آسام: ’سیلاب جہاد‘ کے بعد سی ایم نے میگھالیہ یونیورسٹی کے گنبد نما گیٹ کو ’مکہ‘ جیسا بتایا

گزشتہ ہفتے ہمنتا بسوا سرما نے گوہاٹی میں آئے اچانک سیلاب کے لیے میگھالیہ کے ری-بھوئی ضلع میں واقع میگھالیہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے تعمیراتی کام کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اب انہوں نے کہا ہے کہ یونیورسٹی کا گیٹ 'مکہ' جیسا بنایا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے ہمنتا بسوا سرما نے گوہاٹی میں آئے اچانک سیلاب کے لیے میگھالیہ کے ری-بھوئی ضلع میں واقع میگھالیہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے تعمیراتی کام کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اب انہوں نے کہا ہے کہ یونیورسٹی کا گیٹ ‘مکہ’ جیسا بنایا گیا ہے۔

ہمنتا بسوا شرما۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

ہمنتا بسوا شرما۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: میگھالیہ کے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی (یو ایس ٹی ایم) پر ‘سیلاب جہاد’ کا الزام لگانے کے بعد آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے ایک بار پھر اس یونیورسٹی کو نشانہ بنایا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق ، وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے سوموار (12 اگست) کو میگھالیہ کے سائنس اینڈ ٹکنالوجی یونیورسٹی کے گیٹ کے ڈیزائن پر سوال اٹھائے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کی شکل ‘مکہ’ جیسی ہے، جبکہ یونیورسٹی سائنس اور ٹکنالوجی کی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ادارہ تعلیم کو برباد کر رہا ہے اور اس کا گنبد نما گیٹ ‘جہاد’ کی علامت ہے۔

معلوم ہو کہ گزشتہ ہفتے ہمنتا بسوا شرما نے شہر میں اچانک آئے سیلاب کے لیے میگھالیہ کے ری-بھوئی ضلع میں واقع یو ایس ٹی ایم کے تعمیراتی کام کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ یونیورسٹی نے اپنے کیمپس کے لیے جنگلات اور پہاڑوں  کٹائی کی ،جس کی وجہ سے سیلاب آیا۔

واضح ہوکہ یہ یونیورسٹی ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن چلاتی ہے۔ آسام کی وادی براک کے کریم گنج ضلع سے تعلق رکھنے والے بنگالی نژاد مسلمان محبوب الحق نے اس کو قائم کیا تھا۔ حق یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں۔

دی ہندو کے مطابق ، وزیر اعلیٰ نے سوموار کو یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت یونیورسٹی کے خلاف نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) سے رجوع کرے گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یونیورسٹی نے اپنے کیمپس کے لیے پہاڑیوں کو منہدم کر دیا ہے جس کی وجہ سے گوہاٹی میں بڑے پیمانے پر آبی  جماؤ کا مسئلہ پیداہو گیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یو ایس ٹی ایم نے میڈیکل کالج بنانے کے لیے اپنے کیمپس میں ایک پہاڑی کی ڈھلوان کو اس طرح سے کاٹا دیاہے کہ پانی آسام کی طرف بہتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 2001 سے 2016 کے درمیان ریاست پر حکومت کرنے والے کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ ترون گگوئی نے بھی گوہاٹی میں ‘مصنوعی سیلاب’ کے لیے آسام-میگھالیہ سرحد پر جوراباٹ علاقے سے آنے والے پانی کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ شرما نے میڈیا اہلکاروں  اور ریاستی کانگریس کے صدر بھوپین کمار بورا سے کہا کہ اگلی بار جب بارش ہوگی تو وہ جوراباٹ جائیں اور دیکھیں کہ وہاں سے پانی کیسے بہتا ہے۔

تاہم، سی ایم کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے یو ایس ٹی ایم نے  ایک بیان میں کہا کہ جوراباٹ جیسے نشیبی علاقوں میں بہنے والے پانی کا ‘بہت کم حصہ’ اس کے احاطے میں آتا ہے۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کیمپس میں تعمیراتی کام میگھالیہ حکومت سے مطلوبہ اجازت حاصل کرنے کے بعد ہی انجام دیا گیا تھا۔

اب گیٹ پر سوال

اب  یونیورسٹی کے گیٹ کی بناوٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے سی ایم ہمنتا بسوا شرما نے کہا، ‘یونیورسٹی کے بڑے مین گیٹ کے اوپر تین گنبد ہیں، وہاں جانا شرمناک ہے، وہاں جانا ‘مکہ’جانے جیسا ہے۔ ہم جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ وہاں ایک نامگھر (اجتماعی عبادت کی جگہ، جو آسام کی نو وشنو روایت کا حصہ ہے) بھی ہونا چاہیے۔ نام گھر، مکہ مدینہ اور چرچ بناؤ… لیکن انہوں نے وہاں ایک ’مکہ‘ رکھا ہے۔ انہیں پوجا گھر  بنانے دو، چرچ بنانے دو، ہم تینوں کی پیروی کریں گے، ہم صرف ایک کی پیروی کیوں کریں؟‘

جب شرما سے صحافیوں نے لفظ ‘جہاد’ کے استعمال پر سوال پوچھا تو انہوں نے کہا، ‘میں تو جہاد کہہ کر نرمی  برت  رہا ہوں۔ وہ تو ‘جہاد کا بھی باپ’ کر رہے ہیں۔ وہ دراصل ہمارے تعلیمی نظام کو تباہ کر رہے ہیں۔ ہماری تہذیب اور ہماری ثقافت پر جو بھی حملہ کرتا ہے، اس کو جہاد کہا جاتاہے۔‘

تاہم، شرما کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2021 میں حق کی موجودگی میں یونیورسٹی کے ایک نئے بلاک کا افتتاح کیا تھا۔ لیکن شرما نے اس بات سے صاف انکار کیا اور کہا کہ وہ افتتاح کے لیے اس کے احاطے  میں کبھی نہیں گئے ۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند کی موجودگی میں وہاں ایک تقریب میں گئے تھے۔

معلوم ہو کہ یو ایس ٹی ایم  کے پاس اس خطے میں سب سے بڑا آڈیٹوریم ہے، جو اسے بڑے ایونٹس کے لیے ایک مقبول انتخاب بناتا ہے۔ اس کے بارے میں سی ایم شرما نے کہا کہ وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے گوہاٹی میں اتنا ہی بڑا آڈیٹوریم بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘میں نے سوچا تھا کہ اگر آڈیٹوریم یہاں رہتا ہے تو گوہاٹی کے لوگ آڈیٹوریم  کے لیے ان کےسامنے سرینڈر کر دیں گے۔ لہٰذا میں نے خاموشی سے کھاناپارہ (گوہاٹی) میں اس سے بھی بڑا آڈیٹوریم بنانا شروع کر دیا… نومبر یا جنوری تک، ہم یہاں اپنا 5000 نشستوں والا آڈیٹوریم کھول دیں گے، تاکہ لوگوں کو یو ایس ٹی ایم  جانے کی ضرورت نہ پڑے۔‘