرکے مرکزی انتظام والا علاقہ بنانے اور ضم کرنے پر وزیراعظم نریندر مودی حکومت کی حمایت کی۔
ایوان بالا میں بی جے پی کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ عآپ اور چند دیگرعلاقائی پارٹیوں اگر اس کی مخالفت کرتی، تو اس کا پاس ہونا ناممکن تھا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ خود اروند کیجریوال دہلی اسمبلی اور اپنی حکومت کی بے اختیاری کا رونا رو کر مزید اختیارات کا مطالبہ کرتے تھے، مگر جموں و کشمیر کو بے اختیار کرنا اور اس کو دو لخت کرنا ان کو منظور تھا۔
اس دوہرے معیار نے ان کی قلعی مزید کھول دی۔ انہوں نے عام آدمی پارٹی کا ماڈل جموں وکشمیر کے اس وقت کے ممبر اسمبلی فی الوقت محبوس ممبر پارلیامنٹ انجئنیر رشید کی اپنے حلقہ لنگیٹ میں کارکردگی کی بنیاد پر تیار کیا تھا۔ 2010 اور پھر 2016 میں کشمیر میں انتفادہ برپا تھا، لنگیٹ ایک پر امن جزیرہ کی مانند تھا، جہاں رشید کی ہی قیادت میں لوگوں نے یکجہتی کے لیے جلسے جلوس تو نکالے، مگر یہ علاقہ پر امن رہا۔
مجھے یاد ہے کہ دہلی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا اور سومناتھ بھارتی نے رشید کے سیاسی ماڈل کو سمجھنے کے لیے کئی بار کئی دنوں تک لنگیٹ کے دیہاتوں کا دورہ کیا۔کئی افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے ماڈل پاکستان میں عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف سے مستعار لیا تھا، جو انہی وعدوں کو لےکر سیاسی میدان میں تھے۔
اقتدار میں آتے ہی، جوں جوں کیجریوال کی حقیقت کھلتی گئی، پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی شدت اختیار کرنے لگے۔ 2015 میں پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو جیسے بانی رہنماؤں کو اس وجہ سے پارٹی سے نکال دیا گیا کہ انہوں نے کیجریوال کی طرزِ قیادت پر سوال اٹھائے تھے۔ جو تحریک عوام کی شمولیت اور اجتماعی فیصلوں کے اصولوں پر کھڑی ہوئی تھی، وہ جلد ہی ایک شخصیت پر مبنی تنظیم بن گئی۔ کیجریوال کے اختلافِ رائے کو برداشت نہ کرنے کی روش نے کئی بانی اراکین کو پارٹی سے دور کر دیا۔ جو لوگ ملک کو بدلنے نکلے تھے، وہ خود بدل گئے۔
جب 2015 میں اروند کیجریوال نے بطور وزیر اعلیٰ حلف اٹھایا، توبجائے گورنر ہاوس کے انہوں نے دہلی کے پرانے شہر سے متصل رام لیلا گراؤنڈ میں عوامی میٹنگ میں حلف لیا۔ مجھے یاد ہے کہ حلف لینے کے بعد انہوں نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا ؛
دوستو، جب کسی کو ایسی شاندار جیت ملتی ہے تو اس میں غرور آنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اور اگر غرور آ جائے، تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ہمیں ہر وقت محتاط رہنا ہوگا۔ ہمیں مسلسل اپنے اندر جھانکنا ہوگا کہ کہیں ہم میں غرور تو نہیں آ رہا۔ اگر ایسا ہوا تو ہم کبھی اپنا مقصد حاصل نہیں کر پائیں گے۔
انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ غرور نے کانگریس کو زوال تک پہنچایا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ خود اسی غرور کا شکار ہو گئے اور پارٹی کو بحران میں دھکیل دیا۔
کیجریوال کی شناخت ہی کرپشن کے خلاف ان کی بے لچک مہم تھی۔ بطور انڈین ریونیو سروس (آئی آر ایس) افسر، وہ رشوت طلب کرنے والے افسران کو بارہا بے نقاب کرتے رہے۔ محکمہ انکم ٹیکس میں کام کے ساتھ ساتھ، انہوں نے ”پریورتن“ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کی، جو دہلی کے پسے ہوئے طبقات کو بیوروکریسی کی رکاوٹوں سے نجات دلانے میں مدد دیتی تھی۔
انہوں نے اطلاعات کے حق (آرٹی آئی) قانون کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو کرپٹ سرکاری افسروں کے چنگل سے آزادی دلائی۔یہی وہ اصول تھے جن پر عام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اصول خود پارٹی کی سیاست کی نذر ہو گئے، اور آج وہی جماعت، جو کبھی انقلاب کا استعارہ سمجھی جاتی تھی، خود ایک نئی داستانِ عبرت بن چکی ہے۔
ٹیکس ریفنڈ میں تاخیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پریورتن کے رضاکار متعلقہ افسر کے پاس متاثرہ شخص کو لے کر جاتے اور ریفنڈ کی تاریخ دریافت کرتے۔ مقررہ دن، وہ موسیقی کے آلات کے ساتھ انکم ٹیکس آفس پہنچ جاتے تھے۔ اگر ریفنڈ دینے سے انکار کیا جاتا تو وہ فرش پر بیٹھ جاتے، گیت گاتے، ڈھول بجاتے بجاتے یہاں تک کہ ریفنڈ جاری کر دیا جاتا۔
ایک بار ایک شخص سے انکم ٹیکس افسر نے اس کا ریفنڈ کلیئر کرنے کے لیے پچیس ہزار روپے رشوت طلب کی۔کیجریوال کی سربراہی میں پریورتن کے رضاکار چند صحافیوں کے ساتھ ایک جلوس کی شکل میں ڈھول اور باجے بجاتے ہوئے نکلے اور رشوت کی رقم کا چیک لے کر سرعام اس افسر کو پیش کرنے پہنچ گئے۔ افسر پچھلے دروازے سے فرار ہو گیا، مگر محکمہ نے فوری اس شخص کا ریفنڈ جاری کردیا۔ اسی طرح کسی بستی میں اگر بجلی کا ٹرانسفرمر خراب ہوکر نہیں لگایا جاتا، تو اسی طرح وہ بجلی دفتر پہنچ کر وہاں گانا بجانا شروع کر دیتے تھے۔ بیوروکریسی کے ستائے ہوئے افراد کے لیے وہ ایک سہارا بن گئے تھے۔
مینک گاندھی کے مطابق کیجریوال کے دست راست اور سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے ان کو ایک بار بتایا؛”مینک بھائی، اصول کتابوں میں اچھے لگتے ہیں۔ لیکن ہم اب جنگ میں ہیں، اور ہمیں کچھ چیزوں کو چھوڑنا ہوگا۔“ اس طرح سمپورن کرانتی” (کلی انقلاب) کا نعرہ خاموشی سے سیاسی سمجھوتے میں تبدیل ہو گیا۔ جو جماعت اندرونی جمہوریت اور عدم مرکزیت کا وعدہ کر رہی تھی، وہ تیزی سے کیجریوال کے گرد گھومنے والی شخصیت پرست جماعت بن گئی۔
اختلافِ رائے دبایا جانے لگا اور چاپلوسی کی ثقافت پروان چڑھنے لگی۔ دہلی کے اراکین اسمبلی، جنہیں اپنے حلقوں پر توجہ دینی تھی، دیگر ریاستوں میں تعینات کیے گئے، جہاں وہ مہنگے ہوٹلوں میں قیام کرتے اور صرف وہ مقامی رہنما منتخب کرتے جو کیجریوال کے قریبی حلقے کے وفادار ہوتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زمینی سطح کے باصلاحیت رہنما پسِ پردہ چلے گئے۔بی جے پی کے غلبے والی ریاستوں میں کانگریس کی جگہ لینے کی خواہش کے باوجود، پارٹی کی کمزور تنظیم اور مقامی سطح پر مضبوط قیادت کی کمی نے اس کے عزائم کو نقصان پہنچایا۔
بد عنوانی کے خلاف وجود میں آئی پارٹی کو بد عنوانی کے الزاما ت کا سامنا کرنا پڑا۔وزیر قانون جیتندر سنگھ تومر کی جعلی ڈگری اسکینڈل پر کجریوال کا موقف عجیب سا تھا۔ بجائے وہ اپنے وزیر کو کٹہرے میں کھڑا کرکے اس سے جواب طلب کرتے، وہ ان کا دفاع کرنے لگے۔ مگر ناقابل تردید ثبوتوں کے بعد انہیں اپنا موقف بدلنا پڑا۔
مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔ اسی طرح 2016 میں، پارٹی نے اپنی ویب سائٹ سے چندہ دہندگان کی فہرست ہٹا دی، تو شفافیت کے عزم پر بھی سوالات اٹھنے لگے۔جب 2022 میں، دہلی حکومت نے نئی ایکسائز پالیسی متعارف کروائی تاکہ شراب کی فروخت کو نجی شعبے کے حوالے کیا جا سکے، یہ ایک طرح سے اس پوری تحریک کے تابوت میں ایک کیل ثابت ہوئی۔
اس پالیسی سے مبینہ طور پر مخصوص نجی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا اور الزام ہے کہ ان سے پارٹی فنڈ کے لیے موٹی رقوم لی گئیں۔ اس کیس میں ڈپٹی چیف منسٹر منیش سسودیا سمیت کئی اہم رہنما ملوث پائے گئے۔ فروری 2023 میں سسودیا کو گرفتار کر لیا گیا۔ مارچ 2024 میں، وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کو بھی حراست میں لے لیا گیا، جو ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی برسرِ اقتدار وزیر اعلیٰ کی گرفتاری تھی۔اسی طرح منیش سسودیا پر اسکولوں کی تعمیر میں مالی بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے۔
عآپ اب بھی ایک قومی جماعت ہے۔ پنجاب میں یہ حکومت چلا رہی ہے اور پارلیامنٹ میں 13 نشستیں رکھتی ہے۔ تاہم، اس کے توسیعی منصوبے تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ سال 2022 میں، دہلی سے باہر آپ کو سب سے بڑی انتخابی کامیابی پنجاب میں ملی، جہاں اس نے روایتی کانگریس-اکالی دل اقتدار کے دو قطبی نظام کو شکست دے کر شاندار کامیابی حاصل کی۔
یہ ایک فیصلہ کن لمحہ تھا، جس نے اسے قومی پارٹی کا درجہ دلایا اور یہ عندیہ دیا کہ اس طرزِ حکمرانی کو دوسرے علاقوں میں بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ لیکن پنجاب میں حکومت چلانا نئے چیلنجز لے کر آیا۔ ایک ایسے صوبے کا انتظام سنبھالنا، جو گہرے زرعی بحران اور منشیات کے مسئلے میں جکڑا ہوا ہے، دہلی کی حکومت چلانے سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوا۔
عآپ کی سیاسی سمت ایک سبق آموز کہانی ہے۔ ایک ایسی جماعت جو انسدادِ بدعنوانی تحریک سے پیدا ہوئی، جسے ایک وقت میں ہندوستان کی تیزی سے ابھرنے والی سیاسی قوت قرار دیا گیا، اب خود سیاسی گمنامی کے خطرے سے دوچار ہے۔ آیا یہ جماعت اپنی کھوئی ہوئی زمین دوبارہ حاصل کر پائے گی یا ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں محض ایک بھولی بسری یاد بن کر رہ جائے گی، یہ وقت ہی بتائے گا۔
اس کو ایک ایسے سیاسی میدان میں اپنی جگہ دوبارہ بنانی ہے، بی جے پی اور کانگریس پہلے سے ہی موجود ہے۔ ایک دہائی قبل کانگرس اور بی جے پی کا پروگرا م تھا کہ کیجریوال کو اقتدار کی دلدل میں اتار کر اتنا آلودہ کیا جائے کہ یا تووہ خود سیاست سے توبہ کر لیں یا عوامی حمایت سے محروم ہوجائیں۔
بڑی حد تک یہ روایتی پارٹیاں اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہو گئیں۔ پارٹی کی بحالی کا دار و مدار کرپشن کے الزامات کا مؤثر جواب دینے، عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنے میں ہے۔دہلی میں اس نے 43فیصد ووٹ حاصل کیے،جو بی جے پی سے بس دو فیصد ہی کم ہیں۔ اگر یہ پارٹی اپنا وطیرہ بدلتی ہے اور پچھلے دس برسوں کے دوران اپنی کارکردگی کا محاسبہ کرتی ہے، تو یقیناً پانسہ پلٹ سکتی ہے۔