سپریم کورٹ نے کہا،’ہماراحکم اور ہماری کارروائی ہر لمحہ بحث اور تنقید کا موضوع ہوتی ہے۔ ہم اس سے بدحواس نہیں ہوتے۔ اگر ہم اس پر غور کریںگے تو ہم کبھی بھی اپنا کام پورا نہیں کر سکیںگے۔ ‘
نئی دہلی: سپریم کورٹ نےاین آر سی کی قواعد کو لےکر آسام اسمبلی کے اندر اور باہر کی گئی تنقید اور بیانات کو درکنار کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کام کو پورا کرنے کے لئے متعینہ 31 اگست کی مدت کی پابندی ہو۔چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس آر ایف نرمن کی بنچ نے آسام این آر سی کے کوآرڈنیٹر پرتیک ہجیلا کی رپورٹ کا ذکر کیا جس میں انہوں نے آسام اسمبلی میں اس بارے میں جانکاری لیک ہونے اور اسمبلی میں اپوزیشن کے رہنما اور وزیراعلیٰ سربانند سونووال کے قانونی صلاح کار سانتن بھرالی کے بیانات کا ذکر کیا ہے۔
بنچ نے کہا کہ ان کا ایسے بیانات سے کوئی سروکار نہیں ہے اور وہ صرف یہ دیکھ رہی ہے کہ قومی شہری فہرست بنانے کی ساری قواعد 31 اگست کی معینہ مدت کے اندر پوری ہو۔بنچ نے کہا،’ آپ نے (ہجیلا) اسمبلی میں جانکاری کا انکشاف کرنے کے تعلق سے اپوزیشن کے رہنما کے بیانات اور اعداد و شمار کی رازداری کے بارے میں سانتن بھرالی کے پریس بیان کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے۔ جہاں تک اپوزیشن کے رہنما کے بیان کا تعلق ہے، ہمیں اس کی گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب جج یا عدالت کوئی حکم منظور کرتا ہے تو کچھ لوگ اس کی تنقید کرتے ہی ہیں۔ ‘
عدالت نے کہا،’ہماراحکم اور ہماری کارروائی ہر لمحہ بحث اور تنقید کا موضوع ہوتی ہے۔ ہم اس سے بدحواس نہیں ہوتے۔ اگر ہم اس پر غور کریںگے تو ہم کبھی بھی اپنا کام پورا نہیں کر سکیںگے۔ ‘عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اس کو اس کی پرواہ نہیں کہ این آرسی کی قواعد کے بارے میں کیا کہا جا رہا ہے۔بنچ نے کہا،’ہم چاہتے ہیں کہ این آر سی 31 اگست کی طےشدہ معینہ مدت کے اندر ہی تیار ہو۔ کون اس کو پسند کر رہا ہے، کون نہیں کر رہا ہے، ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے۔ ‘
اس سے پہلے، اس معاملے کی سماعت شروع ہونے پر بنچ نے این آر سی کے معاہدہ کار پرتیک ہجیلا سے بات چیت کی اور ان سے کہا کہ شاید وہ اس قواعد کے دوران جمع کئے گئے اعداد و شمار کی رازداری بنائے رکھنے کے لئے مشورہ چاہتے ہیں۔سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ کامروپ ضلع کے ایک علاقے سے تقریباً 33000 لوگوں کی توثیق کرنی ہوگی کیونکہ یہ پتہ چلا ہے کہ وہاں نوٹس جاری کرنے کے معاملے میں شکایتں ملی ہیں۔
بنچ نے شہریت (ترمیم) قانون، 2003 کے اہتماموں پر بھی گفتگو کی۔ یہ اہتمام قومی شہری رجسٹر کے تحت لوگوں پر غور کرنے کے معاملے میں عمل میں لائے گئے ہیں۔بنچ نے کہا کہ پرتیک ہجیلا سے نوٹ ملنے کے بعد وہ اس بارے میں حکم منظور کرےگی کہ کیا اس قانون کی دفعہ 3 (1) (اے)، 3 (1) (بی) اور دفعہ 3 (1) (سی) کی بنیاد پر نام شامل کئے جائیںگے۔عدالت عظمیٰ نے 23 جولائی کو آسام میں این آر سی کے آخری اشاعت کی معینہ مدت 31 جولائی سے بڑھاکر 31 اگست کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے آسام میں این آر سی تیار کرنے کی قواعد سے متعلق چنندہ مدعا اٹھانے کی اجازت کے لئے تیستا سیتلواڑ کی ممبئی واقع غیر سرکاری تنظیم کی درخواست پر غور کرنے سے انکار کر دیا۔بنچ نے کہا کہ غیر سرکاری تنظیم سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس اس معاملے میں صرف ایک مدعی بننا چاہتا ہے اور اس نے کسی دیگر ہدایت کی درخواست نہیں کی ہے۔ ایسی حالت میں کوئی ہدایت کیسے دی جا سکتی ہے۔
بنچ کے سامنے غیر سرکاری تنظیم کے وکیل سی یو سنگھ نے جب اپنی بات رکھنے کی کوشش کی تو بنچ نے کہا ‘غیر سرکاری تنظیم نے مدعی بننے کے لئے درخواست کی ہے۔ آپ نے کوئی ہدایت دینے کی درخواست نہیں کی ہے۔ ہمیں آپ کو کیوں سننا چاہیے؟ ‘بنچ نے کہا،’ہم کیا کر سکتے ہیں؟ کیا ہم آپ کو بلاکر حکم دے سکتے ہیں۔ آپ نے کسی ہدایت کے لیے درخواست داخل نہیں کیا ہے۔ آپ کی درخواست صرف مدعی بننے کے لئے ہے۔ ‘ بنچ نے کہا،’ ہم نے رجسٹری سے پتہ کیا ہے۔ کوئی راحت نہیں مانگی گئی ہے۔ ہم کوئی راحت کیسے دے سکتے ہیں؟
سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے غیر سرکاری تنظیم کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ممبئی واقع غیر سرکاری تنظیم آسام کے معاملے میں کیسے مداخلت کر سکتی ہے۔تیستا سیتلواڑ اور ان کے شوہر جاوید آنند اس غیر سرکاری تنظیم کے بانیوں میں ہیں جو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)