
‘انڈیا اگینسٹ کرپشن’ کی بے اُصولی سے قطع نطر اپنی فرقہ پرست سیاست کی ہوشیاری کا مظاہرہ عآپ نے گزشتہ 11 سالوں میں بارہا کیا۔ ہر بار کہا گیا کہ وہ اپنے آئیڈیل ازم یا مثالیت پسندی کی منکر ہے۔ لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ آئیڈیل ازم کیا تھا۔ پھر ہم کس آئیڈیل سیاست سے دھوکے پر ماتم کناں ہیں؟

اروند کیجریوال۔ (تصویر بہ شکریہ:فیس بک)
دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد کہا جا رہا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی شکست افسوسناک ہے، کیونکہ اس شکست نے متبادل سیاست کی امیدوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔ دوم، یہ کہ عآپ کی شکست کی وجہ اس کے اخلاقی حُسن کا ماند پڑ جانا ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنا ہوگا کہ کیا عآپ واقعی کسی متبادل سیاست کا وعدہ کر رہی تھی؟ وہ متبادل سیاست کیا تھی؟ اور کیا ‘عآپ’ واقعی کسی اخلاقیات پربھی یقین رکھتی تھی؟ لیکن پہلے یہ سمجھ لیں کہ یہ ہار-جیت ہے کیا؟
‘گبر سےتمہیں گبر ہی بچا سکتا ہے۔’ دہلی اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت کی تشریح ایک دوست نے فلم شعلے کے اس ڈائیلاگ کی روشنی میں کی۔ گزشتہ 10 سالوں میں بی جے پی کی قیادت والی وفاقی حکومت کے جبر سے دہلی کے لوگوں کوکون نجات دلا سکتا تھا؟ ووٹر نے فیصلہ کیا کہ صرف بی جے پی ہی اسے بی جے پی سے بچا سکتی ہے۔
گزشتہ 10 سالوں سے مرکزی حکومت نے لیفٹیننٹ گورنر کےتوسط سے جس طرح دہلی کی عآپ حکومت کے لیے کام کرنا محال کر دیا تھا، اسے دیکھتے ہوئےعآپ کے ووٹروں کے ایک حصے نے گبر کی پناہ میں ہی جانا مناسب سمجھا۔ اگر مرکز میں اگلے 5 سال تک بی جے پی کو ہی اقتدار میں رہنا ہے تو پھر عآپ کے دوبارہ حکومت بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ بی جے پی تو اسے کام نہیں کرنے دے گی۔ ایسے میں بجلی، پانی، سڑک، نوکری یا روزمرہ کی دوسری ضروریات کے لیے بی جے پی کو ہی چن لینا چاہیے کیونکہ وہ عآپ حکومت کی کسی فائل کو آگے نہیں بڑھنے دے گی۔
اگر سرکاری افسران سے بات کریں تو وہ بتائیں گے کہ یہ ووٹ ووٹرز کے ایک حصے کو دبا کر لیے گئے ہیں۔ یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ عآپ کے ووٹروں کے ایک حصے کو بی جے پی کی طرف جانے کے لیے کوئی جذباتی چھلانگ لگانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ عآپ اور بی جے پی ایک ہی جذباتی یا نظریاتی دائرے میں کام کر رہے تھے۔
ٹھیک ہے، یہ تقریباً کسی بھی ہندو ووٹر کے لیے کہا جا سکتا ہے۔ کیا روایتی طور پر کانگریس پارٹی یا کسی دوسری سیکولر پارٹی کے ووٹروں کو بی جے پی کی طرف جانے میں کبھی کسی مخمصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ کیا وہ کبھی سیکولرازم کے سوال پر مصالحت پسندی کے خلاف رہا ہے؟ پھر عآپ کےووٹروں کی عمر صرف 10 سال ہے۔ انہوں نے ان 10 سالوں میں دیکھا کہ بی جے پی اور عآپ کی نظریاتی دنیا میں کوئی فرق نہیں ہے۔عآپ کا وعدہ صرف سڑک، پانی، بجلی، تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کا تھا۔ اگر بی جے پی کے آنے سے ایسا کرنا آسان ہو جاتا ہے تو اسے لانے میں کیا حرج ہے؟
اس قسم کے نظریاتی طور پر غیر جانبدار ووٹر عآپ نے 10 سالوں میں تیار کیے۔ ہنومان چالیسہ، ہفتہ وار سندرکانڈ کا پاٹھ، ایودھیا اور تمام تیرتھ کے مقامات کے دورے، سناتن سیوا بورڈ، پجاریوں کے لیے خصوصی انتظامات وغیرہ کے وعدوں کے بعدعآپ اور بی جے پی کے درمیان فرق صرف انتخابی نشان کا تھا۔ لیکن قوم پرست ہندو ہونے کے لیے مسلم مخالف جذبات کا ہونا ضروری ہے۔
اس کے لیے بی جے پی کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی اس کے وجود کی دلیل ہے۔ اگر وہ صرف نریندر مودی یا آدتیہ ناتھ کو سامنے کھڑا کر دے تو ووٹر ان کے کچھ کہے بغیر خود بخود مسلم مخالف جذبات سے متاثر ہو جاتا ہے۔ بی جے پی کے باقی لیڈران مسلم مخالف جذبات میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔ سوال یہ ہوگا کہ پرویش ورما آگے ہیں یا کپل مشرا یا رویندر نیگی؟
عآپ نے شروع میں ہی طے کرلیا تھا کہ وہ اس معاملے میں بی جے پی کو آگے نہیں بڑھنے دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وبا کے دوران اس نے تبلیغی جماعت کے نام پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی۔ جب مسلمانوں نے شہریت ایکٹ میں فرقہ وارانہ ترمیم کے خلاف تحریک شروع کی تو اروند کیجریوال نے اس کے خلاف بیان دیا۔ اس سے پہلے، عآپ نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور آرٹیکل 370 کو رد کرنے کے فیصلے کی پرجوش حمایت کی تھی۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر پر تنقید کرنے کی بات تو دور، اس نے اس کے درشن کے لیے مفت سفر کا وعدہ کیا۔ اروند کیجریوال نے خود اپنے خاندان کے ساتھ اپنی رام مندر یاترا کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی۔
مسلم مخالف نظر آنے میں پیچھے نہ رہنے کے لیے اس نے بنگلہ دیشی اور روہنگیا لوگوں کے خلاف پرتشدد بیانات بھی دیے۔ مسلم مخالف دکھنے کی دوڑ میں وہ اتنا نیچے گر گئی کہ اس نے کہنا شروع کر دیا کہ بنگلہ دیشی اور روہنگیا دہلی والوں کے حقوق غصب کر رہے ہیں۔ انتخابات سے عین قبل وزیر اعلیٰ آتشی نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں بنگلہ دیشی اور روہنگیا بچوں کے اسکولوں میں داخلہ پر سختی سے پابندی لگائی گئی۔
بچوں کے منہ سے نوالہ چھین لینے والا کیا انسان ہے؟ لیکن عآپ کے حامیوں نے عآپ کی اس دانشمندانہ حکمت عملی کی تعریف کی؛ایسا کر کے عآپ نے ٹرمپ کارڈ کھیلاہے اور بی جے پی کو شکست دے دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ عآپ فرقہ پرست نہیں ہے، لیکن یہ ہندو ووٹروں کو بی جے پی سے دور کرنے کی ایک طاقتور حکمت عملی ہے۔ یہ زیب تو نہیں دینا لیکن آج کی مجبوری ہے۔
سوال مندر- مندر جانے یا ہنومان چالیسہ پاٹھ کا نہیں تھا۔ یہ پھوہڑپن ہے لیکن فرقہ وارانہ نہیں۔ کیا ہم کرنسی نوٹوں پر گنیش لکشمی کی تصویر لگانے کے اروند کی تجویز کو بھی مذاق سمجھیں گے؟ لیکن آرٹیکل 370 کے خاتمے کی تعریف، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی حمایت، شاہین باغ تحریک سے دوری، بنگلہ دیشیوں اور روہنگیا کے خلاف فیصلے فرقہ وارانہ اقدامات ہیں۔
اگر عآپ اسٹریٹجک فرقہ پرستی کی مدد سے بی جے پی سے آگے نکلنا چاہتی تھی تو یہ اس کی بھول تھی۔ لیکن یہ کوئی وقتی مجبوری نہیں تھی۔ یہ فرقہ پرستی یا ہندو قوم پرستی شروع ہی سے عآپ کے کردار کا حصہ تھی۔ اس کو ہمارے نیک دوستوں نے 2011، 12 میں جان بوجھ کر نظر انداز کیا تھا۔
ہمارے کچھ دوست اس بات پر افسوس کر رہے ہیں کہ عآپ کا زوال ہوگیا، وہ اپنے راستے سے بھٹک گئی۔ عآپ کے زوال کے ساتھ متبادل سیاست کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔ اگر ٹوٹا نہیں تو وہ خیال اب کافی حد تک دب گیا ہے۔ لیکن وہ ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ آخر یہ متبادل سیاست کیا تھی جس کا وعدہ عآپ نے کیا تھا؟ وہ کس سیاست کا متبادل تھی؟ کیونکہ ہندوستان میں صرف ایک قسم کی سیاست نہیں ہے۔ ‘عآپ’ کس سیاست کا متبادل تھی؟ یا وہ سیاست محض کا متبادل پیش کر رہی تھی؟
کیا یہ عآپ کے طلوع کے وقت ہی واضح نہیں تھا کہ یہ انتہا پسند قوم پرستی میں یقین کرنے والی پارٹی ہے جو ہندوتوا کا قدرے ملائم مترادف یا متبادل ہے؟ عآپ ‘انڈیا اگینسٹ کرپشن’ تحریک کی پیدائش ہے۔ کیا ہمیں اس تحریک کی قوم پرست علامتیں اور نعرے یاد نہیں؟ کیا ہم نہیں جانتے تھے کہ اس تحریک کے بانی اروند کیجریوال اصل میں فرقہ پرست اور ذات پرست تھے۔
جن لوگوں نے ‘انڈیا اگینسٹ کرپشن’ کا سفر دیکھا ہے وہ یاد کر سکتے ہیں کہ اس کی شروعات لالہ رام دیو اور سری سری روی شنکر کی جمع کی ہوئی بھیڑ کی مدد سے ہوئی تھی۔ دیوقامت ترنگے اور وندے ماترم کے ساتھ شیواجی، سبھاش چندر بوس، چندر شیکھر آزاد کی علامتوں کو بڑی چالاکی سے قوم پرستانہ جذبات پیدا کرنے اور بھڑکانے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا جو صرف ہندو قوم پرستانہ جذبات کا ترجمان ہی ہو سکتا تھا۔
اپریل 2011 میں، رام دیو سے چھٹکارا پانے کے بعد اروند کیجریوال انا ہزارے کو مہاراشٹر سے رام لیلا میدان میں انشن کے لیے لائے۔ شمالی ہندوستان میں انا کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ اروند کے لیے میڈیا کی مدد سے انا کو ایک اور گاندھی ثابت کرنا آسان ہو گیا۔
صحافی مکل شرما نے انا ہزارے کے گاؤں رالیگاؤں سدھی اور خود ان کے بارے میں ایک طویل مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعدیہ واضح ہو جاتا ہے کہ انا ایک رجعت پسند اور آمریت پسند انسان تھے۔ گاؤں میں لوگوں کو پیڑ سے باندھ کر زدوکوب کرنا اور خوف و دہشت کی مدد سے ایک قسم کا فوجی نظم و ضبط قائم کرنا ان کی خاصیت تھی۔
رام لیلا میدان میں ان کے انشن کے دوران مہاراشٹر کی’ آروگیہ سینا’ تنظیم کے ڈاکٹر ابھیجیت ویدھ نے ایک مضمون میں کہا تھا کہ وہ اس تحریک میں شامل نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ بنیادی طور پر جمہوریت مخالف ہے۔ انا کو دوسرا گاندھی کہےجانے پر اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ درحقیقت انا کے پاس کسی بھی مسئلے کو سمجھنے کی ذہنی صلاحیت نہیں ہے۔ اروند کیجریوال انا کا استعمال کر رہے ہیں۔ اتنی عزت پا کر انا اروند کی کٹھ پتلی کی طرح کام کرنے کو تیار تھے۔
ڈاکٹر ویدھ نے ان کے انشن کے تقدس پر بھی سوال اٹھایا تھا۔ برسوں پہلے، ایک بار ان کے گاؤں میں انہوں ان کے ایک انشن کے دوران پایا تھا کہ انا کے ساتھی انھیں مسلسل گلوکوز اور الیکٹرولائٹ پاؤڈر دے رہے ہیں۔ اس طرح بھوک ہڑتال کو کافی لمبا کھینچا جا سکتا ہے۔
جس طرح رام لیلا میدان میں ہڑتال کو تہوار میں تبدیل کیا گیا وہ مضحکہ خیز تھا۔ ڈاکٹر ویدھ نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ جو لوگ اپنے آپ کو ‘انا ٹیم’ کہتے ہیں انہیں خود ہی بھوک ہڑتال پر بیٹھنا چاہیےنہ کہ بوڑھے کی جان کو خطرے میں ڈالنا چاہیے۔ بہت سے لوگوں نے عوام کو اس پوری تحریک کی بے حیائی اور قوم پرستی کی چالبازی سے خبردار کیا تھا۔
‘جن لوک پال’ قانون بنانے کی تحریک کے دوران اروند کیجریوال اور ان کے دوستوں نے کہا تھا کہ وہ جوتجویز کر رہے ہیں اس پر انھوں نے رائے شماری کرائی ہے اور پارلیامنٹ کو صرف اسے پاس کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ پارلیامنٹ میں اس پر بحث کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ کام کرچکے ہیں، پارلیامنٹ سے صرف اس کی منظوری درکار ہے۔
کرن تھاپر کے ساتھ اروند کیجریوال اور پرشانت بھوشن کے انٹرویو میں پارلیامانی عمل کے تئیں اروند اور ان کے ساتھیوں کی حقارت صاف نظر آتی ہے۔ پارلیامنٹ کے مقابل ہجوم کو کھڑا کرنا کتنا خطرناک ہے، یہ ہم جمہوریت کی تاریخ سے جانتے ہیں۔
متحدہ ترقی پسند اتحاد کی حکومت نے اس وقت گھبراہٹ کا مظاہرہ کیوں کیا اور ہتھیار کیوں ڈالے اس پر الگ سے تحقیق کی ضرورت ہے۔ لیکن کرپشن مخالف تحریک کی حقیقت جاننا بھی ضروری ہے اور ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اس تحریک میں شامل لوگ سچ نہیں بولتے۔
اگر ہم سچائی کی تلاش کو ایک طرف چھوڑ دیں تو بھی عآپ کی تشکیل کے بعد اس کے متبادل بننے کے دعوے کی جانچ ہونی چاہیے۔ کہا گیا کہ سیکولرازم جیسے نظریے پر مبنی سیاست کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اب مابعد نظریاتی سیاست کا دور ہے۔ یہ ہوگی صاف ستھری اور مؤثر انتظامیہ کی سیاست۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ ‘عآپ’ کا نظریہ درحقیقت مسائل کے حل کا نظریہ ہوگا۔
‘منٹ’ کو ایک انٹرویو میں یوگیندر یادو نے کہا: ‘تو ایک طرح سے کہیں تو، آپ کہہ سکتے ہیں کہ مسئلہ کو حل کرنے، مخصوص حالات پر توجہ دینے، شواہد کو دیکھنے اور یہ کہنے کی کوشش کر نا کہ آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ کیا ہے۔ یہی ہمارا نظریہ ہے۔’
انہوں نے یہ کہا کہ تنوع پر یقین ان کی پارٹی کے نظریے کا ایک اہم عنصر ہے۔ لیکن اس نے اپنے اصولوں میں سیکولرازم کو شامل نہیں کیا۔ تنوع کے احترام کی دلیل کافی نہیں ہے اگر یہ واضح نہ کیا جائے کہ اقلیتوں کے حقوق پر پارٹی کا موقف کیا ہے۔ اس توقع کا مذاق اڑایا گیا۔ بلکہ یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ مسائل کے حل کی سیاست ایک بار مؤثر ہو جائے تو سیکولرازم کا سوال خود بخود غیر متعلق ہو جائے گا۔
وہ کون سا مسئلہ ہے جسے سیاست کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے، یہ کبھی واضح نہیں ہو سکا۔ کیا یہ صرف پانی، بجلی، تعلیم اور صحت کی سہولیات تھی؟ اسکولی تعلیم میں ‘ذہین’ اور ‘کم عقل’ کے درمیان امتیاز، کیمروں کے ذریعے نگرانی، کسی بھی قسم کی تنقید پر اساتذہ کو سزا، شدت پسندحب الوطنی اورمسرت کے نصاب جیسے رجعتی اقدامات کے بارے میں کبھی بات نہیں کی گئی۔ محلہ کلینک، اسکول کی عمارتوں اور بجلی کی رعایت کا حوالہ دے کر عآپ کے ناقدین کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔
یہ کبھی واضح نہیں ہو سکا کہ ‘عآپ’ کس قسم کا متبادل ہے، حالانکہ ہر کوئی یہی کہتا رہا کہ یہ متبادل سیاست کی علامت ہے۔ سمجھ میں آنے والی بات یہ تھی کہ یہ جماعت اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کی چالبازی اور سمجھوتہ کر سکتی تھی۔ اور یہ اس تحریک میں بھی تھا جس نے اسے جنم دیا۔ اس میں بھی ہر قسم کے جھوٹ اور چالوں کا سہارا لیا گیا۔ کرپشن کے حوالے سے کہے گئے جھوٹ پر کسی نے معافی مانگنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ایک دلیل یہ تھی کہ حکومت کی مخالفت کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا حکمت عملی کے لحاظ سے درست ہے۔ اصل بات حکومت کو کمزور کرنا اور اس کی ساکھ کو تباہ کرنا تھا۔
‘انڈیا اگینسٹ کرپشن’ کی بے اصولی اور فرقہ پرست سیاست کی ہوشیاری کا مظاہرہ گزشتہ 11 سالوں میں عآپ نے بارہا کیا ہے۔ ہر بار کہا گیا کہ وہ اپنے آئیڈیل ازم یا مثالیت پسندی سےمنھ پھیر رہی ہے۔ لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ آئیڈیل ازم کیا تھا۔ پھر ہم کس مثالی سیاست سے دھوکے کا رونا رو رہے ہیں؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)