بھارت جوڑو یاترا کے دوران پارٹی کواز سر نو منظم کرنے کے علاوہ راہل نے سول سوسائٹی کے افراد کے ساتھ مل بیٹھ کر ہندو توا نظریہ کے مخالفین کو منظم کرکے ایک نظریاتی محاذ بنانے کی کوشش کی ہے۔
ہندوستان میں اپوزیشن کانگریس پارٹی کے لیڈر راہل گاندھی نے ‘بھارت جوڑو یاترا’ کے نام سے ملک کے انتہائی جنوبی سرے بحر ہند کے ساحل پر کنیا کماری سے جو پیدل مارچ شروع کیا تھا، وہ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اس ماہ کے آخر میں جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں اختتام پذیر ہوگا۔
یہ مارچ 7ستمبر کو شروع ہو گیا تھا اور ہر روز راہل گاندھی اور ان کے رفقا 25کلومیٹر کا فاصلہ طے کررہے ہیں۔ پچھلے دس برسوں میں دو پارلیامانی انتخابات اور تقریباً 40کے قریب صوبائی انتخابات میں پے درپے شکست سے دوچار ہونے کے بعد کانگریس کے وجود نیز گاندھی خاندان کی قیادت اور افادیت پر ہی سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں، اس لیے یہ مارچ بھی ایک غیر سنجیدہ کوشش لگ رہی تھی۔
مگر حالیہ عرصے میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی نے جس طرح اس مارچ کو نشانہ بناناشروع کیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں اس نے اثر دکھانا شروع تو کردیا ہے۔ علاوہ ازیں حالیہ صوبائی اور دارالحکومت دہلی کے بلدیاتی انتخابات میں بھی یہ بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ اگر اپوزیشن متحد ہو تو بی جے پی کو ہرانا مشکل نہیں ہے۔
ہندوستانی لیڈروں کی یاتراؤں کے ذریعے عوامی بیداری پیدا کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ مارچ 1930کو برطانیہ کے نمک قانون کے خلاف مہاتما گاندھی نے گجرات کے احمد آباد میں سابر متی آشرم سے ڈانڈی تک پیدل مارچ کیا تھا۔ 1983میں جب پنجاب میں سکھ علیحدگی تحریک عروج پر تھی، تو جنتا پارٹی کے لیڈر چندر شیکھر نے اسی طرح کنیا کماری سے دہلی تک چھ ماہ تک مارچ کیا۔
تجزیہ کاروں کا خیا ل ہے اس مارچ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے خلاف عوامی ماحول بنانے میں خاصی کامیابی حاصل کی تھی، مگر ان کی ہلاکت نے پانسہ پلٹ دیا اور ان کے فرزند راجیو گاندھی کی قیادت میں ہمدردی کا ووٹ بٹور کر کانگریس نے بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپسی کی۔
مگر موجودہ دور میں جس یاترانے ہندوستانی سیاست پر ان مٹ نقوش ثبت کیے ہیں وہ 1990 میں بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی کی ‘رتھ یاترا’ہے، جو ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور ہندوتو نظریہ کے احیاء کے لیے شروع کی گئی تھی۔ دس ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے اڈوانی کے لیے ایک خصوصی ایر کنڈیشنڈ رتھ تیار کیا گیا تھا۔
سال 1992میں بابری مسجد کی مسماری،بی جے پی کا سیاسی عروج اور اس کا اقتدار تک پہنچنا اسی یاترا کا کمال ہے۔چونکہ میں نے انہی دنوں جرنلز م میں اپنے کیریر کا آغاز کیا تھا، اس لیے اس کو کور کرتے ہوئے احساس ہوا کہ کس طرح ایک کرشماتی لیڈر، مشینری اور مسیج کے مرکب کے ساتھ عوام کو اپنے نظریہ کے حق میں ہموار کیا جاسکتا ہے۔
اڈوانی کی اس کامیاب یاترا کے بعد ان کے جان نشین مرلی منوہر جوشی نے 1991 میں ‘ایکتا یاترا’ کے نام سے کنیا کماری سے کشمیر تک مارچ کرنے کا اعلان کیا۔ اس یاترا کے منتظم موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ چونکہ ‘رتھ یاترا’ کی وجہ سے اڈوانی اور اس کے منتظم پرمود مہاجن کا پروفائل کافی اونچا ہوگیا تھا، اس لیے پارٹی کی اندرونی چپقلش کے شاخسانہ کے بطور جوشی اور مودی نے بالترتیب اڈوانی اور مہاجن کے قد کی برابری کرنے کے لیےیہ یاتراترتیب دی تھی۔
اپنے 15ہزار کلومیٹر کے سفر کے دوران جوشی دعوی ٰ کر رہے تھے کہ ان کے پاس کشمیر ی عسکریت پسندوں کی گولیوں سے زیادہ رضا کار ہیں اور وہ ان سب کے ساتھ سرینگر کے لال چوک میں ہندوستان کے یوم جمہوریہ یعنی 26 جنوری، 1993کو قومی پرچم ترنگا لہرائیں گے۔ مگر جب وہ سرینگر پہنچے، تو ان کے ساتھ صرف 67کارکنان ہی تھے، اور تقریب بھی بس 12منٹ میں ختم کرنی پڑی۔
زمینی سفر کے بجائے جوشی اور ان کے رفقاء جموں سے ایر فورس کے اے این 32 طیارہ میں رات کے اندھیرے میں سرینگر پہنچے اور ان کو ایر پورٹ کے پاس ہی بارڈر سیکورٹی فورس کے میس میں ٹھہرایا گیا۔
اس سے دو دن قبل یعنی 24 جنوری کو سرینگر کے پولیس ہیڈ کوارٹر میں جب اس یاترا کے انتظام کے حوالے سے پولیس سربراہ جے این سکسینہ دیگر حکام کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھے، کہ اسی کمرے میں بم دھماکہ ہوا، جس میں کئی افسران ہلاک ہوگئے۔ سکسینہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ 23جنوری کو پنجاب سے گزرتے ہوئے اس قافلہ پر حملہ ہوا، جس سے جموں تک پہنچتے پہنچے اس یاترا کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔
گورنر گریش چند سکسینہ نے بی جے پی کے لیڈروں کو بتایا کہ اگر وہ بذریعہ سڑک کشمیر جانے پر بضد ہیں، تو و ہ سیکورٹی فراہم کر سکتے ہیں اورپوری قومی شاہراہ کو فوج کے حوالے کر سکتے ہیں، مگر پھر بھی ان کی زندگیوں کی ضمانت نہیں دے سکتے ہیں۔ طے ہوا کہ بتایا جائے کہ قومی شاہرا ہ پہاڑوں سے پسیاں گرنے سے بند ہو گئی ہے۔ اگلے روز ادھمپور سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بی ایل نمیش نے قافلے کو روک دیا۔
اس یاترا کے منتظم مودی نے شامل افراد کو گھر جانے کا مشورہ دیا۔ اس پر راجستھان کے ایک ممبر اسمبلی تارا بھنڈاری اس قدر بدکے کہ انہوں نے الزام لگایا کہ’ان کوبیوقوف بنایا گیا ہے اور آخر اس جگہ تک لانے کی کیا ضرورت تھی؟’
شمالی ہندوستان کے اکثر شہروں میں اس یاترا کو کور کرتے ہوئے ادراک ہوا کہ شاید ہی کسی کو پتہ تھا کہ اس کا موضوع کشمیر ہے، اکثر افراد اس کو رام مندر تحریک کا ہی ایک جز تصور کر رہے تھے۔
انتہائی سیکورٹی کے درمیان جب جوشی کا قافلہ سرینگر کے لال چوک میں پہنچاتو معلوم ہوا کہ جو جھنڈا کنیا کماری سے بطور خاص اس جگہ پر نصب کرنے کے لیے ساتھ تھا، وہ یاتو جموں میں یا طیارہ میں ہی رہ گیا ہے۔ خیر مودی نے جوشی کو ایک جھنڈا تھما دیا، مگر وہ اس کو لگا نہیں پا رہے تھے۔ کہیں قریب ہی گولیوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ جس پر مدن لال کھرانہ نے لقمہ دیا کہ عسکریت پسند اس جھنڈے کو سلامی دے رہے ہیں۔
کئی بار کی کوشش کے بعد بھی جب جھنڈا نصب نہیں ہوا تو بارڈر سیکورٹی فورس کے اہلکاروں نے جوشی کے ہاتھ میں متبادل جھنڈ ا تھما دیا، جس کو انہوں نے نصب کرکے تقریب کے ختم ہونے کا اعلان کرکے ایرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس پوری تقریب میں شاید ہی کوئی مقامی فرد شریک ہو ا ہوگا۔ پوری وادی میں انتہائی سخت کرفیو نافذ تھا۔
خیر 1993سے اب تک جہلم میں کافی پانی خون کے ساتھ بہہ چکا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ راہل گاندھی کی یاترا کا حشر جوشی جیسا نہیں ہوگا۔ اس یاترا کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ایک طویل مدت کے بعد کانگریس نے نظریاتی طور پر بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا ہے۔ اس سے قبل خاص طور پر راہل گاندھی بی جے پی کے سخت گیر ہندو توا کے مقابلے نرم ہندو توا کے علمبردار بن گئے تھے۔
اس لئے ان کو بی جے پی کی ‘بی’ ٹیم سے بھی تشبہہ دی جاتی تھی۔ سوال کیے جاتے تھے، اگر عوام کے پاس بغیر ملاوٹ کے ہندو توا موجود ہے، تو وہ کیوں ملاوٹ والے ہندو توا کی طرف جائیں گے۔ لگتا ہے کہ کانگریس کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ نظریاتی طور پر بی جے پی اورمودی کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔
اس مارچ کے دوران پارٹی کواز سر نو منظم کرنے کے علاوہ راہل نے سول سوسائٹی کے افراد کے ساتھ مل بیٹھ کر ہندو توا نظریہ کے مخالفین کو منظم کرکے ایک نظریاتی محاذ بنانے کی کوشش کی ہے۔
بی جے پی اس سال ہندوستان کی گروپ 20ممالک یعنی جی 20کی صدارت کی سربراہی، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور اس کو درشن کے لیے اگلے سال جنوری میں کھولنا ایک اہم انتخابی موضوع بنا رہی ہے۔اس دوران سب سے اہم بات یہ ہو گئی ہے کہ رام مندر کے مہنت اور اس کے دیگر ذمہ داروں نے بھی راہل گاندھی کی یاترا کی حمایت کی ہے، جس سے لگتا ہے کہ اس پیدل مارچ نے کہیں نہ کہیں ہندو توا کے نظریہ میں سوراخ کردیا ہے۔
مگر یہ بھی طے ہے کہ اگلے عام انتخابات میں بی جے پی ہندوتوا کو اپنے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے جا رہی ہے۔ اس لیے پاکستانی حکمران اور اس کے تجزیہ کار کتنی ہی خوشامد اور تعلقات کی بہتری کی بات کریں، فی الحال مودی حکومت یہ پاٹھ سننے کے موڈ میں نہیں ہے۔
انتخابات تک آئے دن ہندوؤں کو یاد دلایا جائے گا کہ اس ملک کو مسلمان حملہ آوروں نے زخم لگائے ہیں، پاکستان پر لفظی یا حقیقی حملے ہونگے، تاکہ اس شور میں بے روزگاری اور مہنگائی جیسے موضوعات دب جائیں۔
راہل گاندھی کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس بیانیے کا توڑ کرنا ہوگا۔ اس یاترا کے دوران ان کے سیاسی پیغامات کو ان لوگوں نے بھی سراہا ہے جو کانگریس کے حامیوں میں شمار نہیں ہوتے ہیں۔مخالفین کی طرف سے پپو اور راہل بابا جیسی پھبتیاں اب فٹ نہیں ہو پارہی ہیں۔
یقینی طور پر ہندوستان کے سیاسی منظر نامے میں ایک ایسے لیڈر کے لیے جگہ بن رہی ہے، جو مودی کو چیلنج کر سکتا ہو۔ لیکن اس کے لیے اپوزیشن اتحاد کے ساتھ تنظیمی مشینری کو بحال کرنے، طاقت ور بیانیہ اور نظریہ کی فوری ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو لاکھ یاترائیں بھی مودی یا بی جے پی کا رتھ نہیں روک پائیں گیں۔